میں جب صبح نکلتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ ایک بڑے میاں ایک چار پانچ سالہ بچے کا بیگ پکڑے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اتنی دیر میں اسکول بس آتی بچہ اس میں سوار ہوتا ہے اور وہ بزرگ اپنے مستقبل کی چمک اپنے چہرے پہ لئیے اس بچے کو خدا حافظ کہتے ہیں۔ انہیں اعتماد ہے کہ انکا بچہ گھر سے باہر بھی محفوظ ماحو ل میں ہے۔ لیکن تین سالہ ثناء کے والدین کا یہ اعتماد اب سے کچھ عرصے پہلے دو پولیس کانسٹیبل نے توڑ ڈالا ۔ گھر سے کھیلنے کے لئے نکلنے والی اس بچی کو ان دو افراد نے جنسی زیادتی کے بعد قتل کر ڈالا۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والی یہ بات حیوانیت سے بھی گرا ہوا فعل ہے۔
پاکستان میں رپورٹ کئے جانےوالے واقعات کے مطابق ہر روز تین سے پانچ بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور زیادہ تر حالات میں مجرم اپنی شناخت چھپانے کے لئیے ان معصوم پھولوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ غیر رپورٹ کئے جانیوالے واقعات کے اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ذمہ دار والدین اس سلسلے میں خاصے پریشان رہتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئیے. بچوں کا یہ استحصال ساری دنیا میں کیا جاتا ہے۔ چونکہ وہ ایک آسان ٹارگٹ ہوتے ہیں۔
ریسرچ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ یہ زیادتی کرنےوالے اجنبی لوگوں کی نسبت جاننے والے ، والدین کے یا خاندان کے دوست اور قریبی رشتے دار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ مجرم کوئ بڑا بچہ بھی ہو سکتا ہے۔
مجرم عام طور پر بچوں کو خوفزدہ کردیتے ہیں۔ وہ اس جرم کا بوجھ بچے پر ڈالدیتے ہیں اور انہیں یہ تائثر دیتے ہیں کہ اب اگر انکے والدین کو یہ بات پتہ چلی تو وہ بہت ناراض ہونگے۔ اس طرح سے وہ بچے کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ محرومیوں کے شکار بعض بچوں میں کسی بھی قسم کا لالچ ڈال دیتے ہیں۔ بعض بچوں کو یہ ایک کھیل بنا کر پیش کرتے ہیں جو دو بہت قریبی یا محبت کرنے والے دوست کھیلتے ہیں۔ بعض بچوں کو خوفزدہ کر دیتے ہیں اور بچے یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے والدین کو بتانے کی صورت میں وہ والدین کے لئے شرمندگی کا باعث بن جائیں گے یاانکے والدین کو کوئ بہت شدید نقصان پہنچے گا۔ بعض بچے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ کوئ بھی بات سمجھ نہیں پاتے۔
اس سلسلے میں ماہرین نے خاصہ کام کیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں یا غیر منافع بخش ادارے اس قسم کی معلومات سے عوام کو وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے رہتے ہیں تاکہ عوام کی تربیت ہوتی رہے۔
یہاں میں انہی ماہرین کی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ماحول کے حساب سے کچھ نکات دینا چاہوں گی کہ ہم اپنے بچوں کو کیسے ایک محفوظ ماحول دینے کی جدو جہد میں شامل ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایسے کسی سانحے کا شکار نہ ہوں تو ہمیں انہیں آسان ٹارگٹ ہونے سے بچانا پڑیگا۔ اسکی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اپنے بچے سے چاہے ماں ہوں یا باپ باتیں کرنے کی یا کمیونیکیٹ کرنے کی عادت ڈالیں۔ اگر آپکا بچہ اسکول میں پڑھتا ہے تو سارے دن کے بعد اس سے کسی وقت گپ شپ کریں جس میں اسے زیادہ سے زیادہ بولنے کا موقع دیں اور اپنی باتیں بے حد کم رکھیں۔ ان باتوں میں نوٹ کرتے رہیں کہ بچے کے دوست کس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ ٹیچرز سے اسکے روابط کیسے جارہے ہیں۔ اسکول وین والا آپ کے بچے سے کیسی اور کسطرح سے گفتگو کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی دھیان میں رکھیں کہ کوئ بڑا شخص آپکے بچے کو غیر معمولی توجہ اور تحفے تحائف کیوں دے رہا ہے۔ گفتگو میں کبھی اپنے بچے کو ٹوک کر ہوشیار نہ کریں کہ آپکو آگے کی باتیں بتانے سے جھجھک جائے۔
اپنے آپ پر سے اپنے بچے کے اعتماد کو کبھی متزلزل نہیں ہونے دیں۔ اسے اس بات کا یقین ہونا چاہئیے کہ آپ اسے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانے میں یا تعلیم کی طرف توجہ دینے میں بیجا سختی سے گریز کریں۔ جو بات پیار سے سلجھ سکتی ہو اسے ڈانٹ ڈپٹ سے نہ کریں۔ ورنہ جو بھی شخص ان سے نرمی اور محبت سے بات کریگا وہ اسکی ہر بات ماننے لگیں گے۔
بچوں کو کسی بڑے کے پاس اکیلا چھوڑنے سے گریز کریں۔ اگر ایسا کرنا بہت ضروری ہو تو صورت حال اس طرح رکھیں کہ وہ جگہ کھلی ہو جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں دیکھ سکتے ہوں۔
اگر بچہ کسی بڑے شخص کے پاس چاہے وہ آپکا قریبی دوست ہو ، رشتے دار یا اسکا بڑا کزن، جانے سے گھبراتا ہے تو اس پر دباءو نہ ڈالیں کہ وہ ضرور انکے پاس جائے۔
اگر بچہ کسی شخص کے پاس اکیلا نہیں رہنا چاہتا تو اسے مجبور نہ کریں کہ وہ اسکے ساتھ ضرور رہے۔
یاد رہے کہ اس قسم کے معاملات میں بچے جھوٹ نہیں بولتے اگر وہ کسی شخص کی چاہے وہ آپکو کتنا ہی عزیز ہو کوئ بھی اس طرح کی بات آپکو بتاتے ہیں تو انکی بات پر یقین کریں اور انکی مدد کریں۔
اکثر والدین بازار جاتے ہوئے یا باہر نکلتے ہوئے اپنے بچوں کو رشت داروں کے یہاں یا محلے پڑوس میں چھوڑ جاتے ہیں۔ کوشش کریں کہ چحوٹے بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں، یہ اگر ممکن نہ ہو تو واپس آکر اپنے بچے سے تفصیلی پوچھیں کہ اس نے یہ وقت وہاں کیسے گذارا۔
اس بات پر بھی نظر رکھیں کہ آپکا بچہ کن لوگوں کے ساتھ وقت گذارنا زیادہ پسند کرتا ہے اور کیوں۔
جو مچے انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں ان کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ انہیں اچھی طرح سمجھا دیں کہ اپنا ذاتی یا گھر کا فون نمبر کبھی نیٹ پر استعمال نہ کریں، اپنے اسکول اور کلاس کے بارے میں معلومات اجنبی لوگوں کو نہ دیں۔ کوئ اجنبی شخص اگر انہیں کوئ سائٹ دیکھنے کی آفر کرتا ہے تو وہ اسے پہلے آپ سے ڈسکس کریں اور ایسی سائیٹس کو کھولنے سے اجتناب کریں۔ گھر میں کمپیوٹر ایسی جگہ پر رکھیں کہ اس کی اسکرین آپ کو چلتے پھرتے نظر آتی رہے۔ انہیں کبھی بھی بچوں کے کمروں میں نہ رکھیں۔ اور نہ ہی کسی الگ تھلگ جگہ پر۔ ان سوفٹ وئیرز کے بارے میں معلوم کرتے رہیں جو کمپیوٹر پر مختلف سائیٹس کو فلٹر کرتے رہیں۔
اگر بچے میں اس قسم کی عالامات پائ جائیں تو ان پرتوجہ دیں؛
بلا وجہ غیر معمولی غصہ، ڈپریشن، الگ تھلگ رہنااور ایسی گفتگو کرنا جو انکی عمر کے حساب سے مناسب نہ ہوں۔ بلا وجہ انکے کپڑے پھٹے ہوں یا ان پر مخصوص داغ، جسم پر نیل یا کھرونچوں کے نشانات جن کی وجہ بچہ آپکو نہ بتا پائے۔ انکے اعضائے مخصوصہ کے پاس سرخی، سوجن، بار بار ہونے والے پیشاب کی نالی کے انفیکشن، پیٹ درد اور مستقل پریشان رہنا۔ یہ ضروری نہیں کہا کہ ان میں سے ہر علامت اسی طرف جاتی ہو۔ مگر بچوں کی ان علامتوں کی سنجیدگی سے وجہ معلوم کریں۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ اکثر صورتوں میں کوئ واضح علامت نہیں ہوتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بچوں کو انکے جسم کے متعلق ابتدائ معلومات اس طرح دینی چاہئیے کہ انہیں یہ اندازہ ہو جائے کہ انکے جسم کے کس حصے کو لوگ چھو سکتے ہیں اور کس حصے کو نہیں۔ یعنی ان میں ستر کا احساس نہ صرف پیدا کریں بلکہ اگر کوئ اسکی خلاف ورزی کرتا ہے تو بچے کو یہ اعتماد دیں کہ وہ آپ کو فوراً بتائے۔
بچے ہمارا مستقبل ہیں یقیناً ہم میں سے کوئ نہیں چاہے گا ان نازک پھولوں کو کوئ اپنے سخت ہاتھوں اور حیوانیت سے مسل دے۔ انکی مناسب دیکھ بھال اور کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچانا ہم سب کا فرض ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس سلسلے میں ہوشیار کرنے کے لئے میڈیا کی مدد لے۔
یہ تحریر صرف گھریلو بچوں کے متعلق ہے۔ لاوارث بچوں اور گلیوں میں پھرنے والے بچوں کو اسکا موضوع نہیں بنایا گیا۔ کیونکہ اس حوالے سے یہ ایک خاصہ طویل موضوع ہو جائے گا۔
مزید معلومات کے لئیے ان حوالہ جات کو دیکھ لیں۔