Showing posts with label مشتاق احمد یوسفی. Show all posts
Showing posts with label مشتاق احمد یوسفی. Show all posts

Thursday, October 21, 2010

کتےپہ ایک نظر

کتے پہ پطرس شاہ بخاری نے جو کچھ لکھا اسکے بعد کسی اور کی ہمت نہیں ہو سکتی تھی کہ اتنی سادگی اور فصاحت سے کتوں سے واقف کراتا  کہ ہم تو ہم کتےتک عش عش کر اٹھے۔
اپنے مضمون 'کتے' میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ

کتوں کےبھونکنے پہ مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ انکی آواز سوچنے کے تمام قوی معطل کر دیتی ہے۔ خصوصاً جب کسی دوکان کے نیچے سے ان کا ایک پورا خفیہ جلسہ سڑک پہ آ کر تبلیغ کا کام شروع کر دے تو آپ ہی کہیئے ہوش و حواس ٹھکانے رہ سکتے ہیں۔ کچھ انکا شور کچھ ہماری صدائے احتجاج زیر لب، بے ڈھنگی حرکات و سکنات، حرکات انکی سکنات ہماری۔ اس ہنگامے میں دماغ کام کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی مجھے نہیں معلوم اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مارے گا۔ بہر صورت کتوں کی یہ پرلے درجے کی نا انصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔ اگر انکا ایک نمائیندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آ کر کہہ دے کہ عالی جناب سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چوں چرا کئے واپس لوٹ جائیں گے۔ اور یہ کوئ نئ بات نہیں ہے۔ ہم نے کتوں کی درخواست پر کئ راتیں سڑکیں ناپنے میں گذار دی ہیں۔
مگر انسانی تاریخ کا یہ حسن ہے کہ کسی ایک نکتے یا شخص پہ آکر جامد نہیں ہو جاتی۔ اور یہ حقیقت کئ لوگوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ ہل من مزید۔ یوسفی صاحب نے بھی کتوں سے دل پشوری  کی۔ اپنی کتاب 'خاکم بدہن'  کے ایک مضمون 'سیزر، ماتا ہری اور مرزا' میں لکھتے ہیں کہ
کتوں کے ساتھ وہ خصوصیت سے تعصب برتتے ہیں اور اپنی بات کی پچ میں ایک سے ایک دلیل پیش کرتے ہیں مثال کے طور ایک دن کہنے لگے
جس گھر میں کتا ہو، اس گھر میں چور ہی نہیں ، رحمت کے فرشتے بھی داخل نہیں ہو سکتے۔
چور کا داخل نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر رحمت کے فرشتوں کو کیا ڈر ہے؟
اس لئے کہ کتا ناپاک ہوتا ہے
مگر کتے کو صاف ستھرا بھی تو رکھا جا سکتا ہے۔ انگریزوں کو دیکھیئے، صبح  و شام نہلاتے ہیں۔
اپلے کو اگر صبح و شام صابن سے دھویا جائے تو کیا پاک ہو جائے گا؟
مگر سوال یہ ہے کہ کتا ناپاک کیسے ہوا؟
کج بحثی کوئ تم سے سیکھے۔ اللہ بخشے نانی جان کہا کرتی تھیں کہ کتے کے منہ میں سوءر کی رال ہوتی ہے۔
لیجیئِے آپ نے ناپاکی کی ایک اچھوتی توجیہہ تلاش کر لی۔
بھائ میرے ایک موٹی سی پہچان بتائے دیتا ہوں۔ یاد رکھو ہر وہ جانور جسے مسلمان کھا سکتے ہیں، پاک ہے۔
اس لحاظ سے مسلمان ممالک میں بکروں کو اپنی پاکی و طہارت کے سبب خاصہ نقصان پہنچا ہے۔
بکنے والے بکا کریں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ کتے کو کتا ہی کہا ہے۔ بڑے آدمیوں کے نام سے نہیں پکارا۔
بڑے آدمیوں کی ایک رہی۔ آپ نے سنا نہیں نسلاً سب کتے ایک زمانے میں بھیڑئیے تھے۔ آدمی کی صحبت میں انکا بھیڑیا پن جاتا رہا۔ مگر خود آدمی------------۔
دیکھو تم پھر لٹریچر بولنے لگے۔ علموں بس کریں او یار۔
لیکن کتوں پہ تذکرہ یہاں آ کر نہیں رکتا۔ ایک ویڈیو دیکھ کر مجھے  خیال آیا کہ کتوں کا تصوف میں بھی بڑابیان ہے۔ آئیے ایک محفل سے ہم بھی کچھ سعادت حاصل کرتے ہیں۔

Wednesday, February 10, 2010

دہشت گردی بمقابلہ دانشوری

اگرچہ مشتاق احمد یوسفی کے دوست عبد القدوس کی طرح میں بھی جھیل سیف الملوک کی چڑھائیاں کسی ٹٹو کی پیٹھ پہ چڑھ کر طے کرنے کے بجائے پا پیادہ ہی طے کرنا پسند کروں کہ کسی دوسرے کی غلطی کے بجائے اپنی غلطی سے مرنا بدرجہا بہتر ہے ۔  مگر کبھی کبھی اقبال کے فرمودات پہ بھی عمل کرنے کو دل چاہتا ہے۔ یعنی اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل۔ لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔
تو ایکدن جبکہ ایک اپائنٹمنٹ پر پہنچنے میں خاصہ کم ٹائم رہ گیا تھا  میں نے  باقی لوگوں سےفارغ بیٹھے ڈرائیور کو مصروف کرنے کے لئیے گاڑی چلانے کی ذمہ داری اسے دیدی۔ وہ حسب معمول تیز لین میں گاڑی اڑا رہے تھے کہ طارق روڈ کے پل پہ پہنچ کر میں نے انہیں یاد دلایا کہ  میں انہیں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ ہمیں پل پہ ہمیں الٹے ہاتھ پہ مڑنا ہے تو سگنل پہ دو لائنوں کو کاٹ کر نکلنے سے بہتر ہے کہ درمیانی لائن میں چلا جائے یا پھر پہلی لین میں آجایا جائے۔ جیسے ہی جملے کا فل اسٹاپ آیا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عین اسی لمحے آگے پیچھے دیکھے بغیر لین تبدیل کی اورساتھ ہی ایک ہلکی سی ٹکر کی آواز آئ۔ گاڑی رکی اور اب وہ آگے والی گاڑی سے ٹکرا کر کچھ ترچھی حالت میں اس طرح کھڑی تھی کہ دو لینز بلاک ہو گئیں۔ ٹکر اتنی ہلکی تھی کہ بظاہر سب ٹھیک لگ رہا تھا۔ اور میں نے سوچا کہ دونوں ڈرائیورکچھ منہ ماری کے بعد چل پڑیں گے۔ لیکن سب ٹھیک نہ تھا۔
آگے والی گاڑی کا دروازہ کھلا اس میں سے ڈرائیور نکلا اور آکر ہمارے ڈرائیور کے پاس کھڑا ہو گیا۔ یہ صاحب پہلے ہی اپنا دروازہ کھول کر خوش آمدید کہنے کے منتظر تھے۔ لیکن یہ کیا ہوا اس ڈرائیور نے گاڑی میں ہاتھ ڈالا اور اگنیشن میں سے چابی نکال  کر قبضے میں کرلی۔ میں نے پیچھے بیٹھے یہ سارا تماشہ دیکھا اور سر پکڑ لیا کہ لاٹھی تو گئ اب بھینس کا کیا ہوگا۔ دونوں ڈرائیورز کے درمیان الزام تراشی جاری تھی۔ لیکن ظاہر سی بات تھی کہ غلطی ہمارے ڈرائیور کی ہی تھی۔ وہ اکثر ایسا ہی کرتا تھا۔ میں نے سوچا اب اسے بھگتنے دو۔
 بات اس نکتے پہ پہنچی کہ پانچ ہزار دینا ہونگے۔ اب یہ صاحب منہ پھاڑے کھڑے تھے کہ کچھ بھی تو نہیں ہوا ہے کس بات کے پانچ ہزار۔  کچھ دنوں پہلے اسے وارننگ دی گئ تھی کہ روڈ پہ بے احتیاطی دکھانے کی صورت میں خرچہ اسکے ذمے ہوگا۔اس موقع پہ آگے والی کار کا دروازہ ایکبار پھر کھلا اور ایک تقریباً ساٹھ پینسٹھ سال کے صاحب تھری پیس سوٹ میں بر آمد ہوئے اور آتے ہی ڈرائیور سے کہنے لگے کہ گاڑی کے کاغذات میرے حوالے کرو ورنہ پانچ ہزار دو۔ اس موقع پہ فلم میں ان خاتون نے  اپنی مداخلت ضروری سمجھتے ہوئے مس بنکاک کی طرح اینٹری دینے کی کوشش کی۔ اور وہ گاڑی سے اتر کر آگے والے ڈرائیور کے پاس پہنچیں اور اسکے ہاتھ میں لٹکی چابی پہ زور لگاتے ہوئے کہا۔' فوراً چابی واپس دو ورنہ'۔ اسکے بعد انہوں نے بغیر سوچے سمجھے کہا 'ورنہ میں قریبی پولیس اسٹیشن پہ جا کر اطلاع کرتی ہوں کہ میری گاڑی چوری کر رہے تھے تم'۔ ڈرائیور اور ان صاحب نے غضبناک ہو کر ان بالشت بھر کی خاتون کو دیکھا۔ 'ہاں چلیں کہاں جانا ہے۔ اب تو بات دس ہزار تک جائیے گی'۔ اپنے تئیں انہوں نے انکو مزید خوفزدہ کربے کی کوشش کی۔ یا اللہ، کیا مصیبت ہے۔ کیسے اس سے جان چھٹے گی۔ پل پر اور اسکے پیچھے تک ٹریفک جام ہوچکا تھا۔ اور مسئلہ حل ہونے کی کوئ صورت نظر نہ آرہی تھی کہ خاتون کے پاس ایک بائک آکر رکی۔ اس پر سے ایک چوبیس پچیس سالہ  مضبوط جثّے  اور درمیانے قد کے شخص نے چھلانگ لگائ۔ اور قریب پہنچتے ہی ڈرائیور کو چیخ کرحکم دیا کہ چابی ان خاتون کو دو۔ اتنی دیر سے تم سے کہہ رہی ہیں۔ سنتے نہیں ہو تم کیا۔ اتنی دیر سے سارا ٹریفک روک رکھا ہے۔ اسکا تحکمانہ انداز دیکھ کر وہ ابھی شش وپنج ہی میں تھا کہ اس نے ایک تھپڑ اسکو رسید کیا۔ اگلے ہی لمحے چابی میرے ہاتھ میں تھی۔ دوسرا تھپڑ پڑا تو ڈرائیور گاڑی کے اندر۔ سوٹ میں ملبوس صاحب ہکلائے 'یہ کیا ہو رہا اس گاڑی نے میری گاڑی کو ٹکر ماری تھی'۔ 'کچھ نہیں ہوا انکل، اب جا کر اپنی گاڑی میں بیٹھیں۔ آپکی گاڑی بالکل صحیح ہے۔ روڈ پہ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے '۔ وہ گھگھیائے ہوئے اپنی گاڑی میں جا بیٹھے۔ میرا ڈرائیور اپنی جگہ سنبھال چکا تھا۔ اس غیبی مددگار نے مجھے دیکھا، مسکراتی آنکھوں سے آگے چلنے کا اشارہ کیا اور یہ جا وہ جا۔
کیا  دہشت گردی کو دانشوری نہیں، دہشت گردی ہی شکست دے سکتی ہے؟