کتے پہ پطرس شاہ بخاری نے جو کچھ لکھا اسکے بعد کسی اور کی ہمت نہیں ہو سکتی تھی کہ اتنی سادگی اور فصاحت سے کتوں سے واقف کراتا کہ ہم تو ہم کتےتک عش عش کر اٹھے۔
اپنے مضمون 'کتے' میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
کتوں کےبھونکنے پہ مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ انکی آواز سوچنے کے تمام قوی معطل کر دیتی ہے۔ خصوصاً جب کسی دوکان کے نیچے سے ان کا ایک پورا خفیہ جلسہ سڑک پہ آ کر تبلیغ کا کام شروع کر دے تو آپ ہی کہیئے ہوش و حواس ٹھکانے رہ سکتے ہیں۔ کچھ انکا شور کچھ ہماری صدائے احتجاج زیر لب، بے ڈھنگی حرکات و سکنات، حرکات انکی سکنات ہماری۔ اس ہنگامے میں دماغ کام کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی مجھے نہیں معلوم اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مارے گا۔ بہر صورت کتوں کی یہ پرلے درجے کی نا انصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔ اگر انکا ایک نمائیندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آ کر کہہ دے کہ عالی جناب سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چوں چرا کئے واپس لوٹ جائیں گے۔ اور یہ کوئ نئ بات نہیں ہے۔ ہم نے کتوں کی درخواست پر کئ راتیں سڑکیں ناپنے میں گذار دی ہیں۔
مگر انسانی تاریخ کا یہ حسن ہے کہ کسی ایک نکتے یا شخص پہ آکر جامد نہیں ہو جاتی۔ اور یہ حقیقت کئ لوگوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ ہل من مزید۔ یوسفی صاحب نے بھی کتوں سے دل پشوری کی۔ اپنی کتاب 'خاکم بدہن' کے ایک مضمون 'سیزر، ماتا ہری اور مرزا' میں لکھتے ہیں کہ
کتوں کے ساتھ وہ خصوصیت سے تعصب برتتے ہیں اور اپنی بات کی پچ میں ایک سے ایک دلیل پیش کرتے ہیں مثال کے طور ایک دن کہنے لگے
جس گھر میں کتا ہو، اس گھر میں چور ہی نہیں ، رحمت کے فرشتے بھی داخل نہیں ہو سکتے۔
چور کا داخل نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر رحمت کے فرشتوں کو کیا ڈر ہے؟
اس لئے کہ کتا ناپاک ہوتا ہے
مگر کتے کو صاف ستھرا بھی تو رکھا جا سکتا ہے۔ انگریزوں کو دیکھیئے، صبح و شام نہلاتے ہیں۔
اپلے کو اگر صبح و شام صابن سے دھویا جائے تو کیا پاک ہو جائے گا؟
مگر سوال یہ ہے کہ کتا ناپاک کیسے ہوا؟
کج بحثی کوئ تم سے سیکھے۔ اللہ بخشے نانی جان کہا کرتی تھیں کہ کتے کے منہ میں سوءر کی رال ہوتی ہے۔
لیجیئِے آپ نے ناپاکی کی ایک اچھوتی توجیہہ تلاش کر لی۔
بھائ میرے ایک موٹی سی پہچان بتائے دیتا ہوں۔ یاد رکھو ہر وہ جانور جسے مسلمان کھا سکتے ہیں، پاک ہے۔
اس لحاظ سے مسلمان ممالک میں بکروں کو اپنی پاکی و طہارت کے سبب خاصہ نقصان پہنچا ہے۔
بکنے والے بکا کریں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ کتے کو کتا ہی کہا ہے۔ بڑے آدمیوں کے نام سے نہیں پکارا۔
بڑے آدمیوں کی ایک رہی۔ آپ نے سنا نہیں نسلاً سب کتے ایک زمانے میں بھیڑئیے تھے۔ آدمی کی صحبت میں انکا بھیڑیا پن جاتا رہا۔ مگر خود آدمی------------۔
دیکھو تم پھر لٹریچر بولنے لگے۔ علموں بس کریں او یار۔
لیکن کتوں پہ تذکرہ یہاں آ کر نہیں رکتا۔ ایک ویڈیو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ کتوں کا تصوف میں بھی بڑابیان ہے۔ آئیے ایک محفل سے ہم بھی کچھ سعادت حاصل کرتے ہیں۔
بہت اچھا لکھا جی اپ نے
ReplyDeleteاور اخر میں اپنے مولوی طاهر صاحب
سے کتا کتا کروا دی جی اپ نے
یہ جو لوگ بیٹھے سر ہلا رہے ہیں نا۔ یہ سب زومبی ہیں زومبی۔ یہ نوسرباز اگر یہ کہہ دے کہ جنید بغدادی ہوا میں اڑتا رہا ہے تو یہ اس پر بھی یقین کرلیں۔
ReplyDeleteویسے تو مجھے ڈوگی سے بہت ڈر لگتا ہے لیکن صوفی برنارڈ صاحب بہت پسند ہیں۔
ReplyDeleteعثمان، میری کتوں کے بارے میں معلومات کچھ زیادہ نہیں۔ البتہ چند ایک کو دیکھ کر انکی نسل بتا سکتی ہوں۔ تو جن چند ایک کو جانتی ہوں ان میں جرمن شیفرڈ خاصہ پسند ہے۔ مزید یہ کہ میرے پاس کوئ کتا نہیں ہے۔ انکے چاٹنے کی عادت مجھے سخت نا پسند ہے۔
ReplyDeleteبر سبیل تذکرہ، آپ نے بلاگ لکھنا کیوں بند کر دیا۔ بور ہو گئے یا ڈر گئے۔
ہمم، یہ صوفی برنارڈ مجھے بھی پسند آ رہا ہے۔
ReplyDelete:)
نہیں جی۔۔۔بلاگر اعظم نے کس سے ڈرنا ہے۔
ReplyDeleteبلاگراعظم آجکل کچھ سماجی تھیوریاں ڈیولپ کرنے کہ چکروں میں ہے۔ ایسے کہ انکل میکس ویبر بھی پناہ مانگتے پھریں۔ مثلا لاء آف فحاشیات ، غیرت کا حدود اربعہ یا یہ کہ غیر عورت سے فون پر کتنی دیر کس کس موضوع پر بات کی جائے کہ معاشرہ تباہی کی طرف بڑھنے لگے۔ مزید یہ کہ مذہب پرست کے ذہنی ارتقاء کے مفقود ہونے کی وجوہات وغیرہ۔لیکن مسئلہ ہے کہ تھیوریوں کے کچھ کل پرزے آپس میں کنیکٹ نہیں ہورہے۔نیز پوسٹ کو اسطرح خشک بھی کرنا ہے کہ کم سے کم لوگوں کو سمجھ لگے۔ تو بس مزید غوطہ خوری درکار ہے۔
ان صوفی صاحب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ غیرت مندوں سے کہیں ذیادہ جھاگ اڑاتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ اسے صرف ایک کپڑے سے صاف کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ صاحب جس گھر میں ہوں وہاں ان کے جسم سے گرنے والے بال پینے کے پانی میں بھی پائے جاتے ہیں۔
ReplyDeleteThori si tas-heeh.. 'Caesar, Mata hari aur Mirza' aab e gum mein nahi, Khaakam ba dahan mein hai.
ReplyDeleteکتے ہیں کے ان کتوں کو کتے نہ سمجھیں جو انسان کے کام آئیں اور انسان ہے کے کتنا ہی کچھ کرلے کسی نہ کسی سے کتے کہلوا کے چھوڑتا ہے ۔
ReplyDeleteگمنام، دیکھیں میری غائب دماغی، کتاب سے یہ پیرا لکھا مگر کتاب کا نام غلط لکھ دیا۔ توجہ دلانے کا شکریہ۔
ReplyDeleteعثمان، پوسٹ کو خشک رکھنے کے بجائے گیلا رکھیں۔ روٹی کے ساتھ سالن اسی لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ دال کے ساتھ چاول اور بریانے کے ساتھ رائتہ۔ ورنہ خشک چیز کو کوئ منہ میں نہیں ڈالتا۔ اور وہ گلے میں پھندہ بھی ڈالتی ہے۔ گیلا رکھنے میں ایک ترغیب بہر حال رہتی ہے۔
عثمان، آپ سے معزرت کیساتھ ۔
ReplyDeleteبھئی ہمیں بھی انٹرسٹ ہو رہا ہے ان انٹرسٹنگ ذامبیز میں جو بلاگر اعظم کی انٹرسٹنگ تھیوریز پر انٹرسٹنگ طریقے سے عمل کرتے ہوئے انٹرسٹنگ قسم کا سکون اور اطمعنان حاصل کر پائینگے اور دوسروں کیلئے انٹرسٹنگ قسم کے سکون اور اطمعنان کا سبب بن پائینگے ۔
کتا تو اصحاب کہف کا بھی تھا۔ نجانے کس وجہ سے جنت میں جائے گا؟ شائد کسی کو علم ہو؟
ReplyDeleteکتے کا بیان قرآن میں دو جگہ آیا ہے۔ ایک کتا اصحاب کہف کا تھا، جو ان کی غار کے باہر رکھوالی کرتا تھا۔ اس کی وفاداری کی تعریف بھی ہے۔ شائد اسی لئے عیسائی اقوام میں کتے سے محبت رائج ہے۔
ReplyDeleteاس کے علاوہ کتے کو مکذبین سے مشابہت دی گئی ہے۔ کہ اس کو دھتکارو تب بھی زبان نکال کر ہانپتا ہے اور کچھ نہ کہو پھر بھی زبان نکالتا ہے۔ یعنی ان مکذبین کی گستاخیوں کا جواب نہ دینا ہی بہتر ہے۔
میں نے کتے کی بے لوث وفاداری کے قصے سنے بھی ہیں اور دیکھے بھی ہیں۔ مجھے اگرچہ کہ شہری آبادی میں کتے پالنے سے اختلاف ہے لیکن بطور ایک کارآمد جانور، اسلامی معاشروں میں کتے سے فائدہ اٹھانا معیوب سمجھنا بھی غلط جانتا ہوں۔ کتے سے شکار بھی جائز ہے، اس کی رکھوالی بھی مشہور ہے اور بعض کتوں کی ذہانت بھی دنگ کر دیتی ہے۔
اور میاں صاحب بھی فرما گئے ہیں۔
جس دل اندر عشق نہ رچیا کتے اس توں چنگے
مالک دے گھر راکھی دیندے صابر پھوکے ننگے
کتوں کے بارے پڑھ کر ہندوستان کا وہ کتا یاد آگیا جسکو اسکے اونچی ذات کے برہمن مالک نے نہ صرف مار کر گھر سے نکال دیا بلکہ برہمنوں کے محلے میں آنے پر پابندی لگا دی قصور اس کا یہ تھا کہ اس کتے نے ایک نچلی ذات کی دلت عورت کی ڈالی ہوئی روٹی کھائی تھی جسکی وجہ سے وہ کتا سزا وار ٹھرا ۔بات یہاں پر ختم ہو جاتی تو بھی ٹھیک تھا مگر کتے کے مالک نے گاؤں کی پنچایت میں دلت عورت کے خلاف دس ہزار روپے ہرجانے کا دعوی کر دیا کہ اس دلت عورت نے میرے قیمتی کتے کو اپنی نجس روٹی کھلا کر ناپاک کردیا لہذا اس دلت عورت سے دس ہزار روپے دلوائے جائیں پنچایت نے بھی کتے کے برہمن مالک کے حق میں اور دلت عورت کے خلاف فیصلہ دیا ۔دلت عورت نے تو پنچایت کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا مگر بے چارا کتا کہاں جائے انصاف کے لئے جسکو برہمن اپنے علاقے میں آنے نہیں دیتے اور نچلی ذات کے دلت اسکو کچھ کھلانے سے ڈرتے ہیں
ReplyDelete(naghmasehar)
خرم صاحب، اصحاب کہف کا کتا اپنی شہرت رکھتا ہے تو کیا وہ جنت میں بھی جائے گا۔ یہ میرے علم میں نہ تھا۔ یہ بات آپ نے کس سلسلے میں پڑھی۔
ReplyDeleteکھوکھر صاحب، شعر بہت اچھا ہے۔ ہمارے یہاں لوگ بلی کو کتے پہ ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن دانا کہتے ہیں کہ بلی اپنے مالک سے نہیں بلکہ کھانے اور گود کی گرمی سے محبت کرتی ہے۔ جس کے پاس میسر آجائیں اسکی ہوتی ہے۔ بلی کو لوگوں سے نہیں جگہ سے محبت ہوتی ہے۔ جبکی کتا اپنے مالک سے یا انسان سے محبت کرتا ہے۔ اسکے لئے جگہ کی تخصیص نہیں ہے۔ مالک جہاں ہو گا وہیں ہوگا، جو کھلادے وہی کھائے گا نہ کھلائے توبھی پڑا رہے گا۔
اسکی ذہانت بھی بڑی مشہور ہے لیکن کیا کتے بھی کوئ سلسلہ ء تصوف رکھتے ہیں کہ اگر کسی کتے پہ نظر ہو جائے تو وہ اسکے گرد گھیرا باندھ کر بیٹھ جائیں؟
گمنام، ہمم، اگر اسکے علاقے میں کوئ ایسی جگہ ہو جہاں کسی بزرگ کے نام پہ لنگر بٹتا ہو اسکی مشکل آسان ہو سکتی ہے۔
کدا نے ہر انسان کو دماغ اور دل دونوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ مگر انسانوں کی اکثریت ان میں سے کسی ایک چیز کو ہی استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اگر زندگی گذارنے کے لئے ہم صرف ایک اسکیل بنا لیں کہ جو دماغ کہتا ہے اس پہ دل کو بھی آنا چاہئیے تو یہ دنیا اشرف المخلوقات کی تخلیق کردہ جنت بن جائے۔ شداد کے طریقے سے جنت بنانا آسان ہے مگر اس طرقیے سے شاید مشکل۔
کتوں پر ایک نظر علامہ نے بھی ڈالی ہے، دو اشعار کی ایک مختصر سی نظم میں
ReplyDeleteغلامی
آدم از بے بَصَری بندگیٔ آدَم کرد
گوھرے داشت ولے نذرِ قباد و جَم کرد
آدمی نے اپنی بے بصیرتی اور بے خبری کی وجہ سے آدمی کی ہے غلامی اختیار کی اور جو (آزادی و حریت) کا گوھر وہ رکھتا تھا اسے قیقباد اور جمشید (یعنی مطلق العنان بادشاہوں) کی نذر کر دیا۔
یعنی از خوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من نَدیدَم کہ سگے پیشِ سگے سر خَم کرد
یعنی غلامی کی اس عادت کی وجہ سے وہ کتوں سے بھی خوار تر ثابت ہوا کہ میں نہیں دیکھا کبھی کسی کتے نے کسی دوسرے کتے کے سامنے اپنی گردن جھکائی ہو۔
ہر کسی کیلئے جنت تو اس دنیا کو کسی نے بھی بننے نہیں دنیا اور اپنی مرضی کی جنت تو اس دنیا سے باہر ہی مل پائے گی ۔
ReplyDeleteعثمان صاحب،کتےکی مثال دی جاتی ہےکہ یہ ضرب المثل ہےباقی سیانےکہتےہیں کہ مکھی ہمیشہ گندگی پرہی بیٹھتی ہےآپ نےجولکھاہےبرائےمہربانی اس پرغوربھی کیاکریں۔اللہ تعالی ہم پراپنارحم وکرم کردے۔ اورہم کودین اسلام کی صحیح تعلیمات پرعمل پیراہونےکی توفیق دےدیں۔ آمین ثم آمین
ReplyDeleteجاوید اقبال صاحب ،
ReplyDeleteآپ طاہر القادری کی توہین پر سیخ پا ہیں یا کتے کی توہین پر؟