Thursday, October 21, 2010

کتےپہ ایک نظر

کتے پہ پطرس شاہ بخاری نے جو کچھ لکھا اسکے بعد کسی اور کی ہمت نہیں ہو سکتی تھی کہ اتنی سادگی اور فصاحت سے کتوں سے واقف کراتا  کہ ہم تو ہم کتےتک عش عش کر اٹھے۔
اپنے مضمون 'کتے' میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ

کتوں کےبھونکنے پہ مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ انکی آواز سوچنے کے تمام قوی معطل کر دیتی ہے۔ خصوصاً جب کسی دوکان کے نیچے سے ان کا ایک پورا خفیہ جلسہ سڑک پہ آ کر تبلیغ کا کام شروع کر دے تو آپ ہی کہیئے ہوش و حواس ٹھکانے رہ سکتے ہیں۔ کچھ انکا شور کچھ ہماری صدائے احتجاج زیر لب، بے ڈھنگی حرکات و سکنات، حرکات انکی سکنات ہماری۔ اس ہنگامے میں دماغ کام کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی مجھے نہیں معلوم اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مارے گا۔ بہر صورت کتوں کی یہ پرلے درجے کی نا انصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔ اگر انکا ایک نمائیندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آ کر کہہ دے کہ عالی جناب سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چوں چرا کئے واپس لوٹ جائیں گے۔ اور یہ کوئ نئ بات نہیں ہے۔ ہم نے کتوں کی درخواست پر کئ راتیں سڑکیں ناپنے میں گذار دی ہیں۔
مگر انسانی تاریخ کا یہ حسن ہے کہ کسی ایک نکتے یا شخص پہ آکر جامد نہیں ہو جاتی۔ اور یہ حقیقت کئ لوگوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ ہل من مزید۔ یوسفی صاحب نے بھی کتوں سے دل پشوری  کی۔ اپنی کتاب 'خاکم بدہن'  کے ایک مضمون 'سیزر، ماتا ہری اور مرزا' میں لکھتے ہیں کہ
کتوں کے ساتھ وہ خصوصیت سے تعصب برتتے ہیں اور اپنی بات کی پچ میں ایک سے ایک دلیل پیش کرتے ہیں مثال کے طور ایک دن کہنے لگے
جس گھر میں کتا ہو، اس گھر میں چور ہی نہیں ، رحمت کے فرشتے بھی داخل نہیں ہو سکتے۔
چور کا داخل نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر رحمت کے فرشتوں کو کیا ڈر ہے؟
اس لئے کہ کتا ناپاک ہوتا ہے
مگر کتے کو صاف ستھرا بھی تو رکھا جا سکتا ہے۔ انگریزوں کو دیکھیئے، صبح  و شام نہلاتے ہیں۔
اپلے کو اگر صبح و شام صابن سے دھویا جائے تو کیا پاک ہو جائے گا؟
مگر سوال یہ ہے کہ کتا ناپاک کیسے ہوا؟
کج بحثی کوئ تم سے سیکھے۔ اللہ بخشے نانی جان کہا کرتی تھیں کہ کتے کے منہ میں سوءر کی رال ہوتی ہے۔
لیجیئِے آپ نے ناپاکی کی ایک اچھوتی توجیہہ تلاش کر لی۔
بھائ میرے ایک موٹی سی پہچان بتائے دیتا ہوں۔ یاد رکھو ہر وہ جانور جسے مسلمان کھا سکتے ہیں، پاک ہے۔
اس لحاظ سے مسلمان ممالک میں بکروں کو اپنی پاکی و طہارت کے سبب خاصہ نقصان پہنچا ہے۔
بکنے والے بکا کریں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ کتے کو کتا ہی کہا ہے۔ بڑے آدمیوں کے نام سے نہیں پکارا۔
بڑے آدمیوں کی ایک رہی۔ آپ نے سنا نہیں نسلاً سب کتے ایک زمانے میں بھیڑئیے تھے۔ آدمی کی صحبت میں انکا بھیڑیا پن جاتا رہا۔ مگر خود آدمی------------۔
دیکھو تم پھر لٹریچر بولنے لگے۔ علموں بس کریں او یار۔
لیکن کتوں پہ تذکرہ یہاں آ کر نہیں رکتا۔ ایک ویڈیو دیکھ کر مجھے  خیال آیا کہ کتوں کا تصوف میں بھی بڑابیان ہے۔ آئیے ایک محفل سے ہم بھی کچھ سعادت حاصل کرتے ہیں۔

19 comments:

  1. بہت اچھا لکھا جی اپ نے
    اور اخر میں اپنے مولوی طاهر صاحب
    سے کتا کتا کروا دی جی اپ نے

    ReplyDelete
  2. یہ جو لوگ بیٹھے سر ہلا رہے ہیں نا۔ یہ سب زومبی ہیں زومبی۔ یہ نوسرباز اگر یہ کہہ دے کہ جنید بغدادی ہوا میں اڑتا رہا ہے تو یہ اس پر بھی یقین کرلیں۔

    ReplyDelete
  3. ویسے تو مجھے ڈوگی سے بہت ڈر لگتا ہے لیکن صوفی برنارڈ صاحب بہت پسند ہیں۔

    ReplyDelete
  4. عثمان، میری کتوں کے بارے میں معلومات کچھ زیادہ نہیں۔ البتہ چند ایک کو دیکھ کر انکی نسل بتا سکتی ہوں۔ تو جن چند ایک کو جانتی ہوں ان میں جرمن شیفرڈ خاصہ پسند ہے۔ مزید یہ کہ میرے پاس کوئ کتا نہیں ہے۔ انکے چاٹنے کی عادت مجھے سخت نا پسند ہے۔
    بر سبیل تذکرہ، آپ نے بلاگ لکھنا کیوں بند کر دیا۔ بور ہو گئے یا ڈر گئے۔

    ReplyDelete
  5. ہمم، یہ صوفی برنارڈ مجھے بھی پسند آ رہا ہے۔
    :)

    ReplyDelete
  6. نہیں جی۔۔۔بلاگر اعظم نے کس سے ڈرنا ہے۔
    بلاگراعظم آجکل کچھ سماجی تھیوریاں ڈیولپ کرنے کہ چکروں میں ہے۔ ایسے کہ انکل میکس ویبر بھی پناہ مانگتے پھریں۔ مثلا لاء آف فحاشیات ، غیرت کا حدود اربعہ یا یہ کہ غیر عورت سے فون پر کتنی دیر کس کس موضوع پر بات کی جائے کہ معاشرہ تباہی کی طرف بڑھنے لگے۔ مزید یہ کہ مذہب پرست کے ذہنی ارتقاء کے مفقود ہونے کی وجوہات وغیرہ۔لیکن مسئلہ ہے کہ تھیوریوں کے کچھ کل پرزے آپس میں کنیکٹ نہیں ہورہے۔نیز پوسٹ کو اسطرح خشک بھی کرنا ہے کہ کم سے کم لوگوں کو سمجھ لگے۔ تو بس مزید غوطہ خوری درکار ہے۔

    ReplyDelete
  7. ان صوفی صاحب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ غیرت مندوں سے کہیں ذیادہ جھاگ اڑاتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ اسے صرف ایک کپڑے سے صاف کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ صاحب جس گھر میں ہوں وہاں ان کے جسم سے گرنے والے بال پینے کے پانی میں بھی پائے جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. Thori si tas-heeh.. 'Caesar, Mata hari aur Mirza' aab e gum mein nahi, Khaakam ba dahan mein hai.

    ReplyDelete
  9. کتے ہیں کے ان کتوں کو کتے نہ سمجھیں جو انسان کے کام آئیں اور انسان ہے کے کتنا ہی کچھ کرلے کسی نہ کسی سے کتے کہلوا کے چھوڑتا ہے ۔

    ReplyDelete
  10. گمنام، دیکھیں میری غائب دماغی، کتاب سے یہ پیرا لکھا مگر کتاب کا نام غلط لکھ دیا۔ توجہ دلانے کا شکریہ۔
    عثمان، پوسٹ کو خشک رکھنے کے بجائے گیلا رکھیں۔ روٹی کے ساتھ سالن اسی لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ دال کے ساتھ چاول اور بریانے کے ساتھ رائتہ۔ ورنہ خشک چیز کو کوئ منہ میں نہیں ڈالتا۔ اور وہ گلے میں پھندہ بھی ڈالتی ہے۔ گیلا رکھنے میں ایک ترغیب بہر حال رہتی ہے۔

    ReplyDelete
  11. عثمان، آپ سے معزرت کیساتھ ۔
    بھئی ہمیں بھی انٹرسٹ ہو رہا ہے ان انٹرسٹنگ ذامبیز میں جو بلاگر اعظم کی انٹرسٹنگ تھیوریز پر انٹرسٹنگ طریقے سے عمل کرتے ہوئے انٹرسٹنگ قسم کا سکون اور اطمعنان حاصل کر پائینگے اور دوسروں کیلئے انٹرسٹنگ قسم کے سکون اور اطمعنان کا سبب بن پائینگے ۔

    ReplyDelete
  12. کتا تو اصحاب کہف کا بھی تھا۔ نجانے کس وجہ سے جنت میں جائے گا؟ شائد کسی کو علم ہو؟

    ReplyDelete
  13. کتے کا بیان قرآن میں دو جگہ آیا ہے۔ ایک کتا اصحاب کہف کا تھا، جو ان کی غار کے باہر رکھوالی کرتا تھا۔ اس کی وفاداری کی تعریف بھی ہے۔ شائد اسی لئے عیسائی اقوام میں کتے سے محبت رائج ہے۔

    اس کے علاوہ کتے کو مکذبین سے مشابہت دی گئی ہے۔ کہ اس کو دھتکارو تب بھی زبان نکال کر ہانپتا ہے اور کچھ نہ کہو پھر بھی زبان نکالتا ہے۔ یعنی ان مکذبین کی گستاخیوں کا جواب نہ دینا ہی بہتر ہے۔

    میں نے کتے کی بے لوث وفاداری کے قصے سنے بھی ہیں اور دیکھے بھی ہیں۔ مجھے اگرچہ کہ شہری آبادی میں کتے پالنے سے اختلاف ہے لیکن بطور ایک کارآمد جانور، اسلامی معاشروں میں کتے سے فائدہ اٹھانا معیوب سمجھنا بھی غلط جانتا ہوں۔ کتے سے شکار بھی جائز ہے، اس کی رکھوالی بھی مشہور ہے اور بعض کتوں کی ذہانت بھی دنگ کر دیتی ہے۔

    اور میاں صاحب بھی فرما گئے ہیں۔

    جس دل اندر عشق نہ رچیا کتے اس توں چنگے
    مالک دے گھر راکھی دیندے صابر پھوکے ننگے

    ReplyDelete
  14. کتوں کے بارے پڑھ کر ہندوستان کا وہ کتا یاد آگیا جسکو اسکے اونچی ذات کے برہمن مالک نے نہ صرف مار کر گھر سے نکال دیا بلکہ برہمنوں کے محلے میں آنے پر پابندی لگا دی قصور اس کا یہ تھا کہ اس کتے نے ایک نچلی ذات کی دلت عورت کی ڈالی ہوئی روٹی کھائی تھی جسکی وجہ سے وہ کتا سزا وار ٹھرا ۔بات یہاں پر ختم ہو جاتی تو بھی ٹھیک تھا مگر کتے کے مالک نے گاؤں کی پنچایت میں دلت عورت کے خلاف دس ہزار روپے ہرجانے کا دعوی‏ کر دیا کہ اس دلت عورت نے میرے قیمتی کتے کو اپنی نجس روٹی کھلا کر ناپاک کردیا لہذا اس دلت عورت سے دس ہزار روپے دلوائے جائیں پنچایت نے بھی کتے کے برہمن مالک کے حق میں اور دلت عورت کے خلاف فیصلہ دیا ۔دلت عورت نے تو پنچایت کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا مگر بے چارا کتا کہاں جائے انصاف کے لئے جسکو برہمن اپنے علاقے میں آنے نہیں دیتے اور نچلی ذات کے دلت اسکو کچھ کھلانے سے ڈرتے ہیں
    (naghmasehar)

    ReplyDelete
  15. خرم صاحب، اصحاب کہف کا کتا اپنی شہرت رکھتا ہے تو کیا وہ جنت میں بھی جائے گا۔ یہ میرے علم میں نہ تھا۔ یہ بات آپ نے کس سلسلے میں پڑھی۔
    کھوکھر صاحب، شعر بہت اچھا ہے۔ ہمارے یہاں لوگ بلی کو کتے پہ ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن دانا کہتے ہیں کہ بلی اپنے مالک سے نہیں بلکہ کھانے اور گود کی گرمی سے محبت کرتی ہے۔ جس کے پاس میسر آجائیں اسکی ہوتی ہے۔ بلی کو لوگوں سے نہیں جگہ سے محبت ہوتی ہے۔ جبکی کتا اپنے مالک سے یا انسان سے محبت کرتا ہے۔ اسکے لئے جگہ کی تخصیص نہیں ہے۔ مالک جہاں ہو گا وہیں ہوگا، جو کھلادے وہی کھائے گا نہ کھلائے توبھی پڑا رہے گا۔
    اسکی ذہانت بھی بڑی مشہور ہے لیکن کیا کتے بھی کوئ سلسلہ ء تصوف رکھتے ہیں کہ اگر کسی کتے پہ نظر ہو جائے تو وہ اسکے گرد گھیرا باندھ کر بیٹھ جائیں؟
    گمنام، ہمم، اگر اسکے علاقے میں کوئ ایسی جگہ ہو جہاں کسی بزرگ کے نام پہ لنگر بٹتا ہو اسکی مشکل آسان ہو سکتی ہے۔
    کدا نے ہر انسان کو دماغ اور دل دونوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ مگر انسانوں کی اکثریت ان میں سے کسی ایک چیز کو ہی استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اگر زندگی گذارنے کے لئے ہم صرف ایک اسکیل بنا لیں کہ جو دماغ کہتا ہے اس پہ دل کو بھی آنا چاہئیے تو یہ دنیا اشرف المخلوقات کی تخلیق کردہ جنت بن جائے۔ شداد کے طریقے سے جنت بنانا آسان ہے مگر اس طرقیے سے شاید مشکل۔

    ReplyDelete
  16. کتوں پر ایک نظر علامہ نے بھی ڈالی ہے، دو اشعار کی ایک مختصر سی نظم میں

    غلامی

    آدم از بے بَصَری بندگیٔ آدَم کرد
    گوھرے داشت ولے نذرِ قباد و جَم کرد

    آدمی نے اپنی بے بصیرتی اور بے خبری کی وجہ سے آدمی کی ہے غلامی اختیار کی اور جو (آزادی و حریت) کا گوھر وہ رکھتا تھا اسے قیقباد اور جمشید (یعنی مطلق العنان بادشاہوں) کی نذر کر دیا۔

    یعنی از خوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
    من نَدیدَم کہ سگے پیشِ سگے سر خَم کرد

    یعنی غلامی کی اس عادت کی وجہ سے وہ کتوں سے بھی خوار تر ثابت ہوا کہ میں نہیں دیکھا کبھی کسی کتے نے کسی دوسرے کتے کے سامنے اپنی گردن جھکائی ہو۔

    ReplyDelete
  17. ہر کسی کیلئے جنت تو اس دنیا کو کسی نے بھی بننے نہیں دنیا اور اپنی مرضی کی جنت تو اس دنیا سے باہر ہی مل پائے گی ۔

    ReplyDelete
  18. عثمان صاحب،کتےکی مثال دی جاتی ہےکہ یہ ضرب المثل ہےباقی سیانےکہتےہیں کہ مکھی ہمیشہ گندگی پرہی بیٹھتی ہےآپ نےجولکھاہےبرائےمہربانی اس پرغوربھی کیاکریں۔اللہ تعالی ہم پراپنارحم وکرم کردے۔ اورہم کودین اسلام کی صحیح تعلیمات پرعمل پیراہونےکی توفیق دےدیں۔ آمین ثم آمین

    ReplyDelete
  19. جاوید اقبال صاحب ،
    آپ طاہر القادری کی توہین پر سیخ پا ہیں یا کتے کی توہین پر؟

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ