Thursday, October 7, 2010

سر سید اٹھارہ سو ستاون سے پہلے-۲

گذشتہ سے پیوستہ


آئین اکبری کی تدوین ، ترتیب اور تصحیح میں جو محنت اور جاں فشانی سر سید نے دکھائ وہ حیرت انگیز ہے۔ یہ کتاب ابوالفضل نے لکھی تھی.  اس کتاب کا اسلوب نہایت مشکل اور پیچیدہ تھا۔ پھر مزید مشکل یہ کہ  اس میں ہر طرح کے سنسکرت، فارسی، عربی، ترکی اور ہندی الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔۔ مختلف نسخوں میں کاتبوں کی غلطی کی وجہ سے عبارت میں فرق آ گیا تھا۔ سر سید نے مختلف نسخوں کا تقابلی مطالعہ کیا۔  مشکل اور نامانوس الفاظ کی تشریح کی۔ اکبر کے زمانے کی اشیاء کے نام، طرز بو دو باش، رہائیش و استعمال کی اشیا، غرض کہ ہر شے کی تصاویر دلی کے لائق مصوروں سے بنوا کر کتاب میں شامل کیں۔

واقعات کے سن و سال ، اس زمان کی ٹیکس کی رقوم اور محاصل، اکبر کے عہد کی شاہی محاصل کی رقوم آئین اکبری کے مختلف نسخوں میں مختلف درج تھیں۔ سر سید نے انہیں تحقیق کر کے درست کیا۔  ہر طرح کی جدولوں کی تصحیح کی۔ در حقیقت یہ کام سر سید کے علاوہ کسی کے بس کا نہ تھا۔ اس کتاب کو یوروپ میں بڑی پذیرائ ملی۔ اس کتاب میں مسلمانوں کے ایک بادشاہ یعنی اکبر کے کارناموں کو بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا گیا تھا جس سے یوروپ آشنا نہ تھا۔۔۔ اس کتاب کی تقریظ سر سید نے مرزا غالب سے لکھوانی چاہی۔ انہوں نے سوچا کہ مرزا غالب ہی انکی اس محنت کی قدر جان سکتے ہیں۔ غالب نے بجائے نثر کے اسکی تقریظ فارسی نظم میں ایک مثنوی کے پیرائے میں لکھی۔
اس تقریظ کے تذکرے سے پہلے  یہ جاننا چاہئیے کہ  یہ وہ زمانہ تھا  جب غالب اپنا مشہور زمانہ پینشن کا مقدمہ لڑ رہے تھے اور اسکے لئے انہیں کلکتہ کا سفر کرنا پڑا۔  کلکتہ شہر کی صفائ، دفتری کاموں کے طریقے اور انتظام اس سے غالب بہت متائثر ہوئے۔ پانی پہ چلتی بھاپ کے انجن سے چلنے والی کشتی نے انہیں حیران کر دیا۔ یہ سب  دیکھ کر غالب  انگریزوں کی ترقی  اور حسن انتظام کے قائل ہو گئے۔  کلکتہ شہر کی اس خوبی کا تذکرہ اپنے دیوان میں اس طرح کرتے ہیں کہ
کلکتہ کا جو تونے ذکر کیا اے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
اس تقریظ کو ڈاکٹر خورشید رضوی کے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے  کہ
اس دفتر پارینہ کو زندہ کرنے کے لئے سر سید جیسے با صلاحیت آدمی کا اس قدر محنت صرف کرنا وقت کا زیاں ہے۔ یہ وقت آئین اکبری پہ نگاہ بازگشت ڈالنے کا نہیں بلکہ انگریزوں کے دستور آئین سے نظر ملانے کا ہے۔ جنہوں نے عناصر فطرت  کو تسخیر کر کے نو بہ نو ایجادات کی ہیں اور بحر و بر پہ اپنا سکہ رواں کر دیا ہے۔
سر سید کو توقع نہ تھی اور اس سے انہیں رنج پہنچا۔ انہوں نے اسے مرزا غالب کو واپس کر دیا کہ یہ مجھے درکار نہیں۔ مگر غالب کو اپنی رائے کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ اسی لئے انہوں نے غالباً اسے نظم میں لکھا تھا۔ اور اسے اپنی کلیات فارسی میں شامل کر دیا۔ غالب نے سر سید کو لکھا۔
ابھی تک آپ اپنے پرانے آئین جہاں بانی کی ترتیب و تصحیح میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ زندگی کا نیا آئین کلکتہ پہنچ گیا ہے اور بہت جلد ہند کی ساری تہذیبی زندگی کو اپنی گرفت میں لے لیگا۔
غالب آخر غالب رہے۔
سر سید ان سے کبیدہ خاطر تو ہوئے۔ لیکن یہ شاید اسی کا اثر تھا کہ انہوں نے اپنی اس کوشش کا زیادہ تذکرہ کبھی نہیں کیا۔ اور شاید یہی چیز ان میں ایک مصلح قوم کو مہمیز دینے باعث بنی۔ مگر تاریخ کہتی ہے کہ اگر اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کا واقعہ نمودار نہ ہوتا تو سر سید اپنے انہی کاموں میں مصروف رہتے۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے انکے تصورات کی دنیا کو بدل دیا۔

حوالہ؛
سر سید احمد خان ، شخصیت اور فن۔ اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد
موج کوثر، شیخ محمد اکرام ، سروسز بک کلب، آرمی ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ


23 comments:

  1. دہائیوں سے ہمارے اذہان کو جو تربیت دی گئی ہے اس میں ہمارے ہیرو بس تلوار اٹھاکر جہاد کرنے والے ہیں۔ یا کم از کم گلا پھاڑ کر کفار کو گالیاں دینے والے۔ ایسے میں ایک محقق ایک عالم کی اہمیت کہاں رہ جاتی ہے خاص کر جب وہ لوگوں کو نا صرف یہ کہ جدت کی طرف بلائے بلکہ کچھ انگریز افسران کی جان بچانے کا مودا بھی اس کے سر ہو۔ مجھے تو ڈر ہے کہ اس تحریر کے نتیجے میں بیچارے غالب کے خلاف فتوے نہ آجائیں کہ وہ بھی انگریز کے نظام کی تعریف کربیٹھا ہے۔
    :)
    امید رکھنی چاہیے کہ سید احمد شہید کا مداح رہنے کی وجہ سے سرسید کی کچھ جاں بخشی ہوجائے گی۔
    اور یہ تولا اور تبرہ کیا ہے؟ ایک حاشیہ میں اسطرح کی ثقیل اصطلاحات کی تشریح کردیا کریں۔ اب میں کہاں سے ڈھونڈتا پھروں۔
    معلوم ہوتا ہے کہ سرسید محنتی تو تھے ہی لیکن تحقیق کی پیدائشی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ لیجئے۔۔۔یہاں بھی پوائنٹ میرا ہوا

    ReplyDelete
  2. ایک دوسرے کو ڈسکس کر لینے کے بعد آپس میں ڈسکس کرنے کو بچا ہے کچھ کیا ۔

    ReplyDelete
  3. ہمیں بھی کہنے پر مجبور کر دیا :
    عقل میں آئی غالب کے مگر کام آئی سر سید کے ۔ جلا دی مسلمانوں کو اور آخر بن گیا پاکستان ۔

    ReplyDelete
  4. عثمان، بہت سارے سید احمد شہید کے مداحوں اور سید احمد خان کے دشمنوں کو شاید پتہ نہ ہو گا کہ سید احمد خان انکے مداح تھے اور اپنے آپکو نیم چڑھا وہابی کہتے تھے۔

    ReplyDelete
  5. جاہل اور سنکی، آپ نے غالب کو بھی پاکستان کے معماروں میں شامل کر دیا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکساتن بنانے والے صرف دو رہ نما تھے۔ وہ آپ سے بے حد خفا ہونگے۔

    ReplyDelete
  6. اور ہاں عثمان، یہ تولا اور تبرہ تو کوئ شیعہ صاحب ہی تفصیل سے بتا سکتے ہیں۔ یہ پوسٹ اس پہ بحث کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

    ReplyDelete
  7. ہمارے حساب سے تو جی سب کچھ ہی ٹھیک تھا، ٹھیک ہے اور ٹھیک ہی رہے گا ۔
    اس دنیا میں ٹھیک لوگوں کو ٹھیک لوگ ہی ٹکرتے ہیں ۔ نا ہم نے کوئی ٹھیکا لے رکھا ہے کے :
    بروں کو مزاحیہ انداز میں اچھا کہیں اور اچھوں کو طنزیہ انداز میں برا کہیں ۔

    ReplyDelete
  8. میرزا غالب کی 1857 میں دلی پر بیتے حالات کے تذکرے بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ReplyDelete
  9. کل نیٹ گردی کرنے کے دوران یہ کتاب ہاتھ لگی؛تہذیبی نرگسیت ۔کتاب کا چرچا سنا تھا۔ ابھی پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ کتاب میں چند ایک جگہوں پر تجزیے کی غلطیاں ضرور ہیں۔ لیکن مصنف کا بنیادی موقف بالکل درست ہے۔ عصر حاضر میں مسلمانوں کی نفسیات اور خصوصاً پاکستانیوں کی خود پسندی ، اناپرستی ، احساسی کمتری اور غیر قوموں سے حسد کی بالکل صحیح تشخیص کی ہے۔ کتاب میں بحث و گفتگو کے لیے بہت سا خام مال موجود ہے۔ اگر کبھی ہو سکے تو اس میں موجود کچھ دلچسپ موضوعات کو موضوع قلم بنائیں۔

    ReplyDelete
  10. سرسید اپنے کاغذات "لائل محمڈنز آف انڈیا" میں یہاں تک کہہ جاتا ہے کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اب مسلمانوں میں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ جیسے غدار وطن اور قوم دشمن افراد پیدا ہونے بند ہوگئے اور میر جعفر اور صادق جیسے محب وطن اور اقوام کے بہی خواہ پیدا ہو رہے ہیں جو سرکار برطانیہ کے وفادار ہیں ، بلکہ اس کے راج کو مستحکم کرنے والے ہیں
    ( بحوالہ :-شمیم احمد مصنف زاویہ نظر صفحہ 33)

    ReplyDelete
  11. تہذیبی نرگسیت ٹریڈیشنل سنس میں ایک مناسب تھیسس ہے جسمیں ایسٹ کو ویسٹ کی سو کالڈ جائز سپریمیسی کے آگے بو ڈاؤن کرنے کی بات کی گئی ہے ۔ ایک اچھے تھیسس کے حساب سے اس تھیسس میں ویسٹ کی کاوئنٹر نرگسیت کے بارے میں کچھ خاص بات نہیں کی گئی ۔ خیر مبارک احمد صاحب کی ایفرٹ کی تعریف نہ کرنا ذیادتی ہوگی ۔
    اگر ویسٹ نے اپنے اخلاقیات کو خود سے ہی بہتر نہ کیا تو کوئی اور قوم اپنے اخلاقیات کو بہتر کر کے اپنے نئے اخلاقیات، جو کے پرانے اخلاقیات کے کچھ ذیادہ مختلف نہ ہونگے، دنیا کو دینے پر تل جائیگی ۔ دیکھیں اسبار کتنی دیر لگتی ہے ۔ اوبامہ صاحب آر یا پار کی بات کر تو چکے ہی ہیں اور اب تبدیلی ہے تو سہی قریب ہی ۔

    ReplyDelete
  12. عثمان، آپ کا شکریہ۔ یہ کتاب میں پڑھنا چاہ رہی تھی۔ مگر میرے گھر کے آس پاس یہ مل نہ پائ۔ اب اسے پڑھ کر ہی رائے دی جا سکتی ہے۔ اس پہ ہمارے ایک بلاگی ساتھی جن کا نام غالباً شاہد مسعود ہے انہوں نے ایک خاصہ جارحانہ ریویو لکھا تھا۔ آپ پڑھ چکے ہیں آپ کیوں نہیں ہمت باندھتے۔ میری جان نا تواں پہ ہی سارا بار کیوں ڈالنا چاہتے ہیں۔

    ReplyDelete
  13. الف نظامی، اس بات کا حوالہ مبارک علی صاحب نے بھی اپی کتاب تاریخ کا المیہ میں دیا ہے۔ اگر یہ بیان بای تمام پس منظر سے ہٹا کر دیکھا جائے تو خاصہ جارحانہ لگتا ہے۔ لیکن اگر دیگر تمام چیزوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ لگتا ہے کہ سر سید مسلمانوں کو ہر قیمت پہ انگریزوں کے عتاب سے بچانا چاہتے تھے۔ اسکا ثبوت انکی کتاب رسالہ اسباب بغاوت ہند ہے۔ اس پہ میں اپنی اگلی تحریروں میں لکھونگی۔

    ReplyDelete
  14. یار سنکی بھائی۔۔۔
    یہ کتاب ایک مسلمان پاکستانی کا اپنے مسلمان پاکستانی معاشرے کا نفسیاتی تجزیہ ہے۔ آپ یہ شکایت کرسکتے ہیں کہ موضوع بہت جامع ہے لیکن بحث جامع نہیں کی گئی۔ لیکن یہ شکایت کرنا مشکل ہے کہ پاکستانی معاشرے کو لاحق نفسیاتی امراض کی تشخیص نہیں کی گئی۔
    دوسرے معاشرے ہماری طرح جامد اور بوسیدہ نہیں۔ ان میں مثبت طریقے سے ارتقاء کا عمل جاری ہے۔ وہ دنیا بنانے میں لگے ہیں۔ دنیا برباد کرنے پر نہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال یورپین یونین کی ہے۔ یہ ممالک تقریباً آدھ صدی قبل ایک دوسرے سے دست و گریبان تھے۔ لیکن اب اپنی خود پسندی ، اناپرستی کو ایک طرف رکھ کر اپنے عوام اور خطے کے وسیع تر مفاد کی خاطر اندرونی چپقلش بھلا کر مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
    اپنی قوم پر تنقید کا حوصلہ پیدا کرکے کتاب دوبارہ پڑھیں۔ ہم دنیا میں ذلیل و رسواء ہیں تو اس کی کوئی وجہ ہے۔ ہم میں سے ایک شخص نے ان وجوہات کا ایک انوکھا تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس پر سوچیے اور کچھ وقت دیں۔

    ReplyDelete
  15. میں نے اب تک اس کتاب کے خلاف جتنے بھی تجزیے پڑھے ہیں مجھے ایک بات واضح طور پر نظر آئی ہے۔ اور میں مصنف کے بنیادی تھیسز کا مزید قائل ہوا ہوں۔ اور وہ یہ کہ تنقید کرنے والے کم و بیش انھیں نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں جس کی نشاندہی مصنف پہلے ہی اپنی کتاب میں کرچکا ہے۔ یعنی تنقید میں حسب معمول امریکہ ، مغرب ، یہودی سرمایہ دارانہ نظام جیسی باتوں کا رونا رو کر اپنے آپ کو حسب معمول دنیا کی مظلوم ترین قوم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تنقید کرنے والوں میں اپنی خود احتسابی کا حوصلہ نہیں۔ لے دے کر ان کی تان انھیں باتوں پر ٹوٹتی ہے کہ امت مسملہ اپنی اسلامی تعلیمات سے ہٹی ہوئی ہے۔ اور بس۔ باقی ساری قصور کافر اغیار کا ہے۔

    جن بلاگر صاحب کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ ان کا بلاگ ڈھونڈ کر پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ غالبا ایک دفعہ نظر پڑی تھی لیکن فونٹ درست نہ ہونے کی وجہ سے پڑھنے سے قاصر رہا۔ دوبارہ دیکھتا ہوں۔

    جہاں تک میرا اس کتاب پر تجزیہ لکھنے کا تعلق ہے تو سمجھ لیجئے کہ میں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے جھجھک رہا ہوں۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک مذہب پرست موجود ہے۔ جو اپنی تنقید کی تاب نہیں لاسکتے۔ ان کے گھسے پٹے فقرے سن کر میری طبعیت وہیں خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ فورا ذات اور کردار پر فتوے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس مذہب پرست بوسیدہ ماحول میں میرا اپنے بلاگ پر ویسے ہی کچھ لکھنے کو دل نہیں کرتا۔۔۔اور آپ اتنے نازک موضوع پر بحث مجھ سے شروع کروانا چاہتی ہیں؟
    :)
    آپ لکھیے۔ آراء کے سیکشن میں آپ سے گفتگو ہوگی۔ مذہب پرستوں سے بحث کا اب کوئی شوق نہیں۔

    ReplyDelete
  16. تو آپکا خیال ہے کہ مذہب پرست میری جاں بخشی کر دیں گے۔ جی ہاں آراء کے سیکشن میں آپ لکھیں گے، کیوں ہم نہ کہتے تھے۔
    :) :)

    ReplyDelete
  17. عثمان صاحب،
    آپ ہمیں ایسٹ کی نرگسیت کو ڈیفنڈ کرنے کیلئے لائر مقرر نہ کریں ورنہ ہم پر بھی لعن طعن کرنے کا الزام آجائیگا ۔ ایسٹ میں نرگسیت بھی ہوگی اور ایسٹ میں ایسٹرن نرگسیت کو برا اور ویسٹرن کاونٹر نرگسیت کو اچھا کہنے والے بھی کم ہی ہونگے ۔ مگر ویسٹ میں جہاں ایسٹ کی نرگسیت کو برا بھلا کہا جا رہا ہی وہیں ویسٹ کی کاؤنٹر نرگسیت پر بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا بھی رہا ہے ۔
    کرسچین کروسیڈز کے دوران یہی نرگسیت ویسٹرن نرگسیت کہلاتی تھی اور اس ویسٹرن نرگسیت کو سائنسی ترقی کی بدولت ختم ہونے میں سینکڑوں سال لگے تھے ۔ اس دور میں شائد کاؤنٹر نرگسیت ایسٹ کے ذمے تھی ۔کاؤنٹر نرگسیت کا شکار تو انہوں نے ہونا ہے جو نرگسیت کا شکار ہونگے اور اسی طرح نرگسیت کا شکار کاؤنٹر نرگسیت رکھنے والوں نے ہونا ہے ۔
    کاؤنٹر نرگسیت پر جتنا زور دیا جائیگا نرگسیت اتنی ہی بڑھیگی ۔ آخر نرگسیت نے بھی تو کاؤنٹر نرگسیت میں تبدیل ہونا ہوتا ہے جی ۔ کاؤنٹر نرگسیت کو ڈیفنڈ کرنے میں بھی وہی مزا ہے جو نرگسیت کو ڈیفنڈ کرنے میں ہوتا ہے ۔ یہی دنیا کی خوبصورتی ہے اور دنیا کی خوبصورتی ایسے ہی برقرار رہیگی ۔

    ReplyDelete
  18. جس چیز کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ ابھی پڑھی ہے جی۔ چونکہ کہیں اور کی بات کہیں اور کرنا نامناسب ہے اس لیے اپنے پہ جبر کرتے ہوئے دوتین باتیں ہی عرض کررہا ہوں


    "ریویو" کے گرد واوین کا اضافہ کریں۔

    ایک تبصرے میں موجود مندرجہ ذیل جملہ پڑھیں :
    اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کوئی عقلمند و پڑھا لکھا شخص اور وہ بھی مسلمان کی حیثيت سے مولانا مودودی کی کتب پڑھنے کے بعد بھی اسلام کو نہ سمجھے؟ تو پھر اس کی عقلمندی اور علم پر افسوس ہوتا ہے۔



    یہ معقول تبصرہ پڑھیں

    ReplyDelete
  19. یار سنکی بھائی۔۔۔
    سب سے پہلے تو مؤدبانہ التماس ہے کہ مجھے صاحب ، جناب وغیرہ لکھنے سے پرہیز کیا جائے۔

    دوسرے اگر سیدھے سیدھے سلاست سے بات کی جائے تو پتہ لگتا ہے کہ دنیا کہ کوئی خطہ بھی جنت بے نظیر نہیں۔ متشدد اور منفی رویے مغرب میں بھی موجود تھے ، ہیں اور رہیں گے۔ لیکن یہاں تقابل اس بات کا ہے کہ کون اپنے اہداف طے کررہا ہے اور کون ناکام ہے۔ مغرب ، چین ، جاپان اور ہندوستان میں اپنے سماجی امراض کی تشخیص کرکے اسکا علاج کرنے والا طبقہ موجود ہے اور متحرک ہے۔ جبھی یہ معاشرے ہماری نسبت صحت مند ہیں اور ارتقائی عمل سے مثبت جانب بڑھ رہے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہاں ان مسائل کا سرے سے ہی انکار کردیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے مرض کی تشخیص کرکے اس کا علاج کرنا ہے۔ دوسروں کے امراض کی تشخیص کا کام ہمارے ذمہ نہیں۔

    ReplyDelete
  20. عثمان،
    کوشش جاری رکھیں جی ۔ شائد کے کامیابی ہو جائے ۔ ویسے اس کامیابی کا کریڈٹ سبھی کو دیئے بغیر یہ کامیابی حاصل نہ ہوئی ۔ اس کامیابی کو حاصل کرنے کیلئے ہر انسان انڈیویجوئل ایفرٹ ہی کرسکتا ہے جی ۔ کولیکٹیو ایفرٹ میں تو حصے داری ہوتی ہے اور سارے ہی لائنز شیئر کو حاصل کرنے کی جستجو کر رہے ہوتے ہیں ۔

    ReplyDelete
  21. عنیقہ ناز:
    آپ نے لکھا ہے کہ
    سر سید مسلمانوں کو ہر قیمت پہ انگریزوں کے عتاب سے بچانا چاہتے تھے۔
    تو عرض ہے کہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کو غدار کہہ کر اور میر جعفر و صادق کو محب وطن کہہ کے اس سے انگریزوں کے عتاب سے بچنے کا کام لینا نہایت واہیات ہے خواہ آپ اس کی کتنی ہی تاویل کریں۔

    ReplyDelete
  22. انسان کی ذہنی کیفیت ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی اور کون کب کس چیز کے زیر اثر کیا لکھ جائے یہ لکھنے والا سمجھ سکتا ہے یا اس کو اچھی طرح سمجھنے والا،یا پھر اس کی تحاریر کا کثرت سے مطالعہ بھی اس کی اصل سوچ کی طرف رہنمائی کرسکتا ہے!
    بڑے سے بڑا عالم بھی مختلف اوقات میں مختلف سوچ رکھتا ہے،پھر یہ بھی ہے کہ انہوں نے یہ بات طنزا لکھی ہو،
    ایک ہی بات سے مختلف سوچ رکھنے والے مختلف نتائج کس طرح اخذ کرتے ہیں ایک واقعہ اسی حوالے سے پیش خدمت ہے کہ اکثرجو ہمیں نظر آرہا ہوتا ہے وہ سچ نہیں ہوتا بلکہ سچ کہیں بہت گہرائی میں چھپا ہوتا ہے!!!!!
    حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شکست ہوتے دیکھ اور نبی پاک کی شہادت کی افواہ کا سنتے ہی جنگ کا میدان چھوڑ کر مدینے کی طرف اپنا گھوڑا موڑ لیتے ہیں اس بات کو آج بھی ان کے دشمن ان کے ایمان کی کمی سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ اس کی ایک بہت عام فہم توجیہہ یہ ہے کہ کسی عاشق کو اس کے معشوق کے دنیا سے چلے جانے کی اطلاع ملے تو وہ تو سکتے میں ہوگا اور سواری کے رحم و کرم پر گھوڑے کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے مقام کی طرف جاتا ہے جب اسے مالک خطرے میں محسوس ہو اور مالک کا اس پر زور نہ ہو،مگر جوں ہی ان کے کان میں آواز پڑتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں وہ اپنےحواسوں میں واپس آجاتے ہیں گھوڑے کی لگام کھینچتے ہیں اور تیزی سے میدان جنگ کا رخ کرتے ہیں،اس واقعے کو صرف محبت کرنے والا ہی سمجھ سکتا ہے باقی لوگ اس سے اپنی اپنی ذہنیت کے مطابق ہی نتائج اخذ کریں گے

    ReplyDelete
  23. ویسے نظامی صاحب سے ایک سوال کہ وہ خود کو حدیثوں کا بڑا ماننے والا کہتے ہیں تو میرا تبصرہ جوکہ احادیث پرہی مشتمل تھا ان کی طبع نازک کو اتنا ناگوار کیوں گزرا کہ اسے اپنی پوسٹ پر چھاپنا بھی گوارا نہ کیا ویسے اطلاعا عرض ہے کہ یہ تبصرہ خاور کھوکھرکی پوسٹ پر بھی موجود ہے!!!!!

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ