Friday, October 29, 2010

اسباب بغاوت ہند اور لائل محمڈنز آف انڈیا-۱


اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بارے میں سر سید کا مئوقف تھا کہ یہ نہ تو ملکی بغاوت تھی نہ کوئ سازش بلکہ محض سپاہیوں کی حکم عدولی تھی ان کارتوسوں کے سبب جس میں اطلاع یہ تھی کہ گائے اور سوءر دونوں کی چربی شامل تھی اور جسے استعمال سے پہلے دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ یہ چیز انگریز حکومت کی مختلف پالیسیوں سے پہلے سے شاکی ہندو اور مسلمان دونوں کے جذبات بھڑکانے کا باعث بنی۔ اس  نے پھیل کر مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور ایک عام تائثر یہ بنا کہ یہ سب مسلمانوں کا کیا دھرا تھا۔

اپریل ، ۱۸۵۸ میں مراد آباد واپس پہنچتے ہی انہوں رسالہ اسباب بغاوت ہند لکھنے کا کام شروع کیا۔جس میں انہوں نے شواہد کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ اس میں ساری غلطی انگریز حکومت کی تھی۔ انہوں نے ہندوستانیوں کے جذبات و احساسات کو اپنے روئیے اور ناروا سلوک بری طرح مجروح کیا ہوا تھا۔ سپاہی اور دسرے لوگ انگریزوں کے خلاف جذبات سے بھرے ہوئے تھے کارتوسوں کے قصے نے جلتی پہ تیل کا کام کیا اور یہ ہنگامہ اچانک بھڑک اٹھا۔
سر سید نے اس نازک وقت میں وہ تمام الزامات جو لوگوں کے خیال میں حکومت پہ عائد ہوتے تھے دلیری اور جراءت کے ساتھ بیان کر ڈالے۔ یہی نہیں بلکہ اسکی پانچ سو کاپیاں سن ۱۸۵۹ میں تیار کر والیں۔ وہ اس رسالے کو لندن میں ارکان پارلیمنٹ کو بھیجنا چاہتے تھے تاکہ انہیں صحیح صورت حال سے آگاہی ہو۔
انکے دوستوں اور خیر خواہوں نے انکو اس اردے سے باز رکھنا چاہا۔ لوگوں نے مشورہ دیا ان کتابوں کو جلا ڈالو اور اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالو۔
سرسید نے کہا کہ
میں ان باتوں کو گورنمنٹ پر ظاہر کرنا ملک اور قوم اور خود گورنمنٹ کی خیر خواہی سمجھتا ہوں۔ پس ایک ایسے کام پر جو سلطنت  اور رعایا دونوں کے لئے مفید ہو مجھ کو کچھ گزندبھی پہنچ جائے تو گوارا ہے۔
انہوں نے ہمت کی اور اسکی پانچ سو کم کاپیاں ارکان پارلیمنٹ اور برطانوی حکومت اور انڈیا آفس میںتقسیم کرنے کی غرض سےبذریعہ ڈاک بھیج دیں۔ ایک کاپی گورنمنٹ آف انڈیا کو خاص گورنر جنرل کے ملاحظہ کے لئے پیش کر دی گورنر جنرل نے اسکا ترجمہ کروا کے مندرجات کا جائزہ لیا اور کونسل میں ممبران کے اجلاس میں اس پر بحث کی۔اگر چہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ تحریر اصلاح احوال کے لئے ہے۔ لیکن کونسل کے اک ممبرسیل بیڈن کو جو اس وقت سیکریٹری خارجہ تھا اس پہ شدید اعتراضات ہوئے اور اس نے نہ صرف اس تحریر کو بغاوت پہ محمول کیا۔ بلکہ مصنف پہ مقدمہ چلا کر ضابطے کی کارروائ عمل میں لانے کا کہا۔ ۔
بیڈن نے سرسید سے ملاقات کے دوران تلخی کا مطاہرہ کیا اور کہا کہ وہ اگر اپنے عمل میں مخلص ہوتے تو اسکی اشاعت نہ کرواتے اور تحریر صرف گورنر جنرل کو پیش کرتے۔ جب سر سید نے بتایا کہ پورے ہندوستان میں اسکی ایک کاپی گورنر جنرل کو بھیج ہے اور ایک دو کاپیاں انکے پاس محفوظ ہیں اور باقی سب لندن بھجوا دی گئ ہیں تو اسے یقین نہ آیا۔ تحقیق ہوئ اور سر سید کی بات درست نکلی۔ بیڈن کے دل سے بد گمانی دور ہوئ اور وہ انکا دوست بن گیا۔
لندن میں اس رسالے کے متعدد ترجمے ہوئے اور اہل سیاست اور اہل حکومت میں اس پہ بحث ہوئ۔ لیکن بالآخر وہ سر سید کے نکتہ ء نظر کے قائل ہو گئے۔
اس رسالے میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ گورنر جنرل کی کونسل میں کوئ مقامی رکن موجود نہیں اس لئے اعلی انتظامی سطح پہ ہندوستانیوں کی نمائیندگی اور انکے نکتہ نظر کے اظہار کی کوئ صورت نہیں۔ انہوں نے مقامی باشندوں کی شمولیت پہ زور دیا اور انکی یہ تجویز مان لی گئ۔ لارڈ لٹن کے دور میں سر سید کو گورنر جنرل کی کونسل کا رکن نامزد کیا گیا۔ اسی رسالے سے مسٹر ہیوم کے ذہن میں انڈین نیشنل کانگریس قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا۔

No comments:

Post a Comment

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ