اٹھارہ سو اٹھاون کے شروع میں سر سید کلکٹر کے ہمراہ بجنور واپس پہنچے۔ گھر کا قبضہ حاصل کیا۔ کئ لوگ جو ہنگامے کے دنوں میں سر سید کے دشمن ہو گئے تھے اور انکی جان کے درپے تھے۔ اب پریشان تھے۔ سرسید نے انکی سفارشیں کیں اور انکی گلو خلاصی کرائ۔
ہنگامے کے دنوں میں سر سید کی خدمات کی وجہ سے حکومت نے انہیں ضلع بجنور مین مسلمان باغی کی ضبط شدہ جاگیر بطور انعام دینا چاہی۔ مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ بڑا کام اس وقت یہی سمجھتے تھے کہ ایسے وقت میں ان سے کوئ امر شرافت اور اسلام کی ہدایت کے بر خلاف سر زد نہیں ہوا۔
دسمبر اٹھارہ سو نواسی میں ایجوکیشنل کانفرنس میں تقریر کے دوران اس سانحے کا تذکرہ کرتے ہوئے سر سید نے لکھا کہ
غدر کے بعد نہ مجھ کو اپنا گھر لٹنے کا رنج تھا نہ مال و اسباب کے تلف ہو نے کا۔ جو کچھ رنج تھا اپنی قوم کی بربادی کا تھا اور غدر کے دوران ہندوستانیوں کے ہاتھ سے جو کچھ انگریزوں پہ گذرا اسکا رنج تھا۔--------- جب بعوض وفاداری کے تعلقہ جہاں آباد جو سادات نامی خاندان کی ملکیت اور لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کا تھا مجھ کو دینا چاہا تو میرے دل کو نہایت صدمہ پہنچا۔ میرے دل نے کہا کہ مجھ سے زیادہ نالائق دنیا میں نہ ہوگا کہ قوم پہ تو یہ بربادی ہو اور میں انکی جائیداد لے کر تعلقہ دار بنوں۔
اپریل اٹھارہ سو اٹھاون میں سر سید صدالصدور کے عہدے پہ ترقی پا کر مراد آباد میں تعینات ہوئے۔ اسکے علاوہ انہیں اس اسپیشل کمیشن کا ممبر بھی نامزد کیا گیا جو ضبط شدہ جائیدادوں کی عذر داریوں کا فیصلہ کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ مراد آباد میں متعدد ضبط شدہ جائیدادیں واگذار ہوئیں۔ مراد آباد کے ایک مسلمان رئیس مولانا عالم علی جو مشہور عالم، طبیب اور محدث تھے انہوں نے ہنگامہ آرائ کے دنوں میں چند یورپیئن عورتوں اور بچوں کو اپنے گھر میں پناہ دی تھی مگر باغیوں نے زبر دستی گھر میں گھس کر ان عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس میں مولانا بے قصور اور بے بس تھے مگر انگریز حکام کو ان پہ سازش کا شبہ تھا۔ جب انگریزوں کی عملداری دوبارہ قائم ہوئ تو وہ مواخذے اور سزا کے ڈر سے روپوش ہو گئے۔ سر سید نے انکے بارے میں انگریز حکام کے شکوک رفع کئے اور انکی بے گناہی ثابت کر کے انہیں مواخذے سے بچا لیا۔ ضابطے کی کارروائ کے بعد انہیں بری کر دیا گیا۔ اس طرح جہاں جہاں سر سید کا بس چلا مسلمانوں کی مدد کی اور انکی مصیبتوں کو کم کیا۔ مراد آباد کے قیام کے دوران سر سید نے تاریخ سرکشی بجنور تحریر کی اور مئ اٹھارہ سو ستاون سے اپریل اٹھارہ سو اٹھارہ سو اٹھارہ اٹھاون تک ضلع بجنور میں جو واقعات پیش کآئے ان کو تاریخ وار ترتیب اور پوری تفصیل کے ساتھ لکھا۔ اس میں وہ تمام خط و کتابت بھی شامل ہے جو اس دوران انکے اور انگریز حکام کے درمیان ہوئ یا نواب محمود خان اور ہندو چوہدریوں نے انکے ساتھ کی۔
اٹھارہ سو ستاون کے ہنگامے کے بعد جب انگریزوں کی عملداری دوبارہ قائم ہوئ تو انگریزوں نے مسلمانوں کو بالخصوص اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا۔اور باغی قرار دئیے جانے کے لئے مسلمان ہونا کافی تھا۔ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے لی تھی اس لئے وہ انہیں ہی اپنا حریف اور دشمن سمجھتے تھے۔ اور اس سارے ہنگامے کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی سمجھتے تھے۔ وہ اس پہ یقین رکھتے تھے کہ یہ ساری سازش مسلمانوں کی ہے۔ حالانکہ ہنگامے کی وجوہات اور اس کے آغاز میں ہندو بھی اس میں شامل تھے۔ بعد میں ہندءووں نے موقع سے فاءدہ اٹھایا اور انگریزوں کی خیر خواہی کی آڑ میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔ یہ سب چیزیں مل کر مسلمانوں کو ہمہ گیر تباہی کی طرف لئے جا رہی تھیں۔ سر سید معاملے کی سنگینی سے آگاہ تھے اور اسکے تدارک کے لئے انہوں نے رسالہ اسباب بغاوت ہند لکھا۔ اس رسالے کی تفصیلات اس سے منسلکہ اگلی تحریر میں دیکھئیے گا۔
سر سید صاحب کو مزید ڈسکس کرنے سے اپنے خطے میں کسی رینیسانس کے آنے کی توقع کرنا بیکار ہے جی ۔ رینیسانس آیا بھی انہی کے ہاں تھا جو ریسورسز دوسروں کے ہاں سے لایا کرتے تھے ۔ اپنے خطے پر تو کریئیٹر کا کرم ہے کہ ہر کسی کی اس کے رچ ریسورسز پہ نظر تھی اور ابھی بھی ہے ۔ یہاں تو کسی عظیم الشان بربادی کے بعد ہی رینیسانس کی توقع کی جا سکتی ہے ۔
ReplyDeleteجاہل اور سنکی، رینیسینس اس وقت تک نہیں آ سکتا۔ جب تک لوگ اسکی چاہت نہیں کرتے۔ یہاں صدر سے لے کر چپراسی اور عالم سے لے کر ان پڑھ سب ہی انفاردی مفادات پہ نظر رکھے ہوئے اور انکے حصول کے لئے کسی بھی اخلاقی حد کو پار کر سکتے ہیں۔ رینیسینس کے لئے تو بڑا دل مارنا پڑتا ہے۔ کون رکھے گا اپنے دل پہ صبر اور استقامت کا بوجھ۔
ReplyDeleteپیٹ کی بھوک ہوگی چار سو تو چھین کر لانے کیلئے نئی غیرت اور نئے اخلاقیات آئینگے نا ۔ جن اخلاقیات کی گنجائش ہے وہ تو آ ہی رہے ہیں ۔
ReplyDeleteہائیں۔۔۔۔
ReplyDeleteیہ اتنی خاموشی کیوں ہے جی؟ فائرنگ کی آواز نہیں آرہی۔ مخالف پارٹی کہاں ہے؟
لگتا ہے کہ یار لوگ سرسید کہانی سے عاجز آچکے ہیں۔
یا پھر۔۔۔
استانی جی سے عاجز آچکے ہیں۔
چلو چنگا ہے۔ میں کلا بیٹھ کر سرسید کورس کروں گا۔