Showing posts with label کیکڑے. Show all posts
Showing posts with label کیکڑے. Show all posts

Saturday, March 19, 2011

ساحل کےساتھ-۸

 گذشتہ سے پیوستہ

اگلے دن کے لئے میں نے صاحب سے درخواست کی کہ مشعل کو تیراکی کے لئے سمندر میں لے جانے کا وقت نکالیں۔ تاکہ انکے اس سوال سے نجات ملے کہ سوئمنگ کب کریں گے اور ہمارا ان سے کیا گیا وعدہ بھی پورا ہو۔ ہم کوئ اہل سیاست تو نہیں کہ ہمارے وعدے قرآن حدیث نہ قرار پائیں۔ تس پہ انہوں نے ایک خالصتاً سیاسی بیان دیا۔  ابھی تو جا رہا ہوں دوپہر کے کھانے تک واپسی ہوگی۔ تب دیکھیں گے۔
:)
  اس سطر سے وہ قاری تو واپس ہونگے جو صرف غیر سیاسی تحاریر پڑھنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا کروں، سیاست کی تعریف بھی کچھ ایسی اوکھی ہی سی ہے۔ چاہے تو کھانے کی ترکیب سے بھی جھانکنے لگے۔
:)
ہم دونوں ماں بیٹی جب اپنے کاموں سے فارغ ہوئے تو پلان کیا کہ گھر کے سامنے ساحل کا چکر لگا کر آتے ہیں۔  صبح  لو ٹائڈ ہو چکی تھی۔ اور اب پانی آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ ہم نے ساحل کے ایک طرف پڑے پتھروں میں جھانک تانک شروع کی۔  اور ساحل پہ منہ بند  اور منہ کھلی سیپیوں کا معائنہ۔  لیجیئے منہ بند سیپیوں پہ ایک شعر یاد آگیا۔
بھیجی ہیں اس نے پھولوں میں منہ بند سیپیاں
انکار بھی عجب ہے، بلاوا بھی ہے عجب
مجھے خیال آ رہا تھا کہ ساحل پہ موجود مقامی لوگ بھی سوچتے ہونگے کہ یہ خاتون اور یہ چھوٹی سی بچی پتھروں میں گھسی کیا کرتی رہتی ہیں اور ان پتھروں کی تصویریں بھی بناتی ہیں۔  کیوں؟


ساحل پہ مقامی لوگ اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ رات شکار کے لئے گئ کشتیاں اب واپس آرہی تھیں۔ ان سے مچھلیاں اتار کر ساحل تک پہنچائ جارہی تھی۔ کشتیوں سے یہ مچھلیاں عام طور پہ گدھا گاڑی میں اتاری جاتی ہیں جس کے لئے گدھا گاڑی کو سمندر کے اندر جانا پڑتا ہے۔ اب جو یہاں جیٹی بن رہی ہے تو اسکے مکمل ہونے کے بعد ان گدھا گاڑیوں کی ضرورت  نہیں رہے گی۔ گدھوں کی فطرت کا اندازہ ہے کہ  گدھے تو اس بارے میں سوچیں گے نہیں۔ ہم ہی سوچتے ہیں کہ  گدھے کیا کریں گے؟


ایک طرف کچھ لوگ ایک جال کی مرمت میں لگے تھے، کچھ کشتیوں کے بیرونی پیندے کی رگڑ کر صفائ ہو رہی تھی۔  بچے کھیل رہے تھے۔ گرمیاں ہوتی تو یہ بچے سمندر میں تیراکی کے کمالات دکھاتے۔ اسکے لئے انہیں کسی تربیت کی ضرورت نہیں۔ مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے۔ موسم ٹھنڈا ہو چلا تھا۔ آسمان پہ بادل آگئے تھے میں نے سوچا آج بھی مشعل کا تیراکی کا پروگرام نہیں ہو سکے گا۔ پانی ٹھنڈا ہے۔
بچوں کے تخیل کی پرواز کی حد نہیں ہوتی،  خاص طور پہ بات اگر کھیل کی ہو تو ایجاد تمنا کی منزل سر نگوں ہونے میں کیا دیر لگتی ہے۔
کنچے کھیلنا زیادہ دلچسپ ہوتا ہے یا انہیں دیکھنا

ساحل پہ کھیلنے والے بچے ہمارے نزدیک آگئے۔ تب میں نے دیکھا کہ ان میں سے دو کے پاس کیکڑے کے بچے ہیں۔ جو یہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔

لوٹائڈ میں جب سمندر اپنے اندر موجود چٹانوں کو بے پردہ کر دیتا ہے تویہ چٹانوں پہ  آرام کرتے نظرآتے ہیں۔ ساحل پہ  کیکڑے اتنی تیزی سے کھدائ کرتے ہیں اور ریت کی ڈھیریاں بنا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ بعض ساحلوں پہ اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ ساحل ریت کی ان ڈھیریوں سے اور انکے درمیان بنی باریک لکیروں سے ڈھک جاتا ہے۔


دونوں بچوں نے اپنی انگلیوں میں ان کیکڑوں کو پکڑا اور مجھے کیکڑوں کی لڑائ دکھائ۔ لڑائ کیا تھی انکے بازو ایکدوسرے میں پھنس گئے تھے۔ پھر فرمائشی پروگرام پہ میں نے اس لڑائ کی تصویریں بنائیں۔

ایک دوسرے میں الجھے ہوئے کیکڑے اب حرکت کرنے سے معذور ہیں۔ یہ منظر کس کی یاد دلاتا ہے؟
اس ویڈیو میں بھی کیکڑوں کی ایک لڑائ ہے۔


بچوں کے ساتھ ہم نے ساحل پہ ریس لگائ پھر گیلی ریت پہ دائرے بنانے کی کوشش کی۔ جو خاصی کامیاب رہی۔ مقامی بچوں کو بھی یہ کھیل پسند آیا۔ سو ان تمام اٹھکھیلیوں کے بعد  بچوں کے انٹرویو کی باری آئ۔ یہ بچے بہت ٹوٹی پھوٹی اردو بول سکتے تھے۔ کچھ بچے اسکول بھی جاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک پہلی اور دوسرا تیسری میں پڑھتا تھا۔ پہلی والا بچہ بارہ تک گنتی پڑھ سکتا تھا اور تیسری والا اٹھارہ تک۔ بہت بڑا فرق ہے مگر کہاں؟
تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے ایک بچے سے پوچھا۔ میرا نام جیوا ہے۔ دوسرے بچے نے کہا جیوا اسکا نقلی نام ہے اصلی نام ہےمراد۔ اچھا اسکا نام تو تم نے مجھے بتا دیا۔ تمہارا نام کیا ہے۔ میرا نام اسامہ ہے۔ اس نے اسکے ساتھ ایک قلابازی کھائ۔ اور تمہارا نقلی نام کیا ہے؟ مجھے ذرا دلچسپی محسوس ہوئ۔ میرا نقلی نام ہے مشرف۔  وہ منہ کھول کے ہنسا۔ جس میں کچھ دانتوں کی جگہ خالی تھی اور کچھ نئے دانت جھانک رہے تھے۔ میں بھی دل کھول کے ہنسی۔ قسمت کی ستم ظریفی یا لوگوں کا حس مزاح؟
اسامہ عرف مشرف اپنے کیکڑے کے ساتھ


دیکھی نہیں ہے تونے کبھی زندگی کی لہر،،اچھا تو جا عدم کی صراحی اٹھا کے لا
 ہم گھر واپس آئے۔ حسب توقع مشعل کا سوئمنگ پروگرام کینسل ہو گیا۔ کھانے کے بعد تھوڑی دیر چھت پہ ہلکی دھوپ اور خوبصورت ویو سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ دوپہر ڈھلنے کا وقت آیا تو میں نے سوچا کہ سویوں کے پیکٹ ویسے ہی رکھے ہیں۔ ابھی پکا کر کچھ محلے میں بھجوا دیتی ہوں کچھ ہم شام کی چائے پہ کھا لیتے ہیں۔ رات کو مشعل کے سونے کے بعد سامان باندھنا شروع کریں گے۔ اگلی صبح ہمیں روانہ ہونا تھا۔
ابھی میں سویاں بھون ہی رہی تھی کہ پڑوسی بلوچ آگئے۔ یہ لوگ باتیں کر رہے تھے۔ اور میں انکی باتیں سن رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گوادر میں کل سے دو دن کی ہڑتال ہے۔ 
کیوں؟ تین مہینے پہلے دو لوگوں کو گوادر سےایجنیسی والوں نے اٹھایا تھا اور آج انکی لاشیں ملی ہیں۔ لوگ غصے میں ہیں۔
ایجنسی والوں نے کیوں اٹھایا؟ اٹھائے جانے سے ہفتہ بھر پہلے مرنے والوں نے گوادر میں ایک جلسے میں تقریریں کی تھیں۔
تقریروں میں کیا کہا؟ وہی باتیں جو قوم کو جوش میں دلانے کے لئے کی جاتی ہیں۔ احساس دلانے کے لئے کہ انکے ساتھ کیا زیادتی ہوتی ہے۔
مرنے والے گوادر سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں جب بھی ہنگامہ ہوتا ہے باہر سے لوگ آکر کرتے ہیں ہم تو مچھیرے ہیں ہم تو خود ان سے عاجز ہے۔ پہلے ہمارے علاقے میں بالکل کوئ ہنگامہ نہیں ہوتا تھا۔ اب یہ باہر والا آکر سب بند کرا دیتا ہے۔ روز ہڑتال، روز سب بند۔ ہم کہاں سے کھائے گا۔
یہ باہر کے لوگ کون ہیں؟ یہ بھی بلوچی ہیں مگر ان کا تعلق اوپر کے علاقے سے ہے۔ 
ابھی چند مہینے پہلے ایک مہاجر لڑکے کو گولی مارا۔ وہ بچپن سے یہاں رہ رہا تھا۔  بلوچی سیٹھ کو اپنا ابو کہتا تھا۔ ادھر لوگوں نے اسکو بڑا سمجھایا کہ واپس جاءو ابھی حالات صحیح نہیں ہے۔ جب صحیح ہو تو واپس آنا۔ مگر بڑا اڑیل، کہنے لگا بس یہیں رہے گا۔  اب یہاں سے مر کر جائے گا۔ مہروں میں گولی لگی۔ وہ بلوچی سیٹھ اسے لے کر کراچی گیا۔ بچ گیا پر اب معذور ہے۔ بستر سے اٹھ نہیں سکتا۔ اس کا بڑا افسوس ہوتا ہے۔

کب تم بھٹکے، کیوں تم بھٹکے، کس کس کو سمجھاءوگے
اتنی دور تو آ پہنچے ہو اور کہاں تک جاءوگے

جاری ہے