Showing posts with label لے پالک بچے. Show all posts
Showing posts with label لے پالک بچے. Show all posts

Friday, January 22, 2010

لے پالک بچے

ان لوگوں سے پیشگی معذرت جنہیں سماجی، سیاسی اور خواتین کے حقوق سے متعلق پڑھنے سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ آپ لوگوں کے لئے میں نے ایک پیاری سی غزل نکال کر رکھی ہے۔ لیکن اس

پوسٹ کے بعد۔

 مستنصر صاحب اردو کے ایک بہت پیارے ادیب ہیں۔ انہوں نے کسی جگہ اپنے ایک دوست کے بارے میں تحریر فرمایا کہ اس نے ایک جواب مضمون یاد کیا ہوا تھا جسکا عنوان تھا۔ میرا بہترین دوست۔  اور وہ کچھ اس طرح سے تھا۔ میرا دوست غلام رسول ہے۔ وہ میرا ہم جماعت ہے۔ وہ بہت صاف ستھرا رہتا ہے اور اسی طرح کی مزید خوبیاں۔ امتحان میں سوال آیا ہوائ جہاز کے سفر پہ مضمون لکھیں۔ انہوں نے لکھا۔ میں اپنے ابا کے ساتھ ائیر پورٹ گیا۔ ہمیں لاہور جانا تھا۔ ہم جہاز میں بیٹھ گئے۔ جہاز کی کھڑکی سے میری نظر باہر پڑی تو مجھے اپنا بہترین دوست غلام رسول نظر آیا۔ وہ میرا بہترین دوست ہے۔ وہ میرا ہم جماعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو جناب بات اس حد سے نکل ہی نہیں پاتی کہ آپ بہت مغرور ہیں، 'بہت پڑھی لکھی' ہیں اور آپ تو یہ اور آپ تو وہ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بات کی جا رہی ہوتی پاکستانی معاشرے میں خواتین کا ممکنہ کردار لیکن تبصرہ کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے۔ آپ پنجابیوں کیخلاف ہیں، آپ مردوں سے نفرت کرتی ہیں آپ کبر و غرور کا شکار ہیں اور اسکے بعد ایسے مذہبی ھوالے جنکا میری لکھی گئ تقریر کے متن سے کوئ تعلق نہیں۔ البتہ اس چیز سے تعلق ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے دلی جذبات ان سب چیزوں کی آڑ میں پہنچائے کہ نہیں۔ یہ دوسرا تبصرہ حاضر ہے۔ میں، بہت پڑھی لکھی اور کبر سے بھرپور ایک عورت ان لاوارث بچوں کے بارے میں لکھتی ہوں جو کہ ہمارے معاشرے میں لاوارث چھوڑ دئیے جاتے ہیں ہمیشہ کے لئے۔ لیکن بات کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ آپ بہت پڑھی لکھی، درپردہ آپ جیسی جاہل بھی کوئ ہے، نے یہ تبصرہ فرمایا اور اب اسکے بعد وہ اسلامی حوالے جنکا اس موضوع سے کوئ تعلق نہیں جسے میں نے بیان کیا۔ اور مزید مجھ جیسے کافر کے لئے قرآن سے ہدایات کہ غرور نہ کرو اور یہ نہ کرو اور وہ نہ کرو۔ انسان کسی بھی عمر کا ہو اسے اپنے دامن میں بھی جھانکنا چاہئیے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ میرے بلاگ پہ میری نسل کا شجرہ نہیں، میرے خاندان کا حوالہ نہیں، میری تعلیم کا قصہ نہیں اور آپ یہ سب نمائشی اشیاء رکھتے ہیں۔ مگر آپ مغرور نہیں بہت خوب۔
اس پیغام کے ساتھ کہ دنیا بھر میں ہر انسان سب سے بہتر طور پہ اپنے آپکو جانتا ہے۔ان سب لوگوں کو انکی حالتوں پہ چھوڑتے ہوئے۔ میں اپنے مستقل قارئین سے صرف ایک سوال کرنا چاہتی ہوں اور سوال یہ ہے کہ وہ بچے جو کوڑے کے ڈھیر پہ ہمیشہ کے لئے پھینک دئیے جاتے ہیں۔ اس بات کی پرواہ کئیے بغیر کہ وہ بچیں گے یا مریں گے۔ انکے والدین کو کوئ نہیں جانتا۔ ایسے بچوں کو آپ اپنے گھر میں اس لئیے نہیں رکھیں گے کہ بڑے ہونے پہ انکے ساتھ محرم اور نا محرم کا چکر کھڑا ہوگا۔ انکو آپ اپنے گھر میں اس لئیے نہیں رکھیں گے کہ باپ کے خانے میں اگر آپکا نام لکھا گیا تو یہ غیر اسلامی ہوگا ۔ تو ان سارے غیر اسلامی عوامل سے بچنے کے لئے میری جیسی کم علم اور بد تمیز خاتون آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہے کہ ان بچوں کا کیا جائے کہ بڑے ہونے پہ انکا انسانی قدروں پہ یقین بھی برقرار رہے، انہیں اپنے آپ کو حقیر سمجھنے کی اذیت سے نہ گذرنا پڑے کہ انکا اس میں  کچھ قصور نہ تھآ، اور وہ با وقار رہتے ہوئے تمام ذہنی سکون کے ساتھ  بحیثیت انسان اپنی صلاحیتوں سے انسانی معاشرے کو مثبت طور پہ فائدہ پہنچا سکیں۔ میرا سوال بالکل واضح ہے۔
 اگر آپ میرے بلاگ کے مستقل قاری ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ کسی بھی طور اس معاشرے میں بہتر سوچ کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں تو یہ آپ پر میرا پہلا حق ہے جو میں کسی لاوارث بچے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہوں۔ آپ سب سے درخواست ہے کہ صرف اس سوال کا آپ جو مناسب جواب سمجھتے ہوں وہ دیں۔ براہ مہربانی اسے پڑھ کر یونہی مت چھوڑ دیجئیے گا۔
سمجھ لیجئیے کہ آپکے جواب سے ایک ایسے لاوارث بچے کی زندگی جڑی ہے جسکی اس پوری دنیا میں۔ کوئ شناخت نہیں۔میرا مقصد صرف ہہی ہے کہ اس مسئلے کے ممکنہ حل معلوم کئیے جا سکیں۔


حوالہ؛