Showing posts with label ٹونک. Show all posts
Showing posts with label ٹونک. Show all posts

Tuesday, January 11, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات-۳


جدہ میں؛
 جس طریقے سے مسافروں کے سامان کی جانچ پڑتال کی گئ وہ ذلت آمیز اور شرمناک تھا۔ سرکاری ملازم لوہے کی سلاخیں ہاتھوں میں لئیے گھومتے تھے اور ہر مقفل صندوق کو توڑ ڈالتے تھے۔ ہر بنڈل کی جانچ کرتے اور سامان پر من مانا محصول لگاتے۔ بعض صورتوں میں تو کُل کا کُل سامان نکال پھینکا۔ اگر ایک ہی قسم کی دس چیزیں تھی تو ان میں سے ایک خود لے لی اور باقی واپس کر دیں۔ اگر مختلف چیزیں ہوتیں تو ہر چیز پر ایک خاص رقم دینی پڑتی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان  کے پاس محصول لگانے کا کوئ قاعدہ قانون نہ تھا بلکہ بلا تفریق لوٹ مار کا اندھا دھند نظام تھا۔ بھڑک دار ، خوشنما اور گہرے رنگ کی چیزوں پر بھاری محصول لگاتے۔ اپنی جہالت کی وجہ سے جو چیز ظاہر میں زیادہ خوش نما ہوتی اسے زیادہ قیمتی سمجھتے۔ صندوقوں اور پلندوں کی چیزوں کو الٹ پلٹ کے کے ادھر ادھر پھینک دیتے۔ یہ کام اتنی بری طرح کرتے کہ لوگوں کو غصہ آجاتا۔ سامان کو قرینے سے لگا کر دوبارہ باندھنے اور بند کرنے میں کافی وقت لگتا اور خاصی محنت کرنی پڑتی۔

شریف مکہ نے دس اچھی طرح مسلح شتر سوار ہمارے خرچ پر عنایت فرمائے۔ نائب الشریف کے بھی چار پانچ قوی الجثہ اور مضبوط غلام ساتھ تھے۔ نواب صاحب کے ملازموں میں سے بہت سوں کے پاس ہتھیار تھے۔ چونکہ ہمارے قافلہ کی شہرت عام ہو گئ تھی اس لئے اور بھی کچھ آدمی جو مدینہ جانا چایتے تھے شریک قافلہ ہو گئے۔ ان میں تین ایسی حیثیت کے آدمی تھے کہ ہر ایک کو دس سواروں کا حفاظتی دستہ شریف مکہ نے دیا تھا۔ اس طرح انہوں نے تیس خوب مسلح اور اچھے شتر سوار عنایت فرمائے۔ اب ہماری ایک مضبوط جماعت ہو گئ جو لٹیروں کا اچھی طرح مقابلہ کر سکتی تھی۔
شریف محسن نے یہ نائب الشریف کا نام ہے، جو ہماری  حفاظت کے ذمے دار تھے، مندرجہ بالا تدابیر کے علاوہ حفاظت کے ایک اور ذریعے سے، جو اتفاق سے راستہ میں مل گیا تھا فائدہ اٹھانا مناسب سمجھا۔
اس وقت مکہ میں ایک شخص تھا جس کا لقب 'شیخ الحرامی' تھا اور وہ ڈاکوءوں اور چوروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ شخص لٹیرے قبائل کے شریر ترین قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور اسکا اثر اتنا زیادہ ہے کہ قافلہ میں محض اسکی موجودگی ، حملے سے حفاظت کی ضامن ہوگی۔ یہ عمر رسیدہ آدمی تھا اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنے تھا۔ اسکی شرکت قافلے کی حفاظت کے ذریعوں میں ایک اہم اضافہ تھا

مجھے اس بات کابڑا احساس ہے کہ بدو لٹیروں کے قبائل ، عرب کے لئے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان انکی وحشیانہ عادات کو دبانے اور انکو صحیح راہ پہ لانے کے لئے کوئ قدم نہیں اٹھائیں گے۔ کیونکہ انہیں قابل احترام خیال کیا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک مختصر سی مسلح فوج بلا کسی دقت کے انکو ٹھیک کر سکتی ہے۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ ملک کے تجارتی اور زراعتی وسائل کو ان پر اور سلطان کے عقیدت مندانہ مذہبی جذبے پر قربان کیا جا رہا ہے۔ اگر ان قبائل کو زندگی کا صحیح راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جائے تو ملک کے تجارتی اور زرعی مرکز بن جانے میں کوئ رکاوٹ نہ ہو جس سے عام طور پر ساری دنیا کو اور خاص طور سے اس ملک کی اچھی اور امن پسند رعایا کو بہت فائدے پہنچیں۔

Monday, January 10, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات-۲


اگلے دن دوپہر کو نائب الشریف، دس بہت بد شکل، بد ہیئت آدمی جنکی صورت پر بدمعاشی ٹپکتی تھی میرے پاس لائے۔ یہ آدمی پرانے کمبل یا پرانے قالین کے ٹکروں کے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے تھا۔ انکے پاس توڑے دار بندوقیں اور خنجر تھے۔ اس اس ہیئت میں خطرناک غنڈے معلوم ہوتے تھے۔ مجھے انکے لٹیرے ہونے میں ذرا شک نہ تھا۔ میں سمجھا کہ نائب الشریف نے انہیں واردات کرتے ہوئے پکڑا ہے اور ہمیں دکھانے کے لئے لائے ہیں۔ میں نے ان سے اپنے شبہے کی تصدیق چاہی، انہوں نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ میرا شبہ غلط ہے یہ لٹیرے نہیں اسکے بر عکس اونچی حیثیت کے آدمی ہیں۔

میں نے ان سے پھر پوچھا کہ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کے سب لٹیرے اور خونی نہیں ہیں؟ تو انہوں نے خدا اور رسول کی قسم کھا کر کہا کہ میرا شبہ غلط ہے، یہ وہ حفاظتی دستہ ہے جسے محترم شریف مکہ نے بھیجا ہے۔ انکو حکم ہے کہ آپ کی ہر طرح کی خدمت انجام دیں۔ یہ ابھی مکہ سے آئے ہیں اور اونتوں کے چارے کے لئے دام مانگتے ہیں

مجھے اپنی غلطی پہ تعجب ہوا ، انکی ڈاکوءوں ایسی ہیئت پر۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے بہت سے ساتھی انہیں ڈاکو سمجھ کر گھبرا گئے۔

مکے سے مدینہ جاتے ہوئے؛
کبھی کبھی ریگستان کے نیم وحشی، ننگی پہاڑیوں پہ کھڑے یا گھومتے نظر آجاتے۔ مجھے تعجب ہوتا تھا کہ ایسے ملک میں جہاں پتھروں اور ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ لوگ اپنے نیم سیر اونٹوں اور بھیڑوں کے لئے چارہ کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ریگستان کے یہ سپوت ان سر سبز مقامات کو جانتے ہیں جہاں انکے جانوروں کے لئے تازہ پانی اور ہریالی مل سکتی ہے۔ کبھی یہ بد نصیب پڑاءو اٹھ جانے کے بعد آتے اور جو بچی کھچی چیزیں ہم پھینک دیتے انہیں بین لیتے، خواہ حلال کئے ہوئے جانوروں کے فضلات ہوتے یا ہڈیاں اور چھیچھڑے یا روٹی اور سبزی کے ٹکڑے۔ میں نے دیکھا کہ جو کچھ ملتا اسے اٹھا لیتے اور ایسے شوق سے کھاتے کہ معلوم ہوتا کہ مہینوں سے انکے منہ میں کوئ چیز نہیں گئ۔ حقیقت میں یہ ریگستان کے مہتر تھے اور وہی کام کرتے جو گدھ مردہ جانوروں کو کھا کر کرتے ہیں۔

گھٹنوں تک لنگوٹی کے سوا انکے جسم پہ کوئ کپڑا نہ ہوتا، عورتیں بھی یہی پہنتی تھیں البتہ اسکے علاوہ سینے کو سہارا دینے کے لئےایک دوسرا چیتھڑا سینہ پر بھی باندھ لیتیں۔ یہ دھجّی اسی کام کے لئے باندھی جاتی تھی۔ انکے لباس کا جُز نہ تھی۔ انکے سر کے بال گرد میں اٹے اور الجھے ہوئے ہونگے۔ ایسے بال بجائے آرائیش اور سنگھار کے انکے لئے وبال ہوتے ہونگے۔ انکو سر پر جمائے رکھنے کے لئے کیچڑ تھوپ لیتیں یا کپڑے کی دھجّی سے باندھ لیتیں۔ یہ دھجّی کہاں اور کس طرح حاصل کرتیں یہ نہیں بتایا جا سکتا۔

یہ نیم وحشی جو اس خوفناک ملک کے ریگستانی علاقے میں آباد ہیں،حبشی نسل کے معلوم ہوتے ہیں۔ جو کسی طرح عرب میں آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ انکی زبان بدءووں سے مختلف ہے۔ بدو خالص عربی بولتے ہیں اور نسبتاً ان سے زیادہ شریف ، خوش رو اور صاف رنگ کے ہیں۔

Sunday, January 9, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات

ایک سو اڑتیس سالہ پرانی کتاب کا ایک اردو ترجمہ ہاتھ لگا۔  ایک سو اٹھاَئیس صفحات پہ مبنی  بالشت بھر کی اس کتاب کا انگریزی نام ہے۔
Pilgrimage to the Caaba  and Charing Cross

اسکا نام اردو میں روداد سفر حج اور زیارت لندن رکھا گیا ہے۔ یہ کتاب انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہوئ۔ کتاب کے مصنف حافظ احمد احسن صاحب ہیں اور اسکا اردو ترجمہ جناب مصطفی علی مارہروی نے کیا۔ کتاب کی اشاعت لندن کی ڈبلیو ایچ ایلن اینڈ کمپنی نے کی۔اردو ترجمہ، ورثہ والوں نے شائع کیا ہے۔
 مصنف ٹونک ریاست کے نواب کے معتمد و معاون تھے۔ قتل کے ایک مقد مے میں پھنسا کر نواب صاحب کو ریاست کی حکمرانی سے محروم کیا گیا۔ جلا وطن ہوئے۔ بعد ازاں انگریز حکومت سے اجازت حاصل کر کے حج کے سفر پہ روانہ ہوئے۔ نواب صاحب تو وطن لوٹ آئے لیکن مصنف حج کے بعد لندن  کے لئے روانہ ہوئے۔ تاکہ اپنے نواب صاحب پہ ہونےوالے ظلم کے خلاف توجہ انگریز حکومت کوتوجہ دلا سکیں۔ کتاب کاشروع کا حصہ اس سازش کے متعلق ہے جس کے ذریعے نواب صاحب کو ریاست سے محروم کیا گیا۔ مقدموں میں پھنسانا اور قانون سے اپنی مرضی کے فوائد حاصل کرنا، طاقت کے کھیل میں ایسی سازشیں ہمیشہ بروئے کاررہی ہیں۔
اٹھارہ سو ستّتر میں یہ سفراختیار کیا گیا۔ کتاب میں سے کچھ دلچسپ اقتباسات حاضر ہیں۔

سمندر کے عجائبات کا حال کانوں میں پڑا ہوا تھا۔ میرے دل و دماغ ان سے اتنے متائثر ہو چکے تھے کہ باوجود اپنی تکلیف کے جنکا نقشہ کھینچنے کی کوشش بے کار ہے۔ میں مسلسل اپنے چاروں طرف دیکھتا رہا کہ شاید سمندر کے دیوزاد اور عجیب و غریب شکل و صورت کی چیزیں نظر آجائیں۔ مجھے یقین دلایا گیا تھا کہ سمندر ایسی چیزوں سے آباد ہیں۔ مگر مجھے پردار مچھلیوں کے علاوہ کوئ عجیب چیز نظر نہیں آئ۔ یہ مچھلیاں اسی عرض البلد میں پائ جاتی ہیں اور ٹکریاں بنا کر سمندر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑتی دکھائ دیتی ہیں۔ انکی پرواز عام طور پہ سے بیس فٹ کے قریب ہوتی ہے۔ میں نے  ایک ایسی زندہ چیز بھی دیکھی جو سمندر میںپورے کھلے ہوئے گلاب کے پھول کی مانند ہوتی ہے۔ مگر جب نکالی گئ تو سفید رنگ کی نیم شفاف گودے دار چیز تھی۔ 

فوج ایک ترک افسر کے زیر کمان ہے جو مکہ کا پاشا کہلاتا ہے۔ انتظامی اور عدالتی امور شریف مکہ کے ہاتھ میں ہیں۔ شریف، سلطان ترکی کے مقرر کردہ مکہ کے والی اور حاکم ہیں۔ ان کا نام عبداللہ ہے۔ انتہائ مہذب، شائیستہ اور وجیہہ آدمی ہیں۔ عرب کے تمام بدو انکا احترام کرتے ہیں۔ اور انکے حکم کے سامنے سر جھکاتے ہیں اپنا سردار اور مذہبی پیشوا سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو عرب کا والی کہا جا سکتا ہے۔
مکہ کو پانی ایک نہر سے ملتا ہے۔ یہ نہر بغداد کے مشہور خلیفہ ہارون رشید کی بیوی زبیدہ نے بنوائ تھی۔ انہی کے نام موسوم ہے۔ یہاں کے آدمی ریشمی اور اونی بھڑکدار کپڑے پہننے کے شوقین ہیں۔ کپڑا فرانس اور انگلستان  سے آتا ہے۔ مگر یہاں کے نا واقف لوگ قسطنطنیہ کا سمجھتے ہیں۔ کپڑے پر ملک اور کارخانہ کے نام کے باوجود انہیں یقین نہیں آتا کہ دوسرے ملکوں کا بنا ہوا ہے۔
اور قارئین اسکے ساتھ ہی لائیٹ چلی گئ۔ باقی اقتباسات بعد میں۔

جاری ہے۔