Showing posts with label رشین سینٹر آف سائینس اینڈ کلچر. Show all posts
Showing posts with label رشین سینٹر آف سائینس اینڈ کلچر. Show all posts

Sunday, July 18, 2010

ایک شام

 ٹریفک جام دنیا کے اکثر بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ لیکن کراچی کا ٹریفک جام  کا مرکز اگر معلوم کریں تو وہاں کئ گاڑیاں غلط سمت سے آ کر ایکدوسرے کے سامنے کھڑی ہونگیں، یوں کسی کے بچ نکلنے کا رستہ نہیں رہتا۔  ہمیں رشین سینٹر آف سائینس اینڈ کلچر پہنچنا تھا جو کہ عرف عام میں فرینڈ شپ ہاءوس کہلاتا ہے۔ وہاں ایک موسیقی کے پروگرام کی دعوت تھی۔ اس پروگرام کی دو خصوصیات تھیں۔ ایک تو اس میں روسی لوک موسیقی کوطبلے کے ساتھ مدغم کر کے پیش کیا جا رہا تھا۔ اور دوسرے طبلہ بجانے کا کام ایک خاتون انجام دے رہی تھیں۔
لیکن ہفتے کے دن کراچی میں ٹریفک کا رش معمول سے زیادہ ہوتا ہے کہ اسی دن شوہروں کی بڑی تعداد بیگمات کے ہاتھ لگتی ہے یوں شاپنگ سے لے کر رشتے داروں کے یہاں ہفتے وار چکر کے لئے ایک موقع نکل آتا ہے۔ دوسرا اگلا دن چونکہ چھٹی کا ہوتا ہے اس لئے شادی کی تقریبات کے لئے خاصہ آسان قرار پاتا ہے۔ لیکن کراچی کی سڑکوں پہ ہفتے کی شام خاصی بھاری گذرتی ہے۔ یوں شہر کی مختلف سڑکوں پہ ٹریفک جام کو برداشت کرتے ہوئے طارق روڈ کی ایک جانبی سڑک پہ بیس منٹ سگنل پہ اپنی باری کا انتظار کرنے کے بعد جب ہم دوسری طرف کی جانبی سڑک میں داخل ہوئے تو آدھی سڑک کھدی ہوئ تھی اور مٹی کے پہاڑ کو عین درمیان میں انتہائ سلیقے سے  جما کر مہم جو ڈرائیورز کوایک چیلینج دیا گیا تھا کہ گذرو تو جانیں۔ ہمارے ڈرائیور نامدار یہاں اگر آپ انہیں ہمارے شوہر نامدار سمجھیں تو بالکل صحیح ہونگے انہوں نے بھی اسے قبول کیا کہ ازل سے بس گئ ہے مہم جوئ میری فطرت میں۔ لیکن مرفی کا قانون اس قبولیت کا منتظر تھا۔ جیسے ہی جناب نے احتیاط سے اس پہاڑ کے ایک طرف چلنا شروع کیا دوسری طرف موجود پیپل کے درخت کی لٹکتی جڑوں نے گاڑی کی چھت سے کہا، کہاں میاں، ہم بھی تو کھڑے ہیں راہوں میں۔ ہماری اونچی گاڑی نےان سے شکست کھائ۔  قریب میں ایک گلی نظر آئ۔ پیچھے جا نہیں سکتے تھے کہ مزید گاڑیاں اس چیلیج کا سامنا کرنے کے لئے لائن بنائے کھڑی تھیں۔ اس گلی میں مڑ گئے۔ اب یہاں دو گاڑیاں آرام سے گذرنے کی جگہ تھی۔ لیکن کسی نے لوگوں کے صبر و قرار کا امتحان لینے کے لئے ایک گاڑی کو کچھ اس طرح ترچھے انداز میں کھڑاکیا گیا تھا کہ اگلی گاڑی جان کی امان پا کر ہی اسکے قریب سے گذر سکتی تھی۔ نیم اندھیرے میں اس مرحلے سے سرخرو ہوئے تو پتہ چلا کہ بیچ گلی میں مزید دو گاڑیاں اس طرح پارک ہوئ ہیں کہ آگے جانے کا رستہ نہیں رہا۔ کسی کے اس نیک عمل پہ اسے دعائیں دیتے ہوئے گاڑی کو ریورس گیئر میں ڈالا۔ اور ہمارے ڈرائیور نے جنکی خوبیوں میں سے ایک یعنی ڈرائیونگ میں مہارت کی میں ہمیشہ معترف رہی ہوں اس تنگ گلی میں آڑی ترچھی پارک کی ہوئ گاڑیوں کے درمیان ملی میٹرز کا صحیح حساب رکھتے ہوئے گاڑی کو وہاں سے نکال ہی لیا۔
اس ساری تگ ودو کے بعد یہ خیال پیدا ہو چلا تھا کہ اب شاید ہی یہ پروگرام ہمارے لئے بچا ہو۔  کیونکہ ہم تو روڈز پہ پرفارمنس دینے میں مصروف تھے۔ بہر حال مقررہ وقت کے تقریباً پچاس منٹ بعد ہم وہاں پہنچے تو پروگرام جاری تھا۔
روسی الیکسی اپنا گٹار اور پاکستانی لینا احمد اپنا طبلہ سنبھالے ہوئے تھے۔ موسیقی کے ایسے پروگرامز لاِئیو دیکھنا ایک الگ لطف رکھتا ہے۔ ہال میں گنجائش سے زیادہ مہمان موجود تھے۔ 
گٹار کے ساتھ طبلے کی سنگت میں الیکسی  نے روسی شاعری اور موسیقی کا تعارف دیا۔ ہر گیت سے پہلے وہ اسکا ترجمہ اور پس منظر بتاتے جاتے۔ الیکسی خوش آواز بھی ہیں۔ لینا بہت اچھا طبلہ بجاتی ہیں اور انہوں نے الیکسی کی لے میں اپنی لے خوب ملائ۔  یوں مزہ آیا۔


پروگرام کے آخر میں ایک سرپرائز ملا جب استاد دلاور نے پکھاوج پہ اپنی پرفارمنس پیش کی۔ انکے تعارف میں کہا گیا کہ پکھاوج طبلے سے پہلے رائج تھا۔ امیر خسرو نے طبلہ متعارف کروایا اور جلد ہی یہ اتنا رائج ہو گیا کہ پکھاوج متروک ہو گیا۔ میرا یہ پہلا موقع تھا اسے سننے کا۔ اور صحیح بات تو یہ ہے کہ میں اس سے بہت متائثر ہوئ۔ فنکار صاحب ہر پرفارمنس سے پہلے اس سے منسلکہ منظر کھینچ دیتے۔ اور پھر جب تا تھئ کی تال دیتے تو سماں باندھ دیتے۔ اسکی وجہ اس پرفارمنس کا اردو میں ہونا بھی تھا۔