Showing posts with label تشدد. Show all posts
Showing posts with label تشدد. Show all posts

Thursday, September 2, 2010

ایک دن کے بعد

مشعل ، میری بیٹی جب پانچ چھ مہینے کی تھی۔ خاصی گول مٹول ، صحتمند تھی اور جیسا کہ اس عمر کے بچوں کی عادت ہوتی ہے وہ اپنے سے قریب بیٹھے شخص کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑنے کی کوشش میں اسے اتنی زور سے ہاتھ رسید کرتیں کہ اسے چوٹ لگ جانے کا اندیشہ رہتا۔  کچھ ایک اوسط بچے کے مقابلے میں وہ لوگوں سے دوستی کرنے کی اس عمر سے ہی بڑی شوقین تھیں۔ داداجی کو تشویش رہتی۔ تھوڑی بڑی ہوگی تو یہ تو دوسرے بچوں کی پٹائ لگا دے گی۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ مارتی نہیں ہے بس سرگرم زیادہ ہو جاتی ہے۔ اب چلنا پھرنا یا باتیں کرنا تو نہیں آتا اس لئے زور زور سے ہاتھ مارنے لگ جاتی ہے۔ بہر حال، تب سے ہی اسکی تربیت شروع کی گئ۔ کس بات کی؟  ہاتھ اتنے زور سے نہیں چلانا، دوسروں کو نہیں مارنا۔ اسی طرح دن گذر رہے تھے مشعل ڈیڑھ سال کی ہو گئ کہ ایکدن۔۔۔۔۔
ایکدن ایک جاننے والی آگئیں  انکی سب سے چھوٹی بچی مشعل کی ہی عمر کی تھی۔ مشعل نے اسے دیکھ کر انتہائ گرمجوشی کا مظاہرہ کیا۔  میں  نے دیکھا کہ وہ اپنے کھلونوں کے ساتھ اسے کھلا رہی ہیں تو میں اطمینان سے اس بچی کی ماں سے باتیں کرنے لگ گئ۔ لیکن دو منٹ ہی گذرے ہونگے کہ چٹاخ چٹاخ کی آواز آئ ۔ انکی بیٹی نے ایک ہی ہلے میں مشعل کے گال پہ تین تھپڑ عنایت فرما دئیے۔ مشعل روتی دھوتی میرے پاس آگئیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو سمجھایا اور معذرت کرنے لگیں کہ اپنے بڑے بہن بھائیوں کی وجہ سے انکی بیٹی کے اندر یہ جارحانہ رویہ آگیا ہے۔ مشعل اس بچی سے مزید تعلقات بنانے سے انکار کر کے باہر اپنے بابا کے پاس چلی گئیں۔
اسکے بعد اس میں یہ تبدیلی آئ کہ اس عمر کے بچوں سے دور رہتی اور اگر وہ پاس آتے تو وہ اس سے فوراً دور ہٹ جاتی اور شور مچانا شروع کر دیتی کہ یہ میرے پاس آرہا ہے۔ اس روئیے کی اصلاح میں بھی وقت لگا کہ ہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ خوامخواہ کا خوف دل میں پال رکھیں۔
پھر کچھ مہینے پہلے وہ دن آیا کہ انہوں نے اپنی مونٹیسوری شروع کی۔ ایک خوش باش بچے کی طرح انہوں نے اسکول جانا شروع کیا۔ انکی پرنسپل نے تعریف کی کہ آپکی بچی نے بالکل پریشان نہیں کیا ورنہ بچے شروع کے دو تین دن کافی روتے دھوتے ہیں۔ میں نے ذرا فخر کیا کہ اسکول کے لئے ہم نے اسے جذباتی طور پہ تیار کرنا شروع کر دیا تھا اس لئے یہ مسئلہ نہیں ہوا۔ دس پندرہ دن آرام سے گذر گئے کہ ایکدن ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایکدن مشعل نے اسکول جانے سے انکار کر دیا۔ اس دن انہیں سمجھا بجھا کر لے جایا گیا کہ اسکول جانے سے انکار نہیں کرنا چاہئیے۔ خیال ہوا کہ شاید اکتاہٹ کا شکار ہو گئ ہیں۔ اگلے دن انہوں نے رونا دھونا شروع کر دیا تھا۔ اب انکے تحت الشعور کو جھانکنے کی کوشش شروع ہوئ۔  معلوم ہوا کہ اسکول میں ایک نوید نامی بچہ ہے جو مار پیٹ کرتا ہے اور دھکا دیتا ہے۔ میں نے سمجھایا کہ اب اگر وہ ایسا کرے تو ٹیچر سے شکایت کر دینا۔ اگلے دن پھر وہی انکار اور تکرار۔ لامحالہ مجھے پرنسپل سے ملنا پڑا۔ 
پتہ چلا کہ اور والدین بھی اس قسم کی شکایت کر چکے ہیں۔ پھر وہ صفائ دینے لگیں کہ وہ بچہ ذرا شرارتی زیادہ ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ بچوں میں مار پیٹ کا عنصر زیادہ ہونا شرارتی کی تعریف میں نہیں آتا۔ اس بچے کو اسکے والدین کے بے جا لاڈ پیار نے خراب کیا ہوا ہے آپ ان سے بات کریں کہ وہ اسے درست کرنے کے لئے عملی قدم اٹھائیں۔ ورنہ مشعل تو محض اسکی وجہ سے اسکول آنے سے انکار کر چکی ہے۔ بچے مار پیٹ کرتے ہیں خاص طور پہ لڑکے اور والدین انکی پشت پناہی کرتے ہیں یہ کہہ کر کہ کیا جاندار ہے ہمارا بچہ۔ چاہے دیگر سرگرمیوں میں انکا بچہ صفر ہو۔ جارحانہ روئیے کو قابل تعریف نہیں سمجھا سکتا۔
انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کریں گی۔ کلاس ٹیچر سے کہیں گی کہ مشعل اور اس بچے کو دور دور رکھا جائے۔  بعد میں مشعل کی باتوں سے مجھے احساس ہوا کہ ٹیچر شاید اسے ٹائم آءوٹ قسم کی سزا دیتی ہیں۔ نوید اسکے لئے ایک آل ٹائم بیڈ گائے ہے۔ ہر برائ  کی علامت۔
ابھی ایک ہفتہ پہلے مشعل نے بتایا کہ اسکی کلاس میں دو نوید ہو گئے ہیں۔ کیا کوئ اورنوید بھی آگیا ہے۔ نہیں ماما، وہ جو سکینہ بی بی ہے ناں وہ بھی نوید ہو گئ ہے۔ کیوں وہ نوید کیوں ہو گئ ہے؟ کیونکہ وہ بھی مارنے لگی ہے، گندی بچی۔
اب روز روز پرنسپل سے اسکی شکایت کیا کی جائے۔ صرف اسکول بچوں کی اصلاح نہیں کر سکتا۔ جبکہ والدین اسے سرے سے کوئ برائ نہ سمجھتے ہوں۔ اس لئے ایکدن۔۔۔۔۔۔
ایکدن، تنگ آ کر میں نے مشعل سے کہا کہ اب اگر کوئ تمہیں ایک تھپڑ مارے تو اسے دو تھپڑ زور سے لگانا۔ اور کہنا کہ جو مجھے مارتا ہے میں ایسے اسکا بھرتہ بنا دیتی ہوں۔ تین سال کی ہو گئ ہو تم سپر گرل ایسے ہی نہیں بنتے۔ انہوں نے انتہائ فرمانبرادری سے سر ہلایا، جسے میں نے انتہائ شک سے دیکھا کہ ایسا شاید نہیں ہوگا۔  لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ  تشدد کے خلاف جنگ بھی تشدد سے ہی لڑنی پڑتی ہے۔
دادا جی  نے خاموشی سے سنا کہ میں نے کیا نصیحت کی ہے۔ اسی روز شام کو میں نے دیکھا کہ وہ مشعل کو اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر دکھا رہے ہیں کہ صحیح سے مکا کیسے بنایا جاتا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔  

Monday, August 23, 2010

تشدد اور چند سوال

میں اب تک اس ویڈیو کو دیکھنے کی ہمت نہیں مجتمع کر پائ۔ جسکی  مذمت اس وقت ہر کوئ کر رہا ہے۔ شاید میں ایسا کبھی نہیں کر پاءونگی۔ مجھے اپنی اس کمزوری پہ ندامت ہے۔ میں ایک پر تشدد معاشرے کا حصہ تو ہو سکتی ہوں مگر اس سے سرزد ہونے والے ایسے حیوانیت کے مظاہروں کو دیکھنے سے کیوں گریز کرتی ہوں۔ 
اب جبکہ تمام لوگ اس واقعے کی کما حقہ مذمت کر چکے تو ہمیں اس سے اگلے مرحلے میں داخل ہونا چاہئیے۔ اور وہ ہے اسکی وجوہات کا تعین۔ کیونکہ ان دو لڑکوں کی جگہ کل آپ یا میں بھی اس مقام پہ ہو سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے قتل ہونے والوں میں یا ہو سکتا ہے تماشہ دیکھنے والوں میں۔ ایک غلط وقت میں اگر آپ غلط جگہ پہ، غلط لوگوں کے ساتھ  موجود ہوں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہجوم کا پر  تشدد ہونا اپنی نوعیت کا پاکستان میں پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ واقعات ہوئے البتہ انکی ویڈیوز اس طرح سامنے نہیں آ سکیں۔
وجوہات کے جاننے سے قبل ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے اور وہ ہے اپنے آپ سے سوالات۔
یہ مندرجہ ذیل چند سوالات ہیں جو میرے ذہن میں آتے ہیں ہو سکتا ہے آپکے ذہن میں اور مختلف سوالات بھی ہوں۔ تو ان  سوالوں اور انکے جوابوں میں ایکدوسرے کو شریک کرتے ہیں۔
 
کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہئیے یا مذمت کرنے کے چھوڑ دینا چاہئیے؟ 
کیا بد دعائیں لوگوں کو انکے انجام تک پہنچا دیں گی، کیا ان واقعات کا سد باب بد دعاءووں سے کیا جا سکتا ہے؟ کیا بد دعا دینے والے اپنی کم ہمتی کو ظاہر نہیں کرتے؟
کیا یہ واقعات محض معاشرے میں موجود کچھ لوگوں کی پر تشدد فطرت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں یا ہم من حیث القوم ایک اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں؟ ہماری اس اخلاقی تنزلی کا باعث مذہب سے ہماری دوری، یا تعلیم کی کمی یا  ہماری ایک مہذب قوم کے طور پہ تربیت نہ ہونا ہے؟
ہماری مذہب سے ظاہراً گہری وابستگی بھی ہمیں کیوں تشدد سے دور نہیں رکھ پاتی؟
کچھ لوگوں کے خیال میں مذہب سے دوری ، ان واقعات کا باعث ہے۔ تو وہ ممالک جو بالکل سیکولر ہیں وہاں ایسے واقعات کیوں اس تسلسل سے پیش نہیں آتے؟
جب ہم اس چیز پہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ایسے افعال ہمارے اوپر عذاب کا باعث بنتے ہیں تو پھر بھی ہم کیوں انکو کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے؟
کیا کچھ لوگ موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی بالا دستی کے جذبے کو کمزوروں پہ ظلم کر کے تسکین دیتے ہیں اس لئے یہ واقعات ہو پاتے ہیں؟
کیا تشدد پسند فطرت، فیوڈل نظام کی دین ہے؟
کیا ایسا اجتماعی بہیمانہ تشدد، معاشرتی نا انصافیوں کا حصہ ہے؟ تو پھر ہم اسے اپنے اوپر ظلم کرنے والے طاقتور طبقے کے خلاف کیوں استعمال نہیں کرتے؟
کیا تشدد انسانی فطرت ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا اسے سدھار کر کسی مثبت جذبے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟