Showing posts with label پھوکٹ. Show all posts
Showing posts with label پھوکٹ. Show all posts

Friday, July 16, 2010

طاقت

میں بنکاک ایئر پورٹ پہ جب اتری تووہاں سے تھائ لینڈ کے شہر پھوکٹ جانے والی پرواز میں ابھی چار گھنٹے باقی تھے۔ میرے ساتھ ایک پاکستانی دوست فیملی بھی تھی۔ ہم ایئر پورٹ پہ ونڈو شاپنگ کرنے لگے۔ یعنی چیزیں دیکھ  دیکھ کر انکی تصوراتی خریداری سے دل بہلانا۔ چاہے جیب میں دھیلا نہ ہو۔ میرا دل تو دنیا کی بیشتر چیزوں سے اسی طرح بہل کر بھر گیا۔ ہم ٹہلتے ہوئے ایک دوکان میں داخل ہوئے جہاں سچے موتیوں کے زیورات تھے۔ لیکن ہمارے ساتھ موجود خاتون جو میری والدہ کی عمر کی ہونگیں۔ انکی نظریں، سیلز پرسن کے چہرے سے چپک گئیں۔ پھر وہ سرگوشی میں بولیں۔ ائے کیسا ملک ہے۔ یہاں ہیجڑے بھی کام کرتے ہیں۔ انکے لہجے میں ایک کراہیت تھی۔ تو کیا ہوا، اچھی بات ہے کچھ تو کرتے ہیں ہمارے یہاں کی طرح جسم فروشی اور بھیک مانگنے کا کام تو نہیں کرتے۔ یہ دوسرا جملہ میں نے دل میں سوچا۔  بآواز بلند کہتی تو لبرل ہونے کا طعنہ ملتا۔
پھوکٹ میں ایکدن ہمیں اتنا وقت ملا کہ پھوکٹ کے نزدیک واقع پی پی آئلینڈ کا بوٹ ٹرپ لے لیا۔ یہ ٹرپ بہت زیادہ مزے کا تھا۔ لیکن ہماری بڑی خاتون جیسے ہی بوٹ میں داخل ہوئیں ایک دفعہ پھر جھٹکے سے دو چار ہوئیں کہ ٹرپ کا گائڈ یا لیڈر ایک ہیجڑا تھا۔ وہ اسی طرح وقفے وقفے سے ناز ا ادا دکحا کر اور کبھی سنجیدہ ہو کر ہم سب کی توجہ اپنی طرف رکھے رہا۔


جب ہم سب سمندر میں مچھلیوں کو کھانا کھلاتے سینکڑوں مچھلیوں کو اچھلتے کودتے دیکھ رہے تھے ہماری بزرگ خاتون اس گائڈ کے اوپر نظر رکھی بیٹھی رہیں۔ جب ہم سمندر میں آڑی ترچھی اسنارکلنگ  کی کوششیں کر رہے تھے اور مشعل یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ کتنی اچھی تیراک ہیں اپنے دونوں ہاتھوں کو جوڑتیں اور سمندر میں چھلانگ لگانے سے قبل ہم سب کوڈانٹ کر توجہ چاہتیں ہماری بزرگ خاتون  ریتیلے ساحل پہ پڑے ہجوم میں اس گائڈ کو تلاش کر رہی ہوتیں۔ 
حتی کہ پاکستان  واپس آکر بھی انہیں یاد آتا رہا کہ تھائ لینڈ کتنا عجیب ملک ہے وہاں ہیجڑے بھی کام کرتے ہیں۔
چار دن پہلے میں اپنے گھر کے نزدیک لگنے والے بچت بازار گئ۔ یہ ہفتے میں تین دن لگتا ہے اور میں یہاں سے پورے ہفتے کی سبزیاں اور پھل لے لیتی ہوں۔ یہاں افغانی بچے پھرتے رہتے ہیں جنکی عمریں پانچ سال سے لیکر چودہ پندرہ سال تک ہوتی ہیں۔ چھوٹے بچے پلاسٹک کی تھیلیاں بیچتے ہیں اور ذرا بڑے بچے سامان بھی اٹھا لیتے ہیں۔ غربت کی سطح اتنی بڑھ چکی ہے کہ جب میں ان میں سے کسی مناسب عمر کے بچے کوسامان اٹھانے میں مدد کے لئے ڈھونڈھ رہی ہوتی ہوں تو چھ سات سال کے بچے بھی سامان اٹھانے کے لئے منتیں کر رہے ہوتے ہیں۔
بہر حال ، ایک بچے نےمجھے ڈھونڈ لیا کہ ہر ہفتے جاتی ہوں۔ اور باقی بچوں کو مجھ سے دور کر دیا۔
خریداری کے بعد جب میں اسکے ساتھ سامان رکھنے میں مصروف تھی تو وہاں پہ ایک ہیجڑا آگیا۔ اور پیسے مانگنے لگا۔ بازار میں آجکل ایسے چار پانچ ہیجڑے پھرتے رہتے ہیں۔ پھر اس نے اپنا سبق شروع کر دیا۔ اللہ تیرے صاحب کو اور دے۔ خدا تجھے چاند سا بیٹا دے۔ اللہ تیری خوشیوں کو قائم رکھے۔ ہم غریبوں کو ہمارا حق دیتی جا۔ میں نے معاف کرنے کا کہا اور خاموشی سے سنی ان سنی کر کے اس بچے کے ساتھ مصروف رہی۔ پھر وہ کہنے لگا کہ روپے دو روپے دینے میں تمہاری دولت کم نہیں ہو جائے گی۔ ہماری تو زندگی ہی تم لوگوں کی خیرات سے ہے۔ تب میں نے اس سے کہا کہ  کیوں ہے تمہاری زندگی ہماری خیرات سے۔ اس بچے کو دیکھا تم نے بمشکل دس گیارہ سال کا ہے میرے ساتھ سامان اٹھا کر بازار سے گاڑی تک اٹھا کر لایا ہے۔ آخر تم میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ تم کیوں نہیں سامان اٹھانے کا کام شروع کر دیتے۔ میں اس بچے کو پچیس روپے دیتی ہوں۔ وہی تمہیں دے دونگی۔ ارے میں اپنی چھوٹی بہن کے صدقے، ہم ہیجڑوں میں کہاں طاقت ہوتی ہے۔ یہی تو رونا ہے کہ ہم میں طاقت نہیں ہوتی۔ خدا نے تو ہمیں خالی ہی پیدا کر دیا ہے۔
مجھے تھائ لینڈ کا سیلزمین یاد آگیا جب وہ مجھے اپنے لمبے سنہرے کئے ہوئے بالوں سے ڈھکی گردن پہ سچےموتیوں کی مالا سجا کر دکھا رہا تھا۔ یا وہ گائڈ جو ہنس ہنس کر پورا دن ہمیں مصروف رکھے رہا۔ ان لوگوں میں کہاں سے طاقت آتی ہے۔

نوٹ؛ ان تصویروں میں، میں کہیں نہیں ہوں، البتہ یہ تصاویر میرے کیمرے کی ہیں۔

Tuesday, June 9, 2009

لاگ اور لگاءو

تھائ لینڈ میں میری دلچسپی تھائ کھانوں کی وجہ سےیا ان کے شاہی نظام حکومت کی وجہ سے رہی تھی۔ بادشاہوں سے ہمارا لگاءو شاید اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ ہم برصغیر پاک و ہند کے رہنے والے جنہیں اب لوگ جنوبی ایشیائ کہنے لگے ہیں۔ بچپن میں جب کہانیاں سنتے ہیں تو وہ اکثر اس طرح شروع ہوتی ہیں کہ ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ جیسے جیسے شعور کی منازل طے کیں تو اس بات کو ہضم کرنے میں بڑا ٹائم لگا کہ کہانی بادشاہ کے بغیر بھی شروع ہو سکتی ہے۔

ہاں تو جب میں نے تھائ ائر لائن کی پرواز نمبر فلاں فلاں پہ قدم رکھا تو سب سے پہلے ان کی ائر ہوسٹس اور انکی یونیفارم پہ فدا ہوئ۔ پھر ان کی سروس پہ۔ تھائ لینڈ کے شہر پھوکٹ پہنچنے کے بعد اندازہ ہوا کہ تھائ کسقدر صفائ پسند اور معمولی چیزوں میں سے بھی تزئین کی جدت نکالنے والے لوگ ہیں ۔ یہاں کی روزانہ بارش خوبصورت آرکڈ کے پھولوں کے لئیے بہت سازگار ہے جن کے گملے ہر جگہ ٹنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔اتنی بارش کے باوجودشہر اانتہائ صاف ۔دھلی دھلائ سڑکیں، ہر طرف سبزہ اور ہاتھیوں کے ہر طرح کے مجسموں کے ساتھ زندہ ہاتھی چہل قدمی کرتے نظر آجاتے ہیں۔ سمندر سے گھرا، سیاحوں کو خوش آمدید کہتا یہ شہر مجھے بےحد پسند آیا۔

لیکن جس چیز سے تکلیف ہوئ۔ وہ ان کی اپنی زبان تھائ سے محبت ہے۔ کسی سپر اسٹور میں چلے جائیں یا مقامی جمعہ بازاروں میں ہر چیز پر تھائ لکھی ہوتی ہے۔ اپنی ضرورت کی چیز چھٹی حس کو استعمال کر کے، چیز کی شکل صورت دیکھ کر، یا کہیں کہیں انگریزی میں لکھے چند الفاظ کی مدد سے ہی خریدی جا سکتی ہے۔ اور پھر بھی شک رہتا ہے کہ یہ وہی ہے جو ہمیں چاہئیے تھا۔تھائیوں کو فخر ہے کہ وہ کبھی کسی کے غلام نہیں رہے۔ اس لئے وہ بغیر انگریزی استعمال کئے ہم سے زیادہ تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

اس سفر کے دوران ایک دفعہ ہم ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے مینو پہ کافی تفصیلی غور وخوض کے بعد پائن ایپل رائس آڈر کئے۔ تھائ لینڈ میں ، میں تھائ کھانوں سے اتنا لظف اندوز نہ ہو سکی کیونکہ اب آپ کو حلال اور حرام بھی دیکھنا پڑ جاتا ہے حلال کھانے آسانی کے ساتھ بوٹنگ کے دوران مل سکتے ہیں کیونکہ سمندر سے منسلکہ کاروبار پہ مسلمان چھائے ہوئے ہیں۔
خیر، سب لوگوں کا کھانا آگیا۔ مگرمیرے چاول غیر حاضر۔جب سب اپنا ایک تہائ کھانا کھا چکے تو ویٹر میرے پاس آیا ۔ اسکی ٹوٹی پھوٹی تھائ آمیز انگریزی سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کہ رہا کہ فرائیڈ رائس نہیں ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے پائن ایپل رائس منگوائے تھے فرائیڈ رائس نہیں۔ اس نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی اور اب کی بار مجھے صرف پائن ایپل کے کچھ سمجھ نہ آیا۔ اور میں نےاندازے سے اسے او کے کہہ دیا۔ اب پھر انتظار کی گھڑیاں شروع ہوئیں۔ سب لوگ اپنے کھانے کے اختتام پہ پہنچنے والے تھے اور میں سوچ ہی رہی تھی کہ اپنا آڈر کینسل کروادوں کہ وہ ویٹر ایک بڑی سی ٹرے میں ایک پائن ایپل لے آیا اور لا کر بڑے سلیقے سے میرے سامنے رکھدی۔ میں بالکل حیران ہوگئ تو گویا اتنے انتطار کی کلفت اٹھانے کے بعد مجھے یہ انناس کھانے کو ملے گا۔ اور یہ موصوف شاید مجھ سے فرما رہے تھے کہ چاول تو ہیں نہیں پائن ایپل البتہ موجود ہے۔ میں نے جھنجھلا کر کہا یہ کیا ہے، مجھے کھانا چاہئے۔ اب پھر ایک عجیب سی زبان، جس سے میں نے یہ معنی اخذ کئے کہ آپ نے یہی تو منگوایا تھا۔ میرے ساتھی نے کہا۔ اب آپ اسے اپنےہوٹل لے چلیں اور رستے میں کچھ اور کھا لیجئیے گا۔ 'کیا مطلب میں اس ریسٹورنٹ میں یہ انناس خریدنے آئ تھی اتنا مہنگا انناس۔ میں اسے کہیں نہیں لے جا رہی '۔ پھر میں نے اس ویٹر سے کہاں براہ مہربانی اےسے لے جائیں مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اب وہ کچھ گومگوں حالت میں کھڑا تھا۔ یہ سارا منظر ہمارا تھائ ڈرائیور ذرا فاصلے سے دیکھ رہا تھا۔ وہ میرے پاس آیا کہ کیا ہوا ہے۔ قصہ مختصر اس کی انگریزی بھی اتنی اچھی نہ تھی لیکن اس ویٹر سے بہتر تھی۔

ان دونوں نے اس موضوع پر تھائ میں تبادلہء خیال کیا کہ ان خاتون کو یعنی مجھے کیا مسئلہ ہے۔ اس تفصیلی گفت و شنید کے بعد ویٹر آگے بڑھا اور اس نے اس انناس کو ہاتھ لگایا۔ انناس کا اوپری حصہ ہٹا اندر اس کے خا لی حصے میں پائن ایپل فرائیڈ رائس بھرے ہوئے تھے۔ اور ان پہ چھ جمبو جھینگے رکھے ہوئے تھے۔میرا منہ کھلا اور پھر بند ہوگیا۔ ویٹر اپنے حصے کی معذرت وصول کرنے کے بعد مسکراتا سینے پہ ہاتھ رکھے رخصت ہو گیا۔ چاول بے حد مزیدار تھے۔ لیکن میں اس دن، سارا دن ان کی مہارت کی داد دیتی رہی اور شرمندہ ہوتی رہی۔ کتنی مہارت سے انناس جیسے مشکل پھل کو کاٹا تھا کہ ذرا نہ پتہ چل رہا تھا کہ یہ کٹا ہوا انناس ہے۔ غالب نےصحیح کہا ہے،

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاءو
جب کچھ بھی نہ ہو تو دھوکا کھائیں کیا

ریفرنس؛

پھوکٹ، تھائ لینڈ