ایک لفنگا ایک باغ میں گھس گیا۔ دیکھا کہ درخت پھلوں سے لدے ہیں۔ تو ان پہ چڑھ کر کبھی ایک پہ کبھی دوسرے پہ پھل توڑ کر کھاتا رہا۔ پھر بہت سے پھل جمع کر لئے کہ ساتھ لے جائے۔
اتفاق کی بات ہے اس وقت باغ کا مالک وہاں آگیا۔ اس نے ایک اجنبی کو درخت پر چڑھتے دیکھا تو پوچھا۔ تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو۔ وہ بولا۔ باغ میں آیا تھا دیکھا درختوں پہ پھل لگے ہیں کچھ توڑ کر پیٹ بھرا اور کچھ ساتھ لئے جا رہا ہوں۔ دیدہ دلیری کی انتہا تھی۔ مالک نے کہا اول تو یہ بتاءو کہ تم باغ میں آئے کیسے اور پھل تم نے کیسے چرائے؟
بولا، باغ تو باغ ہے۔ اس میں آنے کی اجازت کی کیا ضرورت۔ یہ درخت اللہ کا، یہ پھل اللہ نے پیدا کئے، میں بھی اللہ کا بندہ ہوں، مجھے اختیار ہے جو دل چاہے کروں۔ تم کون ہوتے ہو مجھے ٹوکنے والے۔ چوری اور سینہ زوری۔
بعض لوگ سچ بات کو مان کر نہیں دیتے۔ بات کو اس طرح گھما دیتے ہیں کہ جیسا وہ سوچتے ہیں ویسی دلیلیں ہو جائیں۔ انکے پاس اصول، انصاف، ایمانداری کسی بات کی کوئ اہمیت نہیں ہوتی۔ انکے نزدیک انہیں کھلی چھٹی ہے۔
ہاتھ پاءوں کے مضبوط ہونگے تو لڑنے بھڑنے پہ آمادہ یہ نہ ہو سکے تو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کریں گے۔ بس کسی طرح ہمارا مطلب نکل آئے۔
باغ کا مالک ہکا بکّا اس شخص کے سامنے کھڑا تھا۔ اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے جا رہا تھا۔ آخر باغ کے مالک نے کہا۔ میاں ہوش کے ناخن لو، چوری کا مال یہی چھوڑ کے اپنے گھر جاءو، یہ وہ بڑی رعایت ہے جو میں تمہارے ساتھ کر سکتا ہوں۔
چور میاں اکڑ گئے بولے۔ یہ اللہ کا مال ہے اور اسکا کوئ بندہ بھی کھا سکتا ہے۔ یہ سن کر باغ کے مالک سے رہا نہ گیا۔ اپنے آدمیوں کو آواز دی۔ ایک رسی منگوائ اور چور کو درخت سے باندھ دیا۔ جب وہ بندھ گیا تو ایک ڈنڈا منگوایا اور خوب ڈنڈے اسکے اوپر پڑے۔ اب جو مار پڑی تو چور صاحب نے شور مچانا شروع کیا۔ ارے ظالموں اللہ سے ڈرو۔ کیوں مجھے مارے ڈالتے ہو۔ باغ کے مالک نے کہا۔ چلاتے کیوں ہو۔ مار پڑتی ہے تو پڑنے دو۔ اللہ کا ایک بندہ اللہ کے دوسرے بندے کو اللہ کے بنائے ہوئے ڈنڈے سے پیٹے تو واویلا کس بات کا؟ میرے دوست جو تمہارا فلسفہ ہے اسی پہ عمل کر رہا ہوں۔ تمہیں کوئ اعتراض نہیں ہونا چاہئیے۔ آخر اس نے توبہ کی اور رہا ہو کر اپنے گھر گیا۔
آدمی بڑا خود غرض ہوتا ہےاسے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا لیکن دوسرے کی آنکھ کا تنکا وہ دیکھ لیتا ہے۔ غرض اسے اندھا بنا دیتی ہے۔ اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے وہ برے بھلے کی تمیز بھلا دیتا ہے۔ اسی کو ظلم کہتے ہیں۔ ظالم ظلم کرتا ہے تو کبھی نہیں سمجھتا کہ اس سے ظلم ہو رہا ہے۔ بلکہ طرح طرح سے اسکی تاویلیں کر کے اپنے آپکو راستی پر ٹہراتا ہے۔ یہی شیطان کا بہکاوا ہے۔ معاف کرنا اور صبر کرنا دو بڑی اچھی عادتیں ہیں۔ لیکن جب دیکھو کہ ظالم ظلم پہ دلیر ہو رہا ہے اور موذی تکلیف پہنچانے کے در پے ہے تو حکم ہے کہ پھر پوری قوت سے اسے روکو اور کیفر کردار تک پہنچاءو۔ ورنہ امن اور سکون درہم برہم ہو جائے گا اور زندگی میں توازن نہیں رہے گا۔ ظلم سہنے میں بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے۔
ماخذ۔ کتاب روشنی، مصنف شاہ بلیغ الدین، اردو اکیڈمی سندھ۔