Showing posts with label شاہ بلیغ الدین. Show all posts
Showing posts with label شاہ بلیغ الدین. Show all posts

Wednesday, June 1, 2011

سرکشی

ایک لفنگا ایک باغ میں گھس گیا۔ دیکھا کہ درخت پھلوں سے لدے ہیں۔ تو ان پہ چڑھ کر کبھی ایک پہ کبھی دوسرے پہ پھل توڑ کر کھاتا رہا۔ پھر بہت سے پھل جمع کر لئے کہ ساتھ لے جائے۔
اتفاق کی بات ہے اس وقت  باغ کا مالک وہاں آگیا۔  اس نے ایک اجنبی کو درخت پر چڑھتے دیکھا تو پوچھا۔ تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو۔ وہ بولا۔ باغ میں آیا تھا دیکھا درختوں پہ پھل لگے ہیں کچھ توڑ کر پیٹ بھرا اور کچھ ساتھ لئے جا رہا ہوں۔ دیدہ دلیری کی انتہا تھی۔ مالک نے کہا اول تو یہ بتاءو کہ تم باغ میں آئے کیسے  اور پھل تم نے کیسے چرائے؟
بولا، باغ تو باغ ہے۔ اس میں آنے کی اجازت کی کیا ضرورت۔ یہ درخت اللہ کا، یہ پھل اللہ نے پیدا کئے، میں بھی اللہ کا بندہ ہوں، مجھے اختیار ہے جو دل چاہے کروں۔ تم کون ہوتے ہو مجھے ٹوکنے والے۔ چوری اور سینہ زوری۔
بعض لوگ سچ بات کو مان کر نہیں دیتے۔ بات کو اس طرح گھما دیتے ہیں کہ جیسا وہ سوچتے ہیں ویسی دلیلیں ہو جائیں۔ انکے پاس اصول، انصاف، ایمانداری کسی بات کی کوئ اہمیت نہیں ہوتی۔ انکے نزدیک انہیں کھلی چھٹی ہے۔
ہاتھ پاءوں کے مضبوط ہونگے تو لڑنے بھڑنے پہ آمادہ یہ نہ ہو سکے تو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کریں گے۔ بس کسی طرح ہمارا مطلب نکل آئے۔
باغ کا مالک ہکا بکّا اس شخص کے سامنے کھڑا تھا۔ اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے جا رہا تھا۔ آخر باغ کے مالک نے کہا۔ میاں ہوش کے ناخن لو، چوری کا مال یہی چھوڑ کے اپنے گھر جاءو، یہ وہ بڑی رعایت ہے جو میں تمہارے ساتھ کر سکتا ہوں۔
چور میاں اکڑ گئے بولے۔ یہ اللہ کا مال ہے اور اسکا کوئ بندہ بھی کھا سکتا ہے۔ یہ سن کر باغ کے مالک سے رہا نہ گیا۔ اپنے آدمیوں کو آواز دی۔ ایک رسی منگوائ اور چور کو درخت سے باندھ دیا۔ جب وہ بندھ گیا تو ایک ڈنڈا منگوایا اور خوب ڈنڈے اسکے اوپر پڑے۔ اب جو مار پڑی تو چور صاحب نے شور مچانا شروع کیا۔ ارے ظالموں اللہ سے ڈرو۔ کیوں مجھے مارے ڈالتے ہو۔ باغ کے مالک نے کہا۔ چلاتے کیوں ہو۔ مار پڑتی ہے تو پڑنے دو۔ اللہ کا ایک بندہ اللہ کے دوسرے بندے کو اللہ کے بنائے ہوئے ڈنڈے سے پیٹے تو واویلا کس بات کا؟ میرے دوست جو تمہارا فلسفہ ہے اسی پہ عمل کر رہا ہوں۔ تمہیں کوئ اعتراض نہیں ہونا چاہئیے۔ آخر اس نے توبہ کی اور رہا ہو کر اپنے گھر گیا۔
آدمی بڑا خود غرض ہوتا ہےاسے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا لیکن دوسرے کی آنکھ کا تنکا وہ دیکھ لیتا ہے۔ غرض اسے اندھا بنا دیتی ہے۔ اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے وہ برے بھلے کی تمیز بھلا دیتا ہے۔ اسی کو ظلم کہتے ہیں۔ ظالم ظلم کرتا ہے تو کبھی نہیں سمجھتا کہ اس سے ظلم ہو رہا ہے۔ بلکہ طرح طرح سے اسکی تاویلیں کر کے اپنے آپکو راستی پر ٹہراتا ہے۔ یہی شیطان کا بہکاوا ہے۔ معاف کرنا اور صبر کرنا دو بڑی اچھی عادتیں ہیں۔ لیکن جب دیکھو کہ ظالم ظلم پہ دلیر ہو رہا ہے اور موذی تکلیف پہنچانے کے در پے ہے تو حکم ہے کہ پھر پوری قوت سے اسے روکو اور کیفر کردار تک پہنچاءو۔ ورنہ امن اور سکون درہم برہم ہو جائے گا اور زندگی میں توازن نہیں رہے گا۔ ظلم سہنے میں بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے۔

ماخذ۔ کتاب روشنی، مصنف شاہ بلیغ الدین، اردو اکیڈمی سندھ۔

Saturday, May 7, 2011

علم اور عمل

جب حضرت سفیان ثوری کی والدہ نے ان سے فرمایا کہ بیٹے علم حاصل نہ کرو تو صرف اتنی ہی بات انہوں نے نہیں کہی۔ انہوں نے فرمایا کہ بیٹے علم حاصل کرو تو اس پہ عمل کرنے کی کوشش کرو ورنہ قیامت کے دن یہ تمہارا علم تمہارے لئے حساب کتاب کے دروازے کھولدے گا۔ حضور اکرم صلعم کے ایک ارشاد کا مطلب ہے کہ دو آدمیوں نے میری کمر توڑ دی ایک جاہل دیندار نے دوسرے بے عمل عالم نے۔
علم اگر برتا نہ جائے تو پھر ایسے علم سے کیا فائدہ۔ اللہ نے انبیاء کو علم عطا کیا تو انہوں نے علم کو برتا اور اس پہ عمل کر دکھایا۔ علم اگر آدمی میں اچھے برے کی تمیز اور عمل کی تحریک نہ پیدا کر سکے تو ایسا علم بے کار ہے۔ قرآن علم کا سرچشمہ ہے۔ اللہ کے رسول کو جب یہ علم وحی کے ذریعے عطا ہوا تو آپ نے اسکے ایک ایک لفظ پہ عمل کر کے دکھایا اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ آپ مومنوں کے لئے نمونہ ہیں۔
علم اور عمل میں فرق ہو تو ایک طرح کی منافقت ہےبلکہ کھلی منافقت۔ علم سکھاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو۔آدمی اللہ سے ڈرنے کے بجائے سرکش ہو جاتا ہے۔سیدھی راہ چھوڑ کر الٹی راہ چلنے لگتا ہے۔ علم دھوکے اور ریاکاری سے روکتا ہے اور اگر کوئ علم حاصل کرنے کے بعد بھی ریاکار ہوجائے تو کیا کہا جائے۔
حضرت حسن بصری، تاریخ اسلام کی ایک بڑی شخصیت اکثر اپنے نفس پہ خفا ہوتے اور اپنے آپکو جھڑک کر کہتے حسن بصری، تو  پرہیز گاروں اور اطاعت گذاروں جیسی باتیں کرتا ہے مگر تیرے کام تو جھوٹوں ، منافقوں اور دکھاوا کرنے والوں کے سے ہیں۔ سن لے اور خوب اچھی طرح سن لے کہ یہ اللہ سے محبت  رکھنے والوں کی صفت نہیں کہ وہ سراپا اخلاص اور تمام تر ایثار نہ ہوں۔
یحیی بن معاذ سے پوچھا گیا کہ آدمی اخلاص والا کب ہوتا ہے۔ فرمایا جب اسکی عادت دودھ پیتے بچے کی سی بن جائے۔ کوئ اسے اچھا کہے تو خوش نہ ہو۔ برا کہے تو برا نہ منائے۔
حضرت ابراہیم ادھم کہتے ہیں کہ جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ لوگ اسے اچھا کہیں وہ نہ اللہ سے ڈرنے والا ہے نہ صاحب اخلاص۔
جسکی نیت نیک ہوگی اس کا عمل بھی ویسا ہوگا۔علم وہ جوہر ہے جو نیت کو نیک اور عمل کو بہتر بناتا ہے۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ علم اللہ کی صفات میں سے ایک ہے ۔
جو صاحب علم ہوتا ہے اسکی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ حضرت عیسی نے لوگوں سے پوچھآ۔ جانتے ہو ولی اللہ کون ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں آپ بتائیے۔
فرمایا کہ وہ جو اپنے علم پہ عمل کرے۔


یہ ایک تحریر ہے جو شاہ بلیغ الدین کی کتاب روشنی سے مستعار لی گئ۔ میرے بچپن میں ہماری صبح کا آغاز ریڈیو سے مثنوی مولانا روم کے ترجمے سے ہوتا تھا اور اسکے بعد شاہ بلیغ الدین کا پانچ دس منٹ کا پروگرام روشنی چلا کرتا تھا۔ مولانا صاحب اپنے دھیمے لہجے میں اپنی بات کرتے جاتے اور ہم اپنے اسکول کی تیاری۔
علم کے ساتھ عمل نہ ہو تو یہ منافقت ہے۔ یہ بات میں نے اپنی سوچ سے کہیں لکھی تھی۔ لیکن آج جب میں نے اس کتاب کو دوبارہ کھولا تو لگا کہ شاید میں نے لا شعوری طور پہ یہ جملہ محفوظ کر لیا تھا۔ میرے شعور نے مجھے بتایا کہ دراصل یہ جملہ  اپنی پوری معنویت میں یہاں استعمال کرنا ہے۔
عالم بے عمل، کیا تبلیغ کا حق رکھتے ہیں؟