جب حضرت سفیان ثوری کی والدہ نے ان سے فرمایا کہ بیٹے علم حاصل نہ کرو تو صرف اتنی ہی بات انہوں نے نہیں کہی۔ انہوں نے فرمایا کہ بیٹے علم حاصل کرو تو اس پہ عمل کرنے کی کوشش کرو ورنہ قیامت کے دن یہ تمہارا علم تمہارے لئے حساب کتاب کے دروازے کھولدے گا۔ حضور اکرم صلعم کے ایک ارشاد کا مطلب ہے کہ دو آدمیوں نے میری کمر توڑ دی ایک جاہل دیندار نے دوسرے بے عمل عالم نے۔
علم اگر برتا نہ جائے تو پھر ایسے علم سے کیا فائدہ۔ اللہ نے انبیاء کو علم عطا کیا تو انہوں نے علم کو برتا اور اس پہ عمل کر دکھایا۔ علم اگر آدمی میں اچھے برے کی تمیز اور عمل کی تحریک نہ پیدا کر سکے تو ایسا علم بے کار ہے۔ قرآن علم کا سرچشمہ ہے۔ اللہ کے رسول کو جب یہ علم وحی کے ذریعے عطا ہوا تو آپ نے اسکے ایک ایک لفظ پہ عمل کر کے دکھایا اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ آپ مومنوں کے لئے نمونہ ہیں۔
علم اور عمل میں فرق ہو تو ایک طرح کی منافقت ہےبلکہ کھلی منافقت۔ علم سکھاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو۔آدمی اللہ سے ڈرنے کے بجائے سرکش ہو جاتا ہے۔سیدھی راہ چھوڑ کر الٹی راہ چلنے لگتا ہے۔ علم دھوکے اور ریاکاری سے روکتا ہے اور اگر کوئ علم حاصل کرنے کے بعد بھی ریاکار ہوجائے تو کیا کہا جائے۔
حضرت حسن بصری، تاریخ اسلام کی ایک بڑی شخصیت اکثر اپنے نفس پہ خفا ہوتے اور اپنے آپکو جھڑک کر کہتے حسن بصری، تو پرہیز گاروں اور اطاعت گذاروں جیسی باتیں کرتا ہے مگر تیرے کام تو جھوٹوں ، منافقوں اور دکھاوا کرنے والوں کے سے ہیں۔ سن لے اور خوب اچھی طرح سن لے کہ یہ اللہ سے محبت رکھنے والوں کی صفت نہیں کہ وہ سراپا اخلاص اور تمام تر ایثار نہ ہوں۔
یحیی بن معاذ سے پوچھا گیا کہ آدمی اخلاص والا کب ہوتا ہے۔ فرمایا جب اسکی عادت دودھ پیتے بچے کی سی بن جائے۔ کوئ اسے اچھا کہے تو خوش نہ ہو۔ برا کہے تو برا نہ منائے۔
حضرت ابراہیم ادھم کہتے ہیں کہ جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ لوگ اسے اچھا کہیں وہ نہ اللہ سے ڈرنے والا ہے نہ صاحب اخلاص۔
جسکی نیت نیک ہوگی اس کا عمل بھی ویسا ہوگا۔علم وہ جوہر ہے جو نیت کو نیک اور عمل کو بہتر بناتا ہے۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ علم اللہ کی صفات میں سے ایک ہے ۔
جو صاحب علم ہوتا ہے اسکی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ حضرت عیسی نے لوگوں سے پوچھآ۔ جانتے ہو ولی اللہ کون ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں آپ بتائیے۔
فرمایا کہ وہ جو اپنے علم پہ عمل کرے۔
یہ ایک تحریر ہے جو شاہ بلیغ الدین کی کتاب روشنی سے مستعار لی گئ۔ میرے بچپن میں ہماری صبح کا آغاز ریڈیو سے مثنوی مولانا روم کے ترجمے سے ہوتا تھا اور اسکے بعد شاہ بلیغ الدین کا پانچ دس منٹ کا پروگرام روشنی چلا کرتا تھا۔ مولانا صاحب اپنے دھیمے لہجے میں اپنی بات کرتے جاتے اور ہم اپنے اسکول کی تیاری۔
علم کے ساتھ عمل نہ ہو تو یہ منافقت ہے۔ یہ بات میں نے اپنی سوچ سے کہیں لکھی تھی۔ لیکن آج جب میں نے اس کتاب کو دوبارہ کھولا تو لگا کہ شاید میں نے لا شعوری طور پہ یہ جملہ محفوظ کر لیا تھا۔ میرے شعور نے مجھے بتایا کہ دراصل یہ جملہ اپنی پوری معنویت میں یہاں استعمال کرنا ہے۔
عالم بے عمل، کیا تبلیغ کا حق رکھتے ہیں؟
yeah hadith bhi qabal e ghoe hai;
ReplyDeletehttp://www.urdupoint.com/daily/ayat/2011-05/1529_hadees.gif
عالم بے عمل، کیا تبلیغ کا حق رکھتے ہیں؟
ReplyDelete-----------------------------
حق تو صرف حقدار رکھتے ہیں۔ یہ لوگ دراصل ٹھیکہ رکھتے ہیں۔
پھر آدھی ادھوری بات......
ReplyDeleteعلم حاصل کرو مگر یہ خیال رکھو کہ وہ آپکے جدید ذہن اور آپکے جدید نظریات سے مطابقت رکھتا ہو ...اگر نہیں رکھتا تو اسے مسترد کردو چاہے وہ علم وحی کا ہی کیوں نہ ہو....
علم حاصل کر کے جو عمل نہ کرے اسکے لئے بے شک وہ علم وبال بن جاتا ہے مگر اس علم کو مسترد کرنے والے کے لئے بھی کچھ ارشاد فرمائیے گا اور یہ بھی وضاحت کیجئے گا کہ الله سبحانه تعالیٰ کے یہاں بغاوت کس چیز کو کہتے ہیں ؟ یا یہ کہ وہ کیا چیز تھی جس نے شیطان کو الله سبحانه تعالیٰ کا باغی کر دیا تھا؟ اور یہ بھی کہ الله سبحانه تعالیٰ کے یہاں بغوت کس نظر سے دیکھی جاتی ہے.
ReplyDeleteڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، جی ہاں وہ وحی جو جواد احمد خان صاحب پہ آتی ہے اس کا مسترد کرنا بہتر ہے۔
ReplyDeleteجدید کیا چیز ہوتی ہے؟ نکل جائیں اس دنیا سے اپنے خودکش حملہ آوت کے ساتھ اس وقت ہر چیز جدید ہے۔ حتی ہ وہ ذریعہ بھی جس سے آپ مجھ سے اور اوروں سے مخاطب ہیں۔ ہم تو جدیدیت اسے ہی سمجھتے ہیں۔ ہم تو آپکو شیطان سمجھتے ہیں جو خدا سے بغاوت پہ اتر آیا ہے اور اب اسکے احکامات کو توڑ مروڑ کر اپنے نفس کی تسکین کے مطابق پیش کرتا ہے۔ آپ اسے غلط ثابت کر دکھائیں۔
اس بغاوت کو خدا کیسے دیکھتا ہے یا خدا اسے نہیں دیکھتا، وہ صرف آپکی نظر سے دیکھتا ہے جو آپ دکھائیں گے وہ دیکھے گا جو آپ نہیں دکھائیں گے وہ نہیں دیکھیے گا۔
محترم خودساختہ قدیم ولطف اندوزہ ء جدید۔ ہر انسان کو اپنے اعمال پہ نظر رکھنی چاہئیے تاوقتیکہ وہ نفس مطمئنہ کی حالت کو نہ پہنچ جائے ۔
شاہ بليغ الدين صاحب کا ذکر سُن کا مسرت ہوئی ۔
ReplyDeleteسائنس ہو يا دين بغير عمل کے بيکار ہے ۔
جہاں تک ميرا تھوڑا سا مطالعہ ہے اسلام کا بنيادی جُزو "عمل" ہے نہ کہ "صرف اعتقاد"۔
جو لوگ اپنے آپ کو کلمہ گو يعنی اللہ پر ايمان لانے والا سمجھتے ہيں اگر وہ اللہ کے فرمان پر عمل نہيں کرتے تو انہيں آپ کس کيٹيگری ميں رکھيں گی ؟
ميں اُن لوگوں کی بات نہيں کر رہا جنہوں نے آج تک قرآن شريف کو سمجھ کر پڑھا ہی نہيں اور بيان داغتے رہتے ہيں
افتخار اجمل صاحب، میں کسی کو کیوں کسی کٹیگری میں رکھونگی۔ جب حسن بصری جیسا عابد گذار شخص اپنی عبادات پہ ڈرتا ہے کہیں سب ریا کے لئے نہ ہوں تو مجھ جیسے حقیر شخص کی کیا مجال کے دوسروں کو ترازو پہ کھڑا کروں۔ ہر شخص کو دوسرے پہ نظر رکھنے کے بجائے اپنے اوپر نظر رکھنا چاہئیے۔
ReplyDeleteمیں صرف ان لوگوں پہ رائے دیتی ہوں جو اس بات پہ ہلڑ مچائے رکھتے ہیں کہ ہم کتنے اعلی اور دوسرے کس قدر کمتر ہیں۔ جو ہر وقت بھیڑیوں کی طرح دوسروں پہ نظر جمائے بیٹھے رہتے ہیں ایسے کہ انہیں اپنی خبر نہیں رہتی۔
سو کسی کو کسی کٹیگری میں رکھنا یا تو خدا کا کام ہے یا حکومت کی انتظامی مشینری کا۔ میرا اس میں سے کسی سے بھی کوئ تعلق نہیں۔
جب حسن بصری جیسا عابد گذار شخص اپنی عبادات پہ ڈرتا ہے کہیں سب ریا کے لئے نہ ہوں تو مجھ جیسے حقیر شخص کی کیا مجال کے دوسروں کو ترازو پہ کھڑا کروں۔ ہر شخص کو دوسرے پہ نظر رکھنے کے بجائے اپنے اوپر نظر رکھنا چاہئیے۔
ReplyDelete________________________________________________
تو غالباً نبوت کے دعویٰ والا الزام اور وحی اترنے والا الزام آپ نے ازراہ تفنن لگایا تھا....
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، میں نے یہ بھی تو لکھا ہے کہ،
ReplyDeleteمیں صرف ان لوگوں پہ رائے دیتی ہوں جو اس بات پہ ہلڑ مچائے رکھتے ہیں کہ ہم کتنے اعلی اور دوسرے کس قدر کمتر ہیں۔ جو ہر وقت بھیڑیوں کی طرح دوسروں پہ نظر جمائے بیٹھے رہتے ہیں ایسے کہ انہیں اپنی خبر نہیں رہتی۔
اگر آپ سب لوگ جنہیں مجھ سے شکائیتیں ہیں اپنے دامن میں جھانک لیں تو انہیں اس طرح کے حالات سے نہ گذرنا پڑے۔ یعنی میری شکایت نہ کرنی پڑے۔ آپ میرے لئے کفر اور دیگر ہر طرح کا فتوی لگانے سے گریز نہ کریں اور توقع یہ رکھیں کہ میں آپکی ان باتوں پہ آمنا و صدقنا کہونگی۔ نہیں جناب، میں ایک کونے میں کھڑے ہونے کے بجائے آپ سے ضرور یہ عرض کرونگی کہ دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ۔
سب سے پہلے تو آپ اس غلط فہمی کو نکال دیں کہ یہاں کوئی ناصح یا مصلح ہے . کم از کم میں نے تو نہیں دیکھا کہ کوئی شخص اپنا قد بلند کرنے کی کوشش کر رہا ہو. جو چیز آپکو بری لگ رہی ہے وہ رد عمل ہے جو قرآن و سنت کے خلاف کی جانے والی بات پر ہوتا ہے اور خاص طور پر اس وقت جب یہ بات اصلاح کے روپ میں کی جائے.
ReplyDeleteاسکی تازہ مثال میری پوسٹ پر ہونے والی تنقید ہے جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ ٹیلہ عنہا کی عمر کے حوالے سے ایک مضمون کا ترجمہ کیا گیا تھا.میں نے اس تنقید کا برا نہیں منایا اور نہ ہی کسی پر عالم بے عمل ہونے کا الزام لگایا. کیونکہ میں اس ردعمل کو اچھی طرح سے جانتا ہوں.یہ ایک مسلمان کا ردعمل ہے. اور اس ردعمل کی بنیاد ہمیں ایک حدیث میں ملتی ہے کہ جس میں نبی کریم صلی الله علیھ وسلم نے فرمایا کہ (مفہوم ) بےشک میری امت گمراہی پر متفق نہیں ہوگی ۔ پس جب تم دیکھو کہ لوگ اختلاف میں مبتلا ہیں تو سواد اعظم (بڑی جماعت) کی پیروی کرو ۔ آپ جب بھی ترقی پسندی، ارتقا پسندی اور دین کی تشریح نو کے بھاشن دیں گی تو آپکو یہی ردعمل دیکھنے کو ملے گا. آپ خوش نصیب ہیں کہ یہ بات کرنے کے لئے آپکو انٹرنیٹ میسر ہے ورنہ دل کے ارمان آنسوں میں بہہ جاتے ..... :))
ڈاکٹر جواد احمد صاحب، مجھ سے زیادہ آپ خوش نصیب ہیں جو مذہب کے نام پہ جو دل چاہے توجیح پیش کرتے رہیں۔ آپ عوام الناس کے درمیان نہیں رہتے ورنہ آپکو بھی یہ لگ پتہ جاتا کہ پاکستان کی غریب عوام جو کہ اکثریت میں ہے اس کو آپکی اصلاحات سے کوئ دلچسپی نہیں۔ وہ ہر وہ کام کرتے ہیں جن سے انکی زندگی آسان ہو اور اسے کرتے ہوئے وہ کسی فتوی کو سامنے نہیں رکھتے۔
ReplyDeleteزندگی کی ہولناک کہانیاں آپکے سامنے ہوتیں تو یہ خوش گمانی دھری کی دھری رہ جاتی جو آپ جیسے پیٹ بھرے لوگوں کی نیک نظر آنے کی مہم کا حصہ ہے۔ اگر آپ پنجاب اور سندھ کے کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں کو دیکھ پاتے، اگر آپ تھر کے ریگستاوں میں میلوں دور کا فاصلہ طے کر کے روزانہ کی بنیاد پہ پانی لانے والی عورتوں کے قافلے دیکھ سکتے، اگر آپ یہ دیکھ پاتے کہ کس طرح ایک ہاری اپنے خاندان سمیت کسی زمیندار کا غلام ہوتا ہے اور کس طرح ایک زمیندار غلام خواتین کی عصمت کو اسلامی کنیز کے نام پہ استعمال کرتا ہے تو آپ کی کم عمری کی شادیوں کی تقاریر اور پردے کے وعظ کتابوں میں ہی لپٹے رہتے۔
مگر پیٹ بھرے لوگ اگر ایسی باتیں نہ کریں تو کیسے پتہ چلا کہ وہ ایک خوشحال پش منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔
آپ کی يہ بات بہت پسند آئی کہ ہم کون ہوتے ہيں کسی کو کسی کيٹيگری ميں رکھنے والے ۔
ReplyDeleteدوسری بات کہ اللہ کے بندے تو ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہتے ہيں ۔
جب رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا کہ "لوگوں کو دو ۔ ان پر احسان کرو مگر کسی سے مانگنا بُری بات ہے"۔ اس کے بعد ايک صحابی اگر کسی جگہ سواری پر جا رہے ہوں اور کچھ گر جائے تو کسی کو پکڑانے کا نہيں کہتے تھے بلکہ خود نيچے اُتر کر اُٹھاتے تھے کہ مبادہ ميرے عمل ميں خامی آ جائے"
اُن لوگوں کی کيا بات ہے ۔ ہم فرائض ہی پورے کر ليں تو بہت ہے
شائد یہاں آپکو اپنے سوالات کا جواب مل جائے!
ReplyDeletehttp://www.bbc.co.uk/urdu/blogs/2011/05/110513_student_blog_aliya_qau_zs.shtml
عالیہ امیر علی
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد
کچھ ہی عرصہ پہلے قائدِاعظم یونیورسٹی کی طرف سے قوم کو ایک بہت بڑی خوشخبری سنائی گئی ۔اعلان کیا گیا کہ قائدِاعظم یونیورسٹی دنیا کی بہترین جامعات میں شمار ہو چکی ہے اور مکینیکل، ایروناٹیکل اور مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں بین الاقوامی سطح پر انہترویں پوزیشن پر ہے اور پہلی بار ایک پاکستانی یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔
ہمارے وائس چانسلر صاحب نے بڑے فخر سے میڈیا پر بیان دیا کہ ہم آج ایم آئی ٹی اور ہارورڈ جیسے جامعات کی فہرست میں شامل ہیں کیونکہ ہم نے اپنے ادارے میں پروفیشنلزم، جدیدعلوم اور معیاری تحقیق کو فروغ دیا ہے۔
ذاتی طور پر مجھے یہ خبر سن کر بڑی حیرانی ہوئی۔ یقیناً میں انجینئرنگ کی طالبہ نہیں ہوں لیکن مجھے اپنے ادارے کے مجموعی معیار کا اندازہ تو پھر بھی ہے۔اس ریٹنگ پر تعجب کرنے والی میں اکیلی نہیں تھی۔ بلکہ یہ خبر سننے کے بعد جب بہت سے لوگوں نے اس ریٹنگ کی بنیاد اور طریقہ کارپر سوال کرنا شروع کیے تو پتہ چلا کہ جس شعبہ میں برتری کی بنیاد پر ہمیں دنیا کی انہترویں بہترین یونیورسٹی قرار دیا گیا اس ڈیپارٹمنٹ کاہماری یونیورسٹی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ہاں،ہمارے الیکٹرانکس ڈیپارٹمنٹ میں ان شعبوں میں کچھ کورس کرائے جاتے ہیں لیکن یہ ہرگز دنیا میں کیا پاکستان میں انجینئرنگ کے لیے بہترین ڈیپارٹمنٹ نہیں ہے۔
کیا ہم واقعی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ تھوک کے حساب سے بے فائدہ ’ریسرچ پیپر‘چھاپنے اور دھڑا دھڑ غیر معیاری پی ایچ ڈی پیدا کرنے سے ہم حقیقی معنوں میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہونے کے لائق بن جائیں گے؟اگر ایسا ہوتا تو کسی اور ریٹنگ لسٹ میں بھی ہمارا ذکر تو ہوتا۔اب تو جس ادارے نے ریٹنگ کی تھی اس نے اپنی فہرست میں سے ہمارا نام ہٹا دیا ہے۔ عزت کے بجائے شرمندگی کا باعث بنا یہ پورا تماشا۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے وائس چانسلر کو کیا اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کے ادارے میں ایروناٹیکل ڈیپارٹنمنٹ ہے ہی نہیں؟ کیا ہم واقعی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ تھوک کے حساب سے بے فائدہ ’ریسرچ پیپر‘چھاپنے اور دھڑا دھڑ غیر معیاری پی ایچ ڈی پیدا کرنے سے ہم حقیقی معنوں میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہونے کے لائق بن جائیں گے؟
کیا تعلیم کے معیار کو ناپنے کا پیمانہ مقدار یا تعداد پر مبنی ہونا چاہیے؟ ہمارے معاشرہ کے ہر شعبہ میں ہر سطح پر یہ بیماری پائی جاتی ہے: ہم دکھاوے کے لیے ہی کرتے ہیں جو کرتے ہیں۔ اندر سے کتنے ہی کھوکھلے اور کمزور کیوں نہ ہوں اوروں کے سامنے پھنے خان بنیں گے اور اندر سے ہوں گے کھوکھلے۔ شترمرغ کی طرح اپنے سر ریت میں دباکر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ہم لوگ۔
ہر شخص بس اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے بغیر اس بات کو تسلیم کیے ہوئے کہ ہم ایک ڈوبتی ہوئی کشتی کے سواری ہیں۔ اگر اسی طرح منتشر رہے تو سارے ڈوبیں گے، بہتر یہی ہے کہ سمندر میں چھلانگ مارنے پر مجبور ہونے سے پہلے مل کر اس کشتی کی مرمت کر لیں۔لیکن اگر ہم تھوڑی سی ہمت کر کے اپنے سر ریت سے باہر نکالیں تو ہمیں جو حقائق نظر آئیں گے وہ یقیناً شروع میں ہمارے لیے قبول کرنا مشکل ہوں گے۔ مثلا یہ کہ یا سرکار کے پٹھوِ یا سرمایہ داری نظام کے پرز ے پیدا کرنے کے علاوہ ہمارے تعلیمی نظام کا کوئی مقصد نہیں۔ یہ کہ 63 سالوں سے ہم جھوٹ پر پلتے بڑھتے رہے ہیں، ہم ایک منتشر اور بھٹکے ہوئے لوگ ہیں، ہمیں اپنی اصل تاریخ کا علم نہیں، ہمیں اپنے ملک میں ہونے والے روزمرہ کے گھناؤنے حقائق کا علم نہیں۔
ہمارے اندر تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتیں نہیں جن کے بغیر ہم اک صحت مند معاشرہ بن نہیں سکتے۔ ہمارے اندر اپنے ملک کے لیے اپنائیت نہیں، ہمارے اندر تبدیلی لانے کا، قربانی دینے کا، معاشرے کی خوشحالی کا خواب دیکھنے کا جذبہ نہیں۔ ہمارے اندر منافقت، رشوت خوری اور سفارش کے رویے دن بدن پروان چڑھتے جا رہے ہیں۔ہم ذاتی مفاد اور دولت کمانے کے علاوہ کسی مقصد کے لیے کام کرنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔
ہر شخص بس اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے بغیر اس بات کو تسلیم کیے ہوئے کہ ہم ایک ڈوبتی ہوئی کشتی کے سواری ہیں۔ اگر اسی طرح منتشر رہے تو سارے ڈوبیں گے، بہتر یہی ہے کہ سمندر میں چھلانگ مارنے پر مجبور ہونے سے پہلے مل کر اس
کشتی کی مرمت کر لیں۔
میری مودبانہ گذارش ہے کہ دوسروں کے ردّعمل پر اپنا تبصرہ پبلش کرنے سے قبل اس پر نظرثانی بھی ضرور کر لیا کریں۔ مجھے بہت افسوس ہوا جب آپ ایک طرف دوسروں کو تہذیب و اخلاق کی تلقین کرتی ہیں تو دوسری طرف معترضین کو سنگین قسم کا طعنہ دینے سے بھی باز نہیں آتیں ۔۔۔۔ مثلاً ۔۔۔۔ کیا اس طرح لکھنا ضروری تھا :: "جو آپ جیسے پیٹ بھرے لوگوں کی نیک نظر آنے کی مہم کا حصہ ہے۔ " ؟؟
ReplyDeleteویسے اس موضوع پر میرے خیالات کچھ یوں ہیں ۔۔۔
عالِم بےعمل کو تبلیغ کا حق ۔۔۔؟
ذوق صاحب، میں کسی کو تہذیب و اخلاق کی تلقین نہیں کرتی۔ میں مذہب کی تبلیغ بھی نہیں کرتی۔ اگر کوئ غیر مسلم شخص میرے دین میں مداخلت نہ کرے تو میں کبھی بھی مذہب کو بحث میں نہیں لاتی۔ اگر ایک شخص دیندار نہ ہو لیکن دلچسپ شخصیت رکھتا ہو اور قرینے سے رہنا جانتا ہو تو مجھے اسکے ساتھ تعلقات رکھنے میں کوئ حرج نہیں معلوم ہوتا۔ میں اسے دینداری کے بارے میں بھی تبلیغ نہیں کرتی۔ وہ اور میں اپنی حدوں میں رہتے ہوئے ایک متوازن سطح پہ رہ سکتے ہیں۔
ReplyDeleteمیں صرف ان لوگوں سے تہذیب اور اخلاق کی بابت پوچھتی ہوں جو دین کے سب سے زیادہ علمبردار بنتے ہیں۔ دین تہذیب اور اخلاق سکھانے کا دعویدار ہے۔ اگر اس پہ حق ملکیت جمانے والے اس پہ عمل کرنے کا مظاہرہ نہیں کر سکتے تو اسکا مطلب یہی نکلے گا کہ دراصل دین کے احکامات پہ بحث و مباحثہ ہوسکتا ہے اس پہ کسی کو متقی اور کسی کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس پہ عمل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کیا جا سکتا تو وہ اس کا عملی نمونہ ہوتے۔
آپکو یہ بات بری لگی کہ یہ سب پیٹ بھرے لوگوں کی باتیں ہیں۔
غربت کفر کی طرف لے جاتی ہے۔ بھوکے شخص کے مذہب میں اتنی باریکیاں نہیں ہوتیں۔ اسکے لئے تو حرام بھی حلال ہوتا ہے۔ کیا یہ غلط ہے۔ پیٹ بھرا شخص شیفون اور ململ میں فرق نکالتا ہے۔ پیٹ خالی شخص کو تو چاند تارے بھی روٹیاں لگتی ہیں۔ ساون کے اندھے کو ہری ہری سوجھتی ہے۔
اگر آپ کو یہ جملہ تہذیب کے خلاف لگا تو اس جملے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے یہ عورت تو میرے پیچھے پڑ گئ ہے۔ باقی باتیں تو مجھے اس قدر تہذیب کے منافی لگتی ہیں کہ ان کے حوالے بھی نہیں دینا چاہتی۔
حیرت مجھے اس پہ ہے کہ آپ اپنے طبقے کے لوگوں کو کبھی اس قسم کی نصیحتیں کرتے نظر نہیں آئے کہ یاروں کچھ تو شرم کرو حیا کرو۔ لیکن آپ کسیے کو کیوں کریں گے جبکہ آپ یقین رکھتے ہیں کہ تبلیغ کرنے کے لئے بالکل لازم نہیں کہ تبلیغ کرنے والا اس پہ عمل بھی کرے۔
پھر جب آپ اس پہ یقین رکھتے ہیں تو آپ نے مجھ سے یہ سوال کیوں کیا۔ میرے لئے کیوں لازم ہے کہ میں جو تبلیغ کروں اس پہ عمل کروں۔
آپ اپنے نظرئیے کا فائدہ مجھے کیوں نہیں دے رہے؟ سوچتے ہیں۔