جس طرح ماہر جدی پشتی حکیم یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ ہر مرض کاعلاج موجود ہے اسی طرح میں بھی کہہ سکتی ہوں کہ ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔
حالانکہ کبھی کبھی گمان گذرتا ہے کہ اکثر ہمارے مسائل اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ انکے حل ہمارے پاس نہیں ہوتے۔ اس طرح سے انسان مکڑی کی طرح خلوت کی زندگی گذارنے کے بجائے چیونٹیوں کی طرح سماجی جانور بننے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔
اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ آپکے کسی مسئلے کا حل کہاں سے ملے گا تو یہ ایک خوش قسمتی ٹہرتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ذریعہ آپکی پہنچ میں ہے یا نہیں۔
مجھے بھی آجکل کچھ مسائل کا سامنا ہے۔ مسئلہ نمبر ایک تو یہ کہ میرے بلاگ کی فیڈز مختلف ایگریگیٹر پہ آنا بند ہو گئیں۔ سب سے پہلے میں یہ بات اردو سیارہ پہ نوٹ کی۔ خیال گذرا کہ انہیں مجھ سے کچھ دبی دبی سی شکائیتیں رہتی ہیں۔ اس لئے شاید اب جان چھڑانی چاہی ہو۔ لیکن نہیں اس بد گمانی کے ساتھ یہ بھی تھا کہ انکی بلاگر لسٹ پہ میرا نام اور اسکی فیڈ اب بھی موجود ہے۔
فیس بک پہ یہ الجھن عرض کی تو جناب محمد بلال محمود صاحب نے خیال ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے فیڈ برنر کے ساتھ کچھ مسئلہ ہو۔ انکے دئیے ہوئے لنک پہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ اگر آپکا بلاگ ۵۱۲ کلو بائیٹس سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو آپکی فیڈ بند ہو جائے گی اور یہ دوبارہ اسی صورت بحال ہو گی جب اس میں توسیع کی جائے۔ اسکے لئے طریقہء کار دیا ہوا تھا۔ اس پہ عمل کیا۔ توسیع تو مل گئ لیکن پتہ تبدیل ہو گیا۔ یہ نیا پتہ عثمان، کو دیا کہ سیارہ کی انتظامیہ کو دے دیں۔ کیونکہ ہم نے ان سے جس پتے پہ رابطہ کیا اس پہ جواب ندارد۔ عثمان نے اطلاع دی کہ وہ دے چکے ہیں۔ شاگرد عزیز کا شکریہ۔
اب اس بات کو بھی کافی دن گذر گئے ہیں۔ اس لئے اپنے قارئین سے گذارش ہے کہ اس بلاگ سے رابطے میں رہنے کے لئے چاہیں تو سبسکرائیب کر لیں ۔
ادھر ٹی بریک والوں سے بھی بات کی جس دن انہیں ای میل بھیجی اسی دن جواب آگیا کہ آپ اپنا بلاگ ایڈریس بھیجیں ہم چیک کرتے ہیں کیا مسئلہ ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انکے اپنے گوگل کے ساتھ مسائل چل رہے ہیں اور وہ اسے نبٹا رہے ہیں۔ اسکے بعد وہ ہمارے مسئلے کو دیکھیں گے۔
خیر مستقل قارئین کا بے حد شکریہ کہ وہ اس بلاگ سے رشتہ استوار رکھے ہوئے ہیں۔
دوسرا مسئلہ ذرا دلچسپ ہے۔ بلاگ سے ہٹ کر ایک تحریر کے لئے کچھ تحقیق کرنی ہے۔ اسکے لئے ان لوگوں کا تعاون درکار ہے جنکے والدین یا بزرگ انیس سو سینتالیس میں تقسیم کے نتیجے میں پاکستان آئے اور جو مشرقی پنجاب یا راجستھان سے تعلق رکھتے ہوں۔ میں ان سے گفتگو کرنے میں دلچسپی رکھتی ہوں۔ اگر آپکے ارد گرد کوئ ایسا شخص موجود ہے تو میں اس سے اسکائپ کے ذریعے یا کسی ایسے ذریعے سے بات کرنا پسند کرونگی جس تک وہ بآسانی پہنچ سکیں اور انکا کوئ خرچہ بھی نہ ہو۔ مجھ سے رابطے کے لئے یہ ای میل ایڈریس ہے۔
aniqaamar@yahoo.com
آجکل ایک بلاگی ساتھی کے کینیڈا میں مقیم ایک بزرگ سے اسی طرح، اس موضوع پہ بات ہو رہی ہے
اس مسئلے کا ایک اور حل بھی سامنے آیا جب کسی نے مجھے یہ بتایا کہ کراچی میں اورل ہسٹری کے نام سے ایک پروجیکٹ پہ سٹیزن آرکائیو والے کام کر رہے ہیں اور انکے پاس ایسے لوگوں کے ریکارڈ کئے ہوئے انٹرویوز اور تصویریں موجود ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ انکے پاس ایسے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لئے پتے بھی موجود ہوں۔ انکے ایک نمائیندے سے معلومات کیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ انہیں ای میل کر کے درخواست بھیجیں۔ وہ ضرور اسکا جواب دیں گے۔
بات تو صحیح ہے انہوں نے یہ ہسٹری جمع تو اسی لئے کی ہو گی کہ جو اس سے مستفید ہونا چاہے اسے آسانی سے مل جائے۔ چنانچہ انہیں ایک ای میل کر دی۔ اب دو دن سے منتظر ہوں کہ کیا وہ بھیجتے ہیں جواب میں۔
ہر مسئلے کا حل موجود ہے نہیں ہے تو نکل آئے گا۔ نہ نکلے تو ایک مسئلے کو کیا دل سے لگا کر بیٹھیں رہیں۔ اگلے والے کو پکڑ لیں۔ بعض اوقات اگلے والوں پہ کام کرنے سے پیچھے والے خود درست ہو جاتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟