Showing posts with label جسم فروشی. Show all posts
Showing posts with label جسم فروشی. Show all posts

Monday, June 27, 2011

ایسے کیوں؟

آج کا دن کوئ پوسٹ لکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔ اگلے سات آٹھ دن کے لئے مصروفیات کا تناسب کچھ نکل آیا ہے کہ بلاگ کی طرف زیادہ نظر نہ ہو پائے۔ بہر حال، اطلاع ملی کہ مکی صاحب نے اپنے بلاگ کو سیارہ سے الگ کرنے کی درخواست کی ہے۔ کیوں کی ہے ، یہ وہ بہتر جانتے ہونگے۔ لیکن میں اپنی ذاتی حیثیت میں انکے اس فعل سے مطمئن نہیں۔
کوئ آئیڈیئل معاشرہ وہ نہیں ہوتا جہاں سب ایک جیسی سوچ رکھتے ہوں۔ ایک مقولہ ہے کہ جہاں سب ایک جیسی سوچ رکھتے ہوں وہاں کسی کے پاس کرنے کو کچھ خاص نہیں ہوتا۔ دنیا میں وہی معاشرے ترقی کی طرف جاتے ہیں اور مثبت  طرز زندگی کی طرف گامزن ہوتے ہیں جہاں تنوع ہوتا ہے۔ انسانوں کا، بنیادی فکرات کا اور بنیادی اعمال و کردار کا۔
اگر ایک خاص سوچ کسی معاشرے پہ طاری کر دی جائے تو ایک شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔  اس شدت پسندی کو قابو میں رکھنے کے لئے اسکی مخالف قوت کا موجود رہنا ضروری ہے اور معاشرے کی ایک قوت کو مہمیز رکھنے کے لئے دوسری  مخالف قوت کو حاضر رہنا چاہئیے۔
جمہوریت کی ساری خوبی یہی ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کو آواز اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے جو آمریت یا مارشل لاء میں نہیں ہوتی۔
اگر آج ہمارے ملک میں عدم برداشت کا رویہ اپنے عروج پہ ہے تو اسکی جڑیں ضیاء الحق کی اس گیارہ سالہ حکومت میں ملتی ہیں جب پاکستان کے بد ترین مارشل لاء میں ایک نظرئیے کو پروان چڑھانے کے لئے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے گئے۔ اسکے نتیجے میں دوسرا مخالف گروہ ختم کر دیا گیا یا خاموش کرا دیا گیا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ نہ لوگوں میں علم ہے، نہ برداشت، ترقی تو دور۔ ترقی اور فلاحی ریاست ایک مبہم خواب کے سوا کچھ نہیں۔ ہم معاشی اور معاشرتی سطح پہ دن بہ دن تنزلی کا شکار ہیں۔
ہم مسلسل آمریت کے زیر سایہ رہنے سے مزاجاً خود بھی آمر ہو چکے ہیں۔ رہی سہی کسر، متعارف کرائے گئے جذبہ جہاد نے پوری کی اور اب ہماری اکثریت میں یہ اہلیت ہے کہ وہ ظلم میں ہٹلر اور چنگیز خاں کو بھی مات دے دے۔
ہماری ایک پوری نسل نہیں جانتی کہ اسکے باہر کی دنیا میں کیا ہوتا ہے، اس دنیا میں کیسی کیسی ثقافتیں، مذاہب موجود ہیں۔ اور اسی دنیا میں کیسے کیسے ممالک ہیں جہاں مختلف النوع مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں مگر سکھ چین کے ساتھ، زندگی میں آگے کی سمت چلے جا رہے ہیں۔
عدم برداشت کا رویہ آخر کیسے ختم ہوگا؟ ایسے کہ لوگوں کو اپنے مخالف کی بات سننے کی عادت پڑے۔ ایسے کہ انہیں معلوم ہو کہ وہ کوئ پھنّے خان نہیں ہیں۔ دنیا میں عظیم لوگ انکے مذہب، فرقے، ذات ، برادری، نسل اور لسان سے الگ ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ وہ سب اسی دنیا کے دسترخوان سے اپنا روزی روزگار حاصل کرتے ہیں۔ ایسے کہ انہیں معلوم ہو کہ وہ خود کتنے حقیر ہو چکے ہیں۔ جس سوچ پہ انہوں نے اپنے آپکو کھڑا کیا ہے وہ حضرت سلیمان کی وہ دیمک کھائ ہوئ لاٹھی بن چکی ہے۔ کہ جب گرے گی تو پتہ چلے گا کہ وہ مر چکے ہیں۔
بلاگستان کی اکثریت، اس پاکستانی نسل سے تعلق رکھتی ہے جو خود کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ سوائے دوسروں پہ کیچڑ اچھالنے کہ وہ بھی مذہب کے نام پہ۔ دیکھنے کو انکی زندگیاں بھی ان مسائل سے بھری پڑی ہوئ ہیں جن سے ایک عام پاکستانی دوچار ہے۔ مگر اسے حل کرنے کی طرف تو دور انکا تذکرہ تک کرنے میں انکی دلچسپی نہیں۔ ان کا غم اگر ہے تو یہ کہ ہمارے ملک میں ہم جنس پرست کیا کیر رہے ہیں؟ یہ ہم جنس پرستی ایک علاقے کی ثقافت کا سینکڑوں برس سے حصہ ہے مگر اس پہ روشن خیال کا نام لے کر ماتم کرنے میں ایک عجیب مزہ آتا ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ اس علاقے میں خواتین کو حقیر بنائے جانے سے ہم جنس پرستی کے مسئلے نے وہاں شدت پکڑی ہے۔
یہی لوگ ، یہ نہیں جاننا نہیں چاہتے کہ پاکستان کی عورتوں کی ایک بڑی تعداد اوسٹیو پوریسس کی وجہ معذوری کا شکار ہو رہی ہے ، بچے پولیو کی وجہ سے معذور ہو رہے ہیں۔ دنیا کے تقریباً دو سو ممالک میں پاکستان ان آخری ممالک میں شامل ہے جہاں مرنے والوں بچوں کی تعداد سب زیادہ ہے۔ یہ سوچ کر انہیں اپنے اوپر شرمندگی نہیں ہوتی کہ پاکستان کے ایک دیہات میں ایک عورت اپنی چھاتی کا زخم چھپائے چھپائے پھرتی رہی، شرم کی وجہ سے حتی کہ اسکی چھاتی کینسر کی وجہ سے پھٹ گئ ۔ تشویشناک بات یہ نہیں ہے کہ ایک پچاس سالہ عورت کو اسکے دس سال کے بچے کے سامنے برہنہ گلیوں میں پھرایا گیا۔ انکے نزدیک انکے ملک کی اہم اور تشویشناک خبر یہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ کسی جگہ  منافقوں کے پیدا کردہ نام نہاد مجاہدین کو متوقع تباہی پھیلانے میں متوقع کامیابی کیوں حاصل نہیں ہو پائ۔
ہم جنس پرستی کیا ہے؟ قدرتی طریقوں سے منہ موڑ کر ایسی طرز کو اختیار کرنا، جس میں نسل انسانی کو کوئ فائدہ نہیں۔ جس سے نسل انسانی آگے  نہیں بڑھتی۔ ایک ایسی بے سمت عیاشی جس سے بدلے میں کوئ مثبت چیز نہیں بر آمد ہوتی۔
فدائیوں اور نام نہاد مجاہدین کی فتح کی دعائیں مانگنا بھی فکراً ہم جنس پرستی سے الگ چیز نہیں۔ قدرتی طرز زندگی سے انحراف۔ ایسے عمل کا حصہ بننا جس میں نسل انسانی کی ہماری پاکستانی نسل کی بقاء نہیں تباہی ہے۔
یہ ہے ہماری موجودہ نسل کی اکثریت جو اس وقت اس بلاگستان کا حصہ ہے۔
اس عالم میں اگر کوئ اس روش سے ہٹ کر بات کہنا چاہ رہا ہے تو اسے اختیار ملنا چاہئیے۔ اسے اپنا اختیار استعمال کرنا چاہئیے۔ ہم سب کی تربیت ہونی چاہئیے کہ ہم ایکدوسرے کی غلط ترین بات کو سنیں ، اسے برداشت کریں۔ اس پہ سوچیں اور ہمیں نہیں پسند تو تو آگے بڑھ جائیں۔ ہمیں اب لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کو دبانے سے روکنے کی کوشش میں حصہ ڈالنا پڑے گا۔ اس لئے نہیں کہ ہم بعیّنہ وہی خیالات رکھتے ہیں جیسے کہ وہ رکھتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ہم ایک متوازن معاشرے کے طور پہ پنپ سکیں۔
توازن، کسی ایک قوت کے حاوی ہونے میں نہیں۔ توازن تمام قوتوں کے ایک ساتھ موجود رہنے سے پتہ چلتا ہے۔ کم از کم کائینات اپنے مظاہر میں یہی کہتی نظر آتی ہے۔




تو مکی صاحب ، میں تو نہیں سمجھتی کہ آپکو بلاگستان سے علیحدہ ہونے کی ضرورت ہے۔    باقی کچھ لوگوں کا یہاں رد عمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ برصغیر میں اسلام محمد بن قاسم لے کر آیا کیا انکی اس غلط فہمی کی تصحیح ضروری نہیں ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ محمود غزنوی ایک عظیم مسلمان فاتح تھا۔ کیاانکی اس غلط فہمی کی تصحیح ضروری نہیں کہ وہ ایک بہترین جنگجو تھا۔ اور بس۔ 
وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اگر ایک اسلامی ملک بن گیا تو یہاں عورتیں جسم فروشی نہیں کریں گی، لوگ ہم جنس پرست نہیں ہونگے، شراب نہیں پی جائے گی، زنا نہیں ہوگا، جھوٹ نہیں ہوگا،  چوری نہیں ہوگی۔ امن وامان ہوگا، شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پئیں گے۔ یہاں سے وہاں تک صرف  مسلمان پائیں گے وہ بھی کسی ایک فرقے کے۔  فرقہ واریت پہ جنگ ختم ہو جائے گی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر لوگوں کے گروہ خدا کا انکار کریں تو اس سے انکا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ حالانکہ انکاا کرنے والے بھی ہزاروں سال سے موجود ہیں اور ایمان والے بھی اپنے ایمان پہ جمے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب، کمزوری انکے ایمان میں ہے یا مضبوطی انکار کرنے والے کے بیان میں۔ اسکا ایک اور مطلب ہے کیونکہ وہ اپنے ایمان کا دفاع کرنے سے آگاہ نہیں اس لئے انہیں انکار کرنے والے سے ڈر لگتا ہے۔ اسکی ایک اور وجہ ہے وہ اپنے ایمان میں کشش نہیں پیدا کرتے بلکہ ہیبت پیدا کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہیبت سے دل مسحور کئے جا سکتے ہیں۔
کیا انہِیں اس چیز پہ مجبور نہ کیا جائے کہ اصل کتابوں کی طرف رجوع کرو۔ اور اپنے ایمان کو مضبوط۔ جو ایمان ایسے ہر کس و ناکس کے بیان پہ ڈول جائے اسے سپلیمنٹس کی بے حد ضرورت ہے۔ اسے یہ معلوم ہونے کی بے حد ضرورت ہے کہ وہ کیوں کمزور ہے اور اسے کیسے مضبوط ہونا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ انکار کرنے والا کیا دلائل رکھتا ہے جسکی بناء پہ وہ اسے، مضبوط ایمان والے کو چت کر دیتا ہے۔ اور مضبوط ایمان کا دعوی کرنے والے یہ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں کہہ پاتے کہ اپنا علاج کرائیے۔ حالانکہ  انہیں دوسروں کو یہ مشورہ دینے کی نہیں اپنے علاج کی آپ ضرورت ہے۔ اور انکا علاج اپنے دین سے خود آگہی حاصل کرنے میں ہے جو وہ نہیں کر پاتے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ دین اس سلسلے میں خاصہ کڑا ہے۔
کیا انہیں یہ نہیں بتایا جائے کہ جب تک معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا اور معاشی خوشحالی نہیں ہوگی ان میں سے کوئ چیز ختم نہیں ہوگی اور نہ کوئ نئ مثبت چیز جنم لے گی۔  سوائے اسکے کہ ہم منافقین کے گروہ در گروہ تخلیق کریں۔
انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ جب تک انسان زندہ ہے، ان کے خیالات اور زندگی سے انکے مطالبات ایک دوسرے سے الگ رہیں گے۔ یہی اس دنیا کا حسن ہے، آزمائیش ہے،اور مقصود۔
جب ہی  کائینات میں تین قوتیں بر سر پیکار نظر آتی ہیں۔ خدا ، انسان اور شیطان۔ اگر ان میں سے صرف ایک قوت بچ جائے تو کائینات میں نہ نمو ہوگا نہ استحکام۔

Monday, June 14, 2010

دھندہ

یہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ میں یونیورسٹی سے واپس آرہی تھی۔ منی بس نیپا کے بس اسٹاپ پہ رکی تو ایک عورت چڑھی۔ لمبے قد اور اچھی جسامت کی چالیس سال سے اوپر کی یہ عورت ایک معقول گھرانے کی لگ رہی تھی۔ اچھی تراش کے کپڑے پہنے ہوئ اور اس پہ کشیدہ کی ہوئ چادر اوڑھے ہوئے تھی۔ اسکا چہرہ لگ رہا تھا کہ کسی پارلر کی توجہ لیتا رہتا ہے کہ بھنویں تھریڈنگ کے ذریعے بنی ہوئیں، بال مناسب انداز میں سدھارے ہوئے، ہاتھ اور پیروں کے ناخنوں پہ باسی ہوتی ہوئ نیل پالش ۔ پھر اس نے ایک عجیب حرکت کی کہ اچانک  مانگنا شروع کر دیا۔ میرا شوہر خاصہ بیمار ہے، اسکے علاج کے لئے پیسے چاہئیں، اور پھر ایک  ہمدردی حاصل کرنے والی تقریر۔ خواتین نے تو اسکو زیادہ لفٹ نہ دی اور وہ اس گیٹ کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئ جو مردانے کی طرف کھلتا ہے۔ وہاں سے اسے کچھ خیرات ملی۔
آئیندہ چار پانچ بس اسٹاپ تک وہ اس میں اسی طرح موجودرہی۔ پھر وہ اکثر اس وقت نظر آنے لگی اسی طرح مردوں کے حصے کی طرف منہ کئے اور انکے گیٹ سے لگی۔ میں نے سوچا یہ عورت یقیناً بھیک کے پردے میں جسم فروشی کا دھندہ کرتی ہے۔ ورنہ ایسے حلئیے میں کیوں بھیک مانگتی ہے۔ ایکدن ایک ماسی نے اسے ڈانٹ بھی دیا۔' مجھے دیکھو تم سے کمزور ہوں پر سارادن بنگلوں میں صفائ کا کام کر کے حلال کی روزی کماتی ہوں۔ تم اتنی اچھی ہٹی کٹی عورت ہو بھیک مانگتے شرم نہیں آتی'۔
اسے شرم نہیں آتی تھی کیونکہ اسکے بعد بھی میں نے اسے یہی کرتے دیکھا۔ پھر میرا راستہ تبدیل ہو گیا۔
رمضان میں، میں نے دیکھا، اچھی خاصی لڑکیاں جن کی عمریں سترہ اٹھارہ سال سے لیکر زیادہ سے زیادہ تیس سال تک ہونگیں، بازاروں میں نظر آتیں۔ سر سے پیر تک اسمارٹ، رائج الفیشن برقعوں میں ملبوس، چہرے پہ حجاب کیا ہوا۔ ساتھ میں ایک اور خاتون۔  بھیک مانگنا اور وہ بھی بالخصوص مردوں سے انکے کندھےپہ اپنا نازک سا ہاتھ مارکر۔ میں نےسوچا یہ بھی شاید گاہک پکڑنے کا ایک طریقہ ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے میں میکرو کے پارکنگ ایریا میں رابعہ اور مشعل کے ساتھ موجود تھی۔ ہم تینوں خریدے گئے سامان کی ٹرالی میں سے سامان نکال کر ڈگی میں رکھنے میں مصروف تھے۔ میں سامان رکھنے سے زیادہ ان دونوں میں تصفیہ کرارہی تھی کہ کون ، کون سا سامان رکھے گا۔ اور ادھر مشعل ہر تھوڑی دیر بعد شور مچاتی کہ اسکی خدمات سے صحیح سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ میکرو ایک ہول سیل کا سپر اسٹور ہے۔ یہاں آرام یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں آرام سے خریداری کر لیں۔ لیکن سامان رکھنے کے لئے پلاسٹک کے تھیلے خریدنے ہوتے ہیں۔ میں دنیا میں پلاسٹک کی آلودگی اپنے تئیں بڑھانے کی کوشش نہیں کرتی البتہ کچھ تھیلے ڈگی میں رکھتی ہوں تاکہ بار بار کام آتے رہیں۔ اس لئے نہیں خریدے۔
اب ڈگی میں یہ سب سامان صحیح سے رکھنا تھا۔ اچانک مجھے پیچھے سے آواز آئ۔ میڈم۔ دیکھا تو ایک چھبیس ستائیس سال کے صاحب کھڑے تھے۔ کریز لگی ہوئ ٹرائوژرز اور ڈریس شرٹ پہنے ہوئے۔ پالش سے چمکتے ہوئے جوتے اور سر کے بال جیل لگا کر جمائے ہوئے۔ میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ کہنے لگا 'ماں بیمار ہیں، میں نوکری کرتا ہوں مگر پورا نہیں پڑتا۔ ماں کے علاج کے لئے پیسے چاہئیں۔ میں بھیک نہیں مانگتا۔ یہ نوٹ بک بیچ رہا ہوں آپ خرید لیں' میں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ 'ٹیوشن کیوں نہیں پڑھاتے'۔ جی میں ایک نوکری کرتا ہوں۔ کچھ وقت ماں کو بھی دینا ہوتا ہے'۔ اچھا میں نے اسکے ہاتھ میں موجود نوٹ بک کی طرف دیکھا۔ کتنے کی ہے یہ۔ کہنے لگا سو روپے کی۔ پہلے حیرانی سے میرا منہ کھلا پھر الفاظ نکلے۔ یہ تو زیادہ سے زیادہ دس، پندرہ روپے کی ہوگی۔ اس پہ اس نے انتہائ رسان اورکچھ مسکراہٹ سے کہا میں نے آپکو بتایا تو ہے کہ مجھے ماں کے علاج کے لئے پیسے چاہئیں۔ اس لئے ان نوٹ بکس کی قیمت تھوڑی زیادہ ہے۔ 
دیکھیں جناب، میں نے ان سے کہا۔ آپ یہ فیصلہ کریں کہ آپ بھیک مانگ رہے ہیں یا محنت کے پیسے چاہتے ہیں۔  میں آپکو اسکے زیادہ سے زیادہ پچیس روپے دے سکتی ہوں اس سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے آپ کوئ ڈھنگ کا کام کریں۔ اتنی دیر میں مشعل بور ہو چکی تھی۔ اور اس نے شور مچا دیا کہ رابعہ اسے سامان نہیں رکھنے دے رہی جبکہ یہ اسکی باری ہے۔ میں پھر ٹرالی خالی کرنے لگی۔ اس نے پھر آواز دی میڈم، آپ یہ لے رہی ہیں۔ ارے میں نے بتا تو دیا کہ میں آپکو اسکی کیا قیمت دونگی۔ آپکو دینی ہے تو مزید بات کریں۔ وہ ان آٹھ دس نوٹ بکس کو بغل میں دبا کر، پھر وہیں ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا۔ گاڑی کی ڈگی بند ہوئ۔ میں نے گاڑی پارکنگ سے نکالی۔ وہ وہیں کھڑا ہوا تھا۔
اب سوچتی ہوں خواتین کو تو دھندے والی سوچ لیا تھا۔ اس ہٹے کٹے، بھلی شکل اور ہیئت کے شخص کو کس کھاتے میں ڈالوں۔