آج کا دن کوئ پوسٹ لکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔ اگلے سات آٹھ دن کے لئے مصروفیات کا تناسب کچھ نکل آیا ہے کہ بلاگ کی طرف زیادہ نظر نہ ہو پائے۔ بہر حال، اطلاع ملی کہ مکی صاحب نے اپنے بلاگ کو سیارہ سے الگ کرنے کی درخواست کی ہے۔ کیوں کی ہے ، یہ وہ بہتر جانتے ہونگے۔ لیکن میں اپنی ذاتی حیثیت میں انکے اس فعل سے مطمئن نہیں۔
کوئ آئیڈیئل معاشرہ وہ نہیں ہوتا جہاں سب ایک جیسی سوچ رکھتے ہوں۔ ایک مقولہ ہے کہ جہاں سب ایک جیسی سوچ رکھتے ہوں وہاں کسی کے پاس کرنے کو کچھ خاص نہیں ہوتا۔ دنیا میں وہی معاشرے ترقی کی طرف جاتے ہیں اور مثبت طرز زندگی کی طرف گامزن ہوتے ہیں جہاں تنوع ہوتا ہے۔ انسانوں کا، بنیادی فکرات کا اور بنیادی اعمال و کردار کا۔
اگر ایک خاص سوچ کسی معاشرے پہ طاری کر دی جائے تو ایک شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔ اس شدت پسندی کو قابو میں رکھنے کے لئے اسکی مخالف قوت کا موجود رہنا ضروری ہے اور معاشرے کی ایک قوت کو مہمیز رکھنے کے لئے دوسری مخالف قوت کو حاضر رہنا چاہئیے۔
جمہوریت کی ساری خوبی یہی ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کو آواز اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے جو آمریت یا مارشل لاء میں نہیں ہوتی۔
اگر آج ہمارے ملک میں عدم برداشت کا رویہ اپنے عروج پہ ہے تو اسکی جڑیں ضیاء الحق کی اس گیارہ سالہ حکومت میں ملتی ہیں جب پاکستان کے بد ترین مارشل لاء میں ایک نظرئیے کو پروان چڑھانے کے لئے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے گئے۔ اسکے نتیجے میں دوسرا مخالف گروہ ختم کر دیا گیا یا خاموش کرا دیا گیا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ نہ لوگوں میں علم ہے، نہ برداشت، ترقی تو دور۔ ترقی اور فلاحی ریاست ایک مبہم خواب کے سوا کچھ نہیں۔ ہم معاشی اور معاشرتی سطح پہ دن بہ دن تنزلی کا شکار ہیں۔
ہم مسلسل آمریت کے زیر سایہ رہنے سے مزاجاً خود بھی آمر ہو چکے ہیں۔ رہی سہی کسر، متعارف کرائے گئے جذبہ جہاد نے پوری کی اور اب ہماری اکثریت میں یہ اہلیت ہے کہ وہ ظلم میں ہٹلر اور چنگیز خاں کو بھی مات دے دے۔
ہماری ایک پوری نسل نہیں جانتی کہ اسکے باہر کی دنیا میں کیا ہوتا ہے، اس دنیا میں کیسی کیسی ثقافتیں، مذاہب موجود ہیں۔ اور اسی دنیا میں کیسے کیسے ممالک ہیں جہاں مختلف النوع مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں مگر سکھ چین کے ساتھ، زندگی میں آگے کی سمت چلے جا رہے ہیں۔
عدم برداشت کا رویہ آخر کیسے ختم ہوگا؟ ایسے کہ لوگوں کو اپنے مخالف کی بات سننے کی عادت پڑے۔ ایسے کہ انہیں معلوم ہو کہ وہ کوئ پھنّے خان نہیں ہیں۔ دنیا میں عظیم لوگ انکے مذہب، فرقے، ذات ، برادری، نسل اور لسان سے الگ ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ وہ سب اسی دنیا کے دسترخوان سے اپنا روزی روزگار حاصل کرتے ہیں۔ ایسے کہ انہیں معلوم ہو کہ وہ خود کتنے حقیر ہو چکے ہیں۔ جس سوچ پہ انہوں نے اپنے آپکو کھڑا کیا ہے وہ حضرت سلیمان کی وہ دیمک کھائ ہوئ لاٹھی بن چکی ہے۔ کہ جب گرے گی تو پتہ چلے گا کہ وہ مر چکے ہیں۔
بلاگستان کی اکثریت، اس پاکستانی نسل سے تعلق رکھتی ہے جو خود کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ سوائے دوسروں پہ کیچڑ اچھالنے کہ وہ بھی مذہب کے نام پہ۔ دیکھنے کو انکی زندگیاں بھی ان مسائل سے بھری پڑی ہوئ ہیں جن سے ایک عام پاکستانی دوچار ہے۔ مگر اسے حل کرنے کی طرف تو دور انکا تذکرہ تک کرنے میں انکی دلچسپی نہیں۔ ان کا غم اگر ہے تو یہ کہ ہمارے ملک میں ہم جنس پرست کیا کیر رہے ہیں؟ یہ ہم جنس پرستی ایک علاقے کی ثقافت کا سینکڑوں برس سے حصہ ہے مگر اس پہ روشن خیال کا نام لے کر ماتم کرنے میں ایک عجیب مزہ آتا ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ اس علاقے میں خواتین کو حقیر بنائے جانے سے ہم جنس پرستی کے مسئلے نے وہاں شدت پکڑی ہے۔
یہی لوگ ، یہ نہیں جاننا نہیں چاہتے کہ پاکستان کی عورتوں کی ایک بڑی تعداد اوسٹیو پوریسس کی وجہ معذوری کا شکار ہو رہی ہے ، بچے پولیو کی وجہ سے معذور ہو رہے ہیں۔ دنیا کے تقریباً دو سو ممالک میں پاکستان ان آخری ممالک میں شامل ہے جہاں مرنے والوں بچوں کی تعداد سب زیادہ ہے۔ یہ سوچ کر انہیں اپنے اوپر شرمندگی نہیں ہوتی کہ پاکستان کے ایک دیہات میں ایک عورت اپنی چھاتی کا زخم چھپائے چھپائے پھرتی رہی، شرم کی وجہ سے حتی کہ اسکی چھاتی کینسر کی وجہ سے پھٹ گئ ۔ تشویشناک بات یہ نہیں ہے کہ ایک پچاس سالہ عورت کو اسکے دس سال کے بچے کے سامنے برہنہ گلیوں میں پھرایا گیا۔ انکے نزدیک انکے ملک کی اہم اور تشویشناک خبر یہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ کسی جگہ منافقوں کے پیدا کردہ نام نہاد مجاہدین کو متوقع تباہی پھیلانے میں متوقع کامیابی کیوں حاصل نہیں ہو پائ۔
ہم جنس پرستی کیا ہے؟ قدرتی طریقوں سے منہ موڑ کر ایسی طرز کو اختیار کرنا، جس میں نسل انسانی کو کوئ فائدہ نہیں۔ جس سے نسل انسانی آگے نہیں بڑھتی۔ ایک ایسی بے سمت عیاشی جس سے بدلے میں کوئ مثبت چیز نہیں بر آمد ہوتی۔
فدائیوں اور نام نہاد مجاہدین کی فتح کی دعائیں مانگنا بھی فکراً ہم جنس پرستی سے الگ چیز نہیں۔ قدرتی طرز زندگی سے انحراف۔ ایسے عمل کا حصہ بننا جس میں نسل انسانی کی ہماری پاکستانی نسل کی بقاء نہیں تباہی ہے۔
یہ ہے ہماری موجودہ نسل کی اکثریت جو اس وقت اس بلاگستان کا حصہ ہے۔
اس عالم میں اگر کوئ اس روش سے ہٹ کر بات کہنا چاہ رہا ہے تو اسے اختیار ملنا چاہئیے۔ اسے اپنا اختیار استعمال کرنا چاہئیے۔ ہم سب کی تربیت ہونی چاہئیے کہ ہم ایکدوسرے کی غلط ترین بات کو سنیں ، اسے برداشت کریں۔ اس پہ سوچیں اور ہمیں نہیں پسند تو تو آگے بڑھ جائیں۔ ہمیں اب لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کو دبانے سے روکنے کی کوشش میں حصہ ڈالنا پڑے گا۔ اس لئے نہیں کہ ہم بعیّنہ وہی خیالات رکھتے ہیں جیسے کہ وہ رکھتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ہم ایک متوازن معاشرے کے طور پہ پنپ سکیں۔
توازن، کسی ایک قوت کے حاوی ہونے میں نہیں۔ توازن تمام قوتوں کے ایک ساتھ موجود رہنے سے پتہ چلتا ہے۔ کم از کم کائینات اپنے مظاہر میں یہی کہتی نظر آتی ہے۔
تو مکی صاحب ، میں تو نہیں سمجھتی کہ آپکو بلاگستان سے علیحدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ باقی کچھ لوگوں کا یہاں رد عمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ برصغیر میں اسلام محمد بن قاسم لے کر آیا کیا انکی اس غلط فہمی کی تصحیح ضروری نہیں ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ محمود غزنوی ایک عظیم مسلمان فاتح تھا۔ کیاانکی اس غلط فہمی کی تصحیح ضروری نہیں کہ وہ ایک بہترین جنگجو تھا۔ اور بس۔
وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اگر ایک اسلامی ملک بن گیا تو یہاں عورتیں جسم فروشی نہیں کریں گی، لوگ ہم جنس پرست نہیں ہونگے، شراب نہیں پی جائے گی، زنا نہیں ہوگا، جھوٹ نہیں ہوگا، چوری نہیں ہوگی۔ امن وامان ہوگا، شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پئیں گے۔ یہاں سے وہاں تک صرف مسلمان پائیں گے وہ بھی کسی ایک فرقے کے۔ فرقہ واریت پہ جنگ ختم ہو جائے گی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر لوگوں کے گروہ خدا کا انکار کریں تو اس سے انکا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ حالانکہ انکاا کرنے والے بھی ہزاروں سال سے موجود ہیں اور ایمان والے بھی اپنے ایمان پہ جمے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب، کمزوری انکے ایمان میں ہے یا مضبوطی انکار کرنے والے کے بیان میں۔ اسکا ایک اور مطلب ہے کیونکہ وہ اپنے ایمان کا دفاع کرنے سے آگاہ نہیں اس لئے انہیں انکار کرنے والے سے ڈر لگتا ہے۔ اسکی ایک اور وجہ ہے وہ اپنے ایمان میں کشش نہیں پیدا کرتے بلکہ ہیبت پیدا کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہیبت سے دل مسحور کئے جا سکتے ہیں۔
کیا انہِیں اس چیز پہ مجبور نہ کیا جائے کہ اصل کتابوں کی طرف رجوع کرو۔ اور اپنے ایمان کو مضبوط۔ جو ایمان ایسے ہر کس و ناکس کے بیان پہ ڈول جائے اسے سپلیمنٹس کی بے حد ضرورت ہے۔ اسے یہ معلوم ہونے کی بے حد ضرورت ہے کہ وہ کیوں کمزور ہے اور اسے کیسے مضبوط ہونا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ انکار کرنے والا کیا دلائل رکھتا ہے جسکی بناء پہ وہ اسے، مضبوط ایمان والے کو چت کر دیتا ہے۔ اور مضبوط ایمان کا دعوی کرنے والے یہ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں کہہ پاتے کہ اپنا علاج کرائیے۔ حالانکہ انہیں دوسروں کو یہ مشورہ دینے کی نہیں اپنے علاج کی آپ ضرورت ہے۔ اور انکا علاج اپنے دین سے خود آگہی حاصل کرنے میں ہے جو وہ نہیں کر پاتے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ دین اس سلسلے میں خاصہ کڑا ہے۔
کیا انہیں یہ نہیں بتایا جائے کہ جب تک معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا اور معاشی خوشحالی نہیں ہوگی ان میں سے کوئ چیز ختم نہیں ہوگی اور نہ کوئ نئ مثبت چیز جنم لے گی۔ سوائے اسکے کہ ہم منافقین کے گروہ در گروہ تخلیق کریں۔
انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ جب تک انسان زندہ ہے، ان کے خیالات اور زندگی سے انکے مطالبات ایک دوسرے سے الگ رہیں گے۔ یہی اس دنیا کا حسن ہے، آزمائیش ہے،اور مقصود۔
جب ہی کائینات میں تین قوتیں بر سر پیکار نظر آتی ہیں۔ خدا ، انسان اور شیطان۔ اگر ان میں سے صرف ایک قوت بچ جائے تو کائینات میں نہ نمو ہوگا نہ استحکام۔