میرے بچپن میں ہمارے سامنے والے گھر میں کئی درخت لگے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک درخت کی شاخیں سہرے کی لڑیوں کی طرح جھکی رہتی تھیں۔ اس پہ پھلواری کا موسم آتا تو درخت سفید پھولوں سے لد جاتا یہ پھول آہستہ آہستہ لمبی پھلیوں میں تبدیل ہوجاتے۔ میری ان میں دلچسپی یہیں تک تھی۔
یہ پھلیاں ، اس گھر کے رہنے والے بڑے شوق سے پکاتے اور کھاتے تھے۔ مجھے نجانے کیوں بالکل پسند نہ تھیں۔ میرے گھر میں شاید ہی کبھی پکائ گئ ہوں۔ انہیں نہ کھانے کا مجھے کبھی بھی افسوس نہیں رہا۔ لیکن ابھی کل ہی ایک دوست نے ایک ای میل بھیجی جس میں اس درخت کے بارے میں حیران کن معلومات تھیں۔ شہزاد بسرا کا لکھا ہوا یہ مضمون جس درخت کے بارے میں ہے اسے پاکستان میں سونجنا یا سہانجنا کہتے ہیں۔
چونکہ یہ معلومات میرے علم میں پہلے نہ تھیں اور خدا کا شکر ہے کہ مذہب کی طرح سائینس پہ کسی کی اجارہ داری نہیں نہ کسی گروہ کا یہ زور کہ ایک طبقے کے علاوہ کسی کو یہ باتیں سمجھ نہیں آ سکتیں۔ اس لئے میں نے مزید معلومات کے لئے انٹر نیٹ کا سہارا لیا۔
یہ درخت کرشماتی درخت کہلاتا ہے۔ کرشمہ اسکے خواص میں ہے ۔ یہ جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کے ممالک میں عام پایا جاتا ہے جبکہ افریقہ کے کچھ ممالک میں بھی ملتا ہے۔
اسکی شہرت کا تاریخی پس منظر سینیگال سے شروع ہوتا ہے جہاں قحط کے زمانے میں چرچ کی طرف سے اسے متعارف کرایا گیا۔ یہاں یہ بات شاید کچھ عجیب لگے کہ ہمارے دینی مدارس اور مساجد تو اس قسم کی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتے۔ لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مغرب میں سائینس کے اندر پادریوں کا حصہ بھی شامل ہے۔ انسانوں میں جینیاتی وراثت کا نظریہ پیش کرنے والا سائینسداں گریگر مینڈل، ایک پادری تھا۔ اس پہ آپ غور کریں ، میں آگے چلتی ہوں۔
سونجنا کے درخت کا ہر حصہ اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ ہر حصے کو غذا کو طور پہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور اسکی کاشت بھی بآسانی سخت حالات میں ہو سکتی ہے۔ اس طرح دنیا میں خشک سالی سے پیدا ہونے والی غذائ کمی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک بہترین انتخاب ہے۔ اسکے غذائ خواص کے بارے میںسینہ بہ سینہ چلی آنے والی اکثر باتیں درست ثابت ہوئیں۔ آجکی دنیا میں اس درخت کے اوپر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔
سب سے پہلے ہم اسکے غذائ خواص دیکھ لیتے ہیں۔
اوپر دئیے گئے چارٹ میں اسکے غذائ خواص کے بارے میں دعوے دیکھے جا سکتے ہیں۔
دودھ کے مقابلے میں سترہ گنا زیادہ کیلشیئم موجود ہے لیکن تحقیق کہتی ہے کہ پتوں اور تنے میں پایا جانے والا کیلشیئم، کیلشیئم آگزیلیٹ کی شکل میں ہوتا ہے اورانسانی جسم میں جذب ہونے کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ بات ابھی نامعلوم ہے کہ بیان کردہ کیلشیئم میں یہ کیلشیئم شامل ہے یا نہیں۔
اسکے علاوہ دہی کے مقابلے میں نو گنا زیادہ پروٹین ہوتا ہے۔ جانوروں کو جب غذا کے طور پہ استعمال کرایا گیا تو انکے وزن میں بتیس فی صد اضافہ دیکھا گیا جبکہ دودھ میں تینتالیس سے پینسٹھ فی صد اضافہ سامنے آیا۔
گاجر کے مقابلے میں چار گنا زیادہ وٹامن اے پایا جاتا ہے۔
کیلے کے مقابلے میں پندرہ گنا زیادہ پوٹاشیئم پایا جاتا ہے۔
پالک کے مقابلے میں انیس گنا زیادہ فولاد پایا جاتا ہے۔
اسکے تازہ پتوں کو پالک کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے، پکایا جا سکتا ہے اور خشک کر کے سفوف بنا کر بھی رکھا جا سکتا ہے۔ یعنی سلاد سے لیکر سالن تک بنایا جا سکتا ہے جبکہ سفوف بعض جگہوں پہ سوپ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اسکی پھلیاں بھی پکائ جاتی ہیں حتی کہ جڑوں کو بھی غذا کے طور پہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ البتہ جڑوں میں ایک زہریلا الکلائیڈ اسپائروچن پایا جاتا ہے۔ لیکن اسکی مقدار خاصی کم ہوتی ہے اس کے برے اثرات جڑوں کو بہت زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے ہی سامنے آ سکتے ہیں۔
بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں اگر اسے اپنی غذا میں شامل رکھیں تو دودھ کی کمی نہیں ہونے پاتی اور وہ صحت بخش ہوتا ہے۔ اس کے لئے انہیں تین بڑے کھانے کے چمچے اسکے پتوں کا سفوف لینا ہوگا۔
دن بھر میں اسکے پتوں کا پچاس گرام سفوف پورے دن کی غذائ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس طرح جسم میں غذا کے مختلف اجزاء کی کمی نہیں ہو پاتی۔ جس کے لئے گوشت یا پھل جیسی قیمتی اشیائے خوراک استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور ایک غریب شخص اپنی غذائ ضروریات بآسانی پورا کر سکتا ہے۔
بیجوں سے تیل حاصل کیا جاتا ہے جبکہ تیل نکالنے کے بعد جو بیجوں کی کھلی یا کیک بچ جاتا ہے اسے پانی صاف کرنے کے کام لایا جا سکتا ہے۔
اسکی انتہائ دلچسپ خوبی اسکی پانی صاف کرنے کی صلاحیت ہے جس سے پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔
پانی صاف کرنے کے لئے بیجوں کو خشک کر کے اسکے چھلکوں کو ہلکا ہلکا کوٹ کر الگ کر لیا جاتا ہے، حاصل ہونے والے سفید مغز کو کوٹ کر اسکا سفوف تیار کیا جاتا ہے۔ اس سفوف کے پچاس گرام سے ایک لٹر پانی صاف کیا جا سکتا ہے۔ پانی صاف کرنے کے لئے سفوف کو پانی میں اچھی طرح ہلائیں اور پھر تھوڑی دیر کے لئے چھوڑ دیں۔ بس پانی صاف۔
پانی صاف کرنے کی ویڈیو حاضر ہے۔
اب جبکہ آپ یہ طریقہ سیکھ چکے ہیں تو آپ کے ذمے دو ذمہ داریاں آتی ہیں۔ اول یہ کہ خود یہ درخت اپنے گھر میں یا باہر لگائیں اور گائوں دیہاتوں میں اسکے درخت لگانے کے لئے لوگوں کو ترغیب دیں۔ دوسرا یہ کہ پینے کا صاف پانی ہمارے ملک کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ اسکے لئے اس ویڈیو کے بیان کئے گئے طریقے سے اپنے اردگرد کے لوگوں کو آگاہ کریں۔
مجھے تو پانی ابال کر پینا خاصہ جھنجھٹ لگتا ہے لیکن کیا کریں اکیسویں صدی کے پاکستان میں اگر انسان طبقہ ء اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتا تو منرل واٹر پینے کے بجائے پانی ابالتا ہے غریب شخص ابال بھی نہیں سکتا۔ اور ہر سال لاکھوں لوگ پیٹ کے امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر انہیں ان بیجوں کا سفوف بنانا سکھا دیا جائے تو کم از کم اس مشکل سے تو انہیں نکالا جا سکتا ہے۔ پتوں کا محفوظ شدہ سفوف خوراک کی تنگی کے زمانے میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
اس درخت کو اگانےکے دو آسان طریقے ہیں پہلا اسکے بیج کے ذریعے اور دوسرا اسکی قلموں کے ذریعے۔ درخت میں پہلے سال پھول آجاتے ہیں دوسرے سال اسکی فصل زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ اگر اسے بڑھتا چھوڑ دیں تو یہ دس میٹر تک بلند درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسکی کانٹ چھانٹ کرکے اسے ایک دو میٹر تک اونچا رکھتے ہیں۔ تاکہ سائز اتنا رہے جہاں تک ہاتھ جا سکے۔
سونجنا کے مختلف حصوں کے مختلف طبی اور سائینسی فوائد ہیں جنکی تفصیلات میں ہم اس وقت نہیں جارہے۔ آپ دئیے گئے لنکس پہ دیکھ سکتے ہیں۔
پیسے کمانے والوں نے اس سے بھی فاِئدہ اٹھانے کا سوچ لیا۔ اسکے پتوں کا سفوف کیپسول کی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ اسکی مارکیٹنگ کے لئے نیٹ پہ مختلف ویب سائیٹس موجود ہیں۔ قدرت نے ہمارے اس علاقے کو اس درخت کا مسکن چنا ہے تو ہمیں اسکی قدر کرنی چاہئیے۔
Moringa oleifera silviculture
Spirochin
Alkaloid
Breast feeding
Senegal
Calcium oxalate
لنکس؛
۔