Showing posts with label حقوق. Show all posts
Showing posts with label حقوق. Show all posts

Monday, August 27, 2012

مسیار نکاح

اپنے پہلے شوہر کے انتقال کے فوراً بعد وہ سعودی عرب میں ایک طویل عرصہ گذار کر پاکستان واپس آگئیں۔ جب گفتگو کے دوران مجھے پتہ چلا کہ انکی دوسری شادی کو بھی پانچ چھ سال کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن انکے شوہر انکے ساتھ نہیں رہتے بلکہ اپنی پہلی مرحوم بیوی کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتے ہیں اور وہ اپنے پہلے شوہر کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتی ہیں تو مجھے نہایت اچنبھا ہوا۔
 یہ کیسا میاں بیوی کا تعلق ہے؟ میں نے بالکل پاکستانی ذہن سے سوچا۔ ایک تو یہی بات قابل اعتراض ہے کہ پچاس سال سے اوپر کی خاتون دوسری شادی کرے وہ بھی وہ جسکے پانچ بچے ہوں۔ بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی ہو۔  اور دونوں ساتھ بھی نہ رہیں۔ کیونکہ اگرہمارے  یہاں کوئ خاتون دوسری شادی کرتی ہے تو بنیادی مقصد تحفظ اور پیسہ ہوتا ہے۔
لیکن گھر واپس آ کر میں نے سوچا، کیا شادی محض معاشرتی تحفظ اور معاشی حالات کو مستحکم رکھنے کے لئے کی جاتی ہے؟
 اسکے چند دنوں بعد ایک محفل میں ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں کہ کسی نے تذکرہ چھیڑ دیا کہ یہ جو سنّی، شیعوں کو متعہ نکاح پہ اتنا برا بھلا کہتے ہیں  یہ اپنے سنّی مسیار نکاح کی بابت کیوں نہیں بات کرتے۔ ایک دفعہ پھر میں نے ہونّق ہو کر پوچھا کہ یہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے؟
 جواب ملا یہ بھی متعہ سے ملتی جلتی چیز ہوتی ہے آپ جا کر نیٹ پہ دیکھ لیں یا اپنے کسی اسکالر سے پوچھیں۔ تس پہ کسی اور نے بتایا کہ ایک صاحب نے کئ اسلامی مدرسوں کو مسیار نکاح کی بابت لکھا کہ انہیں معلومات بہم پہنچائ جائیں لیکن انہیں کہیں سے جواب نہیں ملا۔ اس لئے وہ نہیں جانتے کہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ یہ سنّی نکاح کی ایک قسم ہے جو کچھ شیعہ متعہ نکاح سے مشابہت رکھتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس سارے کے بعد میں نے رات گھر واپس آکر نیٹ گردی کی۔ جناب، تو یہ اسلامی نکاح کی ایک قسم ہے۔
 تمام تر مطالعے کے بعد یہ بات سامنے آئ کہ مسیار نکاح اسلام میں حلال ہے۔ نہ صرف مسلمان آپس میں بلکہ اہل کتاب سے بھی کر سکتے ہیں۔ یہ عام نکاح سے کس طرح مختلف ہوتا ہے؟ یہ متعہ نکاح سے کیسے مختلف ہوتا ہے؟
نکاح مسیار، ایسا اسلامی معاہدہء نکاح ہے جس میں ایک خاتون اپنی مرضی سے اپنے بہت سارے حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ مثلاً شوہر کے ساتھ رہنا، اگر اسکی ایک سے زائد بیویاں ہیں تو اوقات کی برابر تقسیم، نان نفقہ یعنی شوہر اسے گذر بسر کے لئے کوئ خرچہ نہیں دے گا اگرچہ کہ اسے بھی دونوں فریقین کی مرضی سے معاہدے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی وہ رہائش مہیا کرے گا۔ 
 مہر کی رقم فریقین کی مرضی سے طے کی جاتی ہے۔ مہر اسلامی نکاح میں وہ رقم ہے جو لڑکی کو ادا کی جاتی ہے چاہے نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد کسی بھی وقت لڑکی کے طلب کرنے پہ۔
یعنی عورت، اپنے والدین کے گھر یا اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہے۔ شوہر اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے جیسا وقت دونوں فریقین چاہیں منتخب کریں۔
شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے عام طور پہ عورت پالتی ہے۔ مجھے یہ نہیں پتہ چل سکا کہ آیا ان بچوں کا باپ کی وراثت پہ حق ہوتا ہے یا نہیں۔
 نکاح کے بعد بیوی اگر ان سب چیزوں کے لئے دعوی کرے تو اسکا دعوی صحیح ہوگا۔ اب اسکا انحصار شوہر پہ ہے کہ وہ اسے نتیجے میں یہ تمام اشیاء دے یا طلاق دے کر چھٹی پائے۔
اس ضمن میں اسلامی علماء کے درمیان اختلاف ہے کچھ اسے اخلاقی طور پہ اچھا نہیں سمجھتے اگرچہ حلال سمجھتے ہیں۔ الالبانی کے نزدیک یہ نکاح اسلامی روح سے متصادم ہے اس لئے ناجائز ہے۔ اسلامی شادی کی روح یہ بیان کی جاتی ہے کہ فریقین ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایکدوسرے سے روحانی خوشی حاصل کریں۔  اگرچہ عملی سطح پہ ہم دیکھتے ہیں کہ محبت کی شادی ہمارے یہاں ایک لعنت سے کم نہیں اور ہم بنیادی طور پہ یہی سمجھتے ہیں کہ اسلامی شادی کا مقصد ایک مرد کی جنسی ضروریات کا حلال طریقے سے پورا ہونا ہے اور عورت محض جنس کا ایک ذریعہ ہے۔ 
 الالبانی کے نزدیک اسکے نتیجے میں ایک خاندان تشکیل نہیں پاتا اور نہ ہی عورت کو تحفظ مل پاتا ہے اور نہ ہی بچے ایک مستحکم خاندان سے آگاہ ہو پاتے ہیں۔ 
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ شادیاں طلاق پہ ختم ہوتی ہیں کیونکہ مرد عام طور پہ یہ شادی اپنی جنسی ضرورت کے لئے کرتا ہے۔
متعہ اور مسیار نکاح میں صرف ایک فرق نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ متعہ ایک مقررہ مدت کے لئے کیا جاتا ہے مدت کے اختتام پہ معاہدے کی تجدید کی جا سکتی ہے۔
 اب فقہے سے ہٹ کر ہم دیکھنا چاہیں گے مسیار نکاح کی ضرورت کیسے وجود میں آئ۔ آج کے زمانے میں یہ عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور مصر میں عام ہے۔ جہاں امیر مرد وقت گذاری کے لئے یہ شادیاں کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ بتائ جاتی ہے کہ یہاں عام اسلامی نکاح کے لئے مرد پہ بہت زیادہ معاشی دباءو ہوتا ہے۔
وہ عورتیں جنکی  شادی اس وجہ سے نہیں ہو پارہی ہو کہ کوئ مرد انکی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں مثلاً  بوڑھی یا بیوہ عورتیں یا وہ عورتیں جن پہ اپنے والدین یا بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ سب مسیار نکاح سے مستفید ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ اس بات کے امکان زیادہ ہیں کہ یہ مردوں کی زیادہ جنسی آزادی کا باعث بنیں گی اور معاشرے میں خآندانی استحکام کو نقصان پہنچائیں گی۔
یہ عین ممکن ہے کہ یہ نکاح اسلام سے پہلے بھی رائج ہو۔ اسلامی قوانین کی اکثریت عرب کے قبائلی معاشرے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں سے بیشتر کو اصطلاحی طور پہ تبدیل کیا گیا ہے۔ 
 پاکستان، ہندوستان کے بر عکس عرب میں شادی کے بعد بیوی کو الگ گھر میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں مشترکہ خاندانی نظام ہندءووں کے زرعی معاشرے کی وجہ سے آیا جسکا عرب میں کوئ خاص تصور نہیں۔ اگر کوئ پاکستانی، مشترکہ خاندانی نظام کو بہتر سمجھتا ہے تو اسے جان لینا چاہئیے کہ یہ عرب میں نہیں ہوتا۔ اس لئے اسلامی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔
چونکہ اس نکاح کا بنیادی مقصد صرف جنسی ضرورت کو پورا کرنا ہی نظر آتا ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جنس کی بڑی اہمیت ہے اور اسے بنیادی انسانی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ یوں عام اسلامی نکاح کے ساتھ اس قسم کے نکاح کی بھی گنجائش رکھی گئ ہے۔   یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ عرب معاشرہ جنس کے معاملے میں اتنا ہی کھلا ہے جتنا کہ مغربی معاشرہ جس کی بے حیائ پہ ہم ہر وقت لعن طعن کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عرب میں یہ باہر گلیوں میں نظر نہِں آتا۔ لیکن گھروں میں یہ اس سے کہیں زیادہ شدید حالت میں موجود ہے۔
قرآن پڑھتے ہوئے بھی میں اکثر سوچتی ہوں کہ جب ایک چھ سال کا عرب بچہ اسے پڑھتا ہوگا تو کیا وہ اسکے معنی نہیں سمجھتا ہوگا قرآن ایک ایسی کتاب جس میں جنس اور شادی کے معاملات کو کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
اسکے ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ جب بھی ہمارے یہاں یہ مسئلہ سر اٹھاتا ہے کہ ہائ اسکول یا کالج کی سطح پہ بچوں کو جنس سے آگہی دینا ضروری ہے تو سب سے زیادہ مذہبی حلقے اسکے خلاف شور مچاتے ہیں۔ آخر یہ تضاد کیوں؟
آخر ایسا کیوں ہے کہ ویسے تو ہمارے یہاں عرب معاشرتی اقدار کو اسلامی معاشرتی اقدار کہہ کر پیش کیا جاتا ہے۔ عرب ثقافت کو اسلامی ثقافت کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔  لیکن جب ان اقدار کی باری آتی ہے جو عرب کے ایک کھلے معاشرے کو پیش کرتے ہیں تو ہم صم بکم ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت ہم عرب معاشرے کو پاکستانی معاشرے سے الگ کیوں سمجھتے ہیں؟

Tuesday, March 13, 2012

کہنے دیں

نبیلہ نے صرف  سسٹم سے بغاوت نہیں کی اور نہ ہی صرف یہ کیا کہ محسن پہ تیزاب پھینک کراس کے چھکے اڑا دئیے۔ بلکہ اس  البیلی نار نے مجھے بھی میرے متوقع موضوع سے ہٹا دیا۔
کیا نبیلہ نے کوئ برا کام کیا؟
جناب، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ خربوزے نے خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پہلے خربوزے نے کبھی یہ خیال ہی نہیں کیا تھا کہ دوسرا خربوزہ بھی اسے دیکھ کر رنگ پکڑے گا اور وہ بھی وہی والا جو اسکا ہے۔ خربوزے نے یہ خیال کیوں نہیں کیا۔ یہ ہم اور آپ کیا جانیں۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جو بکرے نے ماری ہے بکری کو سینگ تو بکری بھی مارے گی بکرے کو سینگ۔ 
یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس قسم کے واقعات میں مرد مجرم شاید ہی گرفت میں آتے ہوں۔ لیکن نبیلہ دھر لی گئ۔ کوئ بات نہیں نبیلہ پہلی دفعہ ناتجربے کاری میں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ تم سے پہلے کسی عورت نے یہ کیا بھی تو نہیں تھا۔ اس لئے تمہاری معلومات بھی نہیں ہونگیں۔ آہستہ آہستہ تم بھی سیکھ جاءوگی کہ صحیح وار کہاں سے کرنا چاہئیے ایسے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
 اور پھر جس نظام میں تم ہو وہاں تمہاری ہمت پہ داد دینے والے کم اور برا بھلا کہنے والے زیادہ ہونگے۔  مرد مجرموں کو خفت کے اس مرحلے سے نہیں گذرنا پڑتا۔ انکے لئے تو یہ ایک اعزاز ہوتا ہے کہ کسی ایسی عورت کا دماغ درست کر دیا جو ان  پہ توجہ نہیں دے رہی تھی۔
یہ تو میں تسلیم کرتی ہوں کہ اس ملک میں پنجاب کی مٹیار سے زیادہ با ہمت اور جراءت مند کوئ اور عورت نہیں۔ اس لئے ہیر اور سوہنی دونوں کردار یہیں تخلیق ہوئے۔
اندازہ ہے کہ نبیلہ اس وقت کسی تھانے میں چھترول کھا رہی ہوگی، خاندان والے اسے کوسنے دے رہے ہونگے۔  خاندان کی عزت خاک میں مل گئ ہوگی۔
 یقین ہے کہ اس میں دو چیزوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک ٹیکنالوجی اور دوسرا معاشرے کی حد سے بڑھی ہوئ منافقت اور حقائق سے مسلسل فرار۔ یہ نہیں معلوم کہ  معاشرے کے تارو بود کی  حفاظت کرنے والے کس کو  عاق کریں گے۔
لیکن ہمیں یہ تو کہنے دیں کہ  رانجھن، رانجھن کردی، میں آپے رانجھن ہو گئ۔ جاننا صرف یہ ہے کہ جب ہیر ، رانجھا ہو گئ تو رانجھے پہ کیا گذری؟