Monday, August 27, 2012

مسیار نکاح

اپنے پہلے شوہر کے انتقال کے فوراً بعد وہ سعودی عرب میں ایک طویل عرصہ گذار کر پاکستان واپس آگئیں۔ جب گفتگو کے دوران مجھے پتہ چلا کہ انکی دوسری شادی کو بھی پانچ چھ سال کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن انکے شوہر انکے ساتھ نہیں رہتے بلکہ اپنی پہلی مرحوم بیوی کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتے ہیں اور وہ اپنے پہلے شوہر کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتی ہیں تو مجھے نہایت اچنبھا ہوا۔
 یہ کیسا میاں بیوی کا تعلق ہے؟ میں نے بالکل پاکستانی ذہن سے سوچا۔ ایک تو یہی بات قابل اعتراض ہے کہ پچاس سال سے اوپر کی خاتون دوسری شادی کرے وہ بھی وہ جسکے پانچ بچے ہوں۔ بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی ہو۔  اور دونوں ساتھ بھی نہ رہیں۔ کیونکہ اگرہمارے  یہاں کوئ خاتون دوسری شادی کرتی ہے تو بنیادی مقصد تحفظ اور پیسہ ہوتا ہے۔
لیکن گھر واپس آ کر میں نے سوچا، کیا شادی محض معاشرتی تحفظ اور معاشی حالات کو مستحکم رکھنے کے لئے کی جاتی ہے؟
 اسکے چند دنوں بعد ایک محفل میں ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں کہ کسی نے تذکرہ چھیڑ دیا کہ یہ جو سنّی، شیعوں کو متعہ نکاح پہ اتنا برا بھلا کہتے ہیں  یہ اپنے سنّی مسیار نکاح کی بابت کیوں نہیں بات کرتے۔ ایک دفعہ پھر میں نے ہونّق ہو کر پوچھا کہ یہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے؟
 جواب ملا یہ بھی متعہ سے ملتی جلتی چیز ہوتی ہے آپ جا کر نیٹ پہ دیکھ لیں یا اپنے کسی اسکالر سے پوچھیں۔ تس پہ کسی اور نے بتایا کہ ایک صاحب نے کئ اسلامی مدرسوں کو مسیار نکاح کی بابت لکھا کہ انہیں معلومات بہم پہنچائ جائیں لیکن انہیں کہیں سے جواب نہیں ملا۔ اس لئے وہ نہیں جانتے کہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ یہ سنّی نکاح کی ایک قسم ہے جو کچھ شیعہ متعہ نکاح سے مشابہت رکھتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس سارے کے بعد میں نے رات گھر واپس آکر نیٹ گردی کی۔ جناب، تو یہ اسلامی نکاح کی ایک قسم ہے۔
 تمام تر مطالعے کے بعد یہ بات سامنے آئ کہ مسیار نکاح اسلام میں حلال ہے۔ نہ صرف مسلمان آپس میں بلکہ اہل کتاب سے بھی کر سکتے ہیں۔ یہ عام نکاح سے کس طرح مختلف ہوتا ہے؟ یہ متعہ نکاح سے کیسے مختلف ہوتا ہے؟
نکاح مسیار، ایسا اسلامی معاہدہء نکاح ہے جس میں ایک خاتون اپنی مرضی سے اپنے بہت سارے حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ مثلاً شوہر کے ساتھ رہنا، اگر اسکی ایک سے زائد بیویاں ہیں تو اوقات کی برابر تقسیم، نان نفقہ یعنی شوہر اسے گذر بسر کے لئے کوئ خرچہ نہیں دے گا اگرچہ کہ اسے بھی دونوں فریقین کی مرضی سے معاہدے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی وہ رہائش مہیا کرے گا۔ 
 مہر کی رقم فریقین کی مرضی سے طے کی جاتی ہے۔ مہر اسلامی نکاح میں وہ رقم ہے جو لڑکی کو ادا کی جاتی ہے چاہے نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد کسی بھی وقت لڑکی کے طلب کرنے پہ۔
یعنی عورت، اپنے والدین کے گھر یا اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہے۔ شوہر اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے جیسا وقت دونوں فریقین چاہیں منتخب کریں۔
شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے عام طور پہ عورت پالتی ہے۔ مجھے یہ نہیں پتہ چل سکا کہ آیا ان بچوں کا باپ کی وراثت پہ حق ہوتا ہے یا نہیں۔
 نکاح کے بعد بیوی اگر ان سب چیزوں کے لئے دعوی کرے تو اسکا دعوی صحیح ہوگا۔ اب اسکا انحصار شوہر پہ ہے کہ وہ اسے نتیجے میں یہ تمام اشیاء دے یا طلاق دے کر چھٹی پائے۔
اس ضمن میں اسلامی علماء کے درمیان اختلاف ہے کچھ اسے اخلاقی طور پہ اچھا نہیں سمجھتے اگرچہ حلال سمجھتے ہیں۔ الالبانی کے نزدیک یہ نکاح اسلامی روح سے متصادم ہے اس لئے ناجائز ہے۔ اسلامی شادی کی روح یہ بیان کی جاتی ہے کہ فریقین ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایکدوسرے سے روحانی خوشی حاصل کریں۔  اگرچہ عملی سطح پہ ہم دیکھتے ہیں کہ محبت کی شادی ہمارے یہاں ایک لعنت سے کم نہیں اور ہم بنیادی طور پہ یہی سمجھتے ہیں کہ اسلامی شادی کا مقصد ایک مرد کی جنسی ضروریات کا حلال طریقے سے پورا ہونا ہے اور عورت محض جنس کا ایک ذریعہ ہے۔ 
 الالبانی کے نزدیک اسکے نتیجے میں ایک خاندان تشکیل نہیں پاتا اور نہ ہی عورت کو تحفظ مل پاتا ہے اور نہ ہی بچے ایک مستحکم خاندان سے آگاہ ہو پاتے ہیں۔ 
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ شادیاں طلاق پہ ختم ہوتی ہیں کیونکہ مرد عام طور پہ یہ شادی اپنی جنسی ضرورت کے لئے کرتا ہے۔
متعہ اور مسیار نکاح میں صرف ایک فرق نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ متعہ ایک مقررہ مدت کے لئے کیا جاتا ہے مدت کے اختتام پہ معاہدے کی تجدید کی جا سکتی ہے۔
 اب فقہے سے ہٹ کر ہم دیکھنا چاہیں گے مسیار نکاح کی ضرورت کیسے وجود میں آئ۔ آج کے زمانے میں یہ عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور مصر میں عام ہے۔ جہاں امیر مرد وقت گذاری کے لئے یہ شادیاں کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ بتائ جاتی ہے کہ یہاں عام اسلامی نکاح کے لئے مرد پہ بہت زیادہ معاشی دباءو ہوتا ہے۔
وہ عورتیں جنکی  شادی اس وجہ سے نہیں ہو پارہی ہو کہ کوئ مرد انکی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں مثلاً  بوڑھی یا بیوہ عورتیں یا وہ عورتیں جن پہ اپنے والدین یا بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ سب مسیار نکاح سے مستفید ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ اس بات کے امکان زیادہ ہیں کہ یہ مردوں کی زیادہ جنسی آزادی کا باعث بنیں گی اور معاشرے میں خآندانی استحکام کو نقصان پہنچائیں گی۔
یہ عین ممکن ہے کہ یہ نکاح اسلام سے پہلے بھی رائج ہو۔ اسلامی قوانین کی اکثریت عرب کے قبائلی معاشرے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں سے بیشتر کو اصطلاحی طور پہ تبدیل کیا گیا ہے۔ 
 پاکستان، ہندوستان کے بر عکس عرب میں شادی کے بعد بیوی کو الگ گھر میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں مشترکہ خاندانی نظام ہندءووں کے زرعی معاشرے کی وجہ سے آیا جسکا عرب میں کوئ خاص تصور نہیں۔ اگر کوئ پاکستانی، مشترکہ خاندانی نظام کو بہتر سمجھتا ہے تو اسے جان لینا چاہئیے کہ یہ عرب میں نہیں ہوتا۔ اس لئے اسلامی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔
چونکہ اس نکاح کا بنیادی مقصد صرف جنسی ضرورت کو پورا کرنا ہی نظر آتا ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جنس کی بڑی اہمیت ہے اور اسے بنیادی انسانی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ یوں عام اسلامی نکاح کے ساتھ اس قسم کے نکاح کی بھی گنجائش رکھی گئ ہے۔   یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ عرب معاشرہ جنس کے معاملے میں اتنا ہی کھلا ہے جتنا کہ مغربی معاشرہ جس کی بے حیائ پہ ہم ہر وقت لعن طعن کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عرب میں یہ باہر گلیوں میں نظر نہِں آتا۔ لیکن گھروں میں یہ اس سے کہیں زیادہ شدید حالت میں موجود ہے۔
قرآن پڑھتے ہوئے بھی میں اکثر سوچتی ہوں کہ جب ایک چھ سال کا عرب بچہ اسے پڑھتا ہوگا تو کیا وہ اسکے معنی نہیں سمجھتا ہوگا قرآن ایک ایسی کتاب جس میں جنس اور شادی کے معاملات کو کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
اسکے ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ جب بھی ہمارے یہاں یہ مسئلہ سر اٹھاتا ہے کہ ہائ اسکول یا کالج کی سطح پہ بچوں کو جنس سے آگہی دینا ضروری ہے تو سب سے زیادہ مذہبی حلقے اسکے خلاف شور مچاتے ہیں۔ آخر یہ تضاد کیوں؟
آخر ایسا کیوں ہے کہ ویسے تو ہمارے یہاں عرب معاشرتی اقدار کو اسلامی معاشرتی اقدار کہہ کر پیش کیا جاتا ہے۔ عرب ثقافت کو اسلامی ثقافت کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔  لیکن جب ان اقدار کی باری آتی ہے جو عرب کے ایک کھلے معاشرے کو پیش کرتے ہیں تو ہم صم بکم ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت ہم عرب معاشرے کو پاکستانی معاشرے سے الگ کیوں سمجھتے ہیں؟

34 comments:

  1. بہت اچھا لکھا ہے، مجھ کو بھی جب میرے شیعہ باس نے نکاح متعہ سے متعلق میرے سنی خیالات جاننے کے بعد نکاح مسیار کے بارے میں بتایا تو میرا پہلا ردعمل یہ تھا مجھ کو کسی ایسی چیز کا علم نہیں ہے۔

    علامہ البانی کی بات ذیادہ درست لگ رہی ہے، باقی قدیم علماء کا تو علم نہیں مگر موجودہ علماء میں سے جن لوگوں نے نکاح مسیار کو حلال قرار دسے رکھا ہے، انکی مثال نفس پرست منافق سے کسی طرح کم نہیں ہے۔

    اور آپ کے دریافت کردہ سوالات کا جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک کے زیادہ تر مذہبی حلقے منافقت کی بیماری کے شکار ہیں۔ اور اکژ انکے اعمال بد کا نزلہ اسلام پر گرایا جاتا ہے۔

    جنسی تعلیم بھی دینا نہایت ضروری ہے مگر اس سلسلے میں یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ بچے کو کیا سکھایا جارہا ہے، ویسے آپ کی اطلاع کے لیئے عرض کردوں کہ اس معاملے میں دینی مدرسے اسکول و کالج سے زیادہ آگے ہیں!

    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق پاکستان کے ہر حنفی دیوبندی مدرسے میں فقہ کی پہلی کتاب "قدوری" کی تعلیم دی جاتی ہے، جس میں پاکی ، ناپاکی، نجاست، جنابت، حیض و نفاس سب کی نہایت تفصیل کے ساتھ معلومات دی گئی ہے۔ مگر اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ان معلومات کو دینی علم کے حیثیت سے حاصل کیا جائے، نہ کہ شہوت انگیزی کے لیئے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. کالج یا اسکولوں میں تو اس لئے نہیں ہو پاتا کہ مذہبی حلقے بطور خاص اسکے خلاف مہم چلا دیں گے۔ یہاں کراچی میں ایک اسکول نے کوشش کی تھی اور اسکے خلاف پروپیگینڈہ شروع ہو گیا۔
      لیکن اب یہ بات سوچنے والی ہے کہ مدرسوں میں جب یہ ہو تو مذہبی حلقے خاموش رہتے ہیں۔ یہ تو وہی بات ہو گئ کہ جو یہاں پیو تو حلال ہے جو وہاں پیو تو حرام ہے۔

      Delete
    2. آپ اس بات کو کیوں نظرانداز کر گیئں کہ جہاں جنسی تعلیم دینا نہایت ضروری ہے وہاں اس بات پر بھی کڑی نگرانی کرنا ضروری ہے کہ بچے کو کیا سکھایا جارہا ہے، اس بات سے تو آپ بھی اتفاق کریں گی کہ پرائمری کے بچے کو انسانی جسم کی خفیہ اعضاء کی تعلیم دینا قطعی مفید نہیں !

      Delete
    3. مگر یہ آپ سے کس نے کہا کہ پرائمری کے بچے کو بلوغت کی تعلیم دیں۔ لیکن پرائمری کے بچے کو اتنا ضرور معلوم ہونا چاہئیے کہ اگر اسکے ساتھ جنسی زیادتی ہو رہی ہو تو اسے معلوم ہو کہ اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اس لئے اسے اپنے جسم کے بارے میں ابتدائ معلومات ملنی چاہئیں۔

      Delete
    4. subhanallah g, bahoooot khub, main ap k comments say 100% mutafiq hon

      Delete
    5. محترمہ پرائمری کے بچے کو کسی ممکنہ جنسی زیادتی سے بچانے کیلیئے بھی اسکو انسانی جسم کے خفیہ اعضاء کی تعلیم دیئے بغیر بھی اسکو آسانی سے یہ سمجھایا جاسکتا ہے کہ اپنوں و غیروں سمیت کسی کو بھی کمر سے لیکر گھٹنے تک جسم کے کسی حصے کو چھونے ، دیکھنے یا دیکھانے کی اجازت نا دی جائے۔

      اور اگر کوئی اپنا یا غیر کوئی ایسی حرکت زبردستی بھی کرنا چاہے تو بچہ/بچی اپنا دفاع کسطرح کرسکتے ہیں اور والدین / اساتذہ / پولیس کو کسطرح مطلع کرسکتے ہیں، ویسے بھی ہر بچے کو اس بات کی تعلیم دی جانی چاہیئے کہ وہ اپنی ہر بات والد یا والدہ دونوں یا کم سے کم کسی ایک سے بے خوفی و بے شرمی کے ساتھ بلا دھڑک کہ سکے۔

      بھئی ہم کو تو گھر سے ایسے ہی تعلیم ملی تھی اور میرے خیال سے بچے کے لیئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے، باقی دیگر معلومات عقل کی پختگی کے بعد گھر / اسکول / کالج کہیں بھی دی جاسکتی ہیں۔

      Delete
    6. بھئ ہر پاکستانی کا گھر کیا ماحول آپکے گھر کی طرح نہیں ہوتا۔ مہذب ملکوں میں اسکول کا نصاب اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ اس سے ریاست کے شہریوں کی تربیت کرنے میں آسانی ہو اور وہ والدین جو اسکی سمجھ نہیں رکھتے ، انکی اس کمی کو ریاست پورا کرے۔ یعنی ہائ اسکول کی سطح پہ اسے متعارف کرائے۔

      Delete
  2. مبارک ہو جی آپ مسیار تک پہنچ گئیں ورنہ اردو دان طبقے کو تو بس نکاح کا ہی پتہ ہے، ویسے معاملات صرف مسیار تک ہی نہیں رکتے، بلکہ اسلامی بے غیرتی کی ایک اور قسم بھی ہے جسے "مسفار" کہا جاتا ہے اور مسیار سمیت مسفار کے حق میں بھی سعودیہ اور ازہر کے علماء کے فتاوی موجود ہیں..

    تازہ ترین مثال سعودیہ کے نام نہاد شیخ ڈاکٹر علی الربیعی کے شاہکار فتوی کی صورت میں پیش ہے:

    ترجمہ: "ٹویٹر پر ایک صاحب (فہد الحمود) نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ وہ کثرت سے سفر کرتا ہے تو کیا وہ (مسفار) کی شادی کر سکتا ہے خاص کر مغرب (مراکش) اور مصر میں. جواب ہے: ہاں جائز ہے"

    جنہیں علم نہیں انہیں بتاتا چلوں کہ "زواج المسفار" کی اصطلاح اس شادی کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو دورانِ سفر عارضی طور پر "گزارہ" کرنے کے لیے کی جاتی ہے جیسے شیعوں کے ہاں "متعہ" کی شادی ہوتی ہے، اگرچہ سنی علماء شیعوں کے "متعہ" کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور اسے بے غیرتی قرار دیتے ہیں تاہم ان کے ہاں بھی یہ "بے غیرتی" انیس بیس کے فرق کے ساتھ موجود ہے..

    غیرت کے دین کو یہ " شرعی بے غیرتی" مبارک ہو...

    شیخ صاحب کی ٹویٹ کا ربط:
    ‬https://twitter.com/DrAliAlrabiieei/status/213270301834874881

    ReplyDelete
    Replies
    1. شیخ کو جواب ادھر ہی دینا تھا نا، ادھر رولا پانے سے کیا ملے گا؟ یا پھر انہوں نے آپ کو بھی اسی طرح بلاک کردیا ہے، جس طرح آپ نے مجھ کو بلاک کردیا تھا؟

      Delete
    2. جہاں تک رولا پانے کی بات ہے تو یہ اعتراض صاحبِ بلاگ کر سکتی ہے آپ نہیں، رہی بات بلاک کرنے کی تو میں نے آپ کو بلاک ہرگز نہیں کیا، میں نے صرف ڈیکسٹر نامی صارف کو بلاک کیا تھا..

      Delete
    3. aur sochnay ka maqam yeh hai k muta marriage ko agr parha jaye to ye zada humanistic lagti hai bajaye misyar kay. misal k taur per muta marriage ek contract marriage hai jo kisi pesha war aurat (sex worker) k sath jaiz nahi hai. aur dosra koi bakira larki apnay wali ki ijazat kay bagher muta nahi krsakti. muta marriage me born child ligitimate offspring hota hai.jab k misyar in sab baton se contradict krta hai.

      Delete
    4. مکی، یاد رہے کہ میں‌ دو مختلف کمپیوٹروں سے تبصرے کیا کرتا تھا ، جس میں سے ایک تو مستقل صرف میرے استعمال میں ہے، جبکہ دوسرے کو بہت سے دوسرے لوگ بھی میرے علاوہ استعمال کیا کرتے ہیں، اسی لیئے آپ نے 14 مارچ کو ایک نہیں‌، بلکہ 2 آئی پی بلاک کی تھی ، یقین نہیں‌ ہو تو ذرا پھر سے اپنا بلاگی ریکارڈ‌چیک کرلو، اور اگر مرد مومن ہوگے تو اس بات کا برملا اقرار بھی کرو گے۔

      Delete
    5. حضرت مذکورہ تاریخ کے تبصروں کا ریکارڈ آپ چیک کر کے بتائیں کہ آپ کا بیان آج بھی وہی ہے یا بدل گیا ہے؟

      تب آپ کا بیان تھا کہ جی کمپیوٹر ایک ہے اور بہت سے لوگ اسے استعمال کرتے ہیں، اب آپ فرماتے ہیں کہ جناب دو کمپیوٹر ہیں..!؟

      اس وقت کمپیوٹر ایک تھا چنانچہ آئی پی بھی صرف ایک بلاک کیا گیا تھا، اب آپ نے ایک کمپیوٹر کا مزید اضافہ کر کے خود کو مزید پھنسا لیا ہے.. جب ایک کمپیوٹر صرف آپ ہی کے تصرف میں ہے اور باقی عوام الناس کے لیے دوسرا کمپیوٹر موجود ہے تو پھر آئی پی ایک کیسے ہوگیا؟ دیکسٹر صاحب آپ کے پی سی پر کیا فرما رہے تھے؟ اور آپ کا ایک مخصوص کمپیوٹر ہونے کے باوجود دوسرے پی سی پر کیا فرما رہے ہوتے ہیں؟

      میرے ریکارڈ کے مطابق آپ کا ہمیشہ سے ایک ہی آئی پی رہا ہے جس کا ثبوت میں دے چکا ہوں جسے ساری دنیا میں صرف آپ ہی جعلسازی سمجھتے ہیں..

      ایک جھوٹ کو بچانے کے لیے آپ مزید کتنے جھوٹ بولیں گے؟

      http://makki.urducoder.com/?p=3630

      Delete
    6. برائے عنیقہ و دیگر قارئین :
      عنقیہ صاحبہ سے معذرت کے ساتھ، کہ آپ کا بلاگ کچھ غیر متعلقہ جھگڑوں کو نمٹانے کے لیئے استعمال کررہا ہوں ، میں یہ ادرھار انکے ہی بلاگ پر نمٹاتا ، مگر چونکہ موصوف نے مجھ کو ادھر بلاک کر رکھا ہے، لہذا آپ سمیت آپ کے قارئین کو بھی زحمت دے رہا ہوں مگر امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ برا منائے بغیر مجھ کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع عنایت فرمایئں گے تاکہ سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے مکار شخص کو سب لوگوں کے سامنے منہ کی کھانی پڑے :

      ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓبرائے مکی :
      مکی، او اللہ دے بندے ، مجھ کو جھوٹا ثابت کرنے کے چکر میں آپ خود کیوں جھوٹ بول رہے ہو؟

      میں نے پہلے بھی یہی کہا تھا "ڈیکسٹر" کے نام سے میں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا، آج بھی میرا یہی بیان ہے، اور ہمیشہ یہی رہے گا،

      اور ویسے بھی مجھ کو نام تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے، بلاگگنگ کی دنیا میں جن جن بلاگروں کے ہاں میں نے تبصرے کیئے ہیں ہمیشہ اپنے اصل نام "عبدالروف" سے ہی کیئے ہیں۔ تو پھر مجھ کو اچانک ایسی کونسی مصبیت پڑی تھی کہ آپ کے بلاگ پر بھی اچھا بھلا اپنے نام سے تبصرے کرتے کرتے آخر کیوں نام تبدیل کرتا؟

      جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

      Delete
    7. گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔ ۔ ۔

      اب آتے ہیں آپ کے کے حالیہ استدلال کی طرف کہ جسکے مطابق آپ کے خیال میں میں اپنی صفائی میں جھوٹ در جھوٹ بول رہا ہوں۔ میری دروغ گوئی کے ثبوت میں آپ کے صرف ایک دلیل ہے، جوکہ غلط ہے:

      مکی کی دلیل: چونکہ دونوں تبصرہ کرنے والوں کا آئی پی ایک ہی تھا، لہذا دو جمع دو برابر چار کے فارمولے کے تحت دونوں ناموں "عبدالروف" و "ڈیکسٹر" کے پیچھے ایک ہی شخصت چھپا بیٹھا ہے۔

      مکی کے بلاگ پر ہی دلیل کا دیا گیا جواب:
      عبدالرؤف
      14 March 2012 at 2:33 PM
      لو جی کرلو بات. آپ جیسے کمپیوٹر کی ماہر آدمی سے مجھ کو کم سے کم ایسی حماقت کی امید نہیں تھی، آپ محض ایک آئی پی کی بنا پر اتنا اچھل رہے تھے، جبکہ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ آج کل آئی پی کا مخفی رکھنے اور ٹریک رکنے والوں کو گمراہ کرنے کے ایک سے ایک سافٹ وئیرمفت میں موجود ہیں، اوپر سے شاید آپ یہ بھول ہی گئے ہیں کہ ایک ہی کمپیوٹر کو کئی لوگ ایک ہی یا مختلف اوقات میں استعمال کرسکتے ہیں، جس سے انکے آئی پی ایک ہی ہونگے مگر شخصیات مختلف!
      سب سے بڑھ کر یہ آپ کا بلاگ ہے، تو اس پر آپ کو اختیار ہے کہ جو چاہیں پوسٹ کریں، میں یہ بھی تو کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے خود ہی سے یہ تصویریں بنا ڈالی ہیں، مجھ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے، اسکا کیا جواب دیں گے آپ؟

      جواب کی تشریح:
      اس جواب میں مکی کی دلیل کا توڑ کرنے کے بجائے مکی صاحب کے ہی طریقے پر عمل درآمد کرتے ہوئے انکو زچ کیا گیا تھا، ناکہ کوئی جواب دیا گیا تھا، اور بعد میں جناب نے جواب دینے کا موقع ہی نہیں دیا۔ بحرحال اس جواب سے مندرجہ زیل نکات ملتے ہیں:

      01. آئی پی کی بنیاد پر فیصلہ کرنا غلط ہے کیونکہ آئی پی کو مخفی رکھنے اور آئی پی تبدیل کرنے کے کئی زرائع باآسانی میسر ہیں۔

      02. ایک اشارہ دیا گیا تھا کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ایک ہی کمپیوٹر کو کئی لوگ ایک ہی یا مختلف اوقات میں استعمال کرسکتے ہیں، جس سے انکے آئی پی ایک ہی ہونگے مگر شخصیات مختلف! مگر آپ نے اس بات کو اسطرح لیا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میرے استعمال میں ایک ہی کمپیوٹر ہے جس کو دوسرے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں، اب اس میں کس کی غلطی ہے؟ میری کہ آپ کی سمجھ کی ؟؟؟

      03. ایک اندیشے و امکان کا اظہار کیا تھا کہ جب مجھ کو معلوم ہے کہ میں نے کسی اور نام سے تبصرہ ہیں کیا ہے تو پھر یہ آئی پی والی تصاویر آپ نے خود ہی بنالی ہوں مجھ کو جھوٹا ثابت کرنے کو، آپ انکار کردیتے تو میں مان لیتا، مگر آپ تو جذباتی ہوگئے اور اللہ و رسول کے قسمیں کہلانے پر تل گئے، جس پر میں نے آپ کو زچ کرنے کی ٹھانی اور پلٹ کر جواب دیا کہ "اگر آپ یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں تو میں قسم کھانے کو بھی تیار ہوں، مگر مجھ کو کتنی نفلوں کا ثواب حاصل ہوگا؟ ویسے بھی یہ کوئی زندگی یا موت کا مسئلہ تھوڑی نا ہے، جو آپ اتنی جذباتی ہو رہے ہیں." جس سے آپ نے اپنی فتح کا یقین کرلیا اور مجھ کو مزید کوئی موقع دیئے بغیر ہی بلاک کردیا۔ حالانکہ اگر آپ بردباری کا مظاہرہ فرماتے تو آپ کو میں اسی طرح یقین دلا سکتا تھا جیسا کہ ابھی یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ "ڈیکسٹر" والی حرکت میں نے نہیں کی تھی۔

      اب اوپر والے نکات کی تشریح سے یہ ثابت ہوگیا کہ آپ نے میری بات کو سمجھے بغیر ہی مجھ کو غلط سمجھا اور پھر جھوٹے الزامات لگا کر بلاک کردیا۔ ایسی حرکات کا تصور کسی معقول شخص سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔

      اب آپ کے سوال کہ مذکورہ تاریخ کے تبصروں کا ریکارڈ آپ چیک کر کے بتائیں کہ آپ کا بیان آج بھی وہی ہے یا بدل گیا ہے؟ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ کیا یہ سوال خود باطل ثابت ہیں ہوتا ہے؟

      کیونکہ میرا کبھی یہ دعویٰ ہی نہیں تھا کہ ایک ہی کمپیوٹر ہے! کمپیوٹر اس وقت بھی دو تھے اور ابھی بھی دو ہیں، اور یہ آپ کا سفید جھوٹ ہے کہ آپ نے ایک ہی آئی پی بلاک کی تھی، کیونکہ اگر آپ نے ایک ہی آپی بلاک کی تھی تو کسطرح میں اپنے دونوں کمپیوٹروں سے آپ کا بلاگ پڑھنے اور تبصرہ کرنے سے زبردستی روک دیا گیا؟

      جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

      Delete
    8. گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

      آپ کی بات کو جھوٹا ثابت کرنے کی لیئے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے "ڈیکسٹر" کی تو 13 مارچ والی آئی پی کی تصویر ڈالی ہے، اور "عبدالروف" کی 8 مارچ والی؟ اور وہ بھی آپ کی الگ الگ پوسٹس سے؟ ایسا فرق کیوں بھلا؟ یہ بات میں نے اسی وقت پکڑ لی تھی مگر جان کر نظر انداز کردیا تھا کہ آپ کو تھوڑی دیر چڑا کر پھر اصل بات بتاؤں گا مگر آپ نے موقع دیئے بغیر ہی بلاک کردیا، اور آج تک مجھ ہی کو مجرم سمجھ رہے ہو۔ لہذا اس بات کی وضاحت نہایت ضروری ہے کہ آپ کی ایسی غلط بدگمانی کو رفع کراؤں۔ اور اسکا حل اور آپ کے ان سوالات :
      "جب ایک کمپیوٹر صرف آپ ہی کے تصرف میں ہے اور باقی عوام الناس کے لیے دوسرا کمپیوٹر موجود ہے تو پھر آئی پی ایک کیسے ہوگیا؟ دیکسٹر صاحب آپ کے پی سی پر کیا فرما رہے تھے؟ اور آپ کا ایک مخصوص کمپیوٹر ہونے کے باوجود دوسرے پی سی پر کیا فرما رہے ہوتے ہیں؟"

      کے جوابات غیر متعلقہ معلومات تو نظر انداز کرکے صرف آئی پی کے حوالے سے صرف اس صورت میں واضح ہونگے جب آپ "ڈیکسٹر" اور "عبدالروف" دونوں کے ان تبصروں کی آئی پی ظاہر کریں جوکہ "ہارون یحیی" والی پوسٹ پر موجود ہیں۔ پھر عنیقہ صاحبہ بھی انکے بلاگ پر میرے نام سے کیئے گیئے تبصروں کی آئی پی ظاہر کردیں، پھر سب ہی لوگوں پر سچ آشکار ہوجائے گا، اور سبھی جان لیں گے کہ جھوٹ کون بول رہا ہے۔

      امید کرتا ہوں کہ اسطرح سے آپ پر آپ کی بےجا ضد اور ہٹ دھرمی میں کیا گیا جذباتی و غلط فیصلہ اور مجھ پر لگائے گئے جھوٹے الزام کی حقیقت کھل جائے گی ، اور ساتھ میں آپ کے اس جھوٹ کا بھی کہ پول کھل جائے گیا کہ "آپ کے ریکارڈ کے مطابق آپ کے پاس ہمیشہ سے میرا ایک ایک ہی آئی پی رہا ہے"۔ اور یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ کون اپنے ایک جھوٹ کو بچانے کے لیے مزید جھوٹ بول رہا ہے !!!

      عنیقہ اور اس بلاگ کے دیگر قاریئن سے ایک بار پھر معذرت۔
      وتعز من تشاء و تذل من تشاء
      وسلام

      Delete
    9. میرا وقت اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے کہ ایک جاہل کے سفسطے پر ضائع کیا جائے...

      ویقتل من یشاء ویذبح من یشاء

      Delete
    10. سبحان اللہ، جب آپ نے منہہ کی کھائی تو میں جاہل ٹھیرا، خیر مجھ کو عالم ہونے کا دعویٰ بھی نہیں ہے۔ مگر سچا ہونے کا ہے، اور چونکہ آپ نے مجھ پر جھوٹ باندھا تھا، جس کو ثابت کرنے میں ناکام رہے، لہذا سب ہی کو معلوم پڑگیا کہ مکی ایک "جھوٹا" "مکار" و "دھوکے باز" شخص ہے !!!

      لوگوں مقام عبرت ہے کہ ایک ایسا انسان جو کہ "خدا" و "رسول" و "قرآن" کے متعلق مختلف دعوے کرتا پھرتا ہو مگر اپنے ایک بھی دعویٰ کو اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کے مقابل ثابت نہیں کرپا رہا ہے، تو ذرا سوچیے کہ پھر "خدا" و "رسول" و "قرآن" کے متعلق اسکے دعوؤں کی کیا حیثیت و اوقات رہ گئی ہے ؟؟؟

      دراصل ڈیکسٹر کا تو صرف بہانہ تھا، ورنہ موصوف نے مجھ کو میرے اسی نرم مگر دندان شکن تبصروں کے سبب بلاک کیا تھا، کہ انکے پاس میرے تبصروں و سوالات کے جواب میں اپنے باطل دعوؤں کو سچا ثابت کرنے کو دلائل جو نہیں تھے۔

      اللہ اکبر کبیرا
      وسلام

      Delete
    11. اذا نطق السفیہ فلا تجبہ
      فخیر من اجابتہ السکوت
      فان کلمتہ فرجت عنہ
      وان خلیتہ کمداً یموت

      Delete
    12. ٹھیک ہے بھئی، چونکہ اب آپ بے دلیل ثابت ہوچکے ہیں لہذا ہم بھی اب امام شافعی کی اس نصیحت کے مطابق خاموش ہوجاتے ہیں۔ وسلام

      Delete
  3. پورے تین سال پہلے
    ناں ایک دن کم ناں زیادہ
    میں نے بھی اسی موضوع پر لکھا تھا
    http://khawarking.blogspot.jp/2009/08/blog-post_28.html

    ReplyDelete
    Replies
    1. اور میں نے دیکھا کہ اس پہ میرا تبصرہ بھی موجود ہے۔ یعنی میں بھول چکی تھی کہ یہ میں نے پڑھا ہے۔

      Delete
  4. بے شک نکاح یا شادی کا بنیادی مقصد شادی خانہ آبادی یعنی ایک خاندان کی تعمیر ہے۔
    لیکن کچھ دوسرے عوامل پر بھی نظر دوڑائی جا سکتی ہے۔ مثلاً ایک بااثر ، بااختیار خاتون اپنی صلاحیت یا ذہنی میلان کے باعث شادی کے روایتی بندھن میں نہیں بندھنا چاہتی۔ خانگی ذمہ داریوں کی بجائے اپنے کسی کیریر پر توجہ دینا چاہتی ہیں نیز اس کے ساتھ اچھی رفاقت اور جنسی آسودگی کی بھی خواہشمند ہیں تو اس کے لئے اگر وہ مسیار نکاح یا ایسا کوئی راستہ اپناتی ہیں تو کیا حرج ہے ؟
    کوئی مرد بھی انہی عوامل کے باعث کوئی ایسا راستہ اپنانا چاہیے تو غلط کیا ہے ؟
    ہاں بس ایک بات کی چھان پھٹک ہونی چاہیے کہ مرد ، عورت یا ہونے والے بچے ... کسی کا کسی طور کوئی حق نہ مارا جارا ہو۔ قاضی ، جج یا سرکاری نکاح خواں اس بات کی تصدیق اور تسلی کر سکتا ہے کہ فریقین برابری کی سطح پر ہیں اور کوئی مظلوم نہیں۔ نیز ہونے والے بچے کی پرورش کا خاطر خواہ بندوبست ہے۔
    باالفاظ دیگر معاملات سیاہ سفید ہی نہیں ، بہت کچھ سرمئی بھی ہے۔
    :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ کی بات سے صد فیصد اتفاق ہے، اعتراض صرف اسلام کے دوغلے معیارات پر ہے..

      Delete
    2. یہ ایک لنک ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسیار نکاح کا تصور پہلے سے موجود ہے بس یہ کہ شادی اس نیت سے نہ ہو کہ طلاق دینی ہے۔
      http://www.youtube.com/watch?v=xAuWjnIaK1o&feature=related
      اہم بات یہ ہے کہ ایسے معاملات میں عام طور سے خواتین کی آسانی نہیں دیکھی جاتی بلکہ مرد اسے اپنے مفاد میں استعمال کرتا ہے۔
      اگر آپکی سوچی ہوئ لائنز پہ چلیں تو معاشرہ پدر سری ہونے کے بجائے مدر سری ہوجائے گا۔ اور مرد کی حیثیئت وہی ہوگی جو کہ بکریوں کے گلے میں بکرے کی ہوتی ہے۔
      میرا ذاتی خیال ہے کہ شادی محض جنسی آسودگی کے لئے نہیں ہونی چاہئیے۔ شادی کے نتیجے میں انسان کو نہ صرف محبت کرنے کا عمل سیکھنا چاہئیے بلکہ ایثار، صبر اور برداشت بھی سیکھنی پڑتی ہے۔ بچے ہونے کی صورت میں انسان خودغرضی کی سطح سے اٹھ کر بے غرضی کی سطح پہ آتا ہے۔ اور یہ سب اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب عورت اور مرد ایک خاندان کی صورت رہتے ہیں۔
      اگر ایک مرد اپنی جنسی آسودگی کے بعد اپنے بچوں میں بھی دلچسپی نہیں لیتا اور انکی پرورش عورت پہ چھوڑ دیتا ہے تو ایسا مرد اخلاقی اور روحانی سطح پہ اپنی شخصیت کی کوئ تعمیر نہیں کر سکتا۔

      Delete
    3. یعنی جنسی تعلق باالاتفاق برائے پروفیشنلز۔
      پہلے پیرا میں آپ نے جن ذمہ داریوں کو وجہ بنایا دوسرے میں ان ذمہ داریوں قانونی حیثیت پر بحث؟ روائتی خانگی ذمہ داریوں سے نجات ہی تو اس نکاح کا سبب ہے تو پھر ان ذمہ داریوں پر بحث غیر منظقی ہے۔
      میرا خیال ہے جس لفظ کی تلاش ہے وہ ہے
      Consensual Sex.
      مغرب تو ایویں بدنام ہے ہمارے پاس پورا لیگل فریم ورک موجود ہے۔

      Delete
    4. میں بلوچستان میں ایک عورت سے بات کر رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسکا شوہر اسے اسکے بھائ کے پاس چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اس نے تیسری شادی کر لی ہے۔ اس بات کو سات سال ہو رہے ہیں۔ اس سات سال کے عرصے میں اسکے تین بچے مزید پیدا ہوئے کیونکہ اسکا شوہر ہر چند مہینے بعد ہفتہ دس دن کے لئے اسکے بھائ کے گھر آ کر اسکے ساتھ رہتا ہے۔ بچوں کی کفالت بھائ کر رہا ہے۔
      مہذب دنیا کا تقاضپہ تو یہ ہوتا کہ جب بیوی کو بھائ کے گھر چھوڑ دیا اور ایک اور شادی کر لی تو اب کیسا تعلق؟ کیوں بچے پیدا کر رہے ہو۔
      یہ ایک سپماندہ علاقے کے پسماندہ لوگوں کا حال ہے جو زندگی میں بنیادی سہولیات سے بھی نا آشنا ہیں۔
      میرے خیال میں تو یہ مسیار نکاح ہی کی ایک شکل ہے۔ گوادر کے گرد ونواح کا علاقہ عربی ثقافت سے خاصہ متائثر ہے اس لئے وہاں یہ موجود ہوگی یا ہو سکتا ہے کہ بلوچ ثقافت کا حصہ ہو۔

      لیکن بہر حال ایک پورا معاشرہ اس چیز کو سپورٹ کر رہا ہے اور اسکے خلاف آواز بلند نہیں کرتا۔ اس لئے کہ اسے مذہبی سہارا حاصل ہے۔

      Delete
  5. پچھلے دنوں یہاں ایک آرٹیکل تھا کہ کینیڈا میں دل کے ڈاکٹروں کے ہاں طلاق کی شرح غالباً ستر یا اسی فیصد ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ اپنی انتہائی ذمہ داریوں کی وجہ سے وہ خانگی ذمہ داریاں پوری کرنے کے اہل نہیں۔ اگر وہ خانگی ذمہ داریوں سے پورا انصاف کرنے لگے تو اپنے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو کامپرومائز کریں گے جس کا مزید نتیجہ کل معاشرے کو بھگتنا ہوگا۔
    کیا یہ اور اس قسم کی مثالیں تمام معاشروں کی مختلف سطح پر موجود نہیں ؟
    کیا ضروری ہے کہ ان لوگوں کو زنا یا کامل روایتی شادی میں سے کسی ایک ہی کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جائے ؟
    کیا شادی اپنی ساخت میں کوئی آفاقی میثاق ہے کہ شرائط اور ذمہ داریاں طے کرتے وقت رد و بدل اور کمی بیشی نہیں کی جا سکتی ؟
    کیا وہ لوگ جو شادی کے ناکام تجربہ سے گذر چکے ہیں ان کو واپس صحت مند معاشرت میں کسی متبادل لیکن منصفانہ طریقہ سے نہیں لایا جاسکتا ؟
    کیا مذکورہ افراد کی شخصیت نامکمل اور کیا وہ غیر اخلاقی ، خود غرضی، غیر روحانی اور غیر انسانی سطح پر موجود ہیں ؟

    معترضین نے غالباً یہ تصور کر لیا ہے کہ سو فیصد افراد ایک سو فیصد روایتی شادی میں رہ کر تمام ذمہ داریاں نبھانے کے اہل ہیں۔
    متبادل نکاح کو سخت قانونی شرائط کے ضمن میں دینے کا مقصد یہ ہے کہ وہ صورتحال پیش نہ آئے جو بلوچ عورت کے کیس میں موجود ہے۔ کہ اس بات کی یقین دہانی رہے کہ فریقین اثر اور اختیار کے اعتبار سے برابری کی سطح پر ہیں۔ اس بات کی قانونی یقین دہانی رہے کہ فریقین کے مابین ہونے والی شرائط کا غیر معمولی اثر پیدا ہونے والی تیسری جان پر نہ پڑے۔

    مغرب کا تذکرہ بار بار آ رہا ہے۔ بتاتا چلوں کہ مغرب میں محض روایتی شادی یا زنا ہی رائج نہیں۔ بلکہ یہاں ایک تیسرا بندوبست بھی ہے۔ اسے کامن لاء میرج کہا جاتا ہے۔ فریقین کے مابین تعلقات ، ذمہ داریوں اور سب سے اہم دولت کی تقسیم کا ایک متبادل قانونی راستہ موجود ہے۔

    ReplyDelete
  6. ایسے معاشرے جہاں زناء کی برائی عام ہے وہاں اگر نوجوان لڑکے لڑکیاں جو ابھی کفالت اور خانگی ذمہ داریاں نبھانے کے اہل نہ ہوں وہ آپس میں تعلقات قائم کر لیں تو کیا بہتر نہیں ہے کہ انھیں زناء سے بچانے کے لئے نرم شرائط پر متبادل نکاح پر آمادہ کیا جائے۔ کیا ایک قانونی اور اخلاقی بندھن ان میں ایک احساس ذمہ داری پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بنے گا ؟ کیا یہ متبادل نکاح ان کے لئے مستقبل قریب میں ایک کامیاب خاندان کی تعمیر کے لئے بہتر زینہ ثابت نہیں ہوگا ؟
    روایت کی لکیر سے ایک قدم پرے ہٹ کر دیکھے تو منظر نامہ کافی وسیع نظر آئے گا۔ بہت سی صورتیں ہیں جہاں تھوڑی سی لچک لیکن تدبر اور احتیاط برتتے ہوئے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پھر یہ بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ ایک متبادل نکاح سے شادی کا روایتی ادارہ تباہ ہوجائے گا۔ آخر جن ممالک میں زناء عام ہے وہاں بھی تو کثیر تعداد روایتی شادی کرتی ہے۔ تو پھر یہ ڈر کیوں کہ ایک متبادل قانونی اور اخلاقی راستہ شادی کے بنیادی مقاصد پر ضرب لگائے گا ؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. شادی کا ادارہ میری ذاتی ترجیح ہے۔ ورنہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ملک سمیت دنیا کے کسی بھی دوسرے اسلامی ملک میں زنا کوئ ناقابل عمل چیز نہیں ہے۔
      ماسیوں وغیرہ سے بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ گاءوں دیہاتوں میں دو افراد شادی کے بغیر بھی تعلقات رکھتے ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہوتا ہے لیکن چھوٹ حاصل رہتی ہے۔ یہاں بڑے دلچسپ قصے ہوتے ہیں جنہیں سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یعنی حقیقی زندگی فکشن سے زیادہ تحیر خیز ہوتی ہے۔
      مجھے تو بنیادی اعتراض اس بات پہ ہے کہ مغربی معاشرے کو ہر وقت لعن طعن بنایا جاتا ہے جبکہ ہم وہی عمل مذہبی روایات کو توڑ موڑ کر کرنے کو تیار ہیں اور کرتے بھی ہیں لیکن اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم بڑے حیادار ہیں اور حیاء ایمان کا حصہ ہے۔
      نرم شرائط پہ آسان نکاح کی یہ بھی تو حالت ہو سکتی ہے کہ معاشرے پسند کی شادیوں کو قبول کر لے، شادی کے لئے سماجی رتبہ، جہیز، ذات یا لڑکی صورت شکل دیکھنے کے بجائے نوجوانوں کی پسند نا پسند دیکھی جائے۔
      ہمارے یہاں تو بنیادی مسائل یہی ہیں۔ عرب ریاستوں کی طرح ہمارا بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مرد ،بیوی کو الگ رہائش ضرور فراہم کرے یا مہر کی رقم بہر زیادہ ہو اور وہ بھی رخصتی کے وقت فوراً ادا کی جائے۔
      اسی طرح عرب میں بنیادی مسائل تو اسی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں کہ الگ رہائش اور مہر کی رقم استطاعت سے باہر ہوتی ہے۔ اسی طرح عرب خواتین کو ملازمت کرنے کے مواقع نہیں بلکہ مسلم دنیا میں خواتین کی خود کفالت کا کوئ تصور نہیں۔ اگر میاں بیوی مل کر کمائیں تو معاشی بوجھ خاصی حد تک کم ہو سکتا ہے اس طرح سے وہ دونوں جلد شادی کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ میرا مطلب بیس پچیس سال کے درمیان۔
      کام کرنے والے جوڑوں کے لئے بچوں کی دیکھ بھال مسئلہ ہوتی ہے۔ اسکے لئے حکومتی سطح پہ بچوں کے ڈے کیئر سینٹر قائم ہونے چاہئیں۔ لیکن اسکی توقعہ نہ رکھتے ہوئے ہم اپنے مشترکہ خاندانی نظام کی طرف دیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ مشترکہ خنادانی نظام کی تربیت کی جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کے لئے مثبت طور کام آ سکیں۔ ادھر تھائ لینڈ میں یہ نظام کافی حد تک کام کر رہا ہے۔ کام کرنے والی خواتین کے بچوں کی دیکھ بھال دادا دادی یا نانا نانی کرتے ہیں یا وہ خواتین جو ملازمت نہیں کر رہی ہوتیں۔
      اسی طرح خواتین کی ملازمت کے اوقات لچکدار کئے جا سکتے ہیں۔
      محض انتظامی سطح پہ چیزوں کو کنٹرول کرنے سے بہت سارے اخلاقی مسائل کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور انکے لئے کسی بھی فتوے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
      لیکن جناب، جب چپڑی مل رہی ہو وہ بھی دو دو تو کون سوکھی کی طرف دیکھتا ہے۔
      بہر حال عربوں کو اسلام کی اعلی مثال سمجھنے والوں کو جان لینا چاہئیے کہ عرب معاشرہ خود مغربی معاشرے کی طرح زبوں حالی کا شکار ہے۔ فرق یہ ہے کہ عرب اپنی جنسی شدت پسندی کو کتاب اللہ سے باعث ثواب ثابت کر لیتے ہیں جبکہ کفار یہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

      Delete
  7. آپ کو نکاح مسیار کا علم دیر سے ہوا لیکن ایسا نہیں کہ اور لوگ نہیں جانتے، عرب دنیا میں عقد کا یہ تصور کافی مشہور ہے اور اسکی کئی وجوہات ہیں۔
    عرب دنیا میں شادی کے فورا بعد مرد کو عورت کے لئے ایک علیحدہ گھر کا انتظام کرنا پڑتا ہے، دوسرا عورت کے نان نقطہ کا ہے، جب کہ نکاح مسیار میں عورت اپنے ان حقوق سے دستبردار ہوجاتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ نکاح مسیار کی اخلاقی اور قانونی حیثیت پر خود عرب دنیا میں علماء نے سخت اعتراض اٹھائے، سلفی علماء نے تو اسے ناجائز تک قرار دے دیا ہے جبکہ کئی وہابی علماء بھی ایسے ہیں جن کے مطابق اس طرح کے فتوں کو مس یوز کیا جاسکتا ہے، کچھ اسے غیر اخلاقی بھی قرار دیتے ہیں۔ بہرحال نکاح مسیار کسی طرح بھی متعہ نہیں ہوسکتا، اگر کوئی کورٹ میریج کو متعہ قرار کہ دے تو لوگ اس پر ہسنے گے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. بظاہر تو متعہ ، مسیار سے بہتر لگتا ہے کیونکہ متعہ میں اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو باپ پہ حق حاصل ہوتا ہے جبکجہ مسیار میں کوئ حق نہیں ہوتا۔
      کورٹ میرج، وہ شادی ہوتی ہے جو کورٹ میں ہوتی ہے اور عام نکاح کی طرح عورت جو چاہے شرائط طے کر سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں کورٹ میرج عام طور پہ ان جوڑوں کے ساتھ وابستہ ہے جو گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہیں۔ یا جن کی شادی میں خاندان والے شرکت نہیں کرنا چاہتے۔
      مغربی ممالک میں تو تمام شادیاں کورٹ کے ذریعے طے پاتی ہیں۔ یقین نہ ہو تو عمران خان کی جمائمہ خان سے شادی کی تفصیلات چیک کر لیں۔
      دیکھا جائے تو مسیار اور متعہ، یہ دونوں بھی کورٹ کے ذریعے کی جا سکتی ہیں اس لئے دونوں کورٹ میرج ہو سکتی ہیں۔ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہوگی۔

      Delete
  8. http://khawarking.blogspot.com/2009/08/blog-post_28.html?showComment=1251477271406#c7614449714899188048

    جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
    نا سمجھ میں‌ آنے والے بات ہے کہ جن معاملات میں‌ قران کریم بالکل واضح اور سنت رسول پوری طرح عیاں ہے کیوں کر سوال اٹھایا جارہا ہے اور کیوں فتاوی جاری کیے جارہے ہیں۔

    یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اگرمسلمانوں میں رنڈی بازی عام ہوگئی ہے تو کوٹھے جانے والوں لیے شرعی راہ نکالی جائے اور لوگوں کو گناہ سے بچالیا جائے۔ اور مکمل اتفاق اس بات سے کہ رند

    ReplyDelete
  9. دراصل مسیار اور متعہ میں یہ فرق ہوتا ہے کہ متعہ میں
    گواہ نہیں ہوتے اور اسمیں وقت معین ہوتا ہے۔۔

    جبکہ نکاح مسیار میں سب کچھ ہوتا ہے یعنی گواہ ، خطبہ نیز ڑی بات یہ کہ شرط فاسد یعنی موقت نہیں ہوتا۔

    اور گواہ کا نکاح میں موجود ہونا لازمی اور ضروری ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ