Thursday, August 9, 2012

سموسہ انصاف سے فحاشی انصاف تک

چلیں جناب، چیف جسٹس صاحب نے جماعت اسلامی  کے سابق امیر جناب قاضی حسین احمد صاحب کی درخواست پہ ٹی وی چنلز کی بے حیائ کا نوٹس لے لیا ہے اور پیمرا کو فی الفور فحش چینلز بند کرنے کی ہدایت کی گئ ہے۔ میں نے ایک نظر جلدی سے چینلز دیکھے کہ فحش والے کو بند ہونے سے پہلے دیکھ لوں۔ لیکن یہ سب تقریباً وہی ہیں جو کافی عرصے سے چل رہے ہیں۔ ان میں بھی غیر ملکی اب خاصے کم ہیں جبکہ دیسی کافی زیادہ ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دیسی چینلز میں سے کوئ فحش ہے۔
میرا تو خیال ہے کہ ملک میں اب تمام اداروں کو ختم کر کے بس چیف جسٹس صاحب کی صوابدید پہ چھوڑ دینا چاہئیے۔ کیونکہ سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں پنجاب میں سموسوں کی قیمتوں میں استحکام لانے کا نوٹس لیا۔ جس سے عوام کے سنگین مسائل میں اچانک کمی واقع ہوئ۔ اور سموسہ انصاف کی اصطلاح سے کان روشناس ہوئے۔
 فحاشی کے خلاف اس عدالتی حکم کے بعد اب وہ دن دور نہیں جب انڈونیشیا کی طرح ہمارے یہاں بھی حلال ٹی وی شوز ہوا کریں گے۔ اس وقت تو چند ایک ہی شوز ایسے ہیں جنہیں حلال کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے سر فہرست عامر لیاقت حسین اور مایاخان کے شوز ہی ہونگے۔
مزید یہ بھی سنا گیا کہ چونکہ چیف جسٹس صاحب کو معلوم نہیں کہ کون کون سے پروگرام فحش ہیں اس لئے جناب انصار عباسی اور جناب اوریا مقبول جان کو اس چیز کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو پھر ہر ایسا پروگرام فحش زد میں آ سکتا ہے جس میں خواتین سر پہ دوپٹہ نہ لئے ہوئے ہیں۔ خواتین ایک بار پھر ہشیار باش ہوں۔
ایک مبصر کا کہنا ہے کہ خواتین کے سینیٹری پیڈز کے اشتہارات دراصل فحش ہوتے ہیں اور انہیں فیملی کے ساتھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ایک مدت تک میرا خیال بھی یہی تھا۔ پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ پاکستانی خواتین کی ایک بڑی تعداد کو یہی نہیں پتہ کہ ناپاکی کے دنوں میں اپنے آپکو صاف ستھرا کیسے رکھا جائے؟  اور اس وجہ سے وہ ایسے جنسی امراض کا شکار ہوجاتی ہیں جس کا نتیجہ بانجھ پن بھی ہو سکتا ہے۔ آخر انہیں اس بارے میں کیسے آگاہ کیا جائے؟
فحاشی کا تصور کتنا باریک ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت بھی ہوا جب فسچولا سے متعلق ایک دستاویزی فلم کی ایڈیٹنگ ہو رہی تھی اور اس میں ایک خاتون کو دکھایا گیا جو کہ کھڑی ہوئ تھی لیکن زمین پہ اس کا پیشاب پھیل رہا تھا۔ اعتراض ہوا کہ یہ منظر نامناسب ہے۔ اسے کاٹ دیا جائے۔ ذہن میں رہے کہ فسچولا ایک ایسا مرض ہے جس سے خاص طور پہ دیہی علاقوں کی خواتین دو چار ہوتی ہیں کیونکہ یہ بچے کی پیدائش میں دیر ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ نتیجے میں کسی خاتون کو اپنے بول بزار پہ اختیار نہیں رہتا اور یہ اسکے جسم سے مسلسل بہتے رہتے ہیں۔ لیکن حیاء کا تقاضہ ہے کہ اسے زمین پہ بہتے ہوئے نہ دکھایا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ٹی وی پہ ڈرامہ آرہا تھا امجد اسلام امجد کا لکھا ہوا۔ شاید پہلا ڈرامہ تھا  جس میں ہیروئِن کو چھاتی کا کینسر ہوجاتا ہے۔ میری ایک استاد نے دوسری استاد سے اس وقت گفتگو کرتے ہوئے کہا ٹی وی پہ کس قدر بے حیائ پھیل گئ ہے۔ ہیروئین کو مرض بھی دکھایا تو بریسٹ کینسر کا۔ حالانکہ یہی بریسٹ کینسر اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کی ہلاکت کا بڑا باعث ہے۔
سوال یہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ کون سا سستا ترین ذریعہ ہو سکتا ہے جس سے آبادی کے بڑے حصے کو معلومات پہنچائ جا سکتی ہوں۔ یقیناً الیکٹرونک میڈیا۔
جب میں بلوچستان کے ایک چھوٹے سے ساحلی قصبے ارمارہ میں جسکی آبادی بمشکل دس ہزار ہوگی۔ لوگوں کو جھونپڑا ہوٹل میں ڈش کے ذریعے انڈیئن فلمیں دیکھتے ہوئے دیکھتی ہوں تو میرے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کی پہنچ کتنی دور افتادہ جگہوں تک ہے۔
پھر ایک اور سوال ابھرتا ہے۔ فحاشی اور بے حیائ کی ایک مستقل تعریف کیا ہو گی؟
ٹی وی ڈرامے میں بریسٹ کینسر کا بیان کسی زمانے میں فحاشی ہو سکتا ہے جبکہ آج ہمیں یہ معلومات عام کرنے کی ضرورت ہے کہ خواتین اس مہلک مرض سے کیسے بچاءو کر سکتی ہیں۔
ایک اور اہم سوال، بے حیائ کا نشانہ خواتین ہی کیوں بنتی ہیں۔ سر سے دوپٹہ اترا نہیں کہ بے حیائ کا لیبل نازل۔  جو خاتون بغیر آستین کا لباس پہن لے وہ مہا بے حیاء۔ اپنی شلواروں کو کھجانے والے مرد ، ہونٹوں پہ زبان پھیرنے والے مرد، خواتین کو گھورنے والے مرد، خواتین پہ آوازیں کسنے والے مرد، انکے جسمانی خد و خال کا چٹخارے لے کر تذکرہ کرنے والے مرد،  یہ سب بے حیاء کیوں نہیں کہلاتے۔ یہ سب مرد کیا معاشرے میں فحاشی نہیں پھیلا رہے ہیں۔ حتی کہ روڈ پہ کسی جھگڑے کے دوران جب مرد ایکدوسرے کی ماءووں اور بہنوں کے چیتھڑے اڑا رہے ہوتے ہیں تو بھی کسی کو ذرا توفیق نہیں ہوتی کہ انہیں روکے۔ در حقیقت قاضی صاحب ، عامر لیاقت حسین جیسے بے حیاء شخص کے ٹی وی پہ آنے کے خلاف کوئ درخواست دائر نہیں کرتے لیکن انہیں کسی خاتون کے بے حیاء لباس میں آنے پہ اعتراض ہوگا۔  بے حیائ کے یہ عملی مناظر ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ انکا خیال قاضی حسین صاحب کو کب آئے گا۔ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی اسکے بارے میں کب لکھیں گے تاکہ میری نظر میں بھی معتبر بنیں۔
خیر، ایک دورِ حکومت، جماعت اسلامی کا فوج کے زیر سایہ گذرا اور اب شاید جماعت اسلامی عدلیہ کے ذریعے حکومت کرنا چاہے گی۔

نوٹ؛ چند دنوں کے لئے خاکسار ایسے علاقوں میں رہے گی جہاں انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے اس لئے اس تحریر کے تبصرے اشاعت میں کچھ وقت لیں گے۔  

14 comments:

  1. بی بی آپ نے فرشتہ سیرت عامر لیاقت کو بے حیا لکھ دیا۔ بی بی استغفار کریں ۔ آپ نے اس کی دعا نہیں سنی پتھر دل سے پتھر کو رلا دیتا ہے ۔ کسی دن سن کر دیکھیں آپ کو بھی رلا دے گا۔ مجھے جب رونا ہوتا ہے اسکی دعا سن لیتا ہوں تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔ میں نے کبھی فرشتہ خصلت عامر لیاقت کو شلوار کھجاتے یا ہونٹوں پہ زبان پھیرتے نہیں دیکھا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. وہ تو مجھے ہنس ہنس کر رلاتے ہیں۔ باقی یہ کہ وہ زبان ہلا کر کام چلا لیتے ہیں۔ کیا زبانی فحاشی کی کوئ حیثیئت نہیں ہے۔

      Delete
  2. Individual act of a person is not that much affecting to national behavior as media can. Media is actually a trend maker so should be under control.

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپکے خیال میں اب سے ایک سال پہلے ہمارا قومی رویہ خاصہ بہتر تھا اور اب میڈیا کے پروگرامز کی وجہ سے اسکے بگڑنے کا امکان ہے۔

      Delete
  3. باجی جب لکھنا لٹھ ہی مارنا

    ReplyDelete
    Replies
    1. بات یہ ہے کہ میری انگلیاں ذرا زیادہ لمبی ہیں۔ کچھ محنت مشقت والے کام کرنے کی عادت رہی تو ہاتھ بھی بھاری ہو گئے ہیں اور یہ کی بورڈ پہ لٹھ ہی کی طرح پڑتی ہیں۔

      Delete
  4. دو سوال:
    سموسے آجکل کیا بھاؤ ہیں۔
    سیر کو کہاں گئی تھیں۔

    ReplyDelete
  5. پنجاب اور کراچی میں اشیاء کی خرید وفروخت کی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے۔ عدالتی فیصلہ پنجاب کے بارے میں تھا۔ کراچی کے بارے میں نہیں۔ آخری دفعہ جب میں نے سموسہ لیا تو وہ گیارہ روپے کا ایک تھا۔
    سیر کو بس کوہ ندا تک گئے تھے۔ جب وہ آواز دے تو جانا ہی پڑتا ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. لاہور میں سموسے کی کم از کم قیمت پندرہ رُپے ہے۔

      پرانی اور مشہور دکانوں پر اعلی معیار کے سموسے تیس رُپے میں بھی فروخت ہو رہے ہیں۔

      Delete
    2. اوہ۔ معلوم کرنا پڑے گا کہ کراچی میں رمضان میں سموسوں کا کیا ریٹ رہا۔ رمضان میں تو میں گھر میں ہی بنا لیتی ہوں۔

      Delete
  6. گیارہ روپے !! ... پندرہ روپے !!... تیس روپے !!!!
    میرے وقت میں دورپے سے ذیادہ نہیں تھا۔ اچھی دکان سے شائد ڈھائی روپے کا مل جاتا تھا۔ خیر جب میں کراچی سیر کو آؤں گا تو مجھے خریدنا نہیں پڑے گا۔ آپ خود جو بنا لیتی ہیں۔ بریانی کے ساتھ یہ بھی لسٹ میں شامل کر لیں۔
    :):)
    اور یہ کوہ ندا کہاں واقع ہے۔ کیا اشیاء کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ نت نئے پہاڑ بھی کھڑے ہوگئے ہیں ؟ شاگرد صاحب کی معلومات کے لئے اس پر ایک پوسٹ لکھی جائے۔

    ReplyDelete
  7. محترمہ میرے تبصرے عام طور پر سنسر ہو جاتے ہیں دیکھیں شاید یہ نہ ہو ...

    ساری ترقی یافتہ دنیا میں عدلیہ ہی سپریم ہوتی ہے ....

    اور وہ زندگی کہ ہر شعبہ میں مداخلت کرتی ہے .... مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ اس میں برائی کیا ہے .. پاکستان کے نام نہاد لبرل لوگوں کو عدلیہ کی فعالیت بری کیوں لگ رہی ہے ..

    اگر تنقید کرنی ہے تو اس بات پر کریں.. کہ عدلیہ کو اور فعال ہونا چاہیے کم از کم نچلی سطح پر ... ورنہ ا علیٰ عدلیہ کا فعال اور نچلی عدلیہ کا کرپٹ ہونا .. طبقاتی تفریق کی عمدہ مثال ہے .. جو صرف پاکستان میں ہی مل سکتی ہے ....

    آپ ہمارے ملک میں تین صوبوں میں
    consumer courts
    نہیں ہیں ...تو اسکا یہ مطلب بھی نہیں ہے کے .. کوئی اور اسکا نوٹس نہ لے ...

    اگر آپ امریکہ فرانس . جرمنی وغیرہ کی عدلیہ کا کردار دیکھیں تو شاید آپ کا سانس ہی بند ہو جاۓ.

    ویسے آپکے مخصوص مائنڈ سیٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے .. یہی لگتا ہے کہ چیف جسٹس کی پیمرا والی بات آپ کو بری لگی ہے ....

    ReplyDelete
  8. کون کرتا ہے آپکے تبصرے سنسر، میں؟
    اگر آپ ایسا لکھ رہے ہیں تو یہ ایک غلط بیانی ہے۔
    عدلیہ پہ تنقید اس بات کی ہے کہ وہ بھی دائیں بازو کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے۔ نچلی سطح تک اسے جانے کی فرصت نہیں۔ جب سموسوں اور فحاشی سے نکلیں گے تو وزیر اعظم سے خط لکھوانے کے مقدمے چلتے رہیں گے۔ جن کا انجام شاید حلومت کے انجام کے ساتھ ہو۔ پھر ایسی مقدمہ بازی کا کیا فائدہ؟
    کیا امریکہ، فرانس جرمنی میں عدلیہ اہم مسائل کو چھوڑ کر غیر اہم مسائل پہ سر کھپاتی ہے۔

    ReplyDelete
  9. تبصروں کا سنسر ہونا غلط بیانی نہیں ...
    خیر ..

    تو آپ یہ مان رہیں ہیں کہ عدلیہ کا فعال ہونا برا نہیں ...

    لیکن صرف ا علیٰ عدلیہ کا فعال ہونا اور ماتحت عدلیہ کا کرپٹ ہونا ...
    یا ا علیٰ عدلیہ کا متخب مقدمات کے لئے فعال ہونا برا ہے ...

    جن ممالک کی مثال دی ہے .. وہاں عدلیہ انتہائی فعال ہے .. لیکن ہر شعبے میں فعال ہے ...

    میں ہر گز جماعتی نہیں ہوں ...آپ کراچی والی ہیں جماعتی کی اصطلاح سمجھتی ہوں گی ...

    لیکن چیف جسٹس کے معاملے کا جماعت سے کیا تعلق ہے ... یہ تو آپ زبردستی جماعت کو کریڈٹ دے رہی ہیں .. جس کی وہ اہل نہیں ہے ...

    رہی بات کے جماعت نے پہلے فوج کے زیر سایہ حکومت کی ہے .. تو یہ سفید جھوٹ ہے ... جماعت ضیا حکومت کا حصہ تھی .. جس میں دوسرے سیاستدان اکثریت میں تھے .. جن کی اکثریت جماعت کی مخالف تھی اور ہے ...

    نہ جانے آپ لبرل لوگ .. اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارہ کیوں لیتے ہیں .. وہ بھی تاریخ کے معاملے میں جھوٹ ...
    آپ خود سرچ کر لیں .. ضیا کی کابینہ میں جماعت کی اکثریت نہیں تھی ....

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ