میں منی بس میں بیٹھی محو انتظار کہ کب ڈرائیور صاحب، اس پیار سے میری طرف نہ دیکھو پیار ہو جائے گا' کے اثر سے باہر نکلتے ہیں۔ میں آدھ گھنٹہ لیٹ ہو چکی ہوں اور یہ بس پچھلے دس منٹ سے اس اسٹاپ پہ کھڑی ہے جب تک اگلی بس نہیں آجائے گی یہ یہاں سے نہیں ہلے گی۔ تو دیر ہونےمیں خطا کس کی ہے۔ میری۔ اس لئے میں ڈرائیور کو دہائ دینے کے بجائے صبر و سکون سے بیٹھی دل ہی دل میں، مستقبل میں اینگر مینجمنٹ کے کورس کروانے کے پلان بنا تی ہوں۔ ڈرائیور کی طرف دیکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تیسری دفعہ 'اس پیار سے میری طرف نہ دیکھو' سن رہا ہے۔ اور اس قدر غرق ہے کہ 'کسی ' کے غصے کو بھی اسی نظر سے دیکھے گا، جس سے منع کیا جا رہا ہے۔
یکایک ایک پیلی ٹیکسی منی بس کے سامنے آ کر چر چراتے ہوئے رکتی ہے۔اس میں ایک کھلتے ہوئے رنگ اور درمیانے قد و قامت کا نوجوان کالے رنگ کے کپڑوں میں بجلی کی تیزی سے بر آمد ہوتا ہے۔ اسکے منہ سے دنیا کا ہر وہ لفظ موسلا دھار برس رہا ہے۔ جسے یہاں لکھنے کے لئے مجھے کچھ خلائ زبان استعمال کرنی پڑے گی۔ مثلاً
@*^#~@&$*#?
اسی طوفانی اسٹائل میں وہ آکر ڈرائیور گیٹ پہ بیٹھے ڈرائیور کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اسے نیچے کھینچ لیتا ہے۔ اور پھر دے دھنا دھن۔ گالی اور تشدد کا ظالم ادغام۔ ڈرائیور صاحب اس حالت میں کہہ رہے ہیں ارے دیکھومجھے بچاءو، لیکن سب پتھر کے بت بنے بیٹھے ہیں کیونکہ اگر انہیں دیکھا تو آپکو معلوم ہے کیا ہو جائے گا۔
حالانکہ تھوڑی دیر پہلے مسافروں میں سے ہر ایک اسکی یہی درگت بنانا چاہ رہا ہوگا۔ مگر اب سب سکتے میں ہیں۔ کیا یہ سکتہ اس چھبیس ستائیس سال شخص کی تشدد سے بھر پور اینٹری پہ ہے یا گالیوں کی روانی و فراوانی پہ۔ میں خود بھی سانس روکے بیٹھی رہتی ہوں۔ ماحول خاموش ہے۔ گانوں کی کیسٹ ابھی بھی چلے جا رہی ہے۔ لیکن چونکہ ڈرائیور موجود نہیں اس لئے نیا گانا آگیا۔ لڑکی کمال کی نظروں سے گولی مارے۔ ہاتھوں، اور پیروں اور زبان سے پٹنے کے بعد یہ گانا گولی ہی لگ رہا ہوگا۔ اس سارے طوفان کے ذرا ٹھنڈا ہونے پہ پتہ چلا کے پیار ومحبت کے اس پر سکون مگر دل جلے منظر میں ہنگامہ بپا کرنے والے وہ صاحب اس منی بس کے پیچھے پھنس گئے تھے اور اسے ہارن پہ ہارن دئیے جا رہے تھے مگر یہ تو مجھے، دیگر سواریوں یا اب آپکو پتہ ہے کہ وہ اس وقت کس دنیا میں تھے۔
حالانکہ تھوڑی دیر پہلے مسافروں میں سے ہر ایک اسکی یہی درگت بنانا چاہ رہا ہوگا۔ مگر اب سب سکتے میں ہیں۔ کیا یہ سکتہ اس چھبیس ستائیس سال شخص کی تشدد سے بھر پور اینٹری پہ ہے یا گالیوں کی روانی و فراوانی پہ۔ میں خود بھی سانس روکے بیٹھی رہتی ہوں۔ ماحول خاموش ہے۔ گانوں کی کیسٹ ابھی بھی چلے جا رہی ہے۔ لیکن چونکہ ڈرائیور موجود نہیں اس لئے نیا گانا آگیا۔ لڑکی کمال کی نظروں سے گولی مارے۔ ہاتھوں، اور پیروں اور زبان سے پٹنے کے بعد یہ گانا گولی ہی لگ رہا ہوگا۔ اس سارے طوفان کے ذرا ٹھنڈا ہونے پہ پتہ چلا کے پیار ومحبت کے اس پر سکون مگر دل جلے منظر میں ہنگامہ بپا کرنے والے وہ صاحب اس منی بس کے پیچھے پھنس گئے تھے اور اسے ہارن پہ ہارن دئیے جا رہے تھے مگر یہ تو مجھے، دیگر سواریوں یا اب آپکو پتہ ہے کہ وہ اس وقت کس دنیا میں تھے۔
گالیوں کے بارے میں تحقیق داں کہتے ہیں کہ غصہ برداشت نہ کر سکنے کی اہلیت کی بناء پہ منہ سے نکلتی ہیں بلکہ لکھی بھی جاتی ہیں۔ غصہ جو انسان کسی اور ذریعے سے نکال کر تسلی نہیں پا سکتا وہ اس ذریعے سے نکالتا ہے۔ میں اس سے اتنا متفق نہیں کہ اکثر تشدد اور گالی دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھا۔ جتنی زیادہ طاقت سے کوئ دوسرے کو پیٹتا ہے اتنی ہی شدید گالیاں بھی ہوتی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ انسانی شخصیت کی شدت پسندی کا حصہ ہوتی ہیں۔ ورنہ کیوں کچھ لوگوں کی گفتگو کا تکیہ کلام، فل اسٹاپ اور کومہ بھی کوئ گالی ہی ہوتی ہے۔ اور اگر جوش بڑھا ہوا ہو تو تین گالیاں ایک ساتھ۔ ہر ایک میں ٹارگٹ کی قریبی خواتین سے تعلقات پوشیدہ کی کشیدہ خواہش۔
شدت پسندی یہ ہے کہ جو گالی انتہائ غصے میں دی جاتی ہے وہی انتہائ پیار میں بھی نکلتی ہے۔ ایسوں کے لئے ہی کہا جاتا ہے کہ نہ انکی دوستی اچھی نہ انکی دشمنی اچھی۔
میں اپنی ایک عزیزہ کے رشتے کے سلسلے میں انکے خاندان والوں کے ساتھ لڑکے والوں کے گھر میں موجود تھی۔ وہ پانچ بھائ اور ایک بہن تھے۔ ایک بھائ کا حال ہی میں پہلا بچہ ، ایک بیٹا ہوا تھا جسکی خوشی انکے چہرے سے ہویدا تھی۔ پندرہ دن کے اس بچے کو کوئ لا کر انکے بڑے بھائ کے حوالے کر گیا۔ بڑے ابا، اسے کپڑوں میں لپیٹتے ہوئے، ایک لاڈ بھری مسکراہٹ سے کہنے لگے۔ خبیث ابھی پندرہ دن کا ہے مگر بڑا تیز ہے۔
گھر آکر میری رائے مانگی گئ۔ میں نے کہا جو پیار میں، پندرہ دن کے بچے کو خبیث کہہ رہے ہیں انکے غصے کا اندازہ کر لیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنی گفتگو میں گالیاں نہیں استعمال کرنی چاہئیں۔ کیوں بھئ، وہ بھی تو اسی نظام کی پیداوار ہیں۔ گالی سنے تو گونگا بولے۔ گالی اور اسکے اثر سے واقف، صرف اس لئے گالی استعمال نہ کریں کہ تعلیم یافتہ ہیں۔ بھاڑ میں گئ ایسی تعلیم کہ ایک انسان دوسرے کے خاندان کی زبانی ہی سہی ایسی تیسی نہ کر سکے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص، قتل کر سکتا ہے، کسی دوسرے کو پیٹ سکتا ہے، تو گالی کیوں نہیں دے سکتا۔
یہاں تعلیم سے متعلق انتہائ متنازعہ قسم کی بحث چھڑنے کا امکان ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ، تعلیم بنیادی انسانی فطرت کو تبدیل نہیں کرتی۔ یہ صرف آگاہی دیتی ہے اور اسکے اظہار کو سدھا سکتی ہے وہ بھی اگر فرد متعلقہ چاہے تو۔ باقی یہ کہ چاقو کی طرح اسے ہر بری اور اچھی سمت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ، انگریزی لٹریچر سے آشنا، پر وجیہہ شخصیت کے مالک نواب اکبر بگٹی کی سفاکیت کی داستانیں کسی دیو مالائ دنیا کی کہانی لگتی ہیں۔ یہ سفاکیت انکے ماحول، رواج اور تربیت کا حصہ تھے۔ جس سے وہ فرار حاصل نہ کر سکے۔ بھٹو جیسا تعلیم یافتہ شخص اپنی عبادت میں مصروف رہتا ہے۔ بے نظیر جیسی خاتون زرداری سے شادی کرتی ہیں۔
یہاں پہ دینی اور دنیاوی تعلیم کا فرق چھیڑا جا سکتا ہے۔ مگر پھر معذرت کے ساتھ جس طرح تشدد کی فطرت کو، دین میں مقدس جنگوں کے نام پہ روا رکھنے والے دینی عالم ہی ہوتے ہیں، اسی طرح اس زبان کو اپنے حریفوں کے لئے استعمال کرنے میں انہیں کوئ عار نہیں ہوتا۔ دین لوگوں کے درمیان کچھ بنیادی چیزوں کو اتحاد کی علامت بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ دیگر انسانی سرگرمیوں پہ یکسو ہو کر توجہ دیں مگر یہ وصف بھی کوئ کوئ ہی حاصل کر پاتا زیادہ تر لوگ فروعات میں الجھے رہتے ہیں جو دین کا مقصد نہیں۔ یوں دینی تعلیم بھی کوئ اعلی وصف پیدا نہیں کر پاتی۔ ایک نامور مرحوم عالم کے متعلق سنا کہ انہوں نے ایک خاتون صحافی کو نا مناسب لباس میں دیکھ کر کہا، مغرب نے حرامزادی کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ ہمارے ٹی وی کے ایک عالم جو آن لائن بھی ہوتے ہیں انکے متعلق بھی متعدد لوگوں سے سنا کہ وہ یہ زبان بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔
میں نے پہلی دفعہ اپنے ایک کولیگ کو روانی میں گالی دیتے سنا۔ سوچا، شاید انہیں خود بھی خیال نہیں کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں، اس وقت میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ اس وقت یہ سوچ کر نظر انداز کیا کہ انہوں نے کراچی سے باہر زیادہ تر ایسے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائ ہے جہاں صرف لڑکے ہوتے تھے۔ اس لئے اس طور سے واقف نہیں ہیں کہ کم از کم خواتین کی موجودگی میں زبان شستہ رکھنی چاہئیے۔
میں نے پہلی دفعہ اپنے ایک کولیگ کو روانی میں گالی دیتے سنا۔ سوچا، شاید انہیں خود بھی خیال نہیں کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں، اس وقت میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ اس وقت یہ سوچ کر نظر انداز کیا کہ انہوں نے کراچی سے باہر زیادہ تر ایسے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائ ہے جہاں صرف لڑکے ہوتے تھے۔ اس لئے اس طور سے واقف نہیں ہیں کہ کم از کم خواتین کی موجودگی میں زبان شستہ رکھنی چاہئیے۔
گئے زمانوں میں شرفاء کے یہاں یہ اہتمام ہوتا تھا کہ خواتین کے سامنے گالیوں سے اجتناب کیا جائے۔ مگر اب اس بکھیڑے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ دلیل یہ کہ جب مردوں کے شانہ بشانہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بھی سنو۔ یہ تو مردانہ اسٹائل ہے۔
یہ عنصر بالکل نا معلوم ہے کہ شدید گالیوں میں انسان کی جنس اور اسکے جنسی معاملات کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے فرائڈ اس بارے میں کچھ اندازے لگاتا ہے اور اسکے مطابق ہر گالی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ دوسرے انسان کو جانوریا اس سے بھی کم ثابت کیا جا سکے۔ چاہے براہ راست اسے اس جانور کا نام دیا جائے یا شدید صورت میں جانوروں کے جنسی افعال سے مماثلت دی جائے۔ اس حساب سے بھی جانوروں کی درجہ بندی ہے اور کسی کو گالی میں الّو یا گدھا کہنا کوئ اوقات نہیں رکھتا جبکہ الو کے پٹھے کی قدرے اہمیت ہے اور کسی کو گدھے کا بچہ کہہ کر تو دیکھیں۔ کتے یا کتے کا بچے کا اثرایک جیسا ہوتا ہے۔
خواتین تشدد کے ذریعے کم ہی دل کی بھڑاس نکال پاتی ہیں اور یوں انہیں گالیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ وہ بھی جب گالیاں دیتی ہیں تو دوسری خواتین کو اسی پس منظر میں گالی دیتی ہیں۔ لیکن جب انکی گالیوں میں شدت آتی ہے تو بد دعا بھی شامل ہوجاتی ہے۔
خواتین تشدد کے ذریعے کم ہی دل کی بھڑاس نکال پاتی ہیں اور یوں انہیں گالیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ وہ بھی جب گالیاں دیتی ہیں تو دوسری خواتین کو اسی پس منظر میں گالی دیتی ہیں۔ لیکن جب انکی گالیوں میں شدت آتی ہے تو بد دعا بھی شامل ہوجاتی ہے۔
کچھ گالیاں تفریحاً دی جاتی ہیں۔ اب جو شخص تفریح کے لئے گالی کا استعمال کرے اس سے اسکے ذوق جمالیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بعض علاقوں میں ذاتی مخاصمتیں اتنی بڑھی ہوئ ہوتی ہیں کہ کچھ لوگ فرصت کے اوقات میں نئ گالیاں گھڑتے یا ایجاد کرتے ہیں تاکہ اگلی جھڑپ میں کام آئیں۔ تخلیقی کام چونکہ اپنی زبان میں ہی بہتر ہوتا ہے اس لئے گالیاں بھی اپنی ہی زبان کی مزہ دیتی ہیں اور اس سے وہ آتش لگتی ہے جو بجھائے نہ بجھے۔
گالی کو سن کر رد عمل ظاہر ہونا بھی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ
دشنام یار طبع حزیں پہ گراں نہیں
اے ہم نفس، نزاکت آواز دیکھنا
ایسی گالیوں کو گالیاں سہانیاں کہتے ہیں۔ اور انہیں سننے کے لئے لوگ بڑی جدو جہد سے گذرتے ہیں کہ کام اس سے آ پڑا ہے جسکا جہان میں، لیوے نہ کوئ نام ستم گر کہے بغیر۔
اگر انسانی مقصد ، وقت کی بھیڑ چال کے مخالف سمت میں ہو تو بھی کرنے والے کو ایسی گالیوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ لیکن ٹھان لینے والے ان گالیوں کی پرواہ نہیں کرتے کہ دینے والے کے پاس اسکے علاوہ ایک خالی پن ہی ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ سر سید احمد خان کی مثال اس سلسلے میں موجود ہے۔
اگر انسانی مقصد ، وقت کی بھیڑ چال کے مخالف سمت میں ہو تو بھی کرنے والے کو ایسی گالیوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ لیکن ٹھان لینے والے ان گالیوں کی پرواہ نہیں کرتے کہ دینے والے کے پاس اسکے علاوہ ایک خالی پن ہی ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ سر سید احمد خان کی مثال اس سلسلے میں موجود ہے۔
لیکن ایک گالی بعض اوقات ایک شخص کو زندگی بھر کے لئے معذور کر دیتی ہے۔ وہ ذلت کے اس لمحے سے باہر نہیں نکل پاتا اور تمام عمر اسکے کرب میں مبتلا رہتا ہے۔ شاید گالی کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔