اگرچہ سازش کو میں ہمیشہ کچھ ایسے اقوال و افعال کا مجموعہ سمجھتی رہی ہوں جسے انتہائ تفکر اور سوچ بچار کے بعد ترتیب دیا جاتا ہے۔ لیکن بہر حال کچھ لوگ اسکے ساتھ سوچی سمجھی کا لاحقہ استعمال کر نا چاہتے ہیں۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے جم جم کریں، ویسے بھی ہمارے ماحول کی تربیت نے ایک چیز ہم میں پیدا کرنے کی کوشش کی اور وہ یہ کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔ اس میں آسانی یہ ہوتی ہے کہ خود کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ جو کچھ کرتی ہے ہوا کرتی ہے۔ اب اگر کچھ غلط بھی ہو جائے تو قصور ہوا کا ہی ہو سکتا ہے ہمارا نہیں۔ اور اگر موسم حبس کا ہو اور ہوا کا دور دور تک نشان نہ ہو تو ہمارے اس طرح بے دست وپا ہونے میں یقینا کسی کی سازش اور وہ بھی سوچی سمجھی سازش ہی شامل ہوسکتی ہے۔
اگرچہ کہ یہ نہیں معلوم کہ سوچی سمجھی سازش کی علامات کیا ہوتی ہیں اور اسے کیسے پکڑا جاتا ہے لیکن ہم اپنی فطری ذہانت سے اسکا پتہ چلا لیتے ہیں۔ قدرت نے ہمیں ایسے جواہر سے بغیر کسی جانبداری کےمالا مال کیا ہے اورایسے دیدہ وروں کے لئیے ہماری زمیں بہت زرخیز ہے۔ خدا جانے علامہ نے یہ شعر کس ترنگ میں کہا کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہمارے یہاں بہت کم لوگ ہی ایسے ہیں جنہیں قدرت نے دیدہ ور پیدا نہیں کیا۔ اور خیال ہے کہ ایسا صرف نرگس کے ساتھ ہی ہوا ہوگا۔ ہزاروں سال سے لگتا ہے کہ نرگس کوئ انسان نہیں جناتی مخلوق ہے۔ معلوم نہیں کہ حضرت علامہ کو جنات پہ کوئ دسترس حاصل تھی یا نہیں۔ یا کسی سوچی سمجھی سازش کے نتیجے میں انکی زندگی کا یہ باب اوجھل کر دیا گیا ہے۔
آخیر میں مجھے ایک خیال آتا ہے کہ جہاں ہم حالات حاضرہ کی الجھی لٹوں میں سے اتنے تواتر سے سازشی جوءوں کو نکالتے رہتے ہیں وہاں تاریخ کی سر کی کھجلی کو بھی کم کرنے کا بندو بست کیوں نہیں کرتے۔ مثلا میں سوچ رہی تھی کہ اس میں تو کوئ سوچی سمجھی سازش شامل نہیں کہ پاکستان کا قیام قائد اعظم جیسے بے عمل سیکولر مسلمان کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ آخر یہ کس کی سازش تھی۔
قائد اعظم کی یہ یادگار تصویر کسی سوچی سمجھی سازش کا حصہ تو نہیں۔
حلفنامہ
میں یہ حلف دیتی ہوں کہ میری یہ تحریر بغیر سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ اور کسی دیدہ ور کی دیدہ وری کے بغیر شائع کی جا رہی ہے۔