Showing posts with label پیڈیئٹریشن. Show all posts
Showing posts with label پیڈیئٹریشن. Show all posts

Friday, July 23, 2010

معالج

ڈاکٹر محبوب میرے ساس سسر کے یونیورسٹی کے زمانے کے  دوست ہیں۔  نظریاتی طور پہ بائیں بازو سے قربت رکھنے والے۔  شادی کے بعد میری ان سے جان پہچان ہوئ اور میری بیٹی کی پیدائش کے بعد وہ میرے بھی دوست بن گئے کیونکہ وہ بچوں کے معالج یعنی ایک پیڈیئٹریشن ہیں۔ وہ  بچوں کے ایسے ڈاکٹر ہیں کہ والدین  کچھ عرصے میں خود اپنا کلینک چلانے لگ جائیں۔ میرے کیس میں دوا کے اجزاء تک بھی بتا دیتے  اور موڈ آف ایکشن بھی۔  پچھتر سال سے زائد  عمر اور ریٹائر ہوئے عرصہ ہوا، مگر اب بھی اپنے کلینک  جاتے ہیں اور خاصی کم فیس میں اپنے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ہر مریض اپنی پوری توجہ حاصل کرتا ہے اور تربیت بھی۔   اتنا زیادہ کہ اکثر لائن میں لگے بوریت ہوا کرتی کہ کیا کرتے رہتے ہیں وہ مریضوں کے ساتھ۔
وہ اگرچہ ہمارے خاندان کے اتنے ہی دوست ہیں کہ دوست کم رشتےدار زیادہ لگتے ہیں۔ لیکن میں انکے کلینک پہ اپنی باری کا انتظار کرتی ہوں۔ نہ میں نے ان سے اس تعلق کی وجہ سے کوئ آسانی چاہی اور نہ انہوں نے کبھی آفر کی کہ پہلے مجھے بلا لیا جائے۔
ایک دفعہ ، انکی ملک سے غیر موجودگی میں مجھے اپنی بچی کو کراچی کے مشہور پرائیویٹ ہسپتال کے مشہور پیڈیئٹریشن کے پاس لے جانا پڑا۔  ڈاکٹر کے کمرے میں ایک ساتھ تین والدین اور انکے چار بچوں نے وہ افراتفری مچائ کہ وہ ہمیں بمشکل پانچ منٹ دے پائے۔ جلدی سے ایک اینٹی بائیوٹک لکھی اور ہماری چھٹی ہو گئ۔ اس دن بحیثیت ڈاکٹر انکی خوبیاں زیادہ سامنے آئیں۔
ڈاکٹر محبوب کو اندازہ ہے کہ مجھے اینٹی بائیوٹک دینا پسند نہیں۔ اس لئیے پہلےدو تین دن انتظار میں رکھتے اور پھر جب لکھتے تو اچھی طرح بتا دیتے کہ اب دینا کیوں ضروری ہے۔ ایک دفعہ میری بچی کا سینہ خاصہ جکڑا ہوا تھا اور بخار ایک سودو، عمر دو مہینے ، اتفاقاً گھر کے تمام لوگ ملک یا شہر سے باہر تھے۔ ساری رات وہ مجھے فون کر کے اپ ڈیٹ لیتے رہے۔ انہیں سخت ٹینشن تھی کہ کہیں اسے نمونیا نہ ہو جائے، ہسپتال میں نہ داخل کرانا پڑ جائے، ایسی صورت میں، میں اکیلے کیا کرونگی۔   اگلے دن گھر پہ حاضر۔ 
ایسے حالات میں جب گھر پہ کوئ نہ ہو تو وہ اسکی ویکسینیشن بھی کچھ دنوں کے لئے ملتوی کر دیتے۔ بخار ہو گیا اسے تو کہاں اکیلی سنبھالتی پھروگی۔ حالانکہ میں انہیں اتنا یقین دلاتی کہ باقی لوگ ہوں تو بھی سنبھالنا تو مجھی کو ہوگا۔ لیکن ایک 'نہیں'۔ میری بیٹی  کی دیکھ بھال میں وہ میرے بہترین رفیق رہے۔
ایکدم چست، توانا اور مصروف، لیکن ہفتے بھر پہلے اطلاع ملی کہ انہیں پھیپھڑوں کا کینسر ہو گیا ہے۔ ہم سب کو صدمہ ہوا۔ انکی بیگم اور بچے سب ہی مختلف میدانوں کے ڈاکٹر ہیں۔ چالیس سال سے برٹش قومیت رکھنے کے باوجود پاکستان میں ہی رہتے رہے۔ وہ تو شوکت خانم ہسپتال کے لئے روانہ ہو رہے تھے کہ سب نے زور دیا ، مزید علاج کے لئے اب جلد سے جلد لندن چلے جائیں، آسانی رہے گی۔
تین دن پہلے وہ چلے گئے۔ بیگم محبوب کی بیمار والدہ یہاں اکیلی ہیں ۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں سو اس سفر پہ انکے ساتھ  اپنی نوے سالہ بیمار ماں کی وجہ سے نہ جا سکیں۔  ایک غیر یقینی سفر کے لئے خدا حافظ کہہ کر آئیں تو دل گرفتہ کہنے لگیں کہ پینتالیس سال سے زیادہ ہو گئے ہماری شادی کو دو دفعہ محبوب کو روتے دیکھا۔ ایک ڈھاکہ فال کے وقت اور دوسرے آج ائیر پورٹ پہ۔