Showing posts with label قتل. Show all posts
Showing posts with label قتل. Show all posts

Saturday, September 22, 2012

کیا واقعی؟

اب کچھ بھی لکھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ رسول اللہ پہ بنائے جانے والی فلم کے متعلق میرا کیا خیال ہے۔
 ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں کسی بھی قسم کا فضول مواد نیٹ پہ ڈالنا کسی بھی شخص کے لئے کوئ مشکل کام نہیں۔ اسکی مثال وہ فحش مواد ہے جو خود مغربی معاشرے کے لئے ایک مصیبت سے کم نہیں۔
ہمارے یہاں اس فلم کے اوپر غم غصے کا ہونا بجا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام  کے پیغمبر، کوئ تصوراتی شخصیت نہیں ہیں۔ انکی یہی خوبی جہاں ایک مسلمان کے لئے بے حد کشش کا باعث بنتی ہے وہاں نہ ماننے والوں کے لئے تنازعوں کا کھڑا کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔
میرے نزدیک یہ فلم  آزادی ء اظہار رائے کے ضمن میں نہیں آتی بلکہ اسکا تعلق ہیٹ میٹیریئل یعنی نفرت انگیز مواد سے ہے۔  سو اس سلسلے میں مسلمانوں کا یہ مطالبہ اپنی جگہ درست ہے کہ اسے نیٹ پہ سے ہٹایا جائے کیونکہ یہ مسلم دنیا سے نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ اور جب تک اسے نیٹ پہ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ مسلم دنیا یہ تسلیم کرنے میں حق بجانب رہے گی کہ یہ نفرت انگیز مواد ، مسلم دنیا کو مشتعل کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔
مسلم دنیا  اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایک اجتماعی حل تو یہ ہے  کہ تمام مسلم ممالک کو اس سلسلے میں متحد ہو کر کسی ایسے بین الاقوامی قانون کے لئے کوشش کرنی چاہئیے جس سے اس قسم کے نفرت انگیز مواد کا پھیلاءو ممکن نہ رہے۔ 
لیکن اس سے پہلے ہمیں بحیثیئت پاکستانی خود سے بھی پوچھنا چاہئِے کہ کیا ہم دوسرے مذاہب کی تکریم کرتے ہیں۔ کیا ہم دوسرے انسانوں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب پہ جیسے دل چاہے عمل کریں۔
کل میری نظر ایک مضمون پہ سے گذری جو کسی مغربی لکھاری کا لکھا ہوا تھا اور انہوں نے اس میں بے شمار چیزیں گنوائیں جو مسلمان ، غیر مسلموں کے لئے کہتے ہیں اور جو نفرت انگیز مواد میں شامل ہونا چاہئیے۔ جب ہم دل آزاری کے اس مرحلے سے بغیر کسی قباحت کے گذر جاتے ہیں تو اپنی باری میں پہ ہم کیوں پریشان ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے رسول کی تکریم ہو تو ہمیں اپنے اعمال کی بھی نگہداشت کرنی چاہئیے۔

ON CHRISTIANS Hasan Rahimpur Azghadi of the Iranian Supreme Council for Cultural Revolution: Christianity is “a reeking corpse, on which you have to constantly pour eau de cologne and perfume, and wash it in order to keep it clean.”http://www.memritv.org/clip/en/1528.htm — July 20, 2007.

Sheik Al-Khatib al-Baghdadi: It is permissible to spill the blood of the Iraqi Christians — and a duty to wage jihad against them.http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/0/5200.htm — April 14, 2011.

Abd al-Aziz Fawzan al-Fawzan, a Saudi professor of Islamic law, calls for “positive hatred” of Christians. Al-Majd TV (Saudi Arabia),http://www.memritv.org/clip/en/992.htm — Dec. 16, 2005.

ON SHIITES The Egyptian Cleric Muhammad Hussein Yaaqub: “Muslim Brotherhood Presidential Candidate Mohamed Morsi told me that the Shiites are more dangerous to Islam than the Jews.” www.memritv.org/clip/en/3466.htm — June 13, 2012.

The Egyptian Cleric Mazen al-Sirsawi: “If Allah had not created the Shiites as human beings, they would have been donkeys.” http://www.memritv.org/clip/en/3101.htm — Aug. 7, 2011.

The Sipah-e-Sahaba Pakistan video series: “The Shiite is a Nasl [Race/Offspring] of Jews.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6208.htm — March 21, 2012.

ON JEWS Article on the Muslim Brotherhood’s Web site praises jihad against America and the Jews: “The Descendants of Apes and Pigs.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6656.htm — Sept. 7, 2012.

The Pakistani cleric Muhammad Raza Saqib Mustafai: “When the Jews are wiped out, the world would be purified and the sun of peace would rise on the entire world.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6557.htm — Aug. 1, 2012.

Dr. Ismail Ali Muhammad, a senior Al-Azhar scholar: The Jews, “a source of evil and harm in all human societies.” http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6086.htm— Feb. 14, 2012.

ON SUFIS A shrine venerating a Sufi Muslim saint in Libya has been partly destroyed, the latest in a series of attacks blamed on ultraconservative Salafi Islamists.http://www.bbc.co.uk/news/world-africa-19380083 — Aug. 26, 2012.


عوام کی مذہب کے نام پہ  سلطان راہی بننے کی لگن دیکھتے ہوئے سیاستداں بھی اس سے کم فائدہ نہیں اٹھاتے۔ کیونکہ مذہب کا نام لے کر کسی کو قتل کر دیں یا کسی کی زمین چھین لیں یا کسی کو قید کرا دیں یہ کوئ مشکل کام نہیں۔ معاشرہ بھی اسے برا نہیں سمجھتا۔ جو اس چکر میں پھنستا ہے اسکی جاں بخشی اس ملک کی سرحدوں کے باہر ہی ممکن ہو پاتی ہے۔ سو وہ لوگ جو آجکل خواب میں بھی اپنے ہاتھ میں تلوار اور سامنے گستاخ کا سر دیکھتے ہیں انکو بلور صاحب نے پیغام دیا ہے کہ گستاخ فلم بنانے والے کے سر کی قیمت انہوں نے رکھ دی ہے۔ جسے ہو شوق جائے کرے شکار اسے۔ اس طرح صوبہ ء سرحد میں موجود طالبان کو انہوں نے ایک سخت چیلینج دیا ہے۔ دیکھتے ہیں طالبان  کیا زیادہ سخت سزا اس گستاخ کے لئے رکھتے ہیں۔ بلور صاحب سے معذرت کے ساتھ کیا یہ پیغام تشدد، شدت پسندی اور نفرت انگیز جذبات کو ہوا دینے والا نہیں ہے۔
ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ مغربی ممالک میں کئ دہائیوں سے بسنے والے لوگوں کی زندگی کیا ان مغربی لوگوں نے اجیرن کی ہوئ ہے۔ کیا وہ انکے سامنے انکے نبی کی توہین کرتے ہیں۔ مجھے آج تک کوئ ایک شخص مغرب میں ایسا نہیں ملا جس نے مجھ سے میرا مذہب پوچھا ہو یا میرا مذہب جاننے کے بعد کوئ توہین آمیز ریمارک دیا ہو۔
کسی بھی ایسے گستاخ کے سر کی قیمت رکھ کر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں پاگلوں کی کمی نہیں۔ کیا سلمان رشدی کے سر کی قیمت رکھنے کے بعد لوگوں نے مرنے کے ڈر سے گستاخی کرنے کی جراءت نہیں کی؟
مجھے یقین ہے کہ یہ اس سلسلے کا آخری واقعہ نہیں ہوگا جیسا کہ مجھے کارٹونز والے معاملے میں بھی یقین تھا کہ یہ سلسلہ ایسے نہیں رکے گا۔
  اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ کل ہمارے یہاں یوم عشق رسول  ایسے منایا گیا کہ لوٹ مار کے واقعات کے ساتھ چھبیس افراد اپنی جان سے گئے۔ یہ وہ بے گناہ ہیں جنہیں کوئ شہید بھی نہیں کہتا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں نے اس پہ مذمت سے زیادہ اس پہ مذمت کی کہ میڈیا نے پر امن ریلیوں کی کوریج کے بجائے ہنگامے کی کوریج زیادہ کی۔ مجھے جس چیز پہ انتہائ افسوس رہا وہ یہ کہ سوائے فضل الرحمن صاحب کے کسی اور مذہبی تنظیم نے جاں کے زیاں پہ اپنے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ حتی کہ سوشل میڈیا پہ موجود دائیں بازو کا پروپیگینڈہ کرنے والوں کی اکثریت اس وقت ایسے خاموش ہوئ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جیسے یہ واقعہ پاکستان میں نہیں مریخ پہ پیش آیا ہو، جیسے مرنے والے ہمارے ہم مذہب اور ہم وطن نہیں بلکہ کسی جنگل میں شیر اور ہاتھی کے درمیان لڑی جانے والی جنگ میں کچلی ہوئ گھاس تھے۔
آخر یہ کیسے ہوا کہ اتنے لوگ ہلاک ہو گئے؟
ایک اسٹیٹس میری نظر سے فیس بک پہ گذرا۔ جس میں لکھنے والے نے لکھا کہ ریلیاں انتہائ پر امن تھی۔ ان میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے لیکن معاملہ ان جگہوں پہ خراب ہوا جہاں افغان مہاجرین نے ریلیوں میں شرکت کی۔ یہ افغان توڑ پھوڑ اور ہلاکتوں میں شامل تھے۔ اسکے ساتھ ہی اسلام آباد کے ہنگامے کی تصویر تھی۔
تب مجھے یاد آیا کہ بے نظیر کے مرنے پہ کراچی میں ملیر کے علاقے میں سب سے زیادہ ہنگامہ ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ انکے گھروں میں گھس کر نہ صرف لوٹ مار کی گئ بلکہ خواتین کو اٹھا لیا گیا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا ذمہ دار افغان مہاجرین کو بتایا۔
ادھر کراچی میں میری آج ایک صاحب سے بات ہوئ جو حافظ قرآن ہیں اور لیاری کے علاقے میں رہتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ وہ عینی گواہ ہیں کہ کل صدر کے علاقے میں جو لوٹ مار اور جلاءو گھیراءو ہوا وہ لیاری کے امن کمیٹی والوں کا کیا دھرا ہے۔  چند سال پہلے بھی کراچی پیپر مارکیٹ میں آگ لگانے کا ذمہ دار امن کمیٹی کو بتایا گیا تھا۔ حتی کہ اس وقت کی جانے والی لوٹ مار کا سامان بعد میں لیاری کے ایک گودام سے بر آمد بھی کیا گیا۔ یہ پیپر مارکیٹ صدر کے ساتھ ہی ہے۔
 میں نے حیران ہو کر ان صاحب سے پوچھا، لیکن میڈیا اس سلسلے میں کچھ نہیں بتا رہا اور امن کمیٹی والوں کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق؟
کہنے لگے، امن کمیتی کی خبریں میڈیا نہیں دے سکتا۔ مزید یہ کہ  یہ سب ایجنسیز یعنی پاکستانی فوج کے ایماء پہ ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام مذہب کے نام پہ بڑھکوں اور قتل و غارت گری سے بھرپور ڈرامہ دیکھ کر اپنا خون گرم رکھے۔ کیونکہ وہ ایک طرف عوام کو مذہب کے نام پہ طیش میں لاتے ہیں اور دوسری طرف امریکہ بہادر کو جتاتے ہیں دیکھا، ہم نے کتنی مصیبتیں جھیل کر آپکو اپنے علاقے میں تحفظ دیا ہوا ہے۔ اور آپ ہمارے لئے کیا کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف فوج بلکہ حکومت کے بھی پو بارہ ہیں۔
سوسائٹی میں وہ جن لوگوں کو استعمال کر سکتے ہیں انہوں نے کیا، ایک طرف افغان ذرائع انکے قابو میں  دوسری طرف کراچی میں جو قوتیں انکے قابو میں ہیں ان سے بھی حتی الامکان کام لیا ہے۔ مذہبی جماعتیں جہاد کے نام پہ انکے قابو میں ایسے آتی ہیں جیسے تر نوالہ۔
مجھے تو انکی بات پہ شبہ ہی تھا یہ تو آئے دن کا معمول ہے کہ جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ اس میں ایجنسیز شامل ہیں۔  لیکن آج صبح جب میں نے کیانی صاحب کا یہ بیان ٹی وی پہ سنا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے تو میں نے سوچا کہ جہاد اور جنگ میں معمولی سا فرق ہے وہ چاہتے تو اوبامہ کی طرح لفظ جنگ استعمال کر سکتے تھے۔ لیکن در حقیقت اس میں اتنا ہی فرق ہے جتنا خدا حافظ اور اللہ حافظ میں ہے۔ عوام کو کتنی آسانی سے سمجھ میں آیا کہ اللہ حافظ سے ہی اللہ ہمیں حفاظت دے گا۔ کیونکہ مسلمانوں کے خدا کا نام اللہ ہے۔ خدا تو ہر کس و ناکس کا ہو سکتا ہے۔ ہر کسی کا خدا خاص امت کا خدا کیسے ہو سکتا ہے۔ کیانی صاحب نے بڑا ناپ تول کر بولا۔
یہ پاک فوج ہے جس نے مذہبی شدت پسندی کا بیج بویا، اسکی آبیاری کی، اسے تناور بنایا، اسکے سائے میں بیٹھ کر اپنے لئے گلشن بنائے اور اب بھی اسکا کردار شفافیت سے محروم ہے۔ 
کیا واقعی؟ پاکستانی فوج  اب تک اس نشے کا شکار ہے کہ وہ بوتل کے جن کو جب چاہے گی اندر کر لے گی اور جب چاہے گی باہر کر لے گی۔ وہ جب چاہے گی مولوی صاحب کی خدمات حاصل کرے گی اور جب چاہے گی مولوی صاحب کو ایک طرف کر دے گی۔ کیا مولوی صاحب اتنے ہی بے وقوف ہیں؟

Wednesday, March 16, 2011

انصاف کا قتل

اس خبر سے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو شدید دھچکہ پہنچا کہ امریکن ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس  جو کہ دو پاکستانیوں کے قتل میں ملوث تھا۔ اس کو بری کر دیا گیا۔ اگرچہ کہ ہر چیز قانونی طور پہ طے پائ گئ۔  اسکے لئے اسلامی قانون دیت کو استعمال کیا گیا۔ مقتولین کے اٹھارہ ورثاء کو اس ڈیل کے نتیجے میں بیس کروڑ روپے ملے۔ اور اسکے علاوہ انہیں تین فیملی ویزے بھی دئیے گئے۔  اور یوں بظاہر انہوں نے خون بہا لے کر ایک قاتل کو معاف کر دیا۔
لیکن کیا یہ انصاف ہے، یا انصاف کا قتل؟ نہیں یہ اسلامی قوانین کا مذاق ہے جس کے اڑانے میں ہمارا  نظام سارے کا سارا شامل ہے۔ یہ وہ کام ہے جو ہم ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔ یعنی مذہب کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنا۔ یہ آج ریمنڈ کے لئے استعمال ہو گیا۔ واہ رے اللہ میاں ۔

Friday, March 4, 2011

ساحل کے ساتھ-۵


اندھیرا پھیل چلا تھا جب میں مشعل کو رات کا کھانا کھلا کر فارغ ہوئ۔ پتہ چلا کہ محلے سے دو خواتین ملنے کے لئے آئ ہیں۔ عبایہ پہنے ہوئے جب وہ اندر آئیں تو مجھے لگا کہ ان میں سے ایک سے پہلے مل چکی ہوں۔ طیبہ، یہی نام ہے ناں تمہارا۔ میں نے ان میں سے ایک سے کہا۔ وہ ایکدم مسکرائ۔ میں سمجھی  تم مجھے بھول گئ۔ ارے نہیں، میں اتنے عرصے بعد یہاں آئ ہوں تم اتنی بڑی ہو گئیں۔
طیبہ، اپنی بڑی بہن اور چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ آئ تھی۔ اسکی عمر یہی کوئ چودہ پندرہ سال ہوگی۔ اسکی بڑی بہن اس سے کوئ دو تین سال بڑی تھی۔ نام تھا اس کا فرض کریں کہ رخسانہ۔
تم لوگوں کو اردو کیسے آتی ہے؟  ڈارمے دیکھتے ہیں اور فلمیں کیبل پہ۔ اس سے آئی ہے۔ کیبل یہاں کوئ چار سال پہلے آیا ہے۔ اور چار سال کے حساب اردو فرسٹ کلاس۔  جو چینلز یہاں آتے ہیں وہ زیادہ تر انڈین یا ایرانی ہیں۔ ایرانی اس لئے کہ گوادر سے ایرانی سرحد زیادہ دور نہیں۔ اور انڈین کس لئے، یہ نہ معلوم یا معلوم؟  پاکستانی چند چینلز آتے ہیں ان میں سے ایک دو خبروں کے ہیں۔ ڈرامے کا کوئ چینل نہیں ہے۔ لازماً ان لوگوں کی اردو پہ ہندی کا اثر ہے۔ جب ہی ایک بچے نے مجھ سے پوچھا کیا تم پتنی ہو؟ 
جتنی دیر وہ میرے پاس بیٹھی رہی۔ رخسانہ اپنی دوچ ، خواتین کا خاص بلوچی لباس،  کی جیب میں سے موبائل نکال کر دیکھتی رہی۔  یہ مجھے پتہ چل گیا کہ تم ہو بڑی مالدار، موبائل فون ہے تمہارے پاس۔ میں نے اسے چھیڑا۔ لیکن یہ بتاءو، جب  تمہیں پڑھنا نہیں آتا تو تم کیسے موبائل کو چیک کرتی ہو۔ ہنسنے لگی۔
ہلکے پھلکے مذاق کے بعد میں نے گفتگو کو قائم رکھنے کو پوچھا ، تو تم لوگ تین بہنیں چار بھائ ہو۔ نہیں ہم چار بہنیں اور چار بھائ تھے۔ بڑی بہن  مر گئ۔
میں خاموش ہو گئ۔ اچھا کیسے مر گئ۔ وہ اسکی شادی ہو گئ تھی۔ وہ پھر خاموش ہو گئ۔ ہمم، بچے کی پیدائش کے سلسلے میں مر گئ۔ نہیں اسے میرے گھر والوں نے زہر دے دیا تھا۔ اس نے اتنے سادہ اورعام لہجے میں کہا زہردے دیا تھا، جیسے گھر میں کسی چوہے کے مرنے مارنے کا تذکرہ ہو،  میں دنگ رہ گئ۔ ایک سال پہلے وہ مری۔ اندازاً اٹھارہ انیس سال کی ہوگی۔
مگر تمہارے گھر والوں نے اسے زہر کیوں دیا؟  وہ اسے اپنا شوہر پسند نہیں تھا۔ اس نے کچھ سوچ کر کہا۔ کیوں؟ وہ اس سے بہت بڑا تھا۔ پہلے بھی اسکی دو شادیاں ہوئیں تھیں۔ وہ اسکی تیسری بیوی تھی۔
تمہیں کیسے پتہ گھر والوں نے اسے زہر دیا تھا؟ یہاں سب کو یہ بات پتہ ہے۔ وہ ہمارے گھر رہنے آئ ہوئ تھی۔ بس ایک دن مر گئ۔
غیرت بڑی چیز ہے جناب۔ اسکے آگے ایک اٹھارہ انیس سال کی لڑکی کیا اوقات ہے۔ اسی صوبے کے ممبرقومی اسمبلی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ غیرت پہ قتل ہماری روایت ہے۔ اور اس بات سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں کہ خواتین کے سلسلے میں روایت توڑی نہیں جا سکتی اور جو جہاں ہے وہاں سے وہ حتی المقدور حصہ لیتا ہے۔ جو عملی طور سے نہیں کر پاتے وہ زبان سے کرتے ہیں۔
بلوچ بغاوت کرنا چاہتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ کس کے خلاف بغاوت کرنی چاہئیے اور یوں کچھ روحیں شب انتظار کے مختصر ہونے کے انتظار میں برزخ میں ہیں۔
میں نے بات بدلنے کو کہا۔ تم دونوں کی منگنی ہو گئ کیا۔ دونوں شرما گئیں، نہیں ابھی تو نہیں۔ اچھا یہ بتاءو تمہارے یہاں لڑکی کو کیسے پسند کرتے ہیں۔ نہیں، ہمارے یہاں پسند کی شادی نہیں ہوتی رخسانہ نے فوراً میری بات کاٹی۔ مجھے معلوم ہے تمہارے یہاں ایسے نہیں ہوتا۔ میں پسند کی شادی کا نہیں کہہ رہی یہ پوچھ رہی ہوں کہ ایک لڑکی کو لڑکے والدین جب دیکھتے ہیں تو وہ کس چیز کو پسند کرتے ہیں۔ شکل صورت، ابا کا کام یا اسکی پڑھائ۔ کیسے انہیں کوئ لڑکی پسند آتی ہے۔
طیبہ کی بڑی بہن نے پہلے سوچا اور پھر بڑے مدبرانہ انداز میں کہنے لگی۔ ہمارے یہاں اس لڑکی کو پسند کرتے ہیں جو عزت میں زیادہ ہو۔ کون عزت میں زیادہ ہوتی ہے؟  میں نے پھر سوال داغا۔ جواب، وہ جسے گھر کے سارے کام آتے ہوں، کڑھائ سلائ آتی ہو، جانوروں کو دیکھ لیتی ہو۔
اس پہ میں نے طیبہ سے کہا، طیبہ تمہارا کیا ہوگا۔ تمہاری شکل تو اچھی ہے لیکن عزت تو تمہاری بڑی بہن کی زیادہ ہے اسے سب کام آتے ہیں اور تمہیں صرف جھاڑو دینا آتی ہے۔ اسکی شادی تو ہو جائے گی تم کیا کروگی۔ میں نے اسکی طرف دیکھ کر سوالیہ انداز میں بھنوئیں اچکائیں۔ جواباً اس نے بھی اپنی بھنوئیں شرارت میں ہلائیں۔  ہاں میں کیا کرونگی، مجھے تو صرف جھاڑو دینا آتی ہے۔
جب چلنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں تو اصرار کیا کہ ہمارے گھر بھی ضرور آنا۔ چلتے چلتے، بڑے شوق سے کمرے کے درمیان لٹکے ہوئے جھولے کی طرف دیکھنے لگیں۔ بیٹھنا چاہو تو بیٹھ جاءو۔ ادھر محلّے کے اور بچے بھی اس جھولے میں بیٹھنے کے لئے آتے ہیں۔ مجھے بھی پسند ہے۔
ٹوٹ جائے گا؟ نہیں ٹوٹے گا۔ یہ لوہے کی زنجیر بڑی مضبوط ہے۔ میں نے زنجیر کو ہلایا۔  میں، مشعل اور اسکے ابّا تینوں ایک ساتھ اس جھولے پہ لیٹ جاتے ہیں نہیں ٹوٹتا۔ میں نے حوصلہ دینے کو کہا۔ نہیں، انہوں نے پھر سوچا اور انکار کر دیا شاید شرم مانع تھی۔  پھر کمرے کے دروازے سے باہر نکلتے نکلتے یک لخت طیبہ پلٹی اور آ کر جھولے پہ بیٹھ گئ۔ بچپن اتنی آسانی سے ہاتھ ہلا کراور دامن جھاڑ کر رخصت نہیں ہوتا اور بعض لوگوں  سے کبھی نہیں۔  
پتہ چلا کہ شافٹ یہاں صحیح نہیں ہو سکتی اور فیصلہ یہ کیا ہے کہ کراچی سے نئ لا کر لگائیں۔ اب ہمیں واپسی کا پروگرام سیٹ کرنا تھا۔ مکینک صبح کی بس سے واپس جا رہا تھا۔ گاڑی کے بغیر ہم بھی یہاں کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ کراچی کی طرح یہاں ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں۔
رات کو کھانے کی میز پہ مکینک صاحب بھی موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ گوادر میں لوگوں نے انہیں بلوچ ماننے سے انکار کردیا۔  کیسا بلوچ ہے، نہ شراب پیتا ہے، نہ  افیون چرس لیتا ہے نہ گٹکا کھاتا ہے ۔  چھالیہ بھی نہیں کھاتا۔ تو بلوچی نہیں ہو سکتا۔ مکینک شرماتا ہوا کہہ رہا تھا کہ ادھر کراچی میں بھی لوگ کہتا ہے کہ تم کیسے مکینک ہو کسی قسم کا نشہ نہیں کرتے۔
مجھے چین یاد آگیا۔ چین سے تجارت میں جیتنے کے جذبے میں انگریزوں نے چینیوں کو افیون کی لت لگائ۔ چین نے دو جنگیں لڑیں جو افیون کی جنگیں کہلاتی ہیں۔ ہانگ کانگ کے جزیرے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یوں ایک پوری صدی چین ذلت اور شرمندگی کے نشے میں دھت رہا۔ انیس سو گیارہ میں شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ چین ری پبلک بنا۔ مزید سیاسی اصلاحات ہوئیں۔ ماءو زے تنگ کی سخت پالیسیز سامنے آئیں۔ اور افیون کے نشے میں دھت قوم  جاگی اور ایسی جاگی کہ آج بھی خاموشی سے دنیا کی عظیم قوم بننے سے لگی ہوئ ہے۔
جاری ہے

Sunday, January 30, 2011

انصاف کا راستہ

تین پاکستانی شہریوں کو پاکستان کے ایک بڑے شہر لاہور میں دن دھاڑے موت کی نیند سلا دینے والے امریکی شہریوں کو امریکہ نے اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس پورے واقعے میں عینی شاہدین کے بیانات اور مرنے والوں کے خاندان والوں، امریکی سفارتخانے سے تعلق رکھنے والوں کے بیانات سے مختلف ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل سوار ڈاکو تھے جبکہ دیگرشواہد اس بات کے حق میں نہیں جاتے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہی ہے کہ قانون کو اسکا کام کرنے دیا جائے۔ واقعے کی تحقیق ہو، امریکی  ملزم شہری اس الزام سے اپنی بریت ثابت کر لیں تو رہائ پائیں اور اگر ایسا نہ ہو تو قرار واقعی سزا۔
ہمیں یقین ہے کہ جرم ثابت ہونے پہ پاکستانی عدالت زیادہ سے زیادہ انہیں عمر قید کی سزا دے سکتی ہے یا بہت ہمت کر کے کوئ انقلابی فیصلہ کر لے تو سزائے موت، مگر چھیاسی سال کی قید نہیں۔ ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر امریکن کوشش کریں اور پاکستانی طریقے استعمال کریں تو ملزموں کا بری ہونا بھی کوئ ایسا مشکل نہیں۔ پھر یہ حوالگی والی بات خاصی غیر انسانی لگتی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے آپکو بے گناہ ثابت کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کر پائے تو اسے اپنی سزا کا سامنا کرنا چاہئیے۔ امریکی حکومت کو صدر باراک اوبامہ کے وہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جس میں انہوں نے کہا کہ

اس دنیا میں بہت دکھ، درد، بدی اور شر موجود ہے۔ لیکن ہمیں نیک نیت اور منکسر المزاج ہو کر یہ یقین رکھنا چاہئیے کہ ہم دنیا کو ہر قسم کی بدی سے نجات دلا سکتے ہیں۔

لوگوں کو اس انصاف تک پہنچنے سے روکنا جس سے انکو ذہنی و روحانی اطمینان اور تسلی ہو کہ انکے ساتھ انصاف کیا گیا ، بدی کی ہی ضمن میں آتا ہے۔  اوبامہ حکومت کو پتہ ہونا چاہئیے کہ ہمیں نہ صرف انکی نیک نیتی اور منکسر المزاجی پہ شک ہے بلکہ انکے اس قسم کے مطالبات سے ہمیں اس پہ بھی شک ہوتا ہے کہ آیا وہ دنیا کو ہر قسم کی بدی سے نجات دلانا چاہتے ہیں یا اس میں شیر کا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔