تین پاکستانی شہریوں کو پاکستان کے ایک بڑے شہر لاہور میں دن دھاڑے موت کی نیند سلا دینے والے امریکی شہریوں کو امریکہ نے اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس پورے واقعے میں عینی شاہدین کے بیانات اور مرنے والوں کے خاندان والوں، امریکی سفارتخانے سے تعلق رکھنے والوں کے بیانات سے مختلف ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل سوار ڈاکو تھے جبکہ دیگرشواہد اس بات کے حق میں نہیں جاتے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہی ہے کہ قانون کو اسکا کام کرنے دیا جائے۔ واقعے کی تحقیق ہو، امریکی ملزم شہری اس الزام سے اپنی بریت ثابت کر لیں تو رہائ پائیں اور اگر ایسا نہ ہو تو قرار واقعی سزا۔
ہمیں یقین ہے کہ جرم ثابت ہونے پہ پاکستانی عدالت زیادہ سے زیادہ انہیں عمر قید کی سزا دے سکتی ہے یا بہت ہمت کر کے کوئ انقلابی فیصلہ کر لے تو سزائے موت، مگر چھیاسی سال کی قید نہیں۔ ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر امریکن کوشش کریں اور پاکستانی طریقے استعمال کریں تو ملزموں کا بری ہونا بھی کوئ ایسا مشکل نہیں۔ پھر یہ حوالگی والی بات خاصی غیر انسانی لگتی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے آپکو بے گناہ ثابت کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کر پائے تو اسے اپنی سزا کا سامنا کرنا چاہئیے۔ امریکی حکومت کو صدر باراک اوبامہ کے وہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جس میں انہوں نے کہا کہ
اس دنیا میں بہت دکھ، درد، بدی اور شر موجود ہے۔ لیکن ہمیں نیک نیت اور منکسر المزاج ہو کر یہ یقین رکھنا چاہئیے کہ ہم دنیا کو ہر قسم کی بدی سے نجات دلا سکتے ہیں۔
لوگوں کو اس انصاف تک پہنچنے سے روکنا جس سے انکو ذہنی و روحانی اطمینان اور تسلی ہو کہ انکے ساتھ انصاف کیا گیا ، بدی کی ہی ضمن میں آتا ہے۔ اوبامہ حکومت کو پتہ ہونا چاہئیے کہ ہمیں نہ صرف انکی نیک نیتی اور منکسر المزاجی پہ شک ہے بلکہ انکے اس قسم کے مطالبات سے ہمیں اس پہ بھی شک ہوتا ہے کہ آیا وہ دنیا کو ہر قسم کی بدی سے نجات دلانا چاہتے ہیں یا اس میں شیر کا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
آپ امریکہ کے خلاف بھی لکھ لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔إإإ
ReplyDeletehttp://ejang.jang.com.pk/1-30-2011/Karachi/pic.asp?picname=4063.gif
ReplyDeleteامریکا نے کبھی کسی ملک کے سینیئر سفارت کار کو بھی استثنی نہیں دیا
انصاف کیا نفرت انتقام اور جزباتیت کے راستے پر چل کر ہوگا یا جو رویہ اپنایا گیا ہے کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے ابھی اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ وہ دونوں مقتول ڈاکیت تھے یا نہیں اور ان کے پاس اسلحہ کیوں تھا جبکہ کچھ ایسی خبریں بھی ہیں چند منٹ پہلے ذرا فاصلے پر ایک ڈکیتی کی واردات بھی ہوئی تھی مگر یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ سیاسی مفادات اور نمبر اسکورینگ کیلئے دو مذھبی جماعتوں کے سربراہ مقتولین کے گھر پوہنچ گئے اور جو بیانات انھوں نے دیئے اور جو اشتعال پھلایا وہ پولیس اور عتدالتوں پر پریشر ڈالنا ہے پولیس اور عدالتوں کو آزادانہ طریقے کام کرنے دیا جائے جس نے جتنا جرم کیا ہے اسکو اتنی سزا ملنی چاہیے ہمیں ڈاکوں سے اس لیئے ہمدردی نہیں کرنی چاہیے کہ ان کو مارنے والا امریکی شہری ہے کچھ لوگ اسطرح سوچ رہے ہیں کہ چاہے اس امریکی شہری نے اپنے دفاع میں ہی کیوں نہ گولی چلائی ہو اس امریکی شہری کو ہر حال میں سزا ملنی چاہے کیونکہ امریکہ نے ڈاکٹر عافیہ کو سزا دی امریکہ نے ہی عامل کانسی کو سزا دی اور کتنے ہی بے گناہ پاکستانیوں کو گونٹانابے میں اذیتیں دیں لیکن یہ تو الصاف نہیں انتقام ہے عدالتیں انتقام نہیں لیتی انصاف دیتی ہبں
ReplyDelete"اوبامہ حکومت کو پتہ ہونا چاہئیے کہ ہمیں نہ صرف انکی نیک نیتی اور منکسر المزاجی پہ شک ہے بلکہ انکے اس قسم کے مطالبات سے ہمیں اس پہ بھی شک ہوتا ہے کہ آیا وہ دنیا کو ہر قسم کی بدی سے نجات دلانا چاہتے ہیں یا اس میں شیر کا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
ReplyDelete"
اوبامہ حکومت کو بھی اس قوم کی نیک نیتی پہ شک ہے خاص طور سے سلمان تاثير کے قاتل کی آؤ بھگت کے بعد۔ جو قوم اپنے قانون کی خود عزت نہيں کرتی وہ دوسروں سے کيا کرائے گی۔
اگر زرداری لِد نہ کيتی تے اِن شاء اللہ انصاف ہوئے گا ۔ اميد اے پنجاب حکومت کسے دبا وچ نئيں آئے گی ۔ تُسی وی دعا کرو کہ اللہ سائيں سچ دا بول بالا کرے
ReplyDeleteآپ نے بالکل درست لکھا ہے ۔ انسانيت کا تقاضہ يہی ہے کہ انصاف ہو ۔
ReplyDeleteميں نے واردات کے مصدقہ شواہد تحرير کئے تھے
http://www.theajmals.com/blog/2011/01/29
جن سے يہ تاءثر اُبھرتا ہے کہ قتل کی وجہ ڈکيتی يا ڈکيتی کا خطرہ نہيں بلکہ امريکی قاتل کے کا کوئی اندرونی خوف تھا ۔ مزيد يہ کہ امريکی حکومت کا مطالبہ کئی شکوک پيدا کر رہا ہے ۔
اور وہ جو امريکی قونصليٹ کی گاڑی نے ايک بيگناہ کو کُچل کے ہلاک کر ديا اور اب قاتل قانون کے حوالے نہيں کر رہے ۔ کيا يہ انسانيت ہے ؟
امريکا کا اپنا طريقہ يہ ہے کہ کچھ سال قبل جارجيا کے نائب سفير کی گاڑی کی ٹکر لگنے سے ايک امريکی ہلاک ہو گيا تھا تو نائب سفير کو 14 سال قيد کی سزا دی گئی
محتمہ
ReplyDeleteيہاں ميرے دو تبصرے نظر آ رہے ہيں جبکہ ميں نے يہاں صرف ايک تبصرہ لکھا تھا جو اس فقرہ سے شروع ہوتا ہے
"آپ نے بالکل درست لکھا ہے ۔ انسانيت کا تقاضہ يہی ہے کہ انصاف ہو"۔
مطلب يہ ہوا کہ ميں نے ابھی آپ کا بلاگ کھولا بھی نہ تھا کہ کسی نے ميرے نام سے تبصرہ لکھ ديا
"Party members said that Nawaz has assigned PML-N office-bearers the task of persuading the family of the dead person to pardon Davis. Nawaz has cancelled all other party activities and is taking a personal interest in the matter, they said."
ReplyDeletehttp://tribune.com.pk/story/111748/nawaz-cancels-uk-visit/
پہلی بات کہ یہاں گمنام نے لکھا کہ آپ امریکہ کے خلاف بھی لکھتی ہیں ۔ میرا خیال ہے ۔ جو جیسا محسوس کرتا ہے وہی لکھتا ہے ۔ لکھنے والے کے قلم سے سچائی آنی چاہیے ۔ وہ کوئی بھی ہو ۔۔ باقی عدالت کے فصیلے کا ناتظار اور سزا کا حقدار دونوں اہم ہیں ۔ آج اگر انصاف کے مطابق سزا دی جاتی ہے ، تو پھر آیندہ کے لیے قانون یوں سرے عام بدنام نہیں ہو گا
ReplyDeleteامریکی حکام لاہور میں 3افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ایک اطلاع کے مطابق امریکی سفارتخانے کے ایک انتہائی اہم اہلکار نے نوازشریف کوکہا ہے کہ وہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے افراد سمیت تینوں افراد کے اہلخانہ کوخون بہا دینے کیلئے تیار ہیں اس حوالے سے میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو مقتولین کے خاندانوں سے رابطہ کرنے کو کہہ دیاہے تاہم متاثرہ خاندان فی الحال کسی سمجھوتے کے موڈمیں نظر نہیںآ رہے۔
ReplyDeleteمسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف نے اپنا غیر ملکی دورہ ملتوی کر دیا ہے۔وہ کل نجی دورے پر چند روز کے لئے لندن جا رہے تھے لیکن انہوں نے موجودہ ملکی صورتحال میں اپنی مصروفیات کے پیش نظر یہ دورہ ملتوی کر دیا ہے۔
ReplyDeleteجو پچھلے ساٹھ سال سے دنیا کو اپنی دہشت اور سفاکیت سے اجاڑ رہے ہیں آپ کو صرف انکی نیتوں پر ‘شک‘ ہے۔ سبحان اللہ
ReplyDeleteنغمہ سحر جی آزاد طریقے سے کام کرنے دیں، تاکہ وہ بھی آپکی طرح اپنے ضمیر کو بکاوں کا مال بنادیں۔
لاہور میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے پیچیدہ معاملے کو حل کرنے کے لیے پاکستان کے اس اسلامی وشرعی قانون میں راہ تلاش کی جارہی ہے جس کے تحت مقتولین کے ورثاء معاوضہ لیکر قتل کے مجرم کو معاف کرسکتے ہیں۔
ReplyDeleteپنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ خان نے کہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس عدالت میں پیشی کےدوران مقتولین کے ورثا سے معافی مانگنے کا عندیہ تو دے ہی چکے ہیں۔ اس معافی کے ساتھ اگر وہ معاوضہ بھی دینا چاہیں تو پاکستان کا قانون اور اسلامی قانون اس کی اجازت دیتا ہے البتہ اس کے لیے مقتولین کے ورثاء کا آزادنہ طور پر اس پیشکش کو منظور کرنا ضروری ہے۔
نجم سیٹھی کی باتیں
ReplyDeleteمسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف نے اپنا غیر ملکی دورہ ملتوی کر دیا ہے۔وہ کل نجی دورے پر چند روز کے لئے لندن جا رہے تھے لیکن انہوں نے موجودہ ملکی صورتحال میں اپنی مصروفیات کے پیش نظر یہ دورہ ملتوی کر دیا ہے۔
ReplyDeleteاپنے نئے لگے بال کی خرابی کی وجہ سے ,ھا ھا ھا ھا ھا ھا
جہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ عدالت کو اپنا کام کرنے دینا چاہئیے اور واقعے کی مکمل تحقیات ہونی چاہءیں۔ یہ تمام پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے۔ یہاں ہمیں قانون کی بالا دستی ان لوگوں کے لئے بھی تسلیم کرنی چاہئیے جو دوسروں کے سروں کی قیمت رکھتے ہیں اور انکی زندگی ختم کرنے کے لئے رقم انعام میں دینے کا اعلان۔ جب ہم ایک سلسلے میں قانون کی بالا دست چاہتے ہیں تو لازماً ہمیں ان دوسرے عناصر کے لئے بھی انہیں جذبات کا اظہار کرنا چاہئیے۔
ReplyDeleteانگریزی زبان میں ایک بڑا کمال کا جملہ کہا جاتا ہے کہ
ReplyDeleteدئیر اِز اے بِگ اِف
خیر اس فرنگی زبان کو یہیں چھوڑتے ہیں کہ یہ تو کافر بولتے ہیں۔۔۔۔
٢٠٠٩ کے مارچ اپریل میں مَیں پاکستان گیا تھا
اس وقت آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایک مبینہ واقعہ ہوا تھا سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے والا۔۔۔۔۔
خیر اُس واقعے سے مجھے پاکستان میں ایک خطرناک رجحان کا پتہ چلا
وطنِ عزیز میں صرف دو ہی مکتبہِ فِکر یا گروہ تھے
ایک کے نزدیک یہ بالکل صحیح ہوا ہے شریعت کے عین مطابق ہے طالبان زندہ باد
دوسرے کے نزدیک یہ تو واقعہ صریحاً جھوٹا ہے ایسا کچھ نہیں ہوا
کسی نے مجھے یہ نہیں کہا کہ والله اَعلم اگر تو ایسا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے ڈیڑھ مہینے میں مجھے ایک بھی شخص ایسا نہیں مِلا جس نے یہ کہا ہو کہ اگر تو یہ واقعہ ہوا ہے تو قانون کے مطابق نِمٹا جائے گا
بس یہ ریمنڈ ڈیوِس کے معاملے سے مجھے یہ ڈیڑھ دو سال پہلے
کا واقعہ کیوں یاد آگیا والله اَعلم۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک درخواست :
نغمہ سحر صاحبہ آپ اپنا کام کریں
جن کو فتویٰ دینا ہے وہ اپنا کام کریں
کام کرنے والے کام کرتے رہتے ہیں فتویٰ دینے والے فتویٰ دیتے رہتے ہیں
کوئی شخص اوپر کے جملے کو کسی کاروان اور کتے والی کہاوت سے تشبیہ نہ دے
ایسی مماثلت صرف اتفاقیہ ہی ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔
بلیک شیپ ، ہمم ایک بات تو یہ ہے کہ اس دوران آپکی ملاقات ہم سے نہیں ہوئ۔ سوات والی لڑکی کے واقعے کو اس وقت جھوٹا قرار دینے میں لوگوں نے بڑی دل جمعی سے حصہ لیا۔ لیکن ابھی کچھ دنوں پہلے یہ خبر آئ کہ وہ لڑکی ظہار ہو گئ ہے اور اس نے تصدیق کی کہ یہ واقعہ اسکے ساتھ پیش آیا تھا۔ مگر اب کوئ بولنے والا نہیں جو ان لوگوں کو شرمندہ کرے۔
ReplyDeleteعنیقی جی آپ میری بات کو غلط سمجھی ہیں
ReplyDeleteاُس لڑکی کو کوڑے پڑے تھے یا نہیں یہ میرا موضوع نہیں
میرا یہ لڑکی کو کوڑے والے واقعہ لِکھنے کا مقصد صرف اِیک خطرناک رجحان کی طرف توجہ دِلانا تھا
یہ رجحان ہم لوگوں کا جلد بازی میں بغیر کسی قسم کی تحقیق کئے فوراً فیصلہ صادِر کر دینا ہے
ویسے ایک اور مزے کی بات بتاتا ہوں۔۔۔۔۔
ہمارے آج کل ہمارے مذہبی رہنما ہر طرف ایک مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں
کہ ریمنڈ ڈیوِس سے پاکستانی قانون کے مطابق نمٹا جائے اور اُسے پھانسی کی سزا دی جائے
کیا یہ کھلا تضاد نہیں
اگر آپ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ اُس کو پھانسی کی سزا دینی ہے تو پھر عدالت کا وقت کیوں ضائع کروارہے ہو۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو اِس میں کوئی حِکمت نظر آتی ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا۔۔۔