Showing posts with label عمان. Show all posts
Showing posts with label عمان. Show all posts

Sunday, March 6, 2011

ساحل کے ساتھ-۶

صبح میکینک واپس چلا گیا۔ ہم نے طے کیا کہ آج بدھ ہے جمعے کی صبح ہم بھی نکل جائیں گے بس سے۔ گاڑی یہیں چھوڑ دیں گے۔ کم از کم گھر میں کھڑی ہے۔ یہاں ایک صاحب دیکھ بھال کے لئے موجود ہیں۔ یوں اس مسئلے کا ایک عارضی حل نکل آیا۔ تھوڑا وقت ملا تو ہم ایک دفعہ پھر پہاڑ کے اس طرف چکر لگا آئے۔ واپس آ کر کھانے کے بعد کا پلان یہ بنا کہ میں اور مشعل محلے کے ایک دو گھروں کا چکر لگا لیں۔

ایک اور خوبصورت منظر ساحل، سمندر اور افق کے پہاڑ اور ایک ڈولتی ناءو
ایک گھر سے ایک دن صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا آیا تھا۔ وہاں نہ جانا تو بد اخلاقی ہوگی۔ شام کو چار بجے ہم دونوں نکلے۔ ایک مقامی صاحب سے مدد چاہی۔ قصبہ، یونہی اٹکل پچو انداز میں بنا ہوا ہے۔ گلی وغیرہ کا تصور بالکل خام حالت میں ہے پانچ  ہزار سال پرانے موئن جو داڑو کا جو نقشہ بیان کیا جاتا ہے وہ اس سے بہتر ہوگا۔ اب بھی دوبارہ اس گھر میں جانا چاہوں تو کسی کی مدد درکار ہوگی۔
گھر میں داخل ہوئ تو بکری کے پیشاب کی بدبو نے استقبال کیا۔ چھوٹے سے گھر میں تین کمرے اور انکے آگے برآمدہ تھا۔بالکل چھوٹے سے کچے صحن میں چار پانچ بکریاں بندھی ہوئیں تھیں۔ خوشحالی کی ایک نشانی۔ یہ ایک خوشحال گھر تھا جہاں علیحدہ سے باورچی خانے موجودتھا۔
ہم میزبان کے کمرے میں داخل ہوئے جو بیک وقت خوابگاہ اور ڈرائینگ روم اور ٹی وی کے کمرے کے طور پہ بھی استعمال ہوتا ہوگا۔ بہر حال یہاں ایسے گھر بھی موجود ہیں جہاں ایک ہی کمرے میں پندرہ لوگ سوتے ہیں۔ خواتین بچے، بوڑھے، شادی شدہ، غیر شادی شدہ سب۔
تین بچیاں تیرہ چودہ سال کی عمر کی بیٹھی ہوئیں تھیں اور تین خواتین۔ میرے گھر میں داخل ہوتے ہی دو اور خواتین آگئیں۔ ایک عورت کشیدہ کاری میں مصروف تھی اور باقی سب خوش گپیوں میں انکے درمیان میں حقہ موجود تھا۔ جس سے وہ سب باری باری کش لے رہی تھیں۔ یوں حقہ محفل میں گردش میں تھا۔ ان میں سے کسی کو اردو نہیں آتی تھی۔ ان بچیوں کو آتی تھی مگر انہیں بولنے میں بہت ہچکچاہٹ تھی۔
دس منٹ بھی نہ گذرے ہونگے کہ ایک اورعورت ایک بے حد اسمارٹ برقعے میں اندر داخل ہوئ۔ یہ نازنین تھی ہماری مترجم۔ پانچ سال پہلے جب میری اس سے ملاقات ہوئ تھی تو وہ پندرہ سال کی ہوگی۔ پانچ جماعتیں پڑھنے کے بعد شادی ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔تم نے پڑھنا کیوں چھوڑ دیا۔ میں نےاس سے پوچھا۔ ابا نے کہا بس اتنا کافی ہے۔ تو تم نے ابا سے یہ کیوں نہیں کہا کہ میں آگے پڑھونگی اور الیکشن میں کھڑے ہو کر زبیدہ جلال کی طرح اسمبلی میں لیڈر بنونگی۔  تھپڑ مارے گا، ابا۔ اس نے ہتھیلی کو کھڑآ کر کے تھپڑ کی شدت بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔  بلوچی اسٹائل میں سیدھا، کھڑا جواب۔ وہ زبیدہ جلال کو سخت نا پسند کرتا ہے۔ کیوں؟ وہ کہتا ہے عورت کو یہ سب نہیں کرنا چاہئیے۔ اچھا میں خاموش ہو گئ تھی۔
آج وہی نازنین میرے سامنے موجود تھی شادی کو تین سال ہو گئے۔ بچہ نہیں ہے کوئ۔ کیسے ہوگا، میں اپنے شوہر کے پاس بہت کم رہی ہوں۔ وہ مسقط میں ہوتا ہے اسکا سارا خاندان مسقط میں ہے۔
یہ بھی دلچسپ تھا کہ باوجود اسکے کہ وہاں چھوٹی عمر کی بچیاں بھی موجود تھیں۔ انہیں کسی بھی طرح کی گفتگو کرنے میں کچھ مسئلہ نہ تھا۔ انکا یہ تصور نہ تھا کہ یہ باتیں بچوں کے سامنے کرنے کی نہیں۔ 
ہمم، مگر شادی اس نے گوادر میں کی۔ میں نے اس سے کرید کی۔  ہاں کہتا ہے رشتے دار تو سب ادھر ہے۔
گوادر، ایک لمبے عرصے تک عمان کے زیر تسلط رہا۔ انیس سو اٹھاون میں حکومت پاکستان نے بعوض تیس لاکھ امریکن ڈالر اسے عمان سے خریدا۔  اس وجہ سے یہاں کے طرز بودو باش پہ عربی ثقافت کا اثر ہے۔ اکثر لوگوں کے عزیز اقارب مسقط میں ہیں۔ اور آنا جانا رہتا ہے۔
 تمہارے شوہر نے تمہیں اب تک مسقط نہیں بلایا؟ ویزہ نہیں دے رہے وہ لوگ۔ میرے شوہر کو بڑا غصہ ہے۔ ویسے میں دو دفعہ وہاں گئ ہوں۔ دو تین مہینوں کے لئے۔  عربی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے ہمدردی کی۔ فون آتا ہے اس کا؟ ہاں دن میں کئ دفعہ۔ اس نے کئ دفعہ پہ زور دیا۔ اچھا،  میں تو سمجھتی تھی کہ بلوچی مرد بہت کم رومینٹک ہوتے ہیں۔ لو،  اس نے بلوچی میں ایک عورت کو میری بات کا ترجمہ کر کے بتایا، اور ہنسنے لگی۔ پاکستان میں جتنی قومیتیں بستی ہیں ان میں سب سے زیادہ رومینٹک بلوچی مرد ہوتے ہیں، نازنین نے دعوی کیا۔ مجھے نجانے کیوں لگا کہ یہ دعوی، شماریات کے ان نتائج کی طرح تھا جو موقع پہ ہی بنائے جاتے ہیں۔ نازنین شاید یہ کہہ رہی تھی کہ بلوچی عورت بڑی حساس ہوتی ہے۔ مگر عورتیں تو سبھی بڑی حساس ہوتی ہیں۔ جب ہی تو خداوند نے تخلیق کی ذمہ داری انہیں دی۔
اچھا، میں نے اسے مزید چھیڑا۔ تو تمہارارومینٹک شوہر تمہیں دن میں کتنی دفعہ آئ لو یو کہتا ہے؟ کوئ گنتی نہیں۔ اس نے ہاتھ اٹھا کرجھٹکا۔ اسکے ہاتھ کی جنبش میں ایک فخر تھا۔ دن میں کتنی دفعہ لکھ کر ایس ایم ایس کرتا ہےاور رات کو جب فون پہ بات کرتا ہے تو دس دفعہ کہتا ہے۔ میں ہنس رہی تھی۔ باقی لڑکیاں اور عورتیں بھی صرف آئ لو یو سمجھ کر مسکرا رہی تھیں۔ انہیں آئ لو یو سمجھ میں آرہا تھا۔
میں نے رفیق بلوچ کی بیوی کی طرف اشارہ کیا اچھا اس سے پوچھ کر بتاءو اسکا شوہر کہتا ہے اسے آئ لو یو۔  اس نے بلوچی میں اس سے پوچھا اور پھر کہنے لگی اسکا شوہر کیوں کہے گا۔ آئ لو یو۔
کیا مطلب، تمہارا شوہر کیوں کہتا ہے؟ میرا شوہر اس لئے کہتا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ آئ لو یو کا کیا جواب ہے۔
سچ پوچھیں تو مجھے گفتگو اب ایک فلسفے کی طرف جاتی ہوئ لگی فلسفہ ء رومانس۔ آئ لو یو کا کیا جواب ہوتا ہے۔ میں نے اپنے دماغ کو ٹٹولا۔
آپ بھی سوچیں۔
یہاں میں اس کہانی کو ذرا سسپنس میں رکھنے کے لئیے کچھ ادھر ادھر کی اطلاعات ڈالتی ہوں۔ مثلاً نازنین کا برقعہ۔ وہ دبلی پتلی لمبی لڑکی تھی۔ جسکے نین نقش تو تھے ہی خوب کٹیلے، لیکن ان سب پہ اس کا انداز گفتگوبھاری تھا۔ جس میں ایک بانکپن اور غرور تھا۔ ایسا غرور جو الجھنے کی دعوت دیتا ہے۔ اور جب الجھ جائیں تو مزہ آنے لگتا ہے۔ 
ہاں تو اس کا برقعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برقعہ، اس فیوڈل نظام میں اعلی طبقے کی خواتین کی نشانی ہے۔ یہاں جتنے اعلی خاندان سے تعلق، اتنا ہی خواتین پردے میں ہونگیں۔ اسلام سے پہلے بھی برقعہ موجود تھا مگر صرف طبقہ ء اشرافیہ یعنی دولتمند گھرانوں کی خواتین پہنتی تھیں۔ نچلے طبقے کی خواتین اسکا استعمال نہیں کرتی تھیں۔ یوں انسانوں کی خوشحالی انکی خواتین کے رہنے سہنےسے پتہ چل جاتی تھی اب بھی بیشتر اوقات خواتین سے ہی مردوں کی کمانے کی استطاعت پتہ چلتی ہے۔
خیر اسکا برقعہ بڑا اسٹائلش تھا۔
کالے رنگ کا خوبصورت فال کا کپڑا، جو جسم کی تراش کے حساب سے اوپر سے فٹنگ میں تھا اور نیچے سے گھیردار، تنگ آستینیں جن پہ فیروزی ستاروں اور ریشم کا نفیس کام کیا ہوا تھا۔ اسکے اسکارف کے ایک سرے پہ بھی وہی کام بنا ہو تھا۔ جو منہ سے لپٹنے کے بعد گردن پہ پھیل جاتا۔ اور جس میں سے اسکی قاتل سرمہ لگی ہوئ آنکھیں جھانکتی رہتیں۔
 میں نے اس سے پوچھا، کیا یہ برقعہ تم نے کراچی سے لیا ہے۔ جواب ملا نہیں مسقط سے۔ اوہ لگ رہا ہے۔ کراچی میں، میں نے کبھی اتنا خوبصورت برقعہ نہیں دیکھا۔ میں نے اسے سراہا۔
خیر ہم کہاں تھے، آئ لو یو کے جواب پہ۔ سو میں نے اس سے پوچھا کہ آئ لو یو کا کیا جواب ہوتا ہے؟ سر پہ ہاتھ رکھ کر اس نے ایک بے نیازی سے اسے جھٹکا پھر بلوچی حسینہ  مسکرائ اور ایک ادا سے منہ پھیر کر بولی۔ آئ لو یو کا جواب ہوتا ہے آئ لو یو ٹو۔
مار ڈالا۔
وہ تیرہ چودہ سالہ بچیاں دوپٹے میں منہ گھسا کر ہنسنے لگیں ان میں سے ایک نے جلدی سے حقے کی نے تھامی اور زور زور سے دو تین کش لے ڈالے۔
تمہیں تو بڑی انگریزی آتی ہے۔ میں لاجواب ہو گئ۔ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ آئ لو یو کا جواب آئ لو یو ٹو ہوتا ہے۔ کہنے لگی، جہاں سے اردو سیکھی ہے وہیں سے اس کا جواب بھی پتہ چلا۔ یعنی انڈین  ڈراموں سے؟ ہاں وہیں سے۔ اس نے بلوچی لہجے میں ہاں پہ زور دیا۔ یہ رفیق کی بیوی بالکل ٹی وی نہیں دیکھتی، نہ اسے اردو آتی ہے اور نہ آئ لو یو کا جواب۔
زندگی کے اس لمحے تک، میں اسٹار پلس کے ڈراموں میں کبھی کوئ مثبت پہلو نہیں نکال سکی تھی۔ لیکن اس دن میں نے تسلیم کیا کہ ان ڈراموں میں ایک خوبی تو ہے اور وہ یہ کہ تمدن کی دنیا سے دور رہنے والے بھی ایک دوسرے کو آئ لو یو کہہ سکتے ہیں۔ غیرت میں عورت کے  قتل  پہ فخر کرنے والے بھی محبت کے اس ظاہری اظہار کی سمجھ رکھنے لگے ہیں اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے ساتھی کو پیار بھری کوئ بات کہنی چاہئیے۔ یہ تبدیلی کتنی غیر محسوس طریقے سے آئ ہے، کتنی آہستگی سے کہ بہت سارے لوگوں کو اسکی خبر بھی نہ ہو سکی۔ شاید آئ لو یو اور آئ لو یو ٹو کہنے والے بھی اپنی اس تبدیلی سے نا آشنا ہیں۔
۔
۔
۔
خیال آیا کہ کیا میں اپنے مرد قارئین سے صرف یہ پوچھ سکتی ہوں کہ انہوں نے اپنی قریبی خواتین کو جس میں انکی مائیں ، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں اور دیگر رشے دار  خواتین شامل ہیں، انکو آخری دفعہ کب کہا کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں؟

جاری ہے