پچھلے چند دن کچھ قریبی شادیوں کی مصروفیت میں گذرے۔ پھر کچھ دوستوں کی شادیاں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔ اور یوں میں شادیوں کے ہاتھوں یرغمال ہو گئ۔ شادیوں کی اس بھاگ دوڑ سے ہٹ کر ایک نکاح کی تقریب دلچسپ رہی۔
کراچی میں اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ نکاح کی تقریب ایک دو روز پہلے قریبی رشتے داروں کی موجودگی میں ہو جاتی ہے اور رخصتی بعد میں شادی ہال یا لان سے ہوتی ہے۔ فائدہ یہ کہ رخصتی کی تقریب میں کچھ دیر سویر ہو تو کوئ پریشانی نہیں ہوتی۔
یوں ایکدن ہم ایک نکاح کی تقریب میں بھی شامل تھے۔ نکاح کی یہ تقریب گھر پہ ہوئ اور تمام خواتین و حضرات ایک ہی جگہ موجود تھے۔
قاضی صاحب کے آنے کے بعد فارم بھرنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ پہلے دولہا اور انکے گواہان کے نام پتے لکھے گئے پھر دولہن کی باری آئ۔ نام پوچھا گیا۔ جواب ملا رومیصہ احمد خان۔ قاضی صاحب نے کہا صرف دولہن کا نام بتائیں۔ جواب ملا کہ یہ صرف دولہن کا نام ہے۔ انہوں نے اسی سنجیدگی سے کہا یہ دولہن کا نام کیسے ہو سکتا ہے۔ میں صرف رومیصہ لکھ رہا ہوں۔ لیکن آپ صرف رومیصہ کیسے لکھ سکتے ہیں۔ دولہن کا پورا نام رومیصہ احمد خان ہے۔ دستاویزات میں یہی نام ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ احمد خان تو والد صاحب کا نام ہوگا۔ جبکہ اس وقت صرف دولہن کا نام چاہئیے۔ پھر حاضرین محفل میں سے کسی نے مداخلت کی یہ والد صاحب کے نام کے ساتھ بھی ہے اور دولہن کے نام کے ساتھ بھی ہے۔ دولہن کا نام شناختی کارڈ میں یہی ہے۔ چلیں جناب، عوام کے بے حد اصرار پہ قاضی صاحب بہ مجبوری رومیصہ احمد خان لکھنے پہ تیار ہوئے۔
اب باقی گواہان اور وکیل کے نام اور پتے لکھے گئے اور مہر کی مقدار لکھ کر باقی فارم کے بارے میں قاضی صاحب نے کہا اسے چھوڑ دیں اس سارے پہ ایک کراس لگ جائے گا۔
یہ سن کر میرے کان کھڑے ہوئے۔ کیونکہ دولہن صاحبہ نے نکاح سے پہلے مجھ سے کہا تھا کہ میں نکاح کے وقت وہاں موجود رہوں اور نکاح کی جو شقیں ہیں انہیں بھرنے پہ اصرار کروں۔ میں نے دولہن سے کہا مگر میں یہ کیسے کر سکتی ہوں۔ جانے دو یار، سب کا نکاح ایسے ہی ہوتا ہے۔
کہنے لگیں میں نہیں جانے دے سکتی۔ مجھے یاد ہے آپکے نکاح پہ کیا ہوا تھا۔
دراصل میرے نکاح پہ ، دودن پہلے میرے سسر صاحب نے نکاح فارم کی ایک کاپی کروائ اور کہا کہ وہ پینسل سے بھر کر یہ کاپی دیں گے اور اصل نکاح فارم اسی طرح بھرا جائے گا۔ جب وہ فارم واپس آیا تو ہم سب کو ایک خوشگوار حیرت ہوئ کہ انہوں نے فارم کی ایک ایک شق کو پر کیا تھا۔ اور شق نمبر اٹھارہ جسکے تحت طلاق کا حق بیوی کو تفویض کیا جاتا ہے اس میں ہاں لکھا تھا۔ اسکے بعد ایک اور شق جس میں پوچھا گیا تھا کہ کس صورت میں بیوی طلاق کی درخواست کر سکتی انہوں نے لکھا کہ اگر وہ اپنے شوہر کو نا پسند کرتی ہو۔
ہم میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ فارم اس طرح بھرا جائے گا اور ایک عمومی طریقہ یہی ہے کہ تمام شقوں پہ ایک کراس ڈال دیا جاتا ہے۔ خیر یہ میرے سسر صاحب کے کھلے دل کے ہونے کی ایک نشانی تھا۔ میرے گھر سے کسی نے ان سے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔ یہ انکا مجھے سب سے پہلا تحفہ تھا۔
لیکن دولہا والوں سے اس چیز کا مطالبہ کرنا ذرا مشکل لگتا ہے۔ عمومی حالت یہ ہے کہ انکا پلّہ بھاری ہوتا ہے۔ خیر جب نکاح فارم بھرا جا چکا تو دولہن کی والدہ نے دستخط ہونے سے پہلے کہا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتی ہیں اور فارم قاضی صاحب سے لے کر میرے ہاتھ میں دے دیا۔ میں تھوڑی دیر پہلے ہونے والی گفتگو سے یہ اشارہ سمجھ گئ کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ ایک نظر اس فارم پہ ڈالی اور کہا کہ میں یہ درخواست کرنا چاہتی ہوں کہ چاہے سارے فارم پہ آپ کراس ڈال دیں لیکن شق نمبر اٹھارہ میں ہاں لکھ دیں۔ ایک دم محفل میں سنّاٹا ہو گیا اور پھر بھنبھناہٹ۔
یہ شق نمبر اٹھارہ کیا ہے؟ میں نے پڑھ کر سنایا۔ کیا بیوی کو طلاق کا حق تفویض کردیا گیا ہے؟ باراتیوں میں سے ایک صاحب نے کہا یہ تو غیر شرعی ہے۔ اسکی کوئ اہمیت نہیں۔ یہاں ہمارے خاندان کی جتنی خواتین بیٹھی ہیں۔ انہوں نے سبکے نام گنوائے ان سے پوچھیں کسی کے نکاح میں ایسا نہیں کیا گیا۔ سب ہنسی خوشی رہ رہی ہیں۔
اس پہ میں نے ان سے کہا کہ چونکہ یہ فارم اور اسکی شقیں حکومت پاکستان کی منظورہ شدہ ہیں اور کسی بھی قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں اس لئے انکا بھرنا ضروری ہے۔ اس وقت ہم اسکے شرعی اور غیر شرعی پہلو میں نہیں پڑ رہے۔ حکومت پاکستان نے اگر یہ رکھا ہے تو اسکا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر سب خاموش۔
اس پہ میں نے ان سے کہا کہ چونکہ یہ فارم اور اسکی شقیں حکومت پاکستان کی منظورہ شدہ ہیں اور کسی بھی قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں اس لئے انکا بھرنا ضروری ہے۔ اس وقت ہم اسکے شرعی اور غیر شرعی پہلو میں نہیں پڑ رہے۔ حکومت پاکستان نے اگر یہ رکھا ہے تو اسکا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر سب خاموش۔
پھر دوسرے باریش صاحب جو دولہا کے بھائ تھے بولے۔ یہ حق تو خلع کے برابر ہوتا ہے اور اسے غیر شرعی کہنا درست نہیں۔ میں تو نہیں سمجھتا کہ اسے ہاں کہہ دینے سے کوئ فرق پڑتا ہے۔ پھر ہنس کر کہنے لگے کہ آج ہی اخبار میں اسکے بارے میں ایک مضمون پڑھا کہ تمام شقوں کو بھرنا چاہئیے۔ مگر ان رشتے دار نے پھر مداخلت کی، باقی تو کسی کا بھی نہیں ہوا۔ آخر وہ بھی تو رہ رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا فکر نہ کریں۔ پھر اپنے شوہر صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ میرے نکاح کے فارم میں بھی یہ شق بھری گئ ، ہاں کے ساتھ۔ اتنا عرصہ ہو گیا ہماری شادی کو اور ہم خدا کا شکر ہے باہمی ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
آخرطے ہوا کہ معاملہ دولہا پہ چھوڑ دیا جائے۔ دولہا نے کہا، مجھے تو کوئ اعتراض نہیں۔
یوں ایجاب و قبول کا سلسلہ شروع ہوا۔ دعا ہے کہ دونوں اسی طرح ہم آہنگی اور سمجھ داری سے زندگی گذاریں۔
میں اپنے گھر واپس آتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ یہ میرے سسر صاحب کی وسعت قلبی اور سمجھداری تھی جس نے آج مجھے اتنا حوصلہ دیا کہ میں نے ایک اور لڑکی کو یہ حق لینے میں مدد کی۔
معاشرے کے بگاڑ اور سنوار میں بزرگوں کے روئیے، فیصلے اور دور اندیشی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ آنے والی نسل کو مضبوطی سے کھڑے ہونے کے قابل بناسکتے ہیں اور وہی انہیں کمزور کر کے بھٹکنے کے لئے چھوڑسکتے ہیں۔ آج میرے سسر صاحب کو اس دنیا کو چھوڑےتین مہینے ہو رہے ہیں۔ دعا ہے کہ خدا ہمیں کردار اور عمل کی مضبوطی دے تاکہ ہم انکے انسانی قدروں کے مضبوط بنانے کے عمل کو جاری رکھیں۔