ڈاکٹر انور سدید کی کتاب 'اردو ادب کی تحریکیں' شاید اس موضوع پہ لکھی جانیوالی کتابوں میں بہت اچھی کتاب میں ہے۔ یہ کتاب انکا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے۔ لیکن اسکی مقبولیت اتنی ہے کہ بارہ برس میں اسکے تین ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔
عنوان دیکھ کر تو یہ لگتا ہے کہ اردو سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہو گی۔ لیکن چونکہ اس میں زبان کے فروغ اور اس پہ دیگر سیاسی و غیر سیاسی تحریکوں کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے تو یہ ایک عام قاری کے لئے بھی پڑھنے میں بہت اچھی کتاب ہے۔
مجھے اسے پڑھنے کی ضرورت یوں پیش آئ کہ جب میں نے ایک بلاگ پہ یہ دعوی پڑھا کہ اردو نے پنجابی زبان سے جنم لیا ہے تو سوچا کہ جو اپنی پہلے والی معلومات ہیں ان کو اپ ڈیٹ کیا جائے، جو اس میدان کے ماہرین ہیں ان سے بلامشافہ گفتگو کی جائے اور اس پہ جو لٹریچر مہیا ہے وہ پڑھا جائے۔ ورنہ بات برائے بات تو کوئ بھی کر سکتا ہے اور کیسی بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کتاب میں جو دیگر تفصیلات ہیں ان سے صرف نظر کرنا میرے لئیے ممکن نہ تھا۔
آئیے ایک اقتباس سے گذرتے ہیں جو خاصہ تفصیلی ہے۔ لیکن یہ کسی تحریک کے مختلف ادوار کے بارے میں ہے۔
صاحب تحریر کا خیال ہے کہ کوئ تحریک اپنی نمو میں چار ادوار سے گذرتی ہے۔
۱
تحریک کے اساسی تصور کی نمو کا دور
یہ تحریک کا ابتدائ دور ہوتا ہے جس میں راہنما پہلے اس تصور کے بارے میں اپنا ذہن صاف کرتا ہے اور ایک واضح نظریہ مرتب کرتا ہے۔ رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئیے اپنے رفقاء کے سامنے اور پھر عوام کے سامنے یہ نظریہ پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ تصور خوبصورت اور موزوں طریقے سے پیش کیا جائے اور سابقہ جمود کے طویل دور نے تغیر قبول کرنے کے لئیے زمین ہموار کر دی ہو تو یہ نظریہ بہت جلد قبولیت کا درجہ حاصل کرنے لگتا ہے۔ بصورت دیگر تحریک اس ابتدائ مرحلے میں ہی بجھ کر رہ جاتی ہے۔
۲-
ہمدردانہ جذبے کے فروغ کا دور
اس دور میں عوام کا کا ایک بڑا طبقہ تحریک کے بنیادی تصور سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگتا ہے جبکہ رجعت پسند طبقہ اسکے خلاف اپنے نظریات کی برتری ثابت کرنے کے لئے درپئے جنگ ہوجاتا ہے۔ اور یوں نئے تصور نے جو تحرک پیدا کیا ہے اسے روکنے کے لئے مزاحمت شروع ہو جاتی ہے۔ تحریک اگر جاندار ہو تو آگے بڑھتی ہے اور نئے تصور کو بالا دستی حاصل ہو جاتی ہے اور اسکے ساتھ ہی تحریک اپنی کامیابی کا ایک دور مکمل کر لیتی ہے۔
نوٹ؛ یہ سلسلہ جاری ہے۔ دلچسپی برقرار رکھنے کے لئیے میں نے اسے توڑ دیا ہے۔ تو پھر سے آگے پڑھتے ہیں مگر ایک مختصر وقفے کے بعد۔
حوالہ؛
ڈاکٹر انور سدید
حوالہ؛
ڈاکٹر انور سدید