Showing posts with label سال نو. Show all posts
Showing posts with label سال نو. Show all posts

Saturday, January 1, 2011

زمانے کی ہوا

لیجئیے ایک اور سال ہاتھ ہلا کر ، دامن جھاڑ کر رخصت ہو گیا۔ میں نے جب جاتے سمے اسکی انگلیوں کو چھونا چاہا تو یونہی رخ موڑے موڑے کہنے لگا۔

تو ہے گر مجھ سے خفا  خود سے خفا ہوں میں بھی
مجھ کو پہچان، کہ تیری ہی ادا ہوں میں بھی

یہاں کس کو اتنی فرصت کہ ایسی پہیلیوں میں پڑے۔
ایک کہانی کار نے ڈرامہ لکھ کر پروڈیسر کے حوالے کیا۔ انہوں نے ایک نظر اس پہ ڈالی اور گویا ہوئے۔ بہت خوب، بہت زبردست، بس ڈرامے کے انجام میں اگر ہیروئین کی موت پنکھے سے لٹک کر خود کشی کرنے کے بجائے پستول کی گولی سے دیکھائ جائے تو بہتر ہوگا۔ جو حکم آپکا، کہانی کار نے عاجزی کا اظہار کیا، مگر اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ پرڈیوسر نے انہیں دیکھا اور شان بے نیازی سے کہا، گولی کی آواز سے لوگ جاگ جائیں گے اور پتہ چل جائے گا کہ ڈرامہ ختم ہو گیا ہے۔
   یوں فضا میں ڈزا ڈز گولیوں کی آواز آئ اور پرانا  سال جلدی سے یہ کہتا ہوا اڑن چھو ہوا۔

ثبت ہوں دست خموشی پہ حنا کی صورت
نا شنیدہ ہی سہی ، تیرا کہا ہوں میں بھی

اس پہ گولیوں کی بوچھار تڑا تڑ۔ نہ دست خموشی ہوگا نہ یہ بک بک۔ سال نو نے جنم لیا۔ تاریخ بدل گئ اور کیا ہوا؟ حالات کے آئینے میں وہی عکس ہیں اور ارد گرد وہی حالات۔ میں پلٹ کر آخری سانس لیتے دست خموشی سے دریافت کرتی ہوں، اس جمود سے زندگی گذارنے کا کیا فائدہ جسے گولیوں کی آواز سے توڑنا پڑے۔ لیکن سب کیلینڈر کے نئے سال کو خوش آمدید کہنے میں مصروف ہیں۔ 
میں جب جذبہ ء خیر سگالی کا مظاہرہ کرنے کو اس نئے سال سے ہاتھ ملانا چاہتی ہوں تو فرماتا ہے کہ
جانے کس راہ چلوں، کون سے رخ مڑ جاءوں
مجھ سے مت مل ، کہ زمانے کی ہوا ہوں میں بھی
یہ تو اس نے چیلینج کردیا۔ کیا کروں سال کہن کا نوحہ بنوں یا زمانے کی ہوا؟