Showing posts with label ضیاءالحق. Show all posts
Showing posts with label ضیاءالحق. Show all posts

Saturday, October 22, 2011

کتے کی موت

ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے,  کیسے؟ یہ نہیں معلوم۔ 
تاریخ بنانے والے کی موت بھی تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح اکثر متنازع شخصیات کی موت بھی وجہ ء تنازعہ کو جنم دیتی ہے۔ اس لئے کہ مرنے والے کے پیچھے بھی لوگوں کے گروہ بن جاتے ہیں ایک اگر اسکی موت کو کتے کی موت قرار  دیتا ہے تو دوسرا اسے رحمۃ اللہ علیہ بنانے میں کوئ کسر نہیں چھوڑ رکھتا۔
اس وقت اس بات کی تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہیں کہ کتے کی موت میں ایسی کیا بات ہے کہ دشمن اگر رسوا کن انداز میں مرے تو اسے کتے کی موت قرار دیا جائے۔ کیونکہ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ کتا بھی ایسے ہی جان دیتا ہے جیسے بلی، گھوڑا یا ہاتھی  حتی کہ انسان۔
کتے کو اتنا حقیر کیوں سمجھا جاتا ہے؟ کیا کتا اس بات سے واقف ہے کہ  انسان کی نظر میں وہ اتنا حقیر ہے اگر وہ ہے تو سبق سکھانے کے لئے روزانہ انسان کو کاٹنے کی مہم پہ کیوں نہیں نکلتا؟ کیا یہ کوئ ایک کتا ہے یا سب کتے ہیں؟ کیا کتوں میں تعلیمی شرح انسانوں سے بھی گئ گذری ہے؟ کیا کتوں میں بھی امیر اور غریب کے طبقات موجود ہیں اور وہ انکی نفسیات پہ اثر ڈالتے ہیں؟ کیا انسان پہ کتوں کی امارت اور غربت سے فرق پڑتا ہے؟  نہ نہ یہ بات اس وقت نہیں کسی یوم کتا پہ کریں گے۔ 
پاکستان کی تاریخ میں دو پاکستانی شخصیات کو ایسی ہی اموات کا سامنا کرنا پڑا۔ 
ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا ہوئ۔  حامی آخری وقت منتظر رہے کہ بیرونی طاقتیں اسے رکوا دیں گی لیکن ایک دن منہ اندھیرے جلاد نے تختہ ء دار  کھینچا اور پاکستان کی ایک متنازع شخصیت کو اسکے انجام تک پہنچا دیا۔
ایول جینیئس، میرے ایک عزیز بزرگ کا کہنا تھا، بے حد ذہین آدمی مگر نیت خراب۔ وہ بے حد زیرک انسان تھے لیکن ذہانت کو منفی سطح پہ زیادہ استعمال کیا۔ انہوں نے پاکستانی سیاست میں عوامیت کو داخل کیا۔ لیکن ان پہ پاکستان توڑنے کے الزام لگے انہیں مغرور اور خود پسند شخص کہا گیا۔
مذہبی جماعتوں کے نزدیک وہ فاسق تھے ایک ایسا شخص جو مجمعے میں کھڑا ہو کر کہہ دے کہ میں شراب پیتا ہوں لوگوں کا خون نہیں تو فاسق ہی ہوا ناں۔ لیکن یہ کریڈٹ بھی انکے حصے میں گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ وہی قادیانی جسکے ایک فرد کو قائد اعظم نے اپنی مملکت کا وزیر خارجہ بنایا بغیر یہ سوچے کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو پاکستان کے لئے ایٹمی ہتھیار بنانے پہ راضی کرنے والے وزیر اعظم کو کہا گیا کہ انہوں نے یہ سب کچھ اپنے اوپر سے پاکستان کو دو لخت کرنے کے داغ کو دھونے کے لئے کیا۔ پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ بھٹو کا نام  اس سلسلے میں پیچھے چلا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا نام آگے آگیا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی جماعتوں کے دباءو میں آگئے تھے۔ یا یہ کہ وہ اپنے اقتدار کا استحکام ہر قیمت پہ چاہتے تھے۔ یوں اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگانے والا رہنما مذہبی جماعتوں سے املا لینے لگا۔ انہوں نے ہی مذہبی جماعتوں کے دباءو پہ پاکستان میں جمعے کی چھٹی متعارف کرائ۔ جو کہ ملکی اقتصا دیات پہ بھاری ثابت ہوئ۔ لیکن مذہبی جماعتوں کو خوش رکھنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ بالآخر تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر نظام مصطفی کے نفاذ کی تحریک چلائ اور فوج نے اس بہانے اقتدار سنبھالا۔
بھٹو کی پھانسی کے دن جہاں ایک طبقے نے خس کم جہاں پاک کا نعرہ بلند کیا وہاں ایسے بھی لوگ تھے جو اس خبر کی تاب نہ لا سکے اور خود کشی کر لی۔ ایک کے نزدیک وہ کتے کی موت مارا گیا دوسرے کے نزدیک شہید کی موت۔
قاتل کی یہی سزا ہونی چاہئیے تھی، قاتل کیسے شہید ہو سکتا ہے؟ لوگوں نے سوال اٹھائے۔ لیکن انکے مزار پہ لوگوں کی ایک تعداد اپنی دعاءووں کی قبولیت کی منتظر رہتی ہے۔ لوگ تو بکھرے ہوئے پھولوں سے بھی کرامتیں جوڑتے ہیں۔ اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
پاکستانی تاریخ کی سب سے مضبوط شخصیت جنرل ضیاءالحق ثابت ہوئے۔ اپنے سب سے بڑے ممکنہ دشمن کو پھانسی پہ پہنچا کر مذہبی جماعتوں کو نفاذ شریعت کی لالی پاپ دئے رکھی ادھر فوج کو امریکہ کا حلیف بنا کر روس کے خلاف جنگ میں افغانیوں کے ساتھ شامل ہوئے۔ جی اُسی امریکہ کا جسکے منہ کالا ہونے کی آج دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ پھر وہی اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
بھٹو اور ضیاءالحق ایک یادگار تصویر

پاکستانی معاشرے میں ہیروئین، کلاشنکوف اور لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آئے جو اپنے ساتھ اپنی ثقافت لے کر آئے، وہ آئے اور چھا گئے۔ ضیاءالحق نے پاکستانی طاقت کے کھیل میں بڑا جم کر کھیلا۔ اگر طیارہ نہ پھٹتا یا پھاڑا نہ جاتا تو شاید آج وہ کرنل  قذافی کی ٹکر پہ ہوتے۔
ہر عروج کو زوال دیکھنا ہوتا ہے۔ بالآخر وہ دن بھی آیا جب پاکستانی عوام نے ٹی  وی پہ غلام اسحق خاں کی زبانی یہ اعلان سنا کہ ہمارے ملک پہ گیارہ سال سے قابض ہمارے محبوب صدر ہوا میں طیارہ پھٹنے سے جاں بحق ہو گئے۔  جائے حادثہ سے ایک جبڑا ملا جسکی شناخت محبوب صدر کے جبڑے کے طور پہ کی گئ۔ اور اس جبڑے کی آخری رسومات عمل میں لائیں گئیں۔
مجھے یاد ہے کہ محلے میں کچھ لوگ ٹی وی پہ جاری تدفین کی لائیو ٹرانسمیشن پہ آنسوءووں سے رو رہے تھے۔ تقریب کی کمنٹری کرنے والے صاحب اظہر لودھی بار بار رقّت کا شکار ہو رہے ہیں۔
ٹی وی پہ جاری ٹرانسمیشن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جائے تدفین پہ آئے ہوئے تھے۔ کچھ کے نزدیک میلے میں شرکت کرنے آئے تھے کیونکہ اس دن پاکستان میں چھٹی تھی، کچھ کے نزدیک عقیدت اور صدمے میں آئے تھے۔
  عین اسی وقت کچھ لوگ خوش تھے ایک مکار ڈریکولا صفت شخص سے جان چھوٹی۔ وہ شخص جس نےذاتی اقتدار کے لئے پاکستان کو مذہب کی انتہا پسندی میں جھونک دیا ایک آسیبی دور جسکے ختم ہونے پہ خیر کی کچھ امید تھی۔ وہ جس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہب کو بری طرح استعمال کیا۔ جس نے پاکستان کو جہاد کا مرکز بنا دیا اور اپنی نوجوان نسل کو ہیروئین اور اسلحے کا نشہ دیا یا پھر جنگی جنون۔
اس نے پاکستان کو روشن مستقبل دینے کے بجائے ایک دہشت گرد ملک بنانے کی بنیاد رکھی۔ اس نے پاکستانی معاشرے کو ایک منجمد اور بند معاشرے میں تبدیل کیا۔ اس نے پاکستانی فوج کو ڈالرز کا چسکا دیا او معاشرے میں کرپشن کو بڑھاوا۔ جنرل ضیاء الحق پہ ملکی تباہی کے سنگین الزامات ہیں۔
سو ایک طبقے کے نزدیک وہ کتے کی موت مارے گئے۔ خدا نے انکا دنیا میں ہی انجام دکھلا دیا۔ بہادر شاہ ظفر کو تو دو گز زمین وطن میں نہ ملی۔ ضیاءالحق کے لئے زمین موجود تھی مگر جسم نہ مل رہا تھا نامعلوم کس کے جبڑے پہ اکتفا کرنا پڑا۔ انکی قبر اگرچہ کہ شاہ فیصل مسجد کے ساتھ موجود ہے مگر اس پہ کوئ شاذ ہی جاتا ہے۔ مر گئے مردود نہ فاتحہ نہ درود۔ لیکن اپنے حامیوں کے لئے انکی موت ایک شہید کی موت تھی۔ ایک فوجی جو دوران ملازمت جان دے وہ ایک شہید کی موت مرا۔ ہم کیا کہیں، اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
زندگی نے ہمیں ایک دفعہ پھر واقعات کا چشم دید گواہ بنایا۔  اتنا کہ ہم نے دیکھا، کس طرح رات کے اندھیرے میں امریکن طیارے پاکستان کی حدود میں اتنی احتیاط سے داخل ہوئے جسکے لئے کہتے ہیں کسی کوکانوں کان خبر نہ ہونا۔  اور ایک ایسے شخص کو موت کی نیند سلا گئے بلکہ اسکی لاش بھی ساتھ لے گئے، جو ایک عرصے سے روپوش تھا مگر دنیا ہلائے ہوئے تھا۔

ایک غیر پاکستانی جس پہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد فدا تھی۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کا پسندیدہ مجاہد جس مکان میں کئ سال سے اپنے لمبے چوڑے خاندان سمیت چھپا ہوا تھا اسی میں مارا گیا۔ مخالفین خوش کہ کتے کی موت مارا گیا۔ وہاں بیٹھا دوسروں کے بچے مروا رہا تھا اور اپنے تین بیویوں سے پیدا کر رہا تھا۔  حامیوں نے اسے شہید کی موت قرار دیا۔ مجاہد اگر کفّار کے ہاتھوں مارا جائے تو شہید ہے۔ کئ سوالات پیدا ہوئے۔ بڑی گرما گرمی رہی۔ سب سے اہم بات یہی رہی کہ کیا فرزند زمین نے اسامہ کو شہادت کے رتبے تک پہنچانے میں اپنا خاموش کردار ادا کیا؟ کیونکہ انکے ہاتھوں مرتا تو شہادت مشکوک ٹہرتی۔ ایک دفعہ پھر، اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
لیبیا کے صدر کرنل قذافی کوایک عرصے تک پاکستان میں سرکاری سطح پہ ہی نہیں عوامی سطح پہ بھی خاصی مقبولیت  حاصل رہی۔
یاسر عرفات، بھٹو اور کرنل قذافی
کہتے ہیں انیس سو چوہتّر میں بھٹو صاحب نے سرزمین پاکستان پر ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقعے پر، انکی اس بات سے خوش ہو کر کہ پاکستان کو بھی ایٹمی طاقت بننا چاہئیے انکے نام پہ لاہور اسٹیڈیئم کا نام قذافی اسٹیڈیئم رکھ دیا تھا۔ جو آج تک یونہی چلا آرہا ہے۔  حالانکہ قذافی سوشلسٹ قوتوں سے انسیت رکھتے تھے لیکن انکے امریکہ مخالف جذبات کو ہم سب بڑی اچھی نظر سے دیکھتے تھے۔ ہم پاکستانی بس ایسے ہی ہوتے ہیں،  جس پہ ایک دفعہ صدقے واری ہو جائیں، پھر وہی بھاگ جائے تو بھاگ جائے ہم پیچھے نہیں ہٹتے۔ جس سے زیادہ محبت ہو اسے شہید کروانے میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ ہماری طرف سے محبت کا آخری ایوارڈ ہے۔
خیر جناب، ٹرکوں کے پیچھے قذافی صاحب کی تصاویر ہم نے بھی دیکھی ہیں۔ دو ہزار نو میں افریقیوں کی طرف سے 'شاہوں کے شاہ' کا لقب ملنے میں ہم نے زیادہ دلچسپی نہیں لی۔  اسکی وجہ قذافی کا اپنی حفاظت کے لئے خواتین دستوں کو رکھنا تھا۔  خواتین محافظ دستے توبہ توبہ، سٹھیا ہی گئے ہیں۔ حالانکہ اس وقت تک وہ ساٹھ سال کے بھی نہ ہوئے تھے۔ مگر انکی اس حرکت کی وجہ سے ایک پھٹکار لوگوں کو انکے چہرے پہ نظر آتی تھی۔
یہ بھی بڑی عجیب بات سنی کہ قذافی نے لیبیا میں اسلامی قوانین نافذ کر رکھے تھے۔ مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، شادی شدہ جوڑوں کا شادی کرنے تک کنوارہ ہونا ضروری تھا، ملک کے ایک بہت محدود علاقے سے ہٹ کر باقی ماندہ ملک میں خواتین کا گھر سے نکلنا ممنوع تھا۔ خواتین کا بغیر گھر کے مردوں کے گھر سے نکلنا ممنوع تھا۔ یہ سب روائیتی پاکستانی نکتہ ء نگاہ سے کافی پسندیدہ چیزیں ہیں لیکن خواتین محافظین کا اپنی حفاظت کے لئے رکھنا کافی عجیب نفسیات کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ چاہے روائیتی پاکستانی ہوں یا غیر روائیتی پاکستانی۔ ان خواتین محافظین نے انکی یہاں مقبولیت کو متائثر کیا۔
مغرب نے انکے خلاف پروپیگینڈے میں، میں اسے پروپیگینڈہ ہی کہونگی۔ کیونکہ میں بھی اس پاکستانی نسل سے تعلق رکھتی ہوں جو جنگی ترانے یاد کرتے ہوئے عمر کے اس حصے میں پہنچا ہے اور صرف جنگ سے وابستہ افراد کو ہی ہیرو سمجھتے ہیں اور اگر وہ مسلمان ہوں تو پھر انکی ماورائ حیثیت پہ صدق دل سے ایمان لاتے ہیں۔
ہاں تو ان پہ الزام ہے کہ انہوں نے کیمیائ ہتھیار رکھے ہوئے تھے۔ اگرچہ عراق پہ حملے کے بعد مغرب کی نظر میں انکا دماغ کافی سیدھا ہوا لیکن بہرحال ملک پہ بیالیس سال تک حکومت رکھنا اچھی بات نہیں سمجھی گئ۔ شاید بنیادی حسد کی وجہ یہی تھی کہ تمام مغربی ممالک ایک ہو گئے۔ اب اگر انہوں نے اپنے قوانین ایسے بنا لئے ہیں کہ کوئ شخص چند سال سے زیادہ نہ ٹک سکے تو اس میں قذافی جیسے آمروں کا کیا قصور۔ آج امریکہ میں ہونے والے احتجاجی مطاہروں کے بعد ہم سوچتے ہیں کہ ایک کی جمہوریت اور دوسرے کی آمریت میں آخر فرق ہی کیا ہے ؟

وال اسٹریٹ پہ قبضہ کرو، امریکیوں کا احتجاج

ان پہ الزام رہا کہ اگرچہ تیل کی آمدنی سے انہوں نے لیبیا کے عوام کی معاشی حیثیت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی لیکن سب سے زیادہ دلچسپی انہوں نے اپنی اور اپنے خاندان کی مالی حالت کو مستحکم اور سدا قائم رکھنے کے لئے کی۔
قذافی کی سوانح حیات اپنے اندر بڑی دلچسپی رکھتی ہے۔ لیبیا کے علاقے سرت میں ایک چھوٹے سے قبیلے جو کہ گدڑیوں کا پس منظر رکھتا ہے اس میں جنم لینے والے اس شخص نے انیس اکسٹھ میں فوجی اکیڈمی جوائین کی  یہاں سے گریجوایٹ کیا۔ اور حیران کن طور پہ انیس سو انہتّر میں صرف آٹھ سال بعد عین عالم نوجوانی  یعنی انتیس سال کی عمر میں لیبیا کی حکومت کا تختہ الٹ کر حکومت پہ قابض ہو گئے ، پھر اسکے بعد بیالیس سال تک اس ملک کے سیاہ اور سفید کے مالک بنے رہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے ملک میں ایسا کوئ منصوبہ نہ تھا جس میں قذافی یا انکے خاندان کو مالی منفعت نہ پہنچتی ہو۔
انکے شاہانہ طرز زندگی پہ بڑی تنقید کی جاتی ہے۔ یہ تنقید کرتے ہوئے لوگ بھول جاتے ہیں کہ وہ شاہوں کے شاہ تھے  انہیں اپنے لئے یہ خطاب پسند تھا۔ بہرحال، انہوں نے اپنے عوام کو کچھ تو دیا۔  ہماری طرح اپنے آپکو سجدے کروا کر کیڑے مکوڑوں کی طرح تو نہیں چھوڑ دیا تھا۔ لیکن بہر حال ملک کے مشرقی حصے کی معاشی حالت انتہائ دگرگوں بتائ جاتی ہے اور اس وجہ سے عوامی سطح پہ انکے خلاف مہم چلانے کی گنجائیش موجود تھی۔ ہم ابھی اس عوامی شعور سے محروم ہیں جو ملک پہ اپنا حق سمجھتا ہو۔ عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ ملک دراصل زرداروں اور شریفوں کا ہے اور انکا شکریہ کہ وہ انکا نام یاد رکھتے ہیں۔
قذافی اپنے آپکو خبروں میں رکھنے کا ہنر جانتے تھے یا یہ کہ ایک طبقے کے مطابق انہیں اپنے آپکو خبروں میں رکھنے کا جنون تھا۔ اپنی ذات کے لئے، وہ ایک جنونی تھے۔
سوڈان میں جب مسلم حکمراں ، حکومت میں آئے تو قذافی نے سوڈان کو پیش کش کی وہ لیبیا میں ضم ہو جائے۔ سوڈان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور اپنے ملک کے عیسائیوں سے امن کا معاہدہ کر لیا۔ یہ بات انہیں بہت ناگوار گذری۔ اسکے بعد انہوں نے دیگر ملکوں کے ساتھ یہ کوشش کی کہ ایک عظیم اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی جائے۔ کہنے والے اسے بھی انکے اس دماغی فتور سے جوڑتے ہیں کہ ان میں ایک بڑے رقبے پہ حکمرانی کا جذبہ تھا اور اسی لئے وہ اسکے لئے اتنے کوشاں تھے۔
اب یہ بات بھی بڑی عجیب لگتی ہے کہ کہاں وہ اسلامی مملکت کے قیام کا خواب دیکھتے ہوں اور کہاں وہ نظریاتی طور پہ سوشلسٹ ہوں اور علاقے کی سوشلسٹ قوتوں سے انکے اچھے مراسم رہے ہوں۔
آٹھ مہینے پہلے جب لیبیا میں جمہوریت لانے کے بہانے انکے خلاف باغیوں کو کمک دی گئ تو کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ امریکہ اس بہانے لیبیا کا تیل حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ دنیا کی سلامتی کو کرنل قذافی کی دیوانگی سے لاحق خطرات سے نجات دلانا چاہتا ہے۔  لیکن بعد کے حالات نے دکھایا کہ اقتدار کا جنون قذافی میں اتنا بڑھ گیا تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں پہ حملہ کر ڈالا۔ پھر یوں ہوا کہ دیوانہ مارا گیا۔
آج جب ٹی و ی پہ ویڈیوز اور خبریں آرہی ہیں تو لیبیا کے عوام قذافی کی موت پہ خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں۔ جس باغی کے کپڑوں پہ انکے خون کے نشان ہیں وہ کہتا ہے کہ میں اسے زندگی بھر نہیں دھوءونگا اور اسے سنبھال کر رکھونگا۔ عوام پہ جب جنون طاری ہوتا ہے تو تخت اور تختے میں زیادہ فرق نہیں رہتا۔
بہرحال، میں بحیثیت پاکستانی کچھ الجھن میں ہوں۔ آیا امریکہ کے خلاف کھڑے ہونے والے مسلم جنگجو کی موت پہ افسوس کرنا چاہئیے۔ افسوس کرنا چاہئیے کہ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد ریاست ایک دفعہ پھر اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوئ۔ ایک دفعہ پھر ایک مسلم اکثریتی ملک کا مسلم حکمراں ہار گیا۔ یا بحیثیت ایک انسان یہ سوچ کر خوش ہوجاءوں کہ ایک خود پسند بادشاہ اپنی طبیعت کے جبر کا شکار اپنے انجام کو پہنچا۔ اب اسکے عوام اپنی زندگیوں کو اس دھارے میں لانے میں کامیاب ہونگے جو وہ چاہتے تھے۔ جسکے لئے انہوں نے تن من دھن کی بازی لگادی۔ میری یہ الجھن کیسے رفع ہوگی؟ کیا کہوں کیا یہ کہ مجنوں قذافی کتے کی موت مارا گیا۔  یا پھر یہ کہ قذافی کو مرتبہ ء شہادت دوں۔ کیا اللہ کی باتیں اللہ ہی جانتا ہے۔
آخر مخلوق کو خدا یہ حق کیوں نہیں دیتا کہ وہ بھی اسے جان لیں؟ کیا خدا کے یہاں جمہوریت نہیں ، آمریت ہے؟ پھر آمر سے جھگڑا کیوں؟ پھر اس بات کا رولا کیوں کہ انسان خدا بننا چاہتا ہے۔ آخر انسان کے سامنے ایک پسندیدہ مکمل ماڈل خدا ہی کا تو ہے۔
اُف اتنے سوالات، سوال کرنے سے انسان ہونا ثابت ہوتا ہے کبھی خدا سوال نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔ 

Monday, June 27, 2011

ایسے کیوں؟

آج کا دن کوئ پوسٹ لکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔ اگلے سات آٹھ دن کے لئے مصروفیات کا تناسب کچھ نکل آیا ہے کہ بلاگ کی طرف زیادہ نظر نہ ہو پائے۔ بہر حال، اطلاع ملی کہ مکی صاحب نے اپنے بلاگ کو سیارہ سے الگ کرنے کی درخواست کی ہے۔ کیوں کی ہے ، یہ وہ بہتر جانتے ہونگے۔ لیکن میں اپنی ذاتی حیثیت میں انکے اس فعل سے مطمئن نہیں۔
کوئ آئیڈیئل معاشرہ وہ نہیں ہوتا جہاں سب ایک جیسی سوچ رکھتے ہوں۔ ایک مقولہ ہے کہ جہاں سب ایک جیسی سوچ رکھتے ہوں وہاں کسی کے پاس کرنے کو کچھ خاص نہیں ہوتا۔ دنیا میں وہی معاشرے ترقی کی طرف جاتے ہیں اور مثبت  طرز زندگی کی طرف گامزن ہوتے ہیں جہاں تنوع ہوتا ہے۔ انسانوں کا، بنیادی فکرات کا اور بنیادی اعمال و کردار کا۔
اگر ایک خاص سوچ کسی معاشرے پہ طاری کر دی جائے تو ایک شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔  اس شدت پسندی کو قابو میں رکھنے کے لئے اسکی مخالف قوت کا موجود رہنا ضروری ہے اور معاشرے کی ایک قوت کو مہمیز رکھنے کے لئے دوسری  مخالف قوت کو حاضر رہنا چاہئیے۔
جمہوریت کی ساری خوبی یہی ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کو آواز اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے جو آمریت یا مارشل لاء میں نہیں ہوتی۔
اگر آج ہمارے ملک میں عدم برداشت کا رویہ اپنے عروج پہ ہے تو اسکی جڑیں ضیاء الحق کی اس گیارہ سالہ حکومت میں ملتی ہیں جب پاکستان کے بد ترین مارشل لاء میں ایک نظرئیے کو پروان چڑھانے کے لئے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے گئے۔ اسکے نتیجے میں دوسرا مخالف گروہ ختم کر دیا گیا یا خاموش کرا دیا گیا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ نہ لوگوں میں علم ہے، نہ برداشت، ترقی تو دور۔ ترقی اور فلاحی ریاست ایک مبہم خواب کے سوا کچھ نہیں۔ ہم معاشی اور معاشرتی سطح پہ دن بہ دن تنزلی کا شکار ہیں۔
ہم مسلسل آمریت کے زیر سایہ رہنے سے مزاجاً خود بھی آمر ہو چکے ہیں۔ رہی سہی کسر، متعارف کرائے گئے جذبہ جہاد نے پوری کی اور اب ہماری اکثریت میں یہ اہلیت ہے کہ وہ ظلم میں ہٹلر اور چنگیز خاں کو بھی مات دے دے۔
ہماری ایک پوری نسل نہیں جانتی کہ اسکے باہر کی دنیا میں کیا ہوتا ہے، اس دنیا میں کیسی کیسی ثقافتیں، مذاہب موجود ہیں۔ اور اسی دنیا میں کیسے کیسے ممالک ہیں جہاں مختلف النوع مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں مگر سکھ چین کے ساتھ، زندگی میں آگے کی سمت چلے جا رہے ہیں۔
عدم برداشت کا رویہ آخر کیسے ختم ہوگا؟ ایسے کہ لوگوں کو اپنے مخالف کی بات سننے کی عادت پڑے۔ ایسے کہ انہیں معلوم ہو کہ وہ کوئ پھنّے خان نہیں ہیں۔ دنیا میں عظیم لوگ انکے مذہب، فرقے، ذات ، برادری، نسل اور لسان سے الگ ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ وہ سب اسی دنیا کے دسترخوان سے اپنا روزی روزگار حاصل کرتے ہیں۔ ایسے کہ انہیں معلوم ہو کہ وہ خود کتنے حقیر ہو چکے ہیں۔ جس سوچ پہ انہوں نے اپنے آپکو کھڑا کیا ہے وہ حضرت سلیمان کی وہ دیمک کھائ ہوئ لاٹھی بن چکی ہے۔ کہ جب گرے گی تو پتہ چلے گا کہ وہ مر چکے ہیں۔
بلاگستان کی اکثریت، اس پاکستانی نسل سے تعلق رکھتی ہے جو خود کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ سوائے دوسروں پہ کیچڑ اچھالنے کہ وہ بھی مذہب کے نام پہ۔ دیکھنے کو انکی زندگیاں بھی ان مسائل سے بھری پڑی ہوئ ہیں جن سے ایک عام پاکستانی دوچار ہے۔ مگر اسے حل کرنے کی طرف تو دور انکا تذکرہ تک کرنے میں انکی دلچسپی نہیں۔ ان کا غم اگر ہے تو یہ کہ ہمارے ملک میں ہم جنس پرست کیا کیر رہے ہیں؟ یہ ہم جنس پرستی ایک علاقے کی ثقافت کا سینکڑوں برس سے حصہ ہے مگر اس پہ روشن خیال کا نام لے کر ماتم کرنے میں ایک عجیب مزہ آتا ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ اس علاقے میں خواتین کو حقیر بنائے جانے سے ہم جنس پرستی کے مسئلے نے وہاں شدت پکڑی ہے۔
یہی لوگ ، یہ نہیں جاننا نہیں چاہتے کہ پاکستان کی عورتوں کی ایک بڑی تعداد اوسٹیو پوریسس کی وجہ معذوری کا شکار ہو رہی ہے ، بچے پولیو کی وجہ سے معذور ہو رہے ہیں۔ دنیا کے تقریباً دو سو ممالک میں پاکستان ان آخری ممالک میں شامل ہے جہاں مرنے والوں بچوں کی تعداد سب زیادہ ہے۔ یہ سوچ کر انہیں اپنے اوپر شرمندگی نہیں ہوتی کہ پاکستان کے ایک دیہات میں ایک عورت اپنی چھاتی کا زخم چھپائے چھپائے پھرتی رہی، شرم کی وجہ سے حتی کہ اسکی چھاتی کینسر کی وجہ سے پھٹ گئ ۔ تشویشناک بات یہ نہیں ہے کہ ایک پچاس سالہ عورت کو اسکے دس سال کے بچے کے سامنے برہنہ گلیوں میں پھرایا گیا۔ انکے نزدیک انکے ملک کی اہم اور تشویشناک خبر یہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ کسی جگہ  منافقوں کے پیدا کردہ نام نہاد مجاہدین کو متوقع تباہی پھیلانے میں متوقع کامیابی کیوں حاصل نہیں ہو پائ۔
ہم جنس پرستی کیا ہے؟ قدرتی طریقوں سے منہ موڑ کر ایسی طرز کو اختیار کرنا، جس میں نسل انسانی کو کوئ فائدہ نہیں۔ جس سے نسل انسانی آگے  نہیں بڑھتی۔ ایک ایسی بے سمت عیاشی جس سے بدلے میں کوئ مثبت چیز نہیں بر آمد ہوتی۔
فدائیوں اور نام نہاد مجاہدین کی فتح کی دعائیں مانگنا بھی فکراً ہم جنس پرستی سے الگ چیز نہیں۔ قدرتی طرز زندگی سے انحراف۔ ایسے عمل کا حصہ بننا جس میں نسل انسانی کی ہماری پاکستانی نسل کی بقاء نہیں تباہی ہے۔
یہ ہے ہماری موجودہ نسل کی اکثریت جو اس وقت اس بلاگستان کا حصہ ہے۔
اس عالم میں اگر کوئ اس روش سے ہٹ کر بات کہنا چاہ رہا ہے تو اسے اختیار ملنا چاہئیے۔ اسے اپنا اختیار استعمال کرنا چاہئیے۔ ہم سب کی تربیت ہونی چاہئیے کہ ہم ایکدوسرے کی غلط ترین بات کو سنیں ، اسے برداشت کریں۔ اس پہ سوچیں اور ہمیں نہیں پسند تو تو آگے بڑھ جائیں۔ ہمیں اب لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کو دبانے سے روکنے کی کوشش میں حصہ ڈالنا پڑے گا۔ اس لئے نہیں کہ ہم بعیّنہ وہی خیالات رکھتے ہیں جیسے کہ وہ رکھتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ہم ایک متوازن معاشرے کے طور پہ پنپ سکیں۔
توازن، کسی ایک قوت کے حاوی ہونے میں نہیں۔ توازن تمام قوتوں کے ایک ساتھ موجود رہنے سے پتہ چلتا ہے۔ کم از کم کائینات اپنے مظاہر میں یہی کہتی نظر آتی ہے۔




تو مکی صاحب ، میں تو نہیں سمجھتی کہ آپکو بلاگستان سے علیحدہ ہونے کی ضرورت ہے۔    باقی کچھ لوگوں کا یہاں رد عمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ برصغیر میں اسلام محمد بن قاسم لے کر آیا کیا انکی اس غلط فہمی کی تصحیح ضروری نہیں ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ محمود غزنوی ایک عظیم مسلمان فاتح تھا۔ کیاانکی اس غلط فہمی کی تصحیح ضروری نہیں کہ وہ ایک بہترین جنگجو تھا۔ اور بس۔ 
وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اگر ایک اسلامی ملک بن گیا تو یہاں عورتیں جسم فروشی نہیں کریں گی، لوگ ہم جنس پرست نہیں ہونگے، شراب نہیں پی جائے گی، زنا نہیں ہوگا، جھوٹ نہیں ہوگا،  چوری نہیں ہوگی۔ امن وامان ہوگا، شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پئیں گے۔ یہاں سے وہاں تک صرف  مسلمان پائیں گے وہ بھی کسی ایک فرقے کے۔  فرقہ واریت پہ جنگ ختم ہو جائے گی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر لوگوں کے گروہ خدا کا انکار کریں تو اس سے انکا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ حالانکہ انکاا کرنے والے بھی ہزاروں سال سے موجود ہیں اور ایمان والے بھی اپنے ایمان پہ جمے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب، کمزوری انکے ایمان میں ہے یا مضبوطی انکار کرنے والے کے بیان میں۔ اسکا ایک اور مطلب ہے کیونکہ وہ اپنے ایمان کا دفاع کرنے سے آگاہ نہیں اس لئے انہیں انکار کرنے والے سے ڈر لگتا ہے۔ اسکی ایک اور وجہ ہے وہ اپنے ایمان میں کشش نہیں پیدا کرتے بلکہ ہیبت پیدا کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہیبت سے دل مسحور کئے جا سکتے ہیں۔
کیا انہِیں اس چیز پہ مجبور نہ کیا جائے کہ اصل کتابوں کی طرف رجوع کرو۔ اور اپنے ایمان کو مضبوط۔ جو ایمان ایسے ہر کس و ناکس کے بیان پہ ڈول جائے اسے سپلیمنٹس کی بے حد ضرورت ہے۔ اسے یہ معلوم ہونے کی بے حد ضرورت ہے کہ وہ کیوں کمزور ہے اور اسے کیسے مضبوط ہونا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ انکار کرنے والا کیا دلائل رکھتا ہے جسکی بناء پہ وہ اسے، مضبوط ایمان والے کو چت کر دیتا ہے۔ اور مضبوط ایمان کا دعوی کرنے والے یہ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں کہہ پاتے کہ اپنا علاج کرائیے۔ حالانکہ  انہیں دوسروں کو یہ مشورہ دینے کی نہیں اپنے علاج کی آپ ضرورت ہے۔ اور انکا علاج اپنے دین سے خود آگہی حاصل کرنے میں ہے جو وہ نہیں کر پاتے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ دین اس سلسلے میں خاصہ کڑا ہے۔
کیا انہیں یہ نہیں بتایا جائے کہ جب تک معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا اور معاشی خوشحالی نہیں ہوگی ان میں سے کوئ چیز ختم نہیں ہوگی اور نہ کوئ نئ مثبت چیز جنم لے گی۔  سوائے اسکے کہ ہم منافقین کے گروہ در گروہ تخلیق کریں۔
انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ جب تک انسان زندہ ہے، ان کے خیالات اور زندگی سے انکے مطالبات ایک دوسرے سے الگ رہیں گے۔ یہی اس دنیا کا حسن ہے، آزمائیش ہے،اور مقصود۔
جب ہی  کائینات میں تین قوتیں بر سر پیکار نظر آتی ہیں۔ خدا ، انسان اور شیطان۔ اگر ان میں سے صرف ایک قوت بچ جائے تو کائینات میں نہ نمو ہوگا نہ استحکام۔

Tuesday, February 15, 2011

ساحل کے ساتھ


پانچ دن بعد جب ہم لوٹے تو حالات وہی تھے۔  یعنی  مبارک صاحب اسی طرح صدر  بنے رہنے پہ مصر، انکے دل میں وہم تھا کہ گذر ہی جائے گی میرے بغیر بھی لیکن، بہت اداس ، بہت بے قرار گذرے گی جبکہ عوام نے رولا پایا ہوا تھا، جا جا میں تو سے نہیں بولوں۔


امریکہ اسی طرح ریمنڈ ڈیوس پہ تاءو دکھا نے میں مصروف، پاکستانی حکومت اسی طرح ٹال مٹول سے کام چلا کر ہر ایک فریق یعنی امریکہ 'عوام' اور خواص کو مطمئن رکھنا چاہ رہی تھی۔  لوگ اسی طرح 'انقلاب دور است' کو خوش آمدید کہنے کی دھنیں تیار کر رہے تھے تاکہ وقت ضرورت اس جھنجھٹ میں نہ پڑنا پڑے اور کچھ تو تیاری پہلے سے ہو۔ مختصراً سورج اسی طرح مشرق سے نکل رہا تھا اور مغرب میں گم ہو رہا تھا جیسے سالہا سال سے کرتا چلا آیا ہے۔
لیکن، ہم ایک اور دلچسپ سفر سے ہو کر گذر آئے۔
ایک روسی ادیب کا کہنا ہے کہ تمام خوشحال خاندانوں کی کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں اور غریب خاندانوں کی الگ الگ۔  سی طرح تمام ترقی یافتہ جگہوں کے سفر کی کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں اور پسماندہ  جگہوں کا جب بھی قصد کریں الگ داستانیں بنتی ہیں۔ خاص طور پہ ایسی جگہیں جو معاشی اور اسکے ساتھ آنے والی معاشرتی تبدیلیوں سے گذر رہی ہوں۔ 
  سو ایک دفعہ پھر پاکستان کے شورش زدہ اور سب سے پسماندہ صوبے بلوچستان کا رخ کیا، ہماری منزل گوادر کا ایک مضافاتی علاقہ تھا۔ بیٹی صاحبہ بھی ساتھ تھیں۔ صبح سویرے ہم نکلے تو موسم بڑا سہانا تھا۔ کراچی میں اسے موسم بہار کہنا چاہئیے۔ بادل آسماں پہ دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من وتو کا فرق مٹائے ہوئے ایک دوسرے میں گھلے ملے جا رہے تھے۔  کراچی شہر کے صنعتی ماحول کی حدوں سے باہر نکلے تو ہوا میں ایک تازگی اور الہڑ پن تھا۔
گاڑی سے گوادر جانے کے لئے صرف ایک راستہ ہے، کوسٹل ہائ وے۔ یوں اس روڈ پہ چلتے ہوئے گوادر کراچی سے تقریباً ساڑھے چھ سو کلو میٹر کے فاصلے پہ ہے۔ شروع کے تقریباً سو کلو میٹر آر سی دی ہائ وے پہ سفر کرنا پڑتا ہے پھر وندر سے آگے جا کر کوسٹل ہائ وے شروع ہو جاتی ہے۔ راستے میں جو اہم بستیاں آتی ہیں ان میں اُرماڑہ اور پسنی کی نیول بیسز شامل ہیں۔
 میں پہلے بھی کئ دفعہ یہاں جا چکی ہوں لیکن اس دفعہ  بلوچستان کے  مخدوش حالات کو  ذاتی طور پہ جاننے کے لئے میں  نے سفر میں شامل ہونے کا ارادہ کیا۔ مشعل کے اسکول سے ایک ہفتے کی چھٹی لی۔ اس مہم پہ انہیں جو کچھ سیکھنے کو ملتا وہ اسکول کی چار دیواری میں کبھی نہیں مل سکتا۔  آغاز سفر میںوہ خود بھی بے حد بے چین تھیں اور ہر دس منٹ کے بعد پوچھتیں کہ کیا بیچ  یعنی ساحل آگیا؟  کیا آنے والا ہے؟ کیا میں اب اپنا سوئمنگ کاسٹیوم پہن سکتی ہوں؟ کیا ہم وہاں پہ سی شیلز جمع کریں گے؟ کیا وہاں پہ مرمیڈ ہوگی؟ کیا میں ایک چاکلیٹ کھا سکتی ہوں؟ پھر ایک  جگہ بیٹھے بیٹھے غنودگی طاری ہوتی۔ یوں ایک فل اسٹاپ لگتا اورجاگنے پہ وہی  سوال ایک نئ ترتیب میں آجاتے۔
اُرماڑہ سے پہلے ہنگول کا علاقہ آتا ہے۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے اور ہنگول دریا بھی گذرتا ہے۔ اس پہ گذرنے والے پل کے ساتھ پچھلے دو سالوں میں ایک ریسٹ ہاءوس بنا دیا گیا ہے۔ پل پہ سے گذرتے ہوئے ہم نے سوچا کہ واپسی کے سفر میں ایک رات اس ریسٹ ہاءوس میں گذاریں گے  تصویریں بنائیں گے، کچھ فاصلے پہ   دریا کے ساتھ  پہاڑوں میں واقع ایک قدیم مندر کو دیکھ کر آئیں گے جہاں ہر سال موسم بہار میں ہندو بڑی تعداد میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے آتے ہیں۔ یہ ہنگلاج کا مندر یا نانی مندر کہلاتا ہے۔


اسکے علاوہ دریا میں مگر مچھ ہیں جو روزانہ دریا کنارے دھوپ کھانے کے لئے صبح سے لیٹ جاتے ہیں انکا دیدار بھی کریں گے۔
کوسٹل ہائ وے سمندری ساحل کے ساتھ ساتھ ہے سو کہیں کہیں سمندر بالکل صاف نظر آتا ہے اور کہیں کہیں پہاڑوں کی اوٹ لے لیتا  ہے۔ اس راستے کا سب سے خوبصورت حصہ کُنڈ ملیر کے آس پاس آتا ہے جو اُرماڑہ سے پہلے ہے۔ یہاں کاریگران قدرت نے پہاڑوں کو تراش کر ایلس کا ونڈر لینڈ بنایا ہوا ہے۔ مشعل نے ان پہاڑوں کو دیکھ کر کہا۔' یہ تو کوئین کا ہاءوس ہے ماما'۔ فوٹو گرافرز کے لئے یہاں بڑے شاندار مناظر ہیں۔ اسکے علاوہ فیشن شوٹس کے لئے پہاڑ ایک بہترین پس منظر کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ ایک ماڈل میں نے بھی استعمال کی تھی اور اچھی تصویریں ملی تھیں  لیکن وہ تصویریں کہیں کھو گئیں۔ یہ نئ تصاویر حاضر ہیں۔


کنڈ ملیر کے قریب
 
کنڈ ملیر
کنڈ ملیر کے قریب
گاڑی کے اندر سے لی گئ ایک تصویر
پہاڑ جیسا کہ آپ نے تصویروں میں دیکھا، برہنگی کی حد تک بنجر ہیں۔  ہریالی سے ڈھکے ہوئے پہاڑ تو اپنے لباس کی زینت کی وجہ سے خوب صورت لگتے ہیں لیکن یہ بنجر پہاڑ وہ خوبصورتی رکھتے ہیں جس کے لئے شاید آرٹسٹ نیوڈ پینٹنگز بناتے ہیں۔
اس پہ مجھے یاد آیا کہ ہمارے ٹی وی کے مشہور میزبان اور لکھاری انور مقصود صاحب کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ بھی مصوری سے شغف فرماتے ہیں اور  انکی تصاویر کی بڑی مانگ ہے۔  یہ بھی کہیں پڑھا کہ ایک دفعہ جناب ضیا ءالحق صاحب نے ان سے انکی پینٹنگز کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں جواب دیا کہ میری پینٹنگز آپ دیکھ نہیں پائیں گے۔ مزید استفسار پہ کہا کہ میری ماڈلز بہت غریب ہوتی ہیں۔ اتنی غریب کہ انکے پاس پہننے کو کپڑے بھی نہیں ہوتے۔
کیا بلوچستان اتنا ہی غریب ہے یا پسماندہ؟