Showing posts with label ِGhalib. Show all posts
Showing posts with label ِGhalib. Show all posts

Monday, July 6, 2009

کچھ خرابات


آج کچھ لوگوں کی فرمائش پہ چند اشعار کی تشریح حاضر ہے۔ چونکہ ان اشعار کے تخلیق کار اب اس دنیا میں نہیں رہے تو کسی اور کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ ان سے اتفاق نہ کرے.

لیجئیے پہلا شعر حاضر خدمت ہے۔

جو تمہاری مان لیں ناصحا تو بچے گا دامن دل میں کیا
نہ کسی عدوکی عداوتیں، نہ کسی صنم کی حکائیتیں

یہاں کچھ الفاظ کا تعارف پہلے سے دینا ضروری ہے۔ جیسے ناصحا یا نا اور صحا، اس کا مطلب بظاہر یہ لگتا ہے، وہ شخص جو کبھی صحیح نہیں ہو سکتا۔ اب اسکے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ یا تو یہ کہ اسکی بات کبھی صحیح ثابت نہیں ہو سکتی اور یا یہ کہ انکی شخصیت کے ٹیڑھ پن کو کبھی صحیح نہیں کیا جا سکتے۔ بادی النظر میں یہ کوئ سیاستداں لگتے ہیں۔ لیکن شعر میں کیا مراد ہے اس پہ ہم بعد میں بحث کرتے ہیں۔

دامن دل، اس پہ کچھ اصحاب کو حیرت ہوتی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ دل کا دامن کیسے ہو سکتا ہے۔ تو جناب اگر دل کو قمیض کی طرح پہن لیا جائے تو دامن تو کیا اسکا گلا اور آستین بھی بن جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تو سراپا دل ہوتے ہیں۔ ایسے دل عوامی جگہوں پہ بہ کثیر دستیاب ہوتے ہیں۔ دل اگر سینے سے نکل جائے تو اسکی غیر حاضری کو عقلمندی سے عشق و محبت کے خانے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ کیونکہ دماغ کو کاسہء سر سے نکالنا خاصہ دقت طلب اور محنت کا کام ہے اسلئے دماغ سے اس قسم کی کوئ چیز تیار کرنا مشکل ہے۔ اتنی محنت کے بعد اسے صرف کھایا جا سکتا ہے۔ اسے فرائ کر لیا جائے تو بھیجا فرائ کہلاتا ہے۔ کچھ دماغ بغیرنکالے فرائ ہو جاتے ہیں نہیں معلوم کہ اس میں خوبیءدماغ ہوتی ہے یا خوبیءترکیب ۔

دوسرے مصرعے کے پہلے حصے میں لگتا ہے کہ کچھ دعوتوں کا تذکرہ ہے، کیونکہ حروف کی ترتیب ادھر ادھر ہے اس لئے کچھ الجھن پیدا ہو گئ ہے۔ ہوسکتا ہے یہ دواتوں کے بارے میں کچھ کہا گیا ہو۔ فی زمانہ دوات تو استعمال ہوتی نہیں اس لئے اب صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ احباب کا خیال ہے کہ ان الفاظ کا دشمنی اور دشمنوں سے بھی تعلق ہوتا ہے۔ لیکن ہم چونکہ صرف محبت کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں اس لئے اس خیال کے پیچھے نہیں جاتے۔ اسکے پیچھے جائیں ہمارے دشمن جو ایک نہیں کئ ہیں۔ اس بہانے کچھ دنوں تک ہماری جان ان سے چھوٹی رہے گی۔

اب رہا حکائتیں اور صنم کا تعلق۔ یہ سب سے زیادہ مشکل تعلق ہے۔ حکائیتیں وہ باتیں ہوتی ہیں جو حقہ پیتے ہوئے کی جاتی ہیں۔حقے کئ اقسام کے ہوتے ہیں اور باتیں کئ طرح کی۔ جتنے حقے اتنی باتیں۔ اب بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ صنم کی ان باتوں کا تذکرہ ہو رہا ہے جو وہ حقہ پیتے ہوئے کرتا ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقہ کوئ اور پی رہا ہو اور باتیں صنم کر رہا ہو۔ یااسکے برعکس صورتحال ہو۔ دراصل اس
سارے شعر کی جان اور مطلب انہی دو الفاظ میں پوشیدہ ہے۔ کہاں ہے میرا حقہ، اسکے بغیر دماغ
فرائ کرنے میں مزہ نہیں آتا۔ ایک لمبی گڑ گڑ کے بعد۔ میرا خیال ہے کہ اب اس شعر کا مطلب بالکل
واضح ہے۔ اس سے زیادہ وضاحت سے شعر کی شعری خوبصورتی ختم ہو جائے گی۔

یہ دوسرا شعر ہے

تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کردیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہء کائنات میں

لیکن اس سے پہلے میں آپکی شکل کی طرف دیکھتی ہوں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ منہ میں نیم کی پتیوں کا بھرتہ دبائے بیٹھے ہیں۔ ایک اور گڑ گڑ۔ اور میرے حقے کو اتنی خشمناک نگاہوں سے کیوں دیکھ رہے ہیں۔ یہ تو اقبال کے شعر کی تشریح کرتے وقت پینا پڑتا ہے۔ ورنہ ماحول کیسے بنے گا۔ کیا کہا بہت بری بات ہوتی ہے عورتوں کا حقہ پینا۔ چلئیے بھئ ایسا ہے تو لے جا یہ حقہ۔اب اس دوسرے شعر کی تشریح کسی اور دن، جب یہ والے صاحب نہیں ہونگے۔ کیا کہایہ ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور جہاں انکی پسند کے خلاف کام ہورہا ہو۔ وہاں سے تو ٹلتے نہیں۔ اوئے، فیر یہ حقہ ان باءو جی کو دے ۔ تھوڑی گڑ ہی گڑ ہی کرلیں۔ پرشان نہ ہوں جی، جب تک نیم کی پتیوں کے بھرتے کا اثر زائل ہوتا ہے کچھ انکی سنتے ہیں۔ غالب سے معذرت کے ساتھ،

پھر دیکھئے انداز گل افشانی گفتار
رکھدے کوئ حقہ وچلم میرے آگے

امید ہے دوسرے شعر کا مطلب بھی سمجھ آگیا ہوگا