یہ سن دو ہزار ایک کا اکتوبر تھا۔ جب میں نے پہلی دفعہ بلوچستان کا رخ کیا۔ ہمیں بذریعہ سڑک گوادر جانا تھا۔ گوادر کراچی سے ساڑھے چھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ مشرف کو حکومت سنبھالے دو سال ہو رہے تھے۔ اور انکی حکومت کے بہترین فیصلوں میں سے ایک کراچی سے گوادر کوسٹل ہائ وے کی تعمیر شروع ہو چکی تھی۔یہ سڑک مختلف مقامات پر بن رہی تھی اور اس وقت تک زیادہ تر راستہ کچا تھا۔ ہمیں ایک رینج روور گاڑی میسر تھی۔ اور ان راستوں پر جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا فور وہیل ڈرائیو کے بغیر چلنا ناممکن تھا۔ اسکے باوجود ہمیں کراچی سے گوادر پہنچنے میں تقریباً ڈھائ دن لگے۔ اس سفر کی روداد روزنامہ جنگ میں قسط وار شائع ہو چکی ہے۔ جن لوگوں کو اسے پڑھنے سے دلچسپی ہو وہ دئیے ہوئے لنک پر جا سکتے ہیں۔ اس وقت میرا مقصد اس کی تفصیلات بیان کرنا نہیں ہے۔
یہ سڑک تقریباً ساحل کے ساتھ ہے۔ راستے میں مختلف آبادیاں ملیں۔ گوادر جو کہ مکران ضلع کا سب سے بڑا شہر ہے اسوقت ایک قصباتی شہر سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اسکی آبادی چالیس ہزار کے قریب تھی۔ شہر کے مرکز سے بس ایک سڑک گذر رہی تھی ۔ بیشتر گھر پتھروں سے بنے ہوئے تھے۔ جس ہوٹل میں ہم جا کر ٹہرے یہ چار کمروں کا ایک ریسٹ ہاءوس تھا۔ پانچ سال بعد یہی ہوٹل متوقع ترقیاتی منصوبوں کے باعث دس کمروں تک بڑھا دیا گیا۔ اسکے علاوہ پی سی والوں نے بھی اپنا ایک ہوٹل بنا لیا تھا۔ ہوٹل والوں کے بقول روڈ بن رہی، زمین کے دام چڑھے ہوئے ہیں اور لوگ آرہے ہیں۔ گوادر ایک نئے، روشن مستقبل کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اسکے بعد سے اب تک میں لا تعداد بار وہاں جا چکی ہوں۔ پہلے ہوٹل میں رکنا پڑتا تھا۔ پھر ایک عزیز نے ایک چھوٹا سا گھر بھی وہاں بنا لیا۔ جہاں سمندر اتنے نزدیک کہ جب وہ مد پر ہوتا تو اسکی لہریں چہار دیواری سے ٹکراتیں۔اس گھر کو بنانے میں جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا انکی ایک الگ داستان ہے۔ اسکی بنیادی وجہ وہاں کاریگروں، راج، مستری مزدور کا نہ ہونا تھا۔ وہاں کی بیشتر آبادی ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہے اور جو کچھ لوگ ہیں انہیں صرف مقامی پرانے انداز سے کام کرنا آتاہے۔ سب بلڈنگ مٹیریئل کراچی سے گیا۔ حتی کہ بڑھئ کو ایک دفعہ دروازوں کے ناپ کے لئے لیجایا گیا اور دوسری دفعہ انکو لگوانے کے لئیے۔ یہ ایک بہت سادہ سا گھر ہے لیکن اتنے سادہ گھر کو بنانے کے لئے بھی انہیں خاصی مشقت سے گذرنا پڑا۔
اس دوران یہاں پر بے پناہ ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوا۔ عام لوگوں نے اتنا کام ہوتے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے کاروبار نکال لئے۔ حتی کہ آج گوادر میں ایک سپر مارکٹ بھی موجود ہے۔ پچھلے سال جب مجھے جہاز کے ذریعے ایک دفعہ پھر گوادر جانے کا اتفاق ہوا تو اوپر سے یہ دیکھکر دنگ رہ گئ کہ کالی سڑکوں کی لائینیں کتنی دور تک نظر آرہی تھیں۔ گوادر اور اسکے اطراف میں اب سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔
کوسٹل ہائ وے ایک بہت خوبصورت سڑک ہے جو سیاحوں کے لئے کشش کا باعث بن سکتی تھی۔ پیسے نے جب گوادر کا رخ کیا تو اب یہاں بھی ایسے گھر نظر آتے ہیں۔ جو کراچی میں پوش علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ اب سے دو سال پہلے مقامی لوگ اتنے مالدار ہو رہے تھے کہ انکے پاس قیمتی گاڑیاں اور ہاتھوں میں سیٹیلائٹ فون ہوا کرتے تھے۔ مقامی لوگ تو فائدہ اٹھا ہی رہے تھے مگر باہر سے بھی لوگ آکر نئے کاروبار متعارف کروا رہے تھے۔ یہ وہ گوادر اور یہ وہ ضلع مکران نہیں تھا جسے میں نے سن دو ہزار ایک میں دیکھا۔ عام لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو رہا تھا کہ ایکدم سب چیزوں کو بیک گئیر لگ گیا۔ مشرف کو ہٹانے کی تگ و دو شروع ہو گئ۔ اور بالآخر ان سے نجات پانے کے جشن منا لئے گئے۔
اب ہر چیز جیسے رک گئ ہے۔ ہر جگہ ایک غیر یقینی صورتحال ہے۔ اس صورتحال کو پیدا کرنے والے اپنے لوگوں کے ساتھ مخلص نہیں۔ صرف ایک کوسٹل ہائ وے جو کہ ایک آمر کے دور میں بنی جسنے اس علاقے کی سوچ کو تبدیل کردیا۔ اسے انکے سرداروں نے کبھی بنانے میں دلچسپی نہ لی۔ انہیں وسائل چاہئیں مگر اپنی فلاح اور اپنی ذاتی ترقی کے لئے۔ ان سرداروں کے بچے ملک سے باہر بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتے ہیں۔ مگر گوادر جیسے شہر میں یہ ایک ہسپتال، ایک بہتر تعلیمی ادارہ، کوئ وو کیشنل انسٹیٹیوٹ نہیں بنوا سکتے تھے۔
میں اخباروں میں خان آف قلات کے بیانات پڑھتی ہوں اور بگتی جیسے ظالم شخص کو شہید قرار دینے کے بیانات پڑھتی ہوں۔ کل ٹی وی پر ایک صاحب کو سن رہی تھی کہ کتنے جوش اور جذبے سے ان ظالموں کے مارنے کی تحقیقات کروانا چاہ رہے تھے۔ کوئ کمیشن ایسا کیوں نہیں بنانے کو کہتے جو ان سرداروں کے خلاف تحقیقات کرے جو لاکھوں لوگوں کو جانوروں جیسی زندگی گذارنے پر مجبور کرتے ہیں اور اپنے تھرل کے لئے ایک قوم کو نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ بگتی جو کہا جاتا ہے کہ آکسفورڈ سے پڑھا ہوا تھا کتنے اسکول انہوں نے قائم کروائے اپنے علاقے میں۔ ظلم کی جو داستانیں اسکے نام سے زبان زد عام تھیں۔ شاید ہی کسی اور کے نام پر اتنی ہوں۔
دے رہے ہیں جو تمہیں اپنی رفاقت کا فریب
انکی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاءوگے
میں سوچتی ہوں کہ جب یہ نام نہاد آزادی کے رہنما بلوچستان کو آزاد کروا لیں گے تو انکے بچے تب بھی ملک کے باہر پڑھیں گے۔ یہ علاج کے لئے تب بھی بلوچستان سےباہر جایا کریں گے۔ لیکن اس وقت یہ کیا بہانہ بنایا کریں گے؟
یہاں پر مزدور سے لیکر انجینیئر باہر سے آیا کریں گے۔ کیونکہ فی الحال تو انکے علاقے میں نہ کوئ اچھا تعلیمی ادارہ ہے نہ ہسپتال۔ نہ کسی اور شعبے میں مہارت رکھنے والے لوگوں کی کوئ قابل ذکر تعداد۔ یہ حکومتی انتظامی معامالات کو اپنے ہاتھ میں رکھیں گے اور حکومتی عہدوں کو اپنے درمیان بانٹ لیں گے۔ یہ کس چیز کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عہدوں کی جنگ۔
اگر انہیں اپنے لوگ عزیز ہوتے تو یہ سڑک مشرف کے دور میں نہیں اس سے بہت پہلے بن چکی ہوتی۔ نواز شریف نے موٹر وے نہیں یہ سڑک بنوائ ہوتی۔ اس وقت تو بگتی زندہ تھا اور شریف جیسے محب وطن لوگ حکمران تھے۔
لیکن یہ توفیق مشرف کو ملی۔ اور اب انکے جانے کے بعد یہ سڑک پھر ویران ہے۔ اسپر چلنے والے ٹرالر اور ٹرکس ابھی رواں بھی نہ ہوئے تھے کہ رک گئے۔ نجانے وہ پہئیے کب چلیں گے جو ترقی کے خوابوں کو ہر آنکھ میں بانٹیں گے اور انکی تعبیریں ہر گھر میں نظر آئیں گی۔ یا یہاں کے لوگ پھر اپنے دشمنوں کو اپنا مہربان سمجھتے ہوئےانکے ہاتھوں کو چومتے رہیں گے۔ کیا بلوچ عوام اب بھی نہیں سمجھیں گے کہ آزادی کے جو جھوٹے خواب یہ انہیں دکھا رہے ہیں یہ دراصل انکے تا ابد قائم رہنے والی آقائیت کے خواب ہیں۔ یاایسا ہے کہ
جو ہاتھ کھیلتے ہیں ان سے توڑتے ہیں انہیں
کچھ ان سے ہوتے ہیں مانوس تو کھلونے بھی
ریفرنس؛
شائع شدہ سفر نامہ
یہ انکے دئیے ہوئے لنک کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ بہر حال اسکی پہلی قسط ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۸ کو شائع ہوئ۔ اور یہ شاید نو قسطوں پر مشتمل ہے۔ آپ اسے دئیے ہوئے لنک پر جا کر تلاش کرسکتے ہیں۔