Showing posts with label مسائل. Show all posts
Showing posts with label مسائل. Show all posts

Thursday, April 12, 2012

جنّاتی مسائل

وہ ایک مستند دہرئیے تھے۔ یعنی صرف لوگ ہی یہ رائے انکے بارے میں نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ بھی اسکا وقتاً فوقتاً اعلان کرتے تھے۔ یہ میری ان سے ابتدائ ملاقاتوں کی بات ہے۔  ایک عمومی رائے کے بر عکس وہ راقم کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ تم ایک روایت پسند مسلمان ہو۔
 اگرچہ اس پہ کچھ بنیاد پرست مسلمانوں کو بڑا غصہ آتا ہے۔ لیکن  انکے نزدیک  ڈیڑھ ہزار سال پرانے مذہب پہ عمل کرنا روایت پسندی ہی ہے۔ ہمارے ایک اور ساتھی کا کہنا ہے کہ اسلام ڈیڑھ ہزار سال پرانا نہیں بلکہ ابتدائے کائینات سے صرف ایک ہی مذہب تھا اور وہ اسلام ہے۔ اگر وہ یہ بات سنتے تو یہی کہتے کہ  میاں، پھر تو یہ اربوں سال پرانا ہو گیا۔ یعنی اس سے زیادہ مستند روایتی اور کیا چیز  ہوگی۔
دہریئے پن کے علاوہ ان میں ہر وہ خوبی موجود تھی جو ایک ایماندار انسان میں ہونا چاہئیے۔ اس میں دل کی نرمی سر فہرست ہے۔ لیکن چونکہ یہ تحریر انکی شخصیت کے بارے میں نہیں۔ اس لئے ہم آگے چلتے ہیں۔
مجھے روایت پسند مسلمان جان کر ایک دن انہوں نے مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ میں اس ساری چیز سے گریزاں تھی۔ اور یہ کہہ کر ٹال دیا کہ مجھے آپکے نظریات پہ کوئ اعتراض نہیں ، آپ بھی میرے نظریات کو نشانہ نہ بنائیں۔ کہنے لگے اچھا ایک بات بتاءو، جنات پہ یقین رکھتی ہو؟
سائینس غیر زمینی، ذہین مخلوق پہ تحقیق کے لئے زر کثیر لگا چکی ہے۔ ہم بھی سوچتے ہیں کہ کوئ نہ کوئ مخلوق انسان کے علاوہ ہو گی۔ تو پھر یہ بات تسلیم کر لینے میں کیا حرج کہ جنّات بھی موجود ہونگے۔ میں نے اپنا بیان دیا۔ ویسے بھی جنات پہ ایمان رکھنے یا نہ رکھنے سے ایمان پہ کوئ اثر نہیں پڑتا۔ جنات کا میری عام زندگی سے کوئ تعلق نہیں۔ میں آج تک جن چند جنوں سے ملی ہوں۔   ان  پہ  یہ جناتی کیفیت کبھی کبھی طاری ہوتی ہے۔ اس لئے وہ با قاعدہ جنوں میں نہیں آ سکتے۔  بات آئ گئ ہوگی۔
 محمد علی مکی نے اپنے بلاگ پہ دوسرے سیاروں پہ ذہین مخلوق یا انسان جیسی مخلوق کا موضوع کھولا تو مجھے جنات پہ یہ بحث یاد آئ۔ اور انکی تحریر سے نئے سوال اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو میں نے وہاں ڈالنے کے ساتھ اپنے بلاگ پہ بھی ڈال دئیے۔ 
 اسکی ایک بے کار سی وجہ یہ ہے کہ میری ذہنی ساخت مقلّد سے زیادہ سائینسی ہے۔ میں ہر خیال کو سوال کے ساتھ دیکھتی ہوں۔ مثلاً کل شام تک بچی ٹھیک تھی ایسا کیوں ہوا کہ رات بھر الٹی دست لگے رہے؟ ایسا کیوں کہ ہر بار کرپٹ لوگ ہمارے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں؟ ایسا کیوں کہ ہمارے ملک میں اعلی تعلیم پہ ایک ادارہ بنا کر اس پہ اتنا فنڈ لگایا جائے اور اسکول کی تعلیم کو نظر انداز کیا جائے؟ ایسا کیوں کہ مارچ میں جو ارہر کی دال آتی ہے وہ جلدی گلتی ہے جبکہ جو ارہر کی دال نومبر میں آتی ہے وہ گل کر نہیں دیتی؟
اگرچہ حکومت اور معاشرے نے اتحاد باہمی سے اس فضا کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ جس سے لوگوں میں سوال پیدا کرنے کی اہلیت پیدا ہو نے پہ قدغن لگائ جائے مگر انسانی تاریخ کہتی ہے کہ فرعون کے گھر موسی ضرور پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے جہاں اور سوالات پیدا ہوتے ہیں وہاں جنّات پہ بھی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
چونکہ خدا کی کتاب میں یہ تذکرہ ہے کہ جنات  موجود ہیں۔ اور چونکہ ہمارے مسلمان دینی عالم ہی نہیں مسلمان سائینسی عالم بھی ہر بات کو قرآن یعنی خدا کی آخری کتاب تک لے جانے پہ بضد رہتے ہیں اس لئے کچھ جوابات کی چاہت بھی ہوئ۔ جن میں سے آج کچھ جنّات کے متعلق ہیں۔
ادھر ایسی احادیث ہیں جن کے مطابق  رسول اللہ سے جنات کے قبائل آکر ملے اور مسلمان ہوئے ان میں سے بعض تو حضرت نوح کے زمانے کے تھے۔  یعنی جنات طویل العمر ہوتے ہیں۔ ایک اور روایت کے مطابق انسانوں کو جنات سے شادی نہیں کرنی چاہئیے۔
 روحانی شخصیات جو کہ جنوں کو انکی اصل حالت میں دیکھنے کا دعوی کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ انکی جسمانی ساخت انسانوں سے بالکل الگ ہے۔ یہی نہیں، انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئ ہے اور جنات کی آگ سے۔ شیطان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اصل میں ایک جن ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان سے پہلے زمین پہ جنات آباد تھے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں، جتنے دماغ اتنے خیالات۔ لیکن مکی کی باتوں سے مجھے خیال آیا کہ اگر جنات مسلمان ہوتے ہیں تو یہ بات اتنی سادہ نہیں رہتی۔ اس خیال کے ساتھ ہی بہت سارے سوالات میرے جیسے بے دماغ لوگوں کے ذہن میں آتے ہیں۔ مثلاً
اگر جنات مسلمان ہوتے ہیں تو یہودی، عیسائ، ہندو اور بدھ بھی ہوتے ہونگے۔ حتی کہ قادیانی بھی ہوتے ہونگے۔ کیا انکے یہاں بھی کافر قرار دینے کی مہم چلتی ہونگیں؟ یا وہ اس معاملے میں انسان کے مقلد ہیں؟
کیا انکے یہاں بھی مسلمان جنات کے علاوہ باقی سب ترقی یافتہ ہونگے؟
کیا انکے یہاں بھی امریکہ، اسرائیل اور سعودی عربجیسی طاقتیں موجود ہیں یا وہ ہمارے والوں پہ ہی گذارا کرتے ہیں؟
کیا انکے یہاں بھی مختلف احادیث کی روشنی میں مختلف فرقے ہونگے؟
کیا انکے بھی آپس میں جہاد ہوتے ہیں یا وہ ہمارے جہادوں میں ہی حصہ لے کر اپنی تسلی کرتے ہیں؟
کیا انکے ہاتھ ہوتے ہیں جن کے ناف پہ باندھنے اور نہ باندھنے کی وجہ سے مسلمان جنوں کے فرقے وجود میں آتے  ہوں؟
کیا انکی خواتین کے کان اور ناک ہوتی ہے جن پہ حجاب ٹہر سکے؟ کیا انکے یہاں مدنی اور مکی برقعے ہوتے ہیں؟
کیا جنات خواتین آدھی آستین یا بغیر آستین کے کپڑے پہنتی ہیں جن پہ مرد جنات بے غیرت کہلائے جائیں؟
کیا انکے یہاں بھی گل احمد اور الکرم کی لان کے اشتہار آتے ہیں، جن کی عریانیت پہ احتجاج کرنے کے واسطے خفیہ ورکنگ ویمن کی تنظیم  کروڑوں روپوں کے بینرز بنواتی ہے؟
کیا ان کے یہاں بھی غریب جنات عورتیں ان کروڑوں روپوں کے بینرز کے نیچے کھڑی ہو کر غربت کی وجہ سے اپنی عصمت کا سواد کرتی ہیں؟
کیا جنات خواتین اپنے گھروں میں بند رہنے پہ اللہ کی رحمت کی حقدار ٹہرتی ہیں؟
کیا مرد جنات اپنی خواتین کوقابو میں رکھنے کے فلسفوں پہ عمر گذارتے ہیں اور مولانا جنات انکی مدد اسی طرح کرتے ہیں جیسے ہمارے والے کرتے ہیں؟
ایک روایت کے مطابق ہماری پھینکی ہوئ ہڈیوں پہ سے اپنا کھانا چننے والے جنات کیا امیر اور غریب ہوتے ہیں؟
کیا انکے یہاں بھی نیک جنات کی قبر پہ مزار بنتے ہیں یا وہ نیک انسان کی قبر سے ہی گذارا کرتے ہیں؟
جنات تبلیغ کے لئے کسی اور سیارے پہ جاتے ہیں یا رائے ونڈ ہی آتے ہیں؟
انسانوں کے تبلیغی اجتماعات میں جنات موجود ہوتے ہیں لیکن وہ  انسان  کو تبلیغ کیوں نہیں کر سکتے ؟
اگر وہ زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پہ آباد ہیں انکے نماز اور روزے کے اوقات اور اس سے متعلق فقہ بھی الگ ہوگا۔ کیا انکے اپنے امام ہیں یا وہ انسانوں کے اماموں سے گذارا کرتے ہیں؟ 
اگر جنات مسلمان ہوتے ہیں تو عقیدہ ء آخرت انکے لئے بھی ہوگا۔ انکو بھی اعمال نیک و بد کا حساب دینا ہوگا۔
کیا انہیں بھی حوریں ملیں گی؟ چونکہ  وہ آگ سے بنے ہیں تو یقیناً انکی جنت کی ساخت اور حوریں الگ خصوصیات رکھتے ہونگے۔ کیا انکی ایک الگ جنت ہوگی؟
چونکہ وہ آگ سے بنے ہیں تو انکی دوزخ بھی الگ ہوگی اب انہیں اس دوزخ میں تو رکھا نہیں جا سکتا جس کی آگ کا خوف انسانوں کو دلایا جاتا ہے۔  کیا انکے لئے آگ کا ہی عذاب ہے یا کسی اور چیز کا؟
آخر خدا نے جنوں کو کیوں تخلیق کیا جبکہ انسان فساد کرنے کو کافی تھا؟

 نوٹ؛ اس سلسلے میں قارئین میں سے  کسی کے ذہن میں کوئ اور سوال ہو تو ضرور شامل کرے۔ اگر کوئ جواب دینا چاہتا ہے تو سو بسم اللہ۔
 

Thursday, October 13, 2011

حجاب، جزاک اللہ

جب ہم نے کینیڈا کےحسین شہر کیوبک سٹی میں سیاحوں کی رہنمائ کرنے والے ادارے سے معلوم کیا کہ  شہر میں جاری میلے کی کیا نوعیت ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہئیے تو اس نے بتایا کہ میلہ شہر کے پرانے حصے میں ہو رہا ہے۔ کیوبک سٹی کی مشہور آبشار پہ آج رات سالانہ آتشبازی کا خوبصورت مظاہرہ ہونے والا ہے لیکن گاڑی پارک کرنے کے لئے آپکو وہاں کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پہنچنا ہوگا۔ اسکے علاوہ پرانے شہر میں آج ایک سرکس بھی ہو رہا ہے ہر سال ہوتا ہے اور یہ نہ صرف مفت ہوتا ہے بلکہ بہت شاندار۔
ہم نے آتشبازی پہ سرکس کو ترجیح دی، اسکی وجہ پھر کسی تحریر میں۔ ہم وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے وہاں موجود تھے۔ لوگوں کا ایک جم غفیر۔ جہاں تک نظر اٹھائیں لوگ نظر آرہے تھے۔ اسکا انتظام ایک فلائ اوور کے نیچے کیا گیا تھا۔ ہر عمر کے عورت مرد اور بچے موجود۔
میں ایک پاکستانی خاتون دھڑکتے دل کے ساتھ وہاں موجود کہ یا الہی کہاں پھنس گئے۔ عورتوں کے لئے کوئ الگ انتظام نہیں۔ سب لوگ کھڑے ہیں، بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں۔
مگر پھر غور کیا، میرے اردگرد کوئ بھی عورت ہراساں نہیں تھی۔ ہر طرح کی سیاح عورتیں، مقامی فرانسیسی نسل کی حسین عورتیں، مختصر ترین کپڑوں میں اوراٹھارہویں صدی کے طویل عریض کپڑوں میں۔ سب خوش، بے فکر۔ پھر میرا دل کیوں دھڑک رہا تھا کہ ابھی کوئ چلتے چلتے ہاتھ نہ مار دے، چٹکی نہ لے لے، کوئ فحش بات کہتا ہوا نہ گذر جائے اور نہیں تو یہ ہی نہ کہہ ڈالے کہ دوپٹہ سر سے اوڑھو۔
شو شروع ہونے سے پہلے گھپ اندھیرا کر دیا گیا اب صرف سرکس والوں کی روشنیاں دائرے میں گھوم رہی تھیں۔ لیکن سب لوگ اب بھی مطمئن، میرے علاوہ کوئ بھی بے چین نہ تھا۔ اوہ خدا، اندھیرا، اتنے مرد و عورت ایک جگہ پہ۔ آخر یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ایک گھنٹے بعد یہ واقعی شاندار سرکس ختم ہوا۔ سوائے جانوروں کی پرفارمنس کے اس میں سب کچھ تھا اور پرفارمرز کی شاندار پرفارمنس وہ بھی مفت۔ کوئ نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آیا کوئ عورت کسی مرد کو ڈانٹتی پھٹکارتی نظر نہ آئ اور نہ خواتین نےخود بخود اپنا ایک الگ گروہ قائم کیا۔ ہلکی سی روشنی ہوئ۔
اب یقیناً نکلتے ہوئے دھکے لگیں گے۔ یا اللہ اب کیا ہوگا۔ اس ہجوم میں تو میرے ساتھی بھی نجانے کہاں گم ہو گئے، میرے ہمراہ نہیں۔ میں ہجوم کے ساتھ اپنی بچی کے اسٹرولر کو آہستہ آہستہ دھکا دیتی، محتاط انداز میں باہر روڈ پہ نکل آئ۔ درحقیقت کچھ بھی نہ ہوا۔ کوئ عورت گھبرائ ہوئ، سراسمیہ نہ تھی۔ دس منٹ بعد وہ جگہ ایسے صاف تھی جیسے یہاں کچھ  ہوا ہی نہ تھا۔ لیکن شاید خوف پاکستانی عورت کے اندر گوندھ دیا جاتا ہے۔
اسکے کچھ عرصے بعد میں پاکستان روانہ ہوئ۔ جہاز میں میری پڑوسی خاتون ، اپنے تین بچوں  اور شوہر کے ساتھ پشاور جا رہی تھیں۔ لگ بھگ پینتالیس کی پر کشش خاتون۔ ریشم کے نفیس کپڑوں اور گلے میں شیفون کا دوپٹہ ڈالے ہوئے۔ سفیدی مائل ہاتھوں پہ عنابی نیل پالش لگی ہوئ۔ بال تراشے ہوئے۔ کینیڈا میں گذشتہ دس سال سے مقیم، روزانہ اپنے بچوں کو خود ہائ وے کی پندرہ منٹ ڈرائیو کر کے اسکول پہنچانے والی خاتون۔ وہ تین سال بعد اپنی بیمار والدہ کو دیکھنے جا رہی تھیں۔  انہیں ایک دن اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں رکنا تھا اور پھر وہاں سے پشاور روانگی تھی۔
پائلٹ نے اعلان کیا کہ آئیندہ دس منٹ میں ہم اسلام آباد ائیر پورٹ پہ اترنے والے ہیں۔ انہوں نے اپنا ہینڈ بیگ کھولا شیفون کا دوپٹہ لپیٹ کر اس میں رکھا اور ایک بڑی سی چادر نکال  کر اسے اچھی طرح اپنے گرد لپیٹ لیا۔
کفار کے مردوں کے درمیان گلے میں دوپٹہ ڈال کر پھرنے والی خاتون نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک بڑی سی چادر نکال لی۔  حالانکہ ہمارے ملک میں سرکاری طور پہ اسکی کوئ پابندی نہیں۔ اور اسلام آباد ملک کا دارالخلافہ بھی ایسی کوئ ثقافت نہیں رکھتا۔
میں کراچی ایئر پورٹ پہ اترتی ہوں۔  میں نوٹ کرتی ہوں کہ اکثرمردوں کی نظریں خواتین کا بڑی دور تک تعاقب کرتی ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ اسکارف لئے ہوئے ہیں یا جینز شرٹ میں ہیں۔ میری بچی بھاگ کر اپنے باپ سے لپٹ جاتی ہیں۔ میرے شوہر مجھ سے ہاتھ ملاتے ہیں اور میرا ماتھا چومتے ہیں۔ لوگ اس منظر میں بھی بڑی دلچسپی لیتے ہیں۔ میں ہمیشہ اس پہ خجل ہو جاتی ہوں۔ حالانکہ وہ اسی طرح اپنی ماں اور بہنوں کا بھی استقبال کرتے ہیں۔ کیونکہ انکی زندگی کا بیشتر حصہ پاکستان سے باہر گذرا ہے۔
شہر میں داخل ہوتی ہوں۔  روڈ پہ بڑے بڑے بینرز لہرا رہے ہیں۔ عالمی یوم حجاب، چار ستمبر۔ اسکے چند دن بعد جب ملک میں عافیہ ڈے منایا جا رہا تھا۔ کراچی سے محض چند سومیل کے فاصلے پہ لاکھوں افراد سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے تھے۔ سیلاب جس نے انکی عورتوں کو گھر کی چار دیواری سے باہر لا کھڑا کیا تھا۔ کھلے آسمان کے نیچے پانی سے پناہ تلاش کرتی عورتیں، اپنی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے پاکستانی عوام سے حجاب کی نہیں کھانے کی طلبگار ہیں۔ یاد رہے یہ وہ ملک ہے جہاں پچھلے سال بھی سیلاب آیا تھا اور اگلے سال بھی آنے کی توقع ہے۔ اب وہی عالمی یوم حجاب منانے والے عوام سے اس آفت کے شکار لوگوں کے لئے صدقہ خیرات مانگ رہے تھے۔ انہوں نے پچھلے سال بھی مانگا اور امید ہے اگلے سال بھی مانگیں گے۔
ادھر نیٹ کی دنیا میں مختلف فورمز پہ مرد حضرات اس بات پہ اتنے متفکر نہیں کہ آخر سیلاب جیسی قدرتی آفات سے لڑنے کے لئے بھیک مانگنے، لوگوں کو بھیک کا عادی بنانے  اور بھیک بانٹنے کے بجائے کوئ باوقار منصوبہ بندی کی جائے۔ مردوں کی ایک بڑی تعداد جن ویڈیوز اور تصویروں کو ایکدوسرے سے شیئر کررہی ہے، پسندیدگی کے لئے کلک کر رہی ہے، جزاک اللہ کے نعرے بلند کر رہی ہے وہ خواتین کے حجاب کے متعلق ہے۔ مردوں کا یہ جوش و خروش دیکھ کر حیرانی بھی ہوتی ہے، ہنسی بھی آتی ہے اور تشویش بھی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں جب روم جل رہا تھا تو نیرو بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔


 

ایک ایسی ہی ویڈیو پہ جس میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئ تھی کہ جینز اور شرٹ میں ملبوس خواتین کی مرد عزت نہیں کرتے بلکہ اسکارف اور عبایہ پہننے والی خواتین کی عزت کرتے ہیں اور اس طرح حجاب کرنے والی خواتین مردانہ دسترس سے محفوظ ہوتی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ مغربی معاشرے میں جہاں خواتین مختصر ترین کپڑوں میں پھر رہی ہوتی ہیں  وہاں کے مرد ایسی نظریں جمائے نہیں بیٹھے ہوتے ہیں جیسی ہمارے یہاں اچھے خاصے کپڑے پہنے ہوئے خاتون پہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ جواب ملتا ہے اس لئے کہ وہاں  مرد اتنی پھیلی ہوئ فحاشی کی وجہ سے اسکے عادی ہو گئے ہیں۔ میں نے وہاں یہ جواب دینے سے گریز کیا کہ پھر کیا حرج ہے کہ یہاں  بھی مردوں کو عادی بنانے کے لئے فحاشی پھیلا دی جائے۔ تاکہ وہ کچھ دوسرے مسائل پہ بھی یکسو ہو کر توجہ کر سکیں۔
خواتین کی بے حیائ اور حجاب کے ان نعروں پہ تقاریر لکھنے والے مرد حضرات اکثر سب کے سب مغرب کی عورت کی تصویریں دیتے ہیں اور انکے معاشرے کا رونا روتے ہیں مگر یہی مرد حضرات اپنے ملک کی عورت کی تصاویر دیکھنے سے محروم رہتے ہیں۔ اور مسلسل اس عالم تبلیغ میں یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں دنیا کی بے حیا ترین خواتین پائ جاتی ہیں اور دنیا کے سب سے زیادہ غیرت مند مرد۔ ایک ناقابل یقین، مگر کلنگ کامبینیشن۔
یہ سب چیزیں تو اب روز کے قصے ہیں۔ مجھے کچھ عرصہ پہلے ایک جرمن سے اپنی گفگتو یاد آتی ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دنیا کے حقائق سے ناآشنا ایک ٹین ایجر ہی تھی اور میں نے اس سے بڑے فخر سے کہا تھا ہمارے یہاں عورت کو عزت حاصل کرنے کے لئے اپنی صلاحیت اور علم کا زور نہیں دکھانا ہوتا اسے عزت ملتی ہے کیونکہ وہ ایک عورت ہے۔ مجھے لگا تھا کہ اس نے حیرانی سے میری بات سنی۔ مگر اب احساس ہوتا ہے اس نے سوچا ہوگا، اونہہ کنوئیں کے مینڈک۔
حقیقت یہ ہے کہ اس پاکستان میں عورت کو صرف دوپٹے، اسکارف اور عبایہ کی وجہ سے عزت ملتی ہے۔ اگر ایک عورت رات کو محفل شراب میں مصروف رہے لیکن صبح اپنے سر پہ دوپٹہ جما کر نکلے تو اس سے زیادہ قابل عزت عورت کوئ اور نہیں وہ بھی نہیں  جو آپکے بچوں کا علاج کرتی ہو، انہیں تعلیم دیتی ہو آپکے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہو بس دوپٹہ سر پہ نہ لیتی ہو۔ یہی وجہ ہے ہماری پارلیمنٹ میں موجود خواتین ارکان کی اکثریت ملکی مسائل پہ کام کرنے کے بجائے ہمہ وقت اپنے دوپٹے صحیح  کرتی نظر آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب پنجاب کی ایک تعلیمی درسگاہ میں نقاب پوش مرد لوہے کے  سرئیے لے کر اندر گھس جاتے ہیں تو قابل تشویش بات ان مردوں کا اندر گھس کر ان بچیوں کو ہراساں کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس خبر پہ پنجاب کے رہنے مرد کا یہ تبصرہ ہوتا ہے کہ کیا ہوا اگر کچھ مردوں نے بے حیائ روکنے کے لئے یہ حرکت کر ڈالی۔
ویسے یہ بھی بڑا عجیب مشاہدہ ہے کہ خواتین کے حجاب کے سلسلے میں جس صوبے کے لوگ سب سے زیادہ چست نظر آتے ہیں وہ پاکستان کا صوبہ  پنجاب ہے۔
آئیے آج میں آپکو حقیقی پاکستانی خواتین کی تصویریں بھی دکھاتی ہوں۔ جنہیں دیکھنے سے حجاب کی مہم میں پیش پیش افراد شاید محروم ہیں۔ انہیں دیکھیئے اور بتائیے کہ کیا اس ملک کی عورت کو عالمی یوم حجاب کی ضرورت ہے۔ کیا اسے یہ چاہئیے کہ فرزند زمین حجاب کی ویڈیوز کو شیئر کریں ، فارورڈ کریں اور ان پہ جزاک اللہ کہیں۔