کھیل اپنے اختتام پہ پہنچا۔ اگرچہ بظاہر ہر کھیل کا بنیادی اصول یہ لگتا ہے کہ جو جیتا وہی سکندر۔ لیکن کھیلوں کے مقابلے کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ فتح یا شکست جس راستے سے کسی فریق تک پہنچتی ہے اسکی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے۔ شاندار کھیل، حریفوں کے داءو پیچ اور فتح یا شکست کو وقار سے سہنا یہ سب چیزیں بھی تو شائقین کو اپنی گرفت میں رکھتی ہیں۔ بہر حال کسی ایک کو جیتنا ہوتا ہے اور دوسرا شکست سے ہمکنار ہوتا ہے۔
سچ پوچھیں ، میں ان لوگوں میں شامل تھی جو کہ یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچ پائے گی۔ ایک ٹیم جو چند مہینے پہلے بد ترین بحران سے گذری۔ جس کے کھلاڑیوں پہ جوئے اور میچ فکسنگ کے مقدمات چل رہے ہوں۔ وہ اگر یہ پرفارمنس بھی دے تو بڑی بات ہے۔
کرکٹ وہ کھیل ہے جو انفرادی صلاحیتوں سے نہیں بلکہ ٹیم اسپرٹ کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ کیا ہمارا اپنے کھلاڑیوں سے یہ توقع رکھنا جائز ہے کہ وہ ایک بحران سے گذرنے کے بعد چند مہینوں میں اپنے اندر اتنی یگانگت، ایک دوسرے پہ اعتماد ، ایکدوسرے کی صلاحیتوں سے آگہی پیدا کر لیں گے، وہ ہم آہنگی پیدا کر لیں کہ ورلڈ کپ جیسے اعصابی تناءو والے مقابلے میں ہر قسم کا دباءو جھیل جائیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ چاہے اس کے لئے سترہ کروڑ لوگ دعا کریں۔ خدا کی سنت یہ نہیں کہ ساری دنیا کے لوگ یہ دعا کریں کہ سارس کی ہاتھی کی طرح سونڈ نکل آئے تو وہ انکا اپنے اوپر یقین برقرار رکھنے کے لئے ایسا کرے۔ یہ دعا جائز نہیں۔
چلیں میں نے فائنل کے لئے دو ٹیمیں منتخب کی تھیں۔ سری لنکا اور نیوزی لینڈ۔ نیوزی لینڈ تو نکل گئ۔ سری لنکا کے بارے میں کیا خیال ہے؟