Showing posts with label فور وہیل ڈرائیو. Show all posts
Showing posts with label فور وہیل ڈرائیو. Show all posts

Sunday, February 27, 2011

ساحل کے ساتھ-۴

 گذشتہ سے پیوستہ

رات کو تین بجے میکینک صاحب کے پہنچنے پہ یہ تناءو کم ہوا کہ گاڑی کا کیا ہوگا۔ اگلے دن ناشتے کے بعد وہ دونوں تو گاڑی کے ساتھ مصروف ہو گئے دوپہر تک یہ اعلان ہوا کہ گاڑی کی شافٹ ٹوٹ گئ ہے۔ اب یا تو ویلڈ ہو گی یا نئ لگے گی۔ نئ گوادر میں نہیں مل سکتی۔ ویلڈ ہونے کے امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اتنی سہولت وہاں حاصل نہیں کہ شافٹ کو صحیح پیمائش کے ساتھ جوڑا جا سکے۔  لیکن بہر حال وہ جا رہے ہیں کسی کی بائیک پہ مزید معلومات لینے کے لئے۔
میں نے اس دوران گھریلو امور انجام دئیے۔ ناشتے کی تیاری، کچن اور گھر کی صفائ، دوپہر کے کھانے کی تیاری، مشعل کی پڑھائ، پھر دوپہر کا کھانا، دوبارہ کچن کی صفائ۔ کمپیوٹر پہ تصاویر لوڈ کیں، کیمرے کی بیٹری چارج پہ لگائ۔ اسکے بعد جب مشعل کے اور خود کے صاف ہونے کی باری آئ تو سوچا کہ ساحل کا چکر لگا کر ذرا اور اچھی طرح گندے  ہو جائیں۔ سو ہم دونوں ماں بیٹی نے سر پہ دھوپ سے بچنے کے لئے ٹوپا لگایا، ساحل پہ پھرنے کے لئے مناسب چپل پہنیں کہ ہمارا ارادہ کچھ ہائیکنگ کرنے کا بھی تھا۔ میں نے ایک بیگ میں کیمرہ، پینے کے پانی کی بوتل، کچھ بسکٹ،بینڈ ایڈ اور وائپیس لیئے اسے کندھے پہ لٹکایا اور ہم دونوں باہر نکل گئے۔
گھر کے ساتھ ایک پہاڑ ہے ۔ جسکے قدموں میں ساحل کی موجیں آکر کھیلتی ہیں، سر پٹختی ہیں اور پتھروں سے ٹکرا کر اپنے موتی توڑتی ہیں پہاڑ سے چھوٹی بڑی چٹانیں ٹوٹ کر پانی میں ایستادہ ہیں  انکے پاس لا تعداد گول گول ہر شکل اور ساخت کے پتھر موجود ہیں۔ پہاڑ کے ساتھ  جیٹی بننے کی وجہ سے ان پتھروں کا  ایک بڑا ذخیرہ اسکے نیچے دب گیا۔ شور مچاتی لہروں کے ان پتھروں  سے ٹکراءو اور شرارت کے درمیان ترقی کی دیوار آ گئ۔   ایک خوبصورت منظر  تمام ہوا اور ایک نئ امید کھڑی ہو گئ۔ کیا یہ دی جانے والی قیمت اپنی صحیح قدر حاصل کر پائے گی؟
سو ہم بھی خاک سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ تونے وہ گنج ہائے گراں ما کیا کئے۔ لیکن اندازہ کہتا ہے کہ کیا کیئے ہونگے۔ خاک میں مل کر نئ خاک تشکیل دی ہوگی۔ اور کیا۔
 مجھے بتایا گیا کہ جہاں سے جیٹی کے روڈ کی حد ختم ہو رہی ہے وہاں یہ اب بھی موجود ہے۔ زیر تعمیر روڈ سطح ساحل سے  خاصہ اونچا ہے۔ بڑے بڑے پتھروں کو  ٹرالر سے لا کر پہاڑ کے ساتھ بچھایا گیا ہے اور اس پہ مٹی کی تہہ جمائ گئ۔ ابھی یہ اس مرحلے سے گذر رہا ہے۔ نچلے حصے کو لو ٹائڈ کے وقت مقامی لوگ  بیت الخلاء کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔ ہائ ٹائڈ میں غلاظت سمندر میں چلی جاتی ہے۔ سمندر کا مد و جذر چاند سے ربط کوہی نہیں تلاش کرتا بلکہ اپنے ساحل کواجلا رکھنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
ہم دونوں اس روڈ پہ چلتے چلے گئے۔ مشعل کو یہ روڈ اچھا لگا کہ اس پہ وافر مقدار میں اڑانے کے لئے مٹی موجود تھی۔ پہاڑ کی نا ہموار اور مشکل سطحوں پہ کہیں کہیں نظر آنے والی نباتاتی حیات کی کھوج میں انکو سر کرلینے والی ضدی اور ہٹیل بکریاں جگالی کر رہی تھیں۔ شاید اسی لئے بکری ایک آسمانی برج کا علامتی نشان ہے۔ 


راستے میں ایک نیا تعمیر شدہ مزار نظر آیا۔ یہ میں نے پہلے یہاں نہیں دیکھا تھا روڈ کی تعمیر کے ساتھ مستقبل پہ نظر رکھنے والوں نے اسکے پھلنے پھولنے کے امکان بھی دیکھے ہونگے ۔ ایسے مزار بیک وقت مستقبل کے خوف اور  بہتر امید کا  ایک نشان ہوتے ہیں۔ ہم سے آگے دو بلوچی خواتین جا رہی تھیں جو اس مزار کی عمارت میں داخل ہو گئیں۔ یہ کاروبار، کبھی ماندہ نہیں جاتا۔ جب بادشاہ انصاف سے آگاہ نہ ہو تو نہ معلوم فقیر کی تربت پہ عوام کا رش رہنا کوئ قابل حیرانی بات نہیں۔ تقریباً چار پانچ سو گز چلنے کے بعد روڈ سمندر کے اندر مڑ گیا اور ہم پہاڑ کی طرف اتر گئے۔



پتھروں کا زیادہ بڑا ذخیرہ تو زیر تعمیر روڈ میں دب چکا ہے۔ مگر اب بھی کچھ یہاں باقی ہے۔ ان پتھروں میں سے وہ پتھر زیادہ دلچسپ ہیں جن پہ رکاذ موجود ہیں۔ ایسے بہت سے رکاذی پتھر میں نے یہاں اس وقت جمع کئیے جب مشعل دنیا میں نہیں آئ تھی۔ یہ اب بھی میرے خزانے میں شامل ہیں۔
یہ رکاز زیادہ تر سیپیوں کے ہیں۔ یہاں پہاڑ زیادہ تر مٹی کے ہیں۔ اس پہاڑ کے اوپری حصے سے مٹی کے جو ٹکڑے گرتے ہیں وہ سمندر کے پانی سے پہلے نرم ہوجاتے ہیں۔ ان پہ اگر کوئ سمندری سیپی چپکی رہ جائے تو وقت کے ساتھ سیپی کے باقیات جھڑ جاتے ہیں اور اسکے نشان باقی رہ جاتے ہیں۔



دنیا کی تاریخ میں ان رکاذات کا بڑا حصہ ہے۔ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے نا پید ہو جانے والے جانور ڈائینا سور بھی اپنے رکاذات کی مدد سے دریافت کئے گئے ہیں۔ ان سے جہاں ہمیں یہ اندازہوتا ہے کہ دنیا میں حیات اندازاً کتنی پرانی ہے اور اس حیات میں سے کتنے ایسے ہیں جو اب نہیں یا کتنے ایسے ہیں جو اب بالکل بدل گئے ہیں ارتقاء کی وجہ سے۔ وہیں یہی رکاذ، کہیں زمین کی تہوں میں تیل کی دولت بھر دیتے ہیں، پتھروں میں ہیرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ لاکھوں سال پرانی خاک یا زمین کی تہوں میں سے اسے ڈھونڈھ نکالنا  ایک علم بھی ہے اور انسان کے شوق پیہم کا ثبوت بھی۔
مجھے معلوم تھا مشعل کو یہ جگہ پسند آئے گی۔ ایسا ہی ہوا۔ کم از کم مشعل کو یہ پتہ چل گیا کہ رکاذ یا فوسلز کیا ہوتے ہیں۔ ہم دونوں نے مل کر سیپیاں اور رکاذی پتھر جمع کئیے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو تحفے میں دینے کے لئے۔ ایک خوبصورت چھوٹا سا رکاذی پتھر مشعل کی اسکول ٹیچر کے لئے۔ اپنے سی شلیز کے ذخیرے میں سے مشعل نے کسی کو کچھ بھی دینے سے صاف انکار کر دیا۔  'اس وقت میں اچھی بچی نہیں ہوں، میں کچھ شیئر نہیں کر سکتی'۔
جس طرح ایک انسان ہمہ وقت ہر ایک کے لئے اچھا نہیں ہو سکتا اسی طرح ایک انسان ہر وقت  اچھا بھی نہیں ہو سکتا۔ البتہ اسے تیار رہنا چاہئیے کہ وہ یہ جملہ سنے گا کہ وہ اچھا نہیں ہے۔ مشعل نے اسکی تیاری کر لی۔ بچے ظالمانہ حد تک صاف گو کیوں ہوتے ہیں؟
یہیں سے مجھے ایک دلچسپ چیز، مرجان کا ایک ٹوٹا ہوا ٹکڑا ملا۔ پاکستان کے ساحلوں میں بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سمندر میں مرجان کی چٹانیں نہیں ہیں۔ لیکن پتھروں کے اس ڈھیر میں، میں نے اسے پا لیا۔ ہمم ، تو ایسا نہیں ہے کہ بالکل نہیں ہے۔ موجود ہیں لیکن یہ کہ مرجان، سمندر کے پانی کی حرارت اور آلودگی سے بہت متائثر ہوتے یں۔





یہ جگہ مراقبے کے لئے بھی بڑی اچھی ہے۔ سمندر کی آواز کو بعض اوقات مراقبے کی مشقوں میں استعمال کیا جاتا ہے  توجہ کے ارتکاز کے لئے۔ سمندر میں ایک وسعت اور اسرار ہوتا ہے اور اسکی آوازمیں ایک ردھم،  ولولہ اور امید۔ اسکی لہروں میں وہ طاقت ہوتی ہے کہ سخت چٹانوں کو ریزہ کر دیتی ہیں۔ لیکن اس میں وہ طلسم بھی ہوتا ہے جو اسی ریزے کو بیش قیمت موتی میں  تبدیل کر ڈالتا ہے۔



ہمارے علاوہ یہاں کوئ اور نہ تھا۔  ایک بھرپور وقت گذار کر ہم لوٹے۔ کچے روڈ پہ ٹرکس پتھر اور مٹی لے کررواں۔ اکّا دکّا لوگ نئے بننے والے بند کے کنارے پہ کھڑے منظر میں مگن۔ اجنبی ہونے کے ناطے  ایک اشتیاق بھرے تجسس سے دیکھتے ہیں اور بس۔ ہم پلٹے اور آبادی کے قریب پہنچ کر روڈ کے ڈھلان سے اترنے لگے۔ ایک پر سکون مچھیروں کی آبادی ہمارے سامنے پھیلی ہوئ تھی جس کے کنارے وہ گھر تھا جہاں اس وقت ہماری رہائیش تھی۔ میری نظریں اس تمام منظر سے گذرتی ہوئیں اس گھر کی پچھلی دیواروں پہ رک گئیں۔ اس پہ کوئلے سے بڑے بڑے حروف میں پنجابیوں کے متعلق گالی نما تضحیک آمیز جملہ لکھا ہوا تھا۔ یہ میں نے پہلے یہاں کبھی لکھا ہوا نہیں دیکھا تھا۔ کبھی گوادر کی کسی دیوار پہ نہیں۔ اس پہ کسی پنجابی قاری کو سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بلوچستان اور سندھ کے اندرونی علاقوں میں ہر غیر مقامی کو پنجابی سمجھا جاتا ہے۔ ورنہ اس مکان کے مکین اور نہ مالک کوئ بھی پنجابی نہیں۔
 اس دیوار پہ یہ لکھا دیکھ کر شاید تھوڑی سی دیر کو میرے اندر تشویش کی ایک لہر اٹھی۔ لیکن پچھلے دو دنوں کی یادداشت نے اسے فوراً دھودیا۔
میں اسے اپنے کمیرے میں محفوظ کرنا چاہتی تھی مگر معلوم ہوا کہ بیٹری بے جان ہے اسے چارجنگ کی ضرورت ے۔ بیٹری عمر رسیدگی کے مراحل طے کر رہی ہے۔ اوربہت کم مدت کے لئے چارج ہوتی ہے۔ اسے تو ، ایک دفعہ پھر چارج کر لونگی اس کا طریقہ مجھے آتا ہے۔ لیکن قوموں کو کس طرح چارج کیا جاتا ہے، یہ جاننا ابھی باقی ہے۔ اس دیواری نوشتہ پہ بی ایس او اور بی ایل اے بھی لکھا تھا۔
یہ بی ایس او اور بی ایل اے کیا ہیں؟

جاری ہے 

Friday, February 18, 2011

ساحل کے ساتھ-۲

کوسٹل ہائ وے پہ کچھ دور چلنے کے بعد پہلی رینجرز کی چوکی پڑی۔ یہاں گاڑی کا نمبر, اپنا نام اور منزل مقصود  درج کروانا پڑتا ہے۔  گاڑی رکی ہوئ تھی اور قریب کھڑے سپاہی سے مشعل نے تعلقات بنانے کی کوشش کی۔ وہ بھی نزدیک آگیا پھر مجھ سے کہنے لگا میری بھی اتنی بڑی ایک بیٹی ہے۔  پوچھا کہاں سے تعلق ہے جواب ملا راولپنڈی سے۔ 
یہاں مجھے نصیحت کر دی گئ تھی کہ کسی بھی ایسی سیکیوریٹی کی جگہ یا اس سے تعلق رکھنے والے شخص کی تصویر بالکل نہیں بنانا۔ سو میں مشعل اور سپاہی کی باتیں سنتی رہی۔ وہ شاید اپنی پنڈی میں رہنے والی بیٹی سے باتیں کر رہا تھا۔
ہمیں دن کے کھانے کے لئے ارماڑہ پہ رکنا تھا۔ امیدتھی کہ دوپہر ڈیڑھ دو بجے تک پہنچ جائیں گے۔ راستے میں کنڈ ملیر کے خوبصورت ساحل کو چھونے کے لئیے رکے۔

پھر یہ کہ راستے میں جو پٹھان کے ہوٹل ملتے ہیں ان میں یا تو بیت الخلاء نہیں ہوتا یا قابل استعمال نہیں ہوتا۔
اس سلسلے میں خواتین کے حیاتیاتی نظام کے متعلق وہی نظریات ہیں جو مریخ کے رہائیشیوں کے زہرہ کے رہنے والوں کے متعلق ہونگے۔
انگریزی شاعر، بائرن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نوالہ حلق میں ڈالنے، چبانے اور حلق سے اتارنے کو اس قدر غیر نفیس فعل سمجھتا تھا کہ کسی عورت کو کچھ بھی کھاتے دیکھ نہ سکتا تھا۔ جو کھاتے نہ دیکھ سکتا ہو وہ یہی سوچتا ہو گا کہ بیت الخلاء کی خواتین کو کیا ضرورت۔
لیکن چونکہ قدرت ان نظریات پہ یقین نہیں رکھتی تو ہم سب نے ان سے فراغت کے لئے بھی راستے کے ٹیلے چنے۔
ارماڑہ کے ساحل پہ پچھلے ایک سال میں ایک پٹھان کا ہوٹل بن گیا ہے جو عام طور پہ پاکستان میں ہائ ویز کے کنارے ہوتے ہیں۔ میں نے گاڑی سے کھانے کا سامان اور پانی لیا، مشعل ہاتھ پکڑا اور اندر کی طرف چلی۔ ایک بارہ تیرہ سالہ پٹھان بچہ دوڑتا ہوا آیا۔ اور ایک طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔ لیڈیز ادھر اے۔ میں نے اسے دیکھا، پھر  اپنے ہاتھ میں کھانے کے سامان کو اور پھر پیچھے گاڑی کو بند کرنے والے صاحب کو۔ نہیں ہم سب یہاں میز پہ کھائیں گے۔ میں نے ہوٹل کے مرکزی ہال کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں کرسیاں اور میزیں  بھی موجود تھیں اور فرشی دسترخوان بھی بچھا ہوا تھا۔
جتنی دیر میں صاحب ہاتھ دھو کر فارغ ہوتے میں نے ہوٹل کے اطراف کا جائزہ لیا۔ سامنے ایک چھوٹی سی کمرہ نما جگہ پہ لکھا تھا چپل منہ ہے۔ میں نے اسے ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی یہ کیسا محاورہ ہے۔ کس کا منہ چپل ہے۔ پھر اس میں جھانک کر دیکھا۔ یہ ایک وضو خانہ تھا اور لکھنے والے نے شاید چپل  پہن کر اندر جانا منع ہے لکھنے کی کوشش کی تھی۔


ارماڑہ، گوادر اور کراچی کے  تقریباً وسط میں ہے۔  یہاں سے پسنی تقریباً دو گھنٹے اور وہاں سے گوادر ڈیڑھ گھنٹے۔ یوں تین بجے جب ہم گاڑی میں سوار ہوئے تو تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کا سفر باقی تھا۔
گاڑی سو میل کی رفتار سے سیدھے ہموار روڈ پہ دوڑے جا رہی تھی۔ گاڑی چلانے والے صاحب جیسے ٹرانس کی حالت میں بیٹھے تھے یا مراقبہ کر رہے تھے۔ میں اگرمخاطب کرتی تو صاف لگتا کہ  کسی دور دراز کے خلائ سیارے سے جواب آ رہا ہے۔ ہونٹوں پہ وہی مسکراہٹ جو گوتم بدھ کو نروان کے بعد حاصل ہوئ اور انہیں شاید اپنی پیدائیش پہ۔  

دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈیا نے ۱۹۷۴ میں جو پہلا ایٹمی دھماکا کیا تھا وہ بھی اسمائیلنگ بدّھا کہلاتا ہے۔ معلوم نہیں بدھا اس دھماکے پہ عالم برزخ میں مسکرائے یا تلملائے۔  یا مغل اعظم کا یہ گانا دیکھتے رہے کہ تمہاری دنیا سے جا رہے ہیں اٹھو ہمارا سلام لے لو۔


لیکن اس ساری تپسیا میں کہیں سے اپسرا مانیکا آ گئیں۔ رشی کا دھیان توڑنے کے واسطے۔  اور آواز آئ۔ اوہ یار۔ کیا ہوا؟  گاڑی سائیڈ پہ کرنے دیں۔ شاید شافٹ ٹوٹ گئ ہے یا کلچ پلیٹ۔ گاڑی ایک سآئیڈ میں ہو گئ۔ گیئر فری ہو گیا ہے اور اب گاڑی نہیں چل سکتی۔ ہم کراچی سے تقریبا سوا چار سو کلو میٹر کے فاصلے پہ گوادر سے تقریباً سوا دو سو کلومیٹر دور تھے۔ قسمت کی خوبی دیکھئیے، ٹوٹی کہاں کمند۔
اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ میں خاصی رجائیت پسند ہوں۔ سر پہ ہاتھ مارنے کے بجائے مجھے خیال آیا کہ شکر ہے کنڈ ملیر کے علاقے میں یہ نہیں ہوا ورنہ پہاڑی پیچ و خم  اور ڈھلانوں میں پھنس جاتے اوربڑا برا ہوتا۔ ابھی تو گوادر تک میدانی علاقہ ہے۔
اب جو آپشنزتھے ان میں سے ایک یہ کہ گاڑی کو  ٹو کرنے والا مل جائے تو کراچی تک کھینچ کر لے جائ جائے ۔ یہ نا ممکن تھا پچھلا سارا رستہ پہاڑی چڑہائیوں اترائیوں کا تھا اور یہ فاصلہ نہ صرف زیادہ بلکہ رسکی بھی تھا ۔  سوا چار سو کلو میٹرکا فاصلہ کوئ کھینچنے پہ راضی نہیں ہو گا۔  گوادر تک بھی کوئ کیسے ٹو کر سکتا ہے۔ گاڑی اتنی بڑی ہے۔ اسے کوئ ٹرک ہی کھینچ سکتا ہے۔
 ویرانے میں گفتگو شروع ہوئ۔ اچھا ایک بات تو طے ہے۔ ہمیں کراچی واپس جانا ہے تاکہ آپ اور مشعل کم از کم آرام سے ہو جائیں۔ گاڑی کو یہی چھوڑنا پڑے گا۔ وہاں سے میکینک لے کر واپس آتے ہیں۔
کراچی واپس کیسے جائیں گے۔ گوادر سے چلنے والی بس رات  نو بجے سے پہلے نہیں نکلے گی اور یہاں  بارہ بجے تک پہنچے گی۔
اس وقت شام کے چار بج رہے ہیں۔ اس ویرانے میں کسی گاڑی سے لفٹ لینی پڑے گی۔ لیکن اس سے پہلے تمام قیمتی اور ضروری سامان دو بیگز میں کر لیا جائے۔ باقی سب گاڑی میں چھوڑنا پڑے گا۔
 ہم نئ صورت حال کے لئے تیار ہونے لگے۔ مشعل کو بڑا صدمہ ہوگا وہ اس وقت سو رہی تھی۔ میں نے سوچا۔ آجکل گوادر میں کاروباری سرگرمیاں ایک دم ماند پڑ گئ ہیں اس لئے روڈ پہ کافی دیر بعد کوئ گاڑی نظر آتی تھی۔ پتہ نہیں اب کیسے کوئ گاڑی کراچی کے لئے ملے گی۔
سامان کو دوبارہ ترتیب کر کے فارغ ہوئے تھے کہ قریب سے آٹے کی بوریوں سے لدا ایک مقامی طرز کا ٹرک گذرا۔ ڈرائیور نے ہاتھ ہلا کر خیریت دریافت کی۔ یہ تو خود اتنا لدا ہوا ہے یہ ہمیں کیا گودار تک کھینچ کر لے جائے گا۔ میں نے سوچا۔ اور مزید سوچا۔ اگر ہم گوادر پہنچ جائیں تو گاڑی ایک محفوط مقام پہ ہوگی اور ہم تناءو سے آزاد۔ مگر کیسے؟
 توقع کے بر خلاف ٹرک آگے جا کر رک گیا۔ تین افراد باہر آئے۔ صورت حال جان کر انہوں نے پسنی تک ٹو کرنے کی پیش کش کر دی۔ پسنی میں رینجرز کی چوکی ہے وہاں چھوڑیں گے تو گاڑی زیادہ محفوظ رہے گی۔ اور ہم وہاں سے کراچی کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔ ایک امید باندھ کر گاڑی  کو ٹرک کے ساتھ رشتہ ء ضرورت  کی ڈور سے باندھ دیا گیا۔ ہوا اتنی تیز تھی کے گاڑی کا بونٹ اڑا جا رہا تھا۔ بہر حال ٹرک کے پیچھے بہت سوں کی تصوراتی مثالی مسلمان خاتون کی طرح گاڑی چل پڑی۔

 اسٹیئرنگ سختی سے پکڑے، گاڑی اور ٹرک کے درمیان تنی رسی پہ آنکھیں جمائے صاحب سے میں نے ایک ماہر ٹی وی اینکر کی طرح پوچھا، کہاں آپ سو میل کی رفتار سے اڑے جا رہے تھے اور ا ب آپکو زیادہ سے زیادہ چالیس کی رفتار سے رینگنا پڑ رہا ہے۔ خرگوش سے کچھوے کی اس کایا کلپ پہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں ؟ اس ظالمانہ سوال پہ انہوں نے ایک نگاہ صحیح انداز ، یعنی مار سوٹئ ایہہ والے انداز سے دیکھا اور منہ پھیر لیا۔
یوسف اسکو کہوں، اور کچھ نہ کہے، خیر ہوئ
گر بگڑ بیٹھےتو میں لائق تعزیر بھی تھا

جاری ہے۔