Showing posts with label ازبکستان. Show all posts
Showing posts with label ازبکستان. Show all posts

Tuesday, April 20, 2010

کون بنے گا قفال شاشی

وہ شہر کا مشہور قفال یعنی قفل یا تالے بنانے والا تھآ۔ اور اس معاملے میں اسکی شہرت دور دور تک تھی۔ بادشاہ بھی اسکی مہارت کے قدر دانوں میں سے تھا۔ اور اس وجہ سے اسے بھی اپنے اوپر اپنے  بڑا فخر تھا۔ 
اپنی قفل سازی کے مختلف نمونوں کی تعریف بادشاہ سے سننے کے لئے وہ بڑی محنت سے اپنے نمونوں پہ کام کرتا اور بادشاہ کے دربار میں انہیں لیکر حاضر ہوتا۔  بادشاہ بھی اس معاملے میں بخیل نہ تھا۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا۔ بادشاہ لوگوں سے ملاقات کر رہا تھآ اور قفال شاشی خاموشی سے بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے کہ کب شرف باریابی ہو اور وہ اپنی مہارت کا ایک اعلی نمونہ بادشاہ کو دکھائیں۔ خدا خدا کر کے انکی باری آئ اور ابھی بادشاہ نے انکی تخلیق کو دیکھنا شروع ہی کیا تھا اور قفال شاشی اس لمحے کے لئے ہمہ تن گوش تھے کہ کب بادشاہ کے منہ سے تحسین کے الفاظ نکلیں کہ غلام نے ایک شخص کے آنے کا اعلان کیا۔  بادشاہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑا انکی مہارت کا نمونہ ایک طرف رکھا اور آنیوالے شخص کی تعظیم میں کھڑا ہو گیا۔ وہ شخص جب دربار میں داخل ہوا تو بادشاہ نے اسے اپنے برابر جگہ دی۔ یہ وہ تعظیم تھی جو ہزارہا تعریف کے باوجود کبھی بادشاہ نے انہیں نہ دی تھی۔ قفال شاشی کے دل کو دھچکہ پہنچا۔ یہ کون ہے جس نےانکے فخر کو دھندلا دیا۔
 معلوم ہوا کہ وہ شہر کے مشہور عالم ہیں۔ اس دن قفال شاشی کا دل بجھ گیا۔
وہ گھر واپس آئے اور اپنے اوزار ایک طرف رکھ دئے۔ اگلے دن سے قفال شاشی کی انگلیوں نے لوہے کی کھٹ پٹ چھوڑ کر کتاب کے اوراق پلٹنے شروع کر دئے۔
امام ابو بکر ابن علی ابن اسمعیل القفال الشاشی اسلام علوم حدیث، صرف و نحو کے بڑے عالم بنے۔ انہوں نے علم کی تحصیل کے لئے دوردراز کے علاقوں کا سفر کیا۔ وہ ایک بڑے شاعر بھی تھے۔ الحکیم کا کہنا تھا کہ وہ جنوبی عراق میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص تھے۔
انکا مقبرہ ازبکستان میں ہے۔ اس مقبرے کے داخلی دروازے کی بلندی کم رکھی گئ ہے تاکہ جو بھی اس میں داخل ہو اس عالم کی علمیت کی شان میں اپنے سر کو جھکا کر تعظیم دے۔
بادشاہ کے دربار میں بجھے ہوئے قفال شاشی کے دل نے  فخر اورعظمت کی وہ شمع جلائ جو رہتی دنیا تک جلتی رہے گی۔
حوالہ؛