Showing posts with label کشمیر. Show all posts
Showing posts with label کشمیر. Show all posts

Friday, July 9, 2010

محافظ

مظفر گڑھ، میر والا میں دو خواتین جو کہ ماں بیٹی تھیں۔ چودہ افراد نے برہنہ کر کے سر بازار پھرایا اور پھر انکی اچھی طرح پٹائ لگائ۔ ماں کی عمر پچاس کے قریب اور بیٹی کی عمر محض چودہ سال تھی۔
یہ واقعات یا اس سے ملتے جلتے واقعات تیسری دنیا کے غریب ممالک میں پیش آتے رہتے ہیں۔
 اس قسم کا پہلا واقعہ جس نے شہرت حاصل کی ضیاء الحق کے زمانے میں نواب پور میں پیش آیا۔ پچھلے چند سالوں میں اس قسم کے واقعات کی شدت میں اضافہ ہو اہے۔ آخر خواتین کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اگر ہم دیکھیں تو  بھارت میں بھی ایسے واقعات پیش ہوتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پہ ان ممالک میں جہاں زمینداری کا نظام قائم ہے ہے یا کچھ عرصے پہلے تک قائم تھا۔ خواتین کے ساتھ اس ہتک آمیز سلوک کی بنیادی وجہ انہیں مال مویشی کی طرح جائداد کا حصہ سمجھنا ہوتا ہے۔ جس طرح ایک زمیندار اپنی زمین کے بارے میں، اپنے مویشیوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنی عورتوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور ٹھیک اسی طرح اگر کسی زمیندار کو اسکی زمین پہ کھڑی فصل کو تباہ کر کے نقصان سے دوچار کیا جا سکتا ہے اسی طرح ایک مرد کو زیادہ بہتر طور پہ ذلت سے دوچار کرنے کے لئے انکی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی سے لیکر برہنہ پھرانے کے واقعات سمیت تک ہر چیز روا رکھنا جائز ہے بلکہ افضل ہے کہ مخالف پہ ایسی چوٹ لگتی ہے جس کے عذاب سے وہ ساری زندگی کیا کئ نسلیں نہیں نکل سکتا۔
ہمارے یہاں اسے غیرت اور عزت کے ساتھ وابستہ قرار دیا جاتا ہے اور یوں قبیلے اور خاندان کی عزت کی ضامن عورتیں ہو جاتی ہیں۔ اغوا ہونے والی عورت اگر رہائ بھی پالے تو اسکا احسن انجام موت ٹہرتا ہے کہ اسکی زندگی پورے قبیلے اور خاندان کی غیرت کی موت ہوتی ہے۔ عصمت کا تصور خالصتاً ایک عورت کے ساتھ وابستہ ہے، مرد اس سے مبرا ہیں۔ اور اس وجہ سے مرد جتنے چاہے ناجائز جنسی تعلقات رکھیں،یہ انکی امارت کی علامت یا مردانگی کی تعریف تو ہو سکتا ہے مگر اس سے خاندان کی نیک نامی پہ دھبہ نہیں آتا۔ اسکی شادی کے مسائل یا معاشرے میں با عزت زندگی گذارنے کے خواب چکنا چور نہیں ہوتے۔  اسکے اس جرم کی وجہ سے کوئ اور قبیلہ یا قوم انہیں موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے لیکن اسکے اپنے قبیلے والے ایسا نہیں کریں گے۔ وہ جواں مرد اپنے قبیلے کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے۔
یہ سوچ، زمینداری کے نظام سے اس لئے جنم لیتا ہے کہ ایک جسمانی طور پہ طاقتور مرد اپنی زمین سے زیادہ پیداوار حاصل کر سکتا ہے۔ جسمانی طور پہ زیادہ طاقتور مرد، زیادہ خوشحالی کا باعث بنیں گے جبکہ خواتین نئے مرد بچے پیدا کر کے زیادہ خوشحال میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ اس لئے ایک مثالی زمیندار نظام میں اس عورت کی آءو بھگت بھی زیادہ ہوتی ہے جو زیادہ مرد بچوں کو پیدا کر چکی ہو۔ یا کم از کم ایک وارث مرد بچہ تو رکھتی ہو۔
اگر افریقی ممالک کی طرف نظر کریں ۔ جہاں کچھ قبائل میں عورت اور مرد کی تخصیص نہیں ہے وہاں مجھے ایک افریقن ملک کیمرون کی خاتون نے بتایا کہ شادی کے لئے ہمارے یہاں اس لڑکی کو ترجیح دی جاتی ہے جسکے شادی سے پہلے بچے ہوں۔ چاہے کسی بھی مرد سے ہوں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بچے پیدا کر سکتی ہے۔ اس طرح اس سوچ سے متائثرہ نظام میں ایک ایسی عورت کی اہمیت نہیں رہتی جو بچے پیدا نہیں کر سکتی۔ کسی بھی قدرتی وجہ سے۔ خیر یہ اایک الگ موضوع ہے۔
سر دست، ہمیں معاشرے کے اس اٹھان پہ غور کرنا ہے جہاں خواتین کو بھی انسان تصور کیا جائے۔ ایسا انسان جسے سر بازار، بقائمی ء ہوش و حواس، بزور قوت برہنہ گھمائے جانے پہ نفسیاتی اور روحانی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ صرف عورت کے اوپر عزت اور غیرت کی بھاری ذمہ دریاں نہ ڈالی جائیں  جسکے نتیجے میں اسے زندگی جیسی مسحور کن نعمت سے محروم کر دیا جائے۔ زندگی کی مسرتوں پہ ہر ایک کا حق ہے۔ انسان ہونے کا احترم اور شرف ہر ایک کو حاصل ہے۔