Showing posts with label این ای ڈی انجینیئرنگ یونیورسٹی. Show all posts
Showing posts with label این ای ڈی انجینیئرنگ یونیورسٹی. Show all posts

Friday, April 6, 2012

ایک نوحہ

پورے ایک سال گذرنے کے بعد مجھے داءود انجینیئرنگ کالج کراچی سے خط ملا کہ وہ جو آپ نے سال بھر پہلے ہمارے اشتہار کے سلسلے میں درخواست بھیجی تھی لیکچرر شپ کے لئے، اسکے انٹرویو ہو رہے ہیں آپ آجائیے۔
مقررہ تاریخ پہ صبح ساڑھے آٹھ بجے ہم وہاں موجود تھے۔ گھنٹہ بھر انتظار کے بعد اطلاع ملی کہ ابھی تھوڑی دیر میں ایک تحریری امتحان ہو گا۔ ممتحن آجائیں تو آپکو بلاتے ہیں۔ اسکے دو گھنٹے بعد پتہ چلا کہ ٹیسٹ کا ارداہ موقوف ہو گیا ہے۔ اب صرف انٹرویو ہونگے۔ انٹرویو بورڈ کے سارے ارکان آجائیں تو انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوگا۔
 سہانی صبح ڈھل چکی نجانے کب تم آءوگے۔
دن کے دو بجے ہم سب امیدوار دھوپ سے بھرے لان میں بیٹھے، آتی ہوئ کھانوں کی ان قابوں کو دیکھ رہے تھے جو اس کمرے میں جارہی تھیں جہاں انٹرویو ہونا تھا۔ دن کو تین بجے پہلا امیدوار اندر طلب ہوا۔ پون گھنٹے بعد وہ باہر نکلا پندرہ منٹ کے بعد دوسرا امیدوار طلب ہوا۔ ہم وہاں پہ کوئ پندرہ لوگ موجود تھے۔
میں نے ایک آسان سا حساب کیا کہ شام کو پانچ چھ بجے تک کیا صورت حال ہوگی۔  میری توقع کے مطابق شام کو پانچ بجے دو امیدواروں کے انٹرویو کے بعد ہمیں اطلاع دی گئ کہ آج انٹرویو ختم کئے جاتے ہیں  اسکی نئ تاریخ سےآپ کو جلد آگاہ کیا جائے گا۔
تین سال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے بعد وہ نئ مبارک تاریخ آئ۔ ایک دفعہ پھر امیدوار وہاں موجود ، اس دفعہ پہلے سے کم۔ کچھ اس دوران دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے ہونگے۔ یہ کوئ محبوب کی زلف تو نہ تھی کہ اسی کو سر کرنے میں گذار دیتے۔
 ایک دفعہ پھر یہ پیغام کہ ابھی ایک تحریری ٹیسٹ ہوگا۔  لیکن اس دفعہ ریکارڈ توڑنے یا  رکھنے کے لئے ہمیں ڈھائ گھنٹے کے بعد  ٹیسٹ کے لئے بلا ہی لیا گیا۔ ٹیسٹ لینے والے نے پوچھا آپ سب کے پاس کاغذ اور قلم ہے۔ سب کے پاس قلم تھے لیکن ایسا کوئ معتبر کاغذ نہ تھا جس پہ ٹیسٹ دیا جا سکے۔ ہم سب بےوقوفوں کو کالج کی اس غربت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ ہم نے اپنے آپ تف بھیجی اور شرمندگی سے سرجھکا دئیے۔ انہوں نےطنزیہ مسکراہٹ سے ہمیں ذلیل کرتے ہوئے کہا اچھا انتظار  کریں آپکو کاغذ فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ہم سب کو ایک ایک کاغذ دیا گیا۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
اب آگے ہنسنا منع ہے کیونکہ اسکے بعد ان صاحب نے کہا ایسا ہے کہ میں  کچھ سوالات املا کرا دیتا ہوں وہ آپ اپنے پاس لکھ لیجئیے۔ پھر انہوں نے چار سوال املا کرائے۔ فی البدیہہ املا کرائے جانے والے سوالات میں غلطیاں تھیں جن کی نشاندہی پہ متعلقہ صاحب نے انتہائ بڑکپن کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں تبدیل کر دیا۔ ایسی بڑائ کی تعریف کرنا بے جا نہیں۔
آدھ گھنٹے بعد ہم سے کاغذ ، معاف کیجئیے گا ٹیسٹ پیپر لینے کے بعد ہمیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ بعد کے واقعات سے یہ بد گمانی پیدا ہوتی ہے کہ ان ٹیسٹ پیپرز کو ہمارے نکلتے ہی کوڑے دان میں ڈال دیا ہوگا۔ کمزور اور حقیر لوگ بد گمانیوں کا جلد شکار ہوتے ہیں۔
 کراچی میں چالیس ڈگری کی گرمی میں ایک دفعہ پھر ہم بنجر لان میں بیٹھے انٹرویو کی پکار کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک دفعہ پھر کھانے کی قابیں اندر جا رہی تھی۔ اس دفعہ یہ ہانڈیاں تھیں۔ منتظمین کو ہانڈیوں سے فراغت پانے میں شام کے چار بج گئے۔ 
میں اٹھی اور کلرک کے پاس گئ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ میں اپنے گھر فون کر کے اطلاع کر دوں کے میں دیر سے آءونگی، میں اپنا موبائل فون گھر بھول آئ ہوں۔ ہاں ہاں کیوں نہیں۔ وہ مجھے سازش کر کے اس کمرے میں لے گیا جہاں بورڈ کے ارکان انٹرویو لینے کے بہانے موجود پاکستان کا مطلب کیا، ھذا من فضل ربی بتا رہے تھے۔ کلرک ذہنیت ایسی ہی ہوتی ہے خود سامنے آکر کچھ نہیں کرتے بس سازشیں کرتے ہیں یا سازش کرنے والے کا ساتھ دیتے ہیں۔
کمرے میں اس وقت تک مرغن کھانوں کی خوش بو بھری ہوئ تھی۔ ایسا نہیں کہ میرا دل جلانے کے لئے اس خوشبو کو وہاں قید کر کے رکھا گیا تھا۔ وجہ یہ تھِی کہ ایئر کنڈیشنڈ چلنے کی وجہ سے یہ خوشبو باہر نہیں جا سکتی تھی۔ کمرہ ایک دم جنت نظیر محسوس ہو رہا تھا۔  یہ صرف اس منحوس ایئر کنڈیشنڈ کی وجہ سے تھا ورنہ نہ وہاں حوریں تھیں اور نہ شہد کی نہریں۔ اس خوشبو سے مجھے اپنے پیٹ میں ہونے والی گُڑ گُڑ کی آواز آئ۔ یہ اس پانی کی تھی جو میں کئ گھنٹے سے چالیس ڈگری کی گرمی کی شدت کو لان کے ایک سوکھے درخت کے نیچے بیٹھ کر کم کرنے کے لئے پی رہی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ پانی کیوں پیٹ میں گڑ گڑ کرتا ہے اور کھانا نہیں کرتا۔
میری حیرانی دیکھئیے، وہاں میرے وہ بلند باتیں کرنے والے سینیئر اساتذہ بھی موجود تھے جن سے میں نے پڑھا تھا۔  خوش گپیاں چل رہی تھیں۔بروٹس  یو ٹو۔ میں نے اپنی حیرانی کو چھپانے کے لئے منہ پھیر لیا۔  یہ وہ لوگ ہیں جو باہر کی دنیا میں اس کرپشن کا رونا روتے ہیں جو یہاں فرشتے عالم بالا سے آکر کرتے ہیں۔ ان دس لوگوں میں سے کوئ ایک شخص ایسا نہیں تھا جسے احساس ہو کہ وہ وہاں کس کام کے لئے موجود ہیں۔
شام کو ساڑھے پانچ بجے کلرک نے باہر آکر اعلان کیا کہ انٹرویو ملتوی کر دئے گئے ہیں نئ تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ میرے اس دن کا اختتام سن اسٹروک پہ ہوا۔ وہ رات میں نے بخار اور الٹیوں میں گذاری۔
 سات سال، سات سال سے زائد عرصہ گذر گیا۔ اسکی نئ تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ کیا داءود انجینیئرنگ کالج میں ان سات سالوں میں کوئ کیمسٹری کا ٹیچر پڑھا نہیں رہا۔ کیا واقعی؟
خیر جناب، داءود انجینیئرنگ کالج تو بے حد خراب ریپوٹیشن رکھنے والا کالج ہے۔ آئیے کراچی شہر کی سب سے مایہ ناز انجینیئرنگ یونیورسٹی کی طرف۔ جہاں ہمارے شہر سے انٹر میں پاس ہونے والے طالب علموں کی کریم داخلہ لیتی ہے۔ جن کا چناءو بہترین رزلٹ اور داخلہ ٹیسٹ میں بہترین کارکردگی کے بعد ممکن  ہوتا ہے۔ کیا سوچتا ہوا گا ایک طالب علم کس قدر شاندار دنیا میں قدم رکھنے والا ہے وہ۔ 
اخبار میں اشتہار آیا کہ انہیں ایک اسسٹنٹ پروفیسر چاہئیے۔ ماسٹرز ہونے کی صورت میں چار سال کا تدریسی تجربہ، پی ایچ ڈی ہونے کی صورت میں کوئ تجربہ درکار نہیں۔ میں نے بھی اپلائ کر دیا۔ پی ایچ ڈی ہوں، ڈیڑھ سال کا تدریسی تجربہ بھی ہے۔ اور بین الاقوامی جرنلز میں چھپے ہوئے  مقالے بھی۔ ایک مضبوط پس منظر، میں نے بےوقوفی سے سوچا۔
چند ماہ بعد خط ملا کہ اس سلسلے میں تحریری امتحان ہوگا۔ تاریخ مقررہ پہ گئے۔ کمرہ ء امتحان میں امیدواروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان میں سے تین چار لوگ پی ایچ ڈی بھی تھے لیکن ان میں سے کسی کے پاس تدریسی تجربہ نہیں تھا۔ میں نے سوچا  اب بھی میرا پلہ بھاری ہے۔ ٹیسٹ کے لئے چھپے ہوئے پرچے ملے۔ اسے حل کیا۔ ٹیسٹ بھی اچھا ہوا تھا۔
میں خوش خوش واپس آگئ۔ کافی مہینے گذر گئے کوئ اطلاع نہیں۔ این ای ڈی سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر استاد سے معلوم کیا تو کہنے لگے کہ اپائینٹمنٹس تو کب کے ہو گئے۔ میرا دل ٹوٹا، انہیں انٹرویو کے لئے تو بلانا چاہئیے تھا۔ آخر انہوں نے امیدواروں کی شارٹ لسٹنگ تو کی ہوگی۔ محض تحریری امتحان کے بعد ہی تو اپائنٹ نہیں کر لیا ہوگا۔ 
پھر ذرا اور خبر لی تو معلوم ہوا کہ کراچی یونیورسٹی میں تدریس کے دوران ایک خاتون کو لیگ  تھیں میری جن کی نالائقیوں کا انکے طالب علم ہمیشہ رونا روتے نظر آتے۔ ان کا اپائینٹمنٹ ہو گیا ہے۔ یہ خاتون ایم فل تھیں یعنی نان پی ایچ ڈی۔ انکے پاس کوئ بین الاقوامی پبلی کیشن نہیں تھی۔ ایسا کیسے ہو گیا میں نے ان سینیئر ساتھی سے، جو اب مرحوم ہو چکے ہیں پوچھا۔ کہنے لگے میں نے معلوم کیا تھا۔ پتہ چلا کہ ہم پی ایچ ڈی کو رکھ کر کیا کریں گے۔ ہمارے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ ماسٹرز ہیں اور ایک اتنے زیادہ پڑھے لکھے شخص کو رکھ لیں تو ایک مصیبت ہو گی۔ ہمیں ڈپارٹمنٹ چلانا ہے۔ بھئ ہمیں تو اسٹوڈنٹس کو ہلکی پھلکی کیمسٹری پڑھوانی ہے یہاں کوئ تحقیقی کام تھوڑی کروانا ہے۔
ایچ ای سی کس ملک کی یونیورسٹیز کے لئے قوانین وضع کرتی ہے یہ نہیں معلوم۔
داءود انجیئرنگ کالج تو ویسے بھی سیاسی جماعتوں کا اکھاڑہ ہے کسی گنتی میں نہیں۔ لیکن این ای ڈی انجینیئرنگ یونیورسٹی کراچی بھی ایچ ای سی کی اس فہرست میں شامل نہیں جو ملک کی دس بہترین یونیورسٹیز ہیں۔ 
کیا یہ مکافات عمل ہے؟
کیا یہ  میری بد دعا ہے؟
یہ ان میں سے کوئ چیز نہیں۔ لیکن ہمارے تعلیمی ادروں کے کرتا دھرتاءوں کے منہ پہ ایک طمانچہ ہے جو لکھ کر دیا گیا ہے۔ کیا اسکی شدت کسی کو محسوس ہو گی۔ جی نہیں، کسی کو نہیں ہوگی کیونکہ یہ سارے کرتا دھرتا جانتے ہیں کہ کسی میں ہمت نہیں کہ ان سے سوال کر سکے۔ کون کرے گا ان سے سوال وہ جو خود مفاد پرستی کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں۔ ایک ننگا دوسرے ننگے سے کیا پوچھے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی اپنی سطح پہ ہر ادارے کو کرپشن کے لحاظ سے پاکستان بنایا ہوا ہے۔ جو حشر پاکستان کا ہے وہی ان اداروں کا۔ 
میں تو صرف یہ سوچ رہی ہوں کہ مجھے این ای ڈی انجینیئرنگ یونیورسٹی سے ہمدردی کرنی چاہئیے یا انکے لئے دعا کرنی چاہئیے۔