ابھی کچھ دنوں پہلے کسی نے میری طنزیہ تعریف فرمائ کہ بتاءوں آپ کیا ہیں، آپ ہیں ایک بچی کی ماں۔ اپنی دانست میں تو انہوں نے مجھے میری اوقات یاد دلائ۔ لیکن ہوا یوں کہ یہ میری زندگی میں حاصل ہونے والی سب سے بہترین تعریف ہے۔ آج کا دن میری زندگی کا شاید سب سے پر مسرت دن ہے کہ آج میری بیٹی ہماری دنیا میں آئ۔ آج اسکی تیسری سالگرہ تھی۔ سو آج کی یہ پوسٹ مشعل کے نام۔
لیکن اپنی اصل میں یہ ان تمام ماءووں کے نام ہے جو ایک یا کئ مشعلوں کی ماں ہیں۔ جو اپنی صلاحیتوں، اپنے علم،اپنے مرتبے کو اپنی اولادوں کی تربیت اور بہتر مستقبل کے لئے استعمال کرتی ہیں یا اس پہ قربان کرتی ہیں۔ مائیں عظیم ہیں اور وہ محض تخلیق کا پرزہ نہیں بلکہ انکے ہاتھ میں اس کائنات کی باگ ہے۔ لیکن اسے مہارت سے پکڑے رکھے رہنے کے لئیے اپنے آپکو گرد و پیش میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ رکھنا جتنا ایک ماں کے لئے ضروری اتنا کسی کے لئے نہیں۔ اسی لئے تو کسی دانا نے کہا تھا کہ تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دونگا۔
ہاں تو آج میری بیٹی تین سال کی ہوگئ۔ ہر ماں باپ کی طرح مجھے بھی وہ غیر معمولی عادات اور دماغ کی حامل لگتی ہے۔ اور اسکی مسکان اور اسکا آ کر یہ کہنا کہ میں آپکو پیار کرنا چاہتی ہوں میرا دل پگھلا کر پانی بنا دیتا ہے۔
ویسے تو میں نے اسے گھر میں پڑھا پڑھا کر قابل بنانے میں کوئ کسر نہیں چھوڑی۔ اور اسکے لئے میں نے روائتی طریقے استعمال نہیں کئے۔ بلکہ گھر میں کھیل ہی کھیل میں، باتیں کرتے، واک کرتے، کھانا کھاتے، ٹی وی دیکھتے، جہاں جہاں موقع ملتا ہے وہاں وہاں میں اسکے کان میں باتیں ڈالتی رہتی ہوں۔ ان تمام سرگرمیوں کو جاننے کے لئیے میں نے نیٹ پہ کافی سرچ کی۔ اور جتنی بھی دلچسپ اور کام کی ویب سائٹس تھیں انہیں مارک کر لیا۔ اور اب بھی مختلف سائٹس کو چیک کرتی رہتی ہوں۔ اس لحاظ سے نیٹ نے میری کافی مدد کی، اسکی دیکھ بھال سے لیکر تربیت تک میں۔ اور شاید اب اسکول والوں کا دماغ کھانے میں بھی۔
تو جناب یہ ساری چیز اتنے بہترین طریقے سے چل رہی تھی کہ ابھی تک اسے کسی اسکول میں ڈالنے کی ضرورت بھی نہیں پڑی اور میں سوچ رہی تھی کہ شاید پہلی کلاس تک ضرورت بھی نہ پڑے گی۔ لیکن اب انکی حد سے بڑھتی ہوئ سرگرمیوں اور ہم عصروں کے دباءو کی پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ انہیں کسی مناسب اسکول کے حوالے کیا جائے۔ اگرچہ کہ اب بھی سوچتی ہوں کہ پڑھائ کی مد میں وہ وہاں کیا کریں گی۔ اور اسکول والے کہیں اس سارے عمل کو سست نہ کر دیں۔
یہ ہم عصر انکے نہیں ہمارے ہیں۔ اور یوں لگتا ہے کہ جو بچے ڈیڑھ برس کی عمر میں کسی پلے اسکول یا ڈھائ برس کی عمر میں کسی اسکول کے حوالے نہ کئیے گئے تو انکے والدین کوئ جرم کر رہے ہیں۔ حالانکہ سچ پوچھیں تو مجھے اتنے چھوٹے بچوں پہ یہ ظلم لگتا ہے۔ یہ انکی عمر ہے کہ انہیں اپنے ارد گرد کے ماحول کو خود برت کر آزادی سے سیکھنے کا موقع دیا جائے۔ لیکن اتنی چھوٹی عمر میں انہیں اسکول کے ڈسپلن کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ مجھے یہ بالکل پسند نہیں۔ لیکن مری بیٹی کی اوسط سے تھوڑی زیادہ لمبائ اور انکی باتیں بنانے کی رفتار کی وجہ سے شاید ہی کوئ شخص ہو جو یہ نہ پوچھتا ہو کہ کونسی کلاس یا کونسے اسکول میں پڑھتی ہے آپکی بیٹی۔ اور جواب انکار کی صورت میں ہونے کے بعد وہ ہماری لاپرواہی پہ خاصہ حیران ہوتے ہیں۔
چلیں یہ تو ابتدائ مشکلات ہیں۔ لیکن جس چیزکی مجھ سمیت ہر ذمہ دار ماں کو فکر رہتی ہے وہ ہمارے معاشرے کی زبوں حالی ہے۔ میں اپنی بیٹی کو کیا بنانا چاہتی ہوں۔ میں اسے صرف ایک عورت نہیں بنانا چاہتی۔ اس کائنات کے اندر پھیلے علم میں اسکا بھی حصہ ہے جو اسے ملنا چاہئیے۔ وہ عقل اور شعور رکھتی ہے اور اسے کسی بھی بہترین انسان کی طرح اسے استعمال کرنا آنا چاہئیے۔ اسے محض ایک ذمہ دار عوت نہیں ذمہ دار انسان بننا ہے جو اپنے ماحول کی بہتری کے لئے اپنی قدرتی صلاحیتوں کو استعمال کر سکے۔ جسے اسے دینے میں خدائے پاک نے کسی بخل سے کام نہیں لیا۔
لیکن اس ٹہرے ہوئے معاشر ے کی بدبو دور کرنے کے لئے ہم جیسی ماءووں کو کیا کرنا چاہئیے۔ کیونکہ یہ تو واضح ہو رہا ہے کہ فی الحال ہم مزید بگاڑ اور مزید بگاڑ میں جا کر بھی شاید دم نہ لیں۔