Showing posts with label روڈ. Show all posts
Showing posts with label روڈ. Show all posts

Monday, August 8, 2011

چندہ اور ثواب

 کینیڈا میں ایکدن مجھے ای میل ملی کہ رمضان کا مہینہ ہے مجھے یہاں  کمیونٹی افطار میں شریک ہونے کا تجربہ کرنا چاہئیے۔ اس سلسلے میں دو نام دئیے گئے ایک اثناء اور دوسرا روائیتی مساجد میں ہونے والے افطار کے اجتماعات۔
حسب عادت ادھر ادھر سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایک خاندان ابھی تین چار دن پہلے ہی اثناء کے کمیونٹی افطار میں شرکت کر کے آرہا تھا اور انتہائ نالاں تھا۔
اثناء یہاں کینیڈا میں مسلمان کمیونٹی کا ایک ادارہ ہے جس نے اپنے اوپر کچھ ذمہ داریاں لی ہوئ ہیں جو آپ انکی ویب سائیٹ پہ دیکھ سکتے ہیں۔ انکی شاخیں مختلف جگہوں پہ قائم ہیں۔ یہ اپنے انداز میں لبرل سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اثناء کی طرف سے اسلامی کیلینڈر جاری کیا جاتا ہے۔ جس میں چاند کا حساب جدید سائینسی طریقوں پہ کیا جاتا ہے۔ اور پہلے سے اسکی تاریخ مشتہر کر دی جاتی ہے  یعنی شعبان کے مہینے میں معلوم تھا کہ رمضان کس دن شروع ہونگے۔ افسوس یہاں پشاور کی قاسمی مسجد اور اسکے مولانا صاحبان موجود نہیں۔ ورنہ چاند ہمیشہ ایکدن پہلے ہوتا۔
ہاں تو، انکے نالاں ہونے کی بھی وجوہات تھیں۔ اول انہوں نے کہا کہ وہاں کھانے کے وقت انتہائ افراتفری تھی۔ پاکستانی خواتین سب کی سب اسکارف پہنے ہوئے تھیں۔ اور سب کو نماز سے زیادہ افطار اور کھانے کی چیزوں کی فکر تھی۔ آپکو معلوم ہے یہ سب لوگ یہاں برسوں سے رہ رہے ہیں لیکن کھانے پہ جس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں وہ قابل شرمندگی ہوتا ہے۔ کیا پاکستانی ہونا جینز میں چلتا ہے؟ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔
دوسرا اہم شکوہ یہ تھا کہ اثناء کو مسلمانوں کی طرف سے چندے کی مد میں ایک ایک شخص ہزاروں لاکھوں ڈالر دیتا ہے اس حساب سے انکے انتظامات انتہائ بے کار تھے۔ آخر یہ لوگ اتنے پیسوں کا کیا کرتے ہیں۔ اگر انہیں افطار کرانے کا طریقہ سیکھنا ہے تو جا کر کراچی کی سڑکوں کو افطار کے وقت دیکھیں کہ لوگ کتنی فیاضی سے اور قرینے سے سڑک کے کنارے دسترخوان سجائے ہوتے ہیں۔ انکی اس بات پہ مجھے رمضان میں سڑک کنارے عوامی افطار یاد آگئے جو اب کراچی کا ایک ثقافتی نشان بنتے جا رہے ہیں۔

 

اس مقام سے ایک اہم موضوع نے جنم لیا۔ وہ ہیں مساجد اور مدارس کو چندے کی مد میں حاصل ہونے والی خطیر رقومات اور انکا استعمال ہیں۔
ادھر پاکستان میں ہوش سنبھالنے سے اکثر مساجد کو تعمیر ہوتے دیکھتے آرہے ہیں وہ اب تک تعمیر ہو رہی ہیں اور اب تک چندہ چل رہا ہے۔ اکثر مساجد میں چندے کا بکس ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ یہاں کینیڈا میں بھی مساجد میں اور دیگر مذہبی اداروں میں خطیر رقم چندے کے طور پہ جمع کی جاتی ہے۔ لیکن ان تمام اداروں سے یہ حساب کتاب کون رکھتا ہے کہ وہ اس رقم کا کیا کرتے ہیں۔
اچھا، حساب کتاب رکھنا تو ایک موضوع ہے دوسرا موضوع یہ ہے کہ جو لوگ ہزاروں لاکھوں ڈالر ان مدارس اور مساجد کو دیتے ہیں وہ آخر پاکستان میں دیگر شعبوں کے اوپر کیوں خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ سمجھ میں آتا ہے یہ سارا ثواب کا پروپیگینڈہ ہے۔ آج اگر کوئ مولانا صاحب حساب کتاب لگا کر بتا دیں کہ ایک شخص کو مستقل روزگار کا ذریعہ مہیا کرنا مسجد یا مدرسے کو چندہ دینے سے زیادہ ثواب رکھتا ہے تو لوگوں کا رجحان اس طرف ہو جائے گا۔ ان لوگوں سے ہٹ کر جو جانتے ہیں ثواب طاعت و زہد ، پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔
وطن عزیز میں تو ہم لوگوں کی جہالت کو روتے ہیں۔  ان ترقی یافتہ ممالک کو ہجرت کر جانے والے  لوگوں کی کثیر تعداد اعلی تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ لیکن جب صدقے زکوات اور دیگر پیسوں کو خرچ کرنے کی بات آتی ہے تو معذرت کے ساتھ یہ لوگ بھی کسی ویژن یا دور اندیشی  کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
آج کے پاکستان میں ایک عام شخص کو مساجد یا دینی مدارس کی زیادہ ضرورت ہے یا ہسپتال اور اسکولوں کی، بنیادی ہنر سکھانے والے اداروں کی یا حفظان صحت سکھانے والی مہموں کی یا روائیتی روزگار کے طریقوں سے ہٹ کر نئے روزگار کے ذرائع پیدا کرنے کی۔
غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ذرا اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئیے۔ آپ  چند لوگ مل کر پاکستان میں ایسے اداروں کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جہاں آپ کے پیسے زیادہ بہترین طریقے سے انسانیت کے کام آ سکتے ہیں۔  کسی نے سینکڑوں سال  پہلے کہا تھا کہ پل بنا ، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا۔ آپ لکیر کے فقیر بننے کے بجائے کچھ الگ راستے بنا سکتے ہیں۔ زمانہ آگے نکل آیا ہے۔ ضروریات مختلف ہو گئ ہیں۔ ثواب کمانے میں بھی اگر جدت طرازی آجائے، تخلیق کاری ہو جائے، تو کیا مضائقہ ہے۔ آخر بیرون ملک رہنے سے آپ کو جو ایکسپوژر حاصل ہوتا ہے اسے آپ اپنے پیسے کے ساتھ جوڑ کر کیوں نہیں اس ملک کو دیتے۔ 

ISNA
ramazan
muslim community
canada
community iftar