ایک تحقیقی مقالہ جسے ہم انگریزی میں ریسرچ پیپر کہتے ہیں۔ اس میں کچھ بنیادی ضروریات کا ہونا ضروری ہے اسکے بغیر اسے ایک معلوماتی مضمون تو کہا جا سکتا ہے مگر ایک ریسرچ پیپر نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تحقیقی مقالے پی ایچ ڈی کرنے کی بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔ اور اپنے مضمون سے متعلق مخصوص جرائد میں شائع ہوتے ہیں جنہیں جرنلز کہا جاتا ہے۔ ان پیپرز میں عام طور سے اس مضمون سے متعلق کسی نئ معلومات کو پرانی معلومات سے جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اور اسے تجرباتی طور پہ یا اعداد شمار کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے۔ یہ اعداد شمار بھی مستند مشینوں یا سروے یا اسی طرح کے ذرائع استعمال کر کے پیش کئے جاتے ہیں۔ سائنسی سطح پہ ان نتائج کا ان تمام حالات کو دہراتے ہوئے خود کو دہرانا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ اس حقیقیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ عام طور پہ جرنلز میں چھپنے سے پہلے انہیں ماہرین کا ایک گروپ چیک کرتا ہے کہ اس میں دی گئ اطلاعات کہاں تک درست ہو سکتی ہیں۔ نیز تمام پرانے دئے جانیوالے بیانات کو صراحت سے لکھا جاتا ہے کہ وہ کہاں سے لئیے گئے ہیں۔ اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان بیانات کا اصل متن متائثر نہ ہونے پائے۔ کسی بھی مناسب جریدے میں شائع ہونے سے قبل ان تمام حوالوں کو بھی چیک کیا جاتا ہے اور اسے بالکل سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔
ایک اور صورتحال یہ ہوتی ہے کہ ان تحقیقی مقالات کو ان سے منسلکہ کانفرنسز میں پڑھا جائے۔ جہاں اس مضمون کے ماہرین اور طلباء سبھی موجود ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اگر آپ کوئ نوبل انعام یافتہ یا غیر معمولی شہرت کے حامل اعلی تحقیق داں نہ ہوں تو بھی ماہرین کا ایک پینل آپکے اس تحقیقی مقالے کو پڑھ کر اسے کانفرنس کی پروسیڈنگز میں شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔
ان تمام ریسرچ پیپر کو سیکولر طرز تحریر پہ لکھا جاتا ہے یعنی انکو پڑھکر آپکو یہ نہیں لگتا کہ وہ کسی خاص طبقے کی جانبداری میں لکھے گئے ہیں۔ یہ علم کا راستہ ہے، یہاں آپکو وہ چیز بھی مل سکتی جسکی آپکو توقع تھی اور وہ بھی جسکی آپکو توقع نہیں تھی۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ علم پرانے علم کی ہر بنیاد کو اکھاڑ دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جسے ہم قدیم کہہ کر جھٹلا چکے ہوں انہیں صحیح ثابت کر دے۔
ان جرائد کے معیار کی بھی درجہ بندی ہوتی ہے۔ اور اس پہ کسی تحقیق داں کا معیار پرکھا جاتا ہے اس معیار یا گریڈنگ کو امپیکٹ فیکٹر کہتے ہیں۔ عام طور پہ بے حد مستند اور اعلی جرائد کا امپیکٹ فیکٹر زیادہ ہوتا ہے۔ جیسے سائنسی جریدہ 'نیچر' ایک اعلی جریدہ ہے اسکے مقابلے میں ریڈرز ڈائجسٹ محض ایک ڈائجسٹ جس کا کوئ امپیکٹ فیکٹر نہیں بنتا۔ اور ڈان اخبار صرف ایک اخبار۔
جس سائنسداں کا ریسرچ پیپر جتنے اعلی جرائد میں شائع ہو اسکا امپیکٹ فیکٹر اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اور اس سے اسکی ریسرچ کا معیار ظاہر ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک ریسرچ پیپر کسی ایسے جریدے میں شائع ہو جاتا ہے کہ اسکا امپیکٹ فیکٹر تمام جریدوں پہ بھاری ہو کر اسے صف اول کے تحقیق دانوں میں شامل کر دیتا ہے جسے ڈی این اے کی مالیکیولی ساخت بتانے والا پیپر۔ اور بعض اوقات تحقیق داں ساری زندگی کام کرتا ہے مگر کوئ ایسا قابل ذکر نیا علم نہیں بڑھا پاتا کہ وہ اسے کسی معقول سطح پہ شائع کرا سکے۔ اور اس طرح سے اسکاامپیکٹ فیکٹر غیر متاثر کن رہتا ہے۔ جیسے ہمارے یہاں کے بہت سارے تحقیق داں۔