کوئ کہتا ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی حکمراں ان پہ نافذ ہوتے ہیں کچھ کا ارشاد ہے کہ جیسے حکمراں ہوں عوام بھی ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔
اب ایک تازہ خبر ہاتھ لگی ہے۔ جس سے ہم کچھ اس قابل ہوئے ہیں کہ ان دو میں سے ایک قول کو قول صحیح قرار دیں۔ ہوا یوں کہ قصور یہ پنجاب کے ایک شہر کا نام ہے کسی کا قصور نہیں۔ یہاں تحریک انصاف کا جلسہ آج منعقد ہوا۔ جس میں تحریک انصاف کے انصاف کے مطابق عوام کو بھی بیٹھنے کے لئے کرسیاں فراہم کی جاتی ہیں۔
عوام کو کرسیوں پہ بٹھانے کے لئے پہلے کبھی کسی نے کیوں نہیں سوچا۔ یہ ہم نے بارہا سوچا۔ اسکا اندازہ آج ہوا جب جلسے کے اختتام پہ عوام کرسیاں لے کر فرار ہو گئے۔
ہم نے قصور کے عوام سے دریافت کیا کہ انہوں نے ایسا قصور کیوں کیا؟ لوگ عاشقی میں عزت سادات گنواتے ہیں انہوں نے محض کرسی کے لئے یہ بدنامی مول لی۔ ایک بڑی اکثریت نے اس کا الزام ایک نامعلوم قلندر پہ ڈالا۔
کرسی، کرسی کر گئ سب کو قلندر کی یہ بات
تو اگر اسکی نہیں لیتا نہ لے اپنی تو لے
نا معلوم قلندر کا اتا پتہ معلوم کرنے کی کوشش ہم نہیں کر رہے فائدہ کیا ہم بھی دانا ہیں حضرت۔
کچھ نے کہا ہم نے تو نشانی کے طور پہ یہ کرسیاں محفوظ کر لی ہیں۔ جب وہ اپنی کرسی سنبھالیں گے تو انہیں دکھا کر ہم کہیں گے کہ کبھی ہمارے اور آپکے درمیان کرسی کا تعلق تھا۔ وہ تعلق جو تعلق سے بڑھ کر تھا۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
کچھ ان کرسیوں کو تفصیلی طور پہ خود چیک کرنا چاہتے تھے کہ ان پہ کس جگہ آئ ایس آئ کی چھاپ لگی ہوئ ہے۔ تاکہ سند حاصل ہو جائے۔ وہ قتل تو کرتے ہیں تو لیکن لوگوں کو اندازے لگانے کے مواقع کے ساتھ۔ یقین سے وہ خود بھی نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کیا ہے۔
کچھ نےسوال کیا کہ کرسی میں ایسی کیا کشش ہوتی ہے کہ سب کرسی کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے بتایا کہ کئ گھنٹے ہو گئے کرسی لے کر دوڑ رہے ہیں لیکن ابھی تک قلبی اور جیبی کیفیت جوں کی توں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ بیچ ڈالیں، سنا ہے آٹھ سو روپے کی ہے ایک کرسی۔ جیبی کیفیت ضرور تبدیل ہو جائے گی، سنا ہے کہ قلب کی کیفیت کا جیب کی کیفیت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔
کرسی کی درگت اور تحریک انصاف کے تعلق پہ شاعری میں نئ اصلاحات سامنے آرہی ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ
لوٹا، کرسی اور طوفان
عمران خان، عمران خان
کرسی کی درگت اور تحریک انصاف کے تعلق پہ شاعری میں نئ اصلاحات سامنے آرہی ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ
لوٹا، کرسی اور طوفان
عمران خان، عمران خان
کراچی میں کچھ لوگوں کو دلچسپی ہے یہ جاننے سے کہ کیا جلسوں کی کرسیوں کی انشورنس کروائ جاتی ہے۔ اگر نہیں کروائ جاتی تو کرسی فراہم کرنے والوں کا کیا ہوگا۔ انکو اطلاع ہو کہ جلسے کے لئے کرسیاں قصوری صاحب نے خرید کر فراہم کی تھی۔ گھوڑے کے منہ سے خبر لانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ انہوں نے اپنی متوقع حکومت میں اپنی متوقع کرسی کا صدقہ نکال کر خریدی تھیں، ایک کروڑ ساٹھ ہزار کا صدقہ، اندازہ کریں کہ اصل کرسی کی قیمت کیا وصولی جائے گی۔
عمران خان کہہ رہے ہیں کہ قصور سے اب اس سونامی کا رخ کراچی کی طرف ہے۔ سوال پوچھنے والے پوچھ رہے ہیں کون سی سونامی، کرسیوں کی سونامی۔ یہ اس قوم میں اب سوال کرنے کی عادت جڑ پکڑ رہی ہے جو ایک صحیح شگن نہیں بالخصوص سیاست کے لئے۔
یہاں ہمارے شہر کراچی میں پچیس دسمبر کو جلسے کے انعقاد کے لئے ہر کرسی پہ آیت الکرسی پڑھی جا رہی ہے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ اندیشہ ہے کہ جلسہ شروع ہونے سے پہلے اس سلسلے میں ایک اجتماعی دعا بھی کروائ جائے گی۔
ادھر شہر کی فرنیچر مارکیٹ والے پہلے خوش تھے دھڑا دھڑ، ادھر ادھر سے کرسیاں منگا کر اسٹاک جمع کر رہے تھے۔ کرسیوں کی مارکیٹ میں اضافے کا امکان تھا۔ بس ایک مرد کراچی، قصوری صاحب جیسا ڈھونڈھا جا رہا تھا۔ لیکن قصور کے عوامی جوش و خروش کو دیکھ کر انکا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ وسوسہ ہے کہ کہیں منتظمین کا ارادہ نہ بدل گیا ہو۔ سواب نہیں معلوم کہ کراچی میں جلسے کے عوام دری پہ بیٹھے گی یا پھر کرسی ملے گی۔
عوامی سطح پہ کرسیوں کی اس چھینا جھپٹی نے ایک بات ثابت کر دی کہ جیسے حکمراں ہوں عوام بھی ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔ آپ بتائیے صحیح ہے یا غلط؟
عوامی سطح پہ کرسیوں کی اس چھینا جھپٹی نے ایک بات ثابت کر دی کہ جیسے حکمراں ہوں عوام بھی ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔ آپ بتائیے صحیح ہے یا غلط؟