میری ایک عزیزہ ایک دن صبح صبح ہی تشریف لے آئیں۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو ہمارے گھر کے نزدیک ایک مونٹیسوری میں داخل کرادیا ہے اور چونکہ آج پہلا دن ہے تو وہ اسے چھوڑنے آئ تھیں۔ لگے ہاتھوں ہماری باری بھی آ گئ۔ ناشتے میں انکی گپیں بھی شامل ہو گئیں۔ پوچھا کہ اپنے گھر سے اتنی دور یہاں کیوں داخل کرایا ہے۔ کہنے لگیں۔ کافی لوگوں سے اسکی تعریف سنی تھی کہ اسلامی ماحول رکھتے ہوئے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ پوچھا، لیجئِے اسلامی جمہوریہ ملک بنانے کے بعد اب اس میں بھی اسلامی اسکول کی ڈیمانڈ آگئ۔ سوچ لیں، اسکا آغاز تو خوشنما ہے، اسکا انجام اچھا نہیں ہے۔ ویسے اک بات بتائیں موبٹیسوری کی تعلیم اسلامی ہے کہ غیر اسلامی۔ کوئ جواب دئیے بغیرمسکرا دیں۔
وہ کچھ عرصے پہلے سعودی عرب میں تین مہینے گذار کر آئی تھیں اوروہاں انہیں احساس ہوا کہ وہ ایک بہتر مسلمان نہیں ہیں۔ تو اپنے آپ کو بہتر مسلمان بنانے کے لئے انہوں نے اسکارف پہننا شروع کیا۔ اور اپنے سب سے چھوٹے چار سالہ بچے کو اسلامی مونٹیسوری میں ڈالنے کا فیصلہ۔
خیر، ہلکی پھلکی باتوں کے ساتھ وہ کچھ دیر رکیں اور چلی گئیں۔ اسکے تین چار مہینے بعد ایک خاندانی تقریب میں ملاقات ہوئ۔ میں نے شکوہ کیا ۔ آپکے بچے کا اسکول ہمارے گھر کے پاس آگیا مگر پھر بھی آپ دوبارہ نہیں آئیں۔ کیسا چل رہا ہے اسکا اسکول۔ کہنے لگیں کہ کہاں، ہم نے تو اسے ایک مہینے بعد ہٹا لیا۔ وہ کیوں؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ اب انکے پاس ایک کہانی موجود تھی۔
خیر، ہلکی پھلکی باتوں کے ساتھ وہ کچھ دیر رکیں اور چلی گئیں۔ اسکے تین چار مہینے بعد ایک خاندانی تقریب میں ملاقات ہوئ۔ میں نے شکوہ کیا ۔ آپکے بچے کا اسکول ہمارے گھر کے پاس آگیا مگر پھر بھی آپ دوبارہ نہیں آئیں۔ کیسا چل رہا ہے اسکا اسکول۔ کہنے لگیں کہ کہاں، ہم نے تو اسے ایک مہینے بعد ہٹا لیا۔ وہ کیوں؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ اب انکے پاس ایک کہانی موجود تھی۔
ہوا یوں کہ اس بچے کے ساتھ انکے محلے کا ایک اور بچہ بھی وہاں داخل ہوا تھا۔ اسکول آتے جاتے جب اس بچے کو پندرہ دن ہو گئے تو ایکدن وہ اس دوسرے بچے کے گھر گئیں۔ دیکھا تو وہ بچہ اپنا اسکول ہوم ورک کرنے میں مصروف تھا۔ معلوم ہوا کہ اس بچے کو روزانہ ہوم ورک ملتا ہے۔ انہوں نے سوچا میرے بچے کو تو کوئ ہوم ورک نہیں ملتا اگلے دن اسکے اسکول گئیں۔ اسکول والوں نے کہا کہ آپکے بچے کو تو ہم ابھی پینسل پکڑنا سکھا رہے ہیں ابھی تو اسے پینسل پکڑنا ہی نہیں آتی۔ انہوں نے کہا ، نہیں تو وہ تو اچھا خاصہ لکھ لیتا ہے۔ جواب ملا نہیں، وہ تو پینسل بھی ٹھیک سے نہیں پکڑتا۔ اب انہوں نے دل میں سوچا کہ ہو سکتا ہے ابھی اسکول کے ماحول سے شناسا نہ ہوا ہو اور ہچکچاتا ہو۔ زیادہ اصرار کرنے پہ ایسا نہ ہو کہ بچہ سب کے سامنے سبکی کرادے۔ واپس آگئیں۔
اسی طرح مزید پندرہ دن گذر گئے۔ پھر جی کڑا کر کے اسکول گئیں۔ وہی جواب ملا، ابھی تو اسے پینسل پکڑنا ہی نہیں آتی۔ ماں تھیں۔ اس دن اپنے بچے کے اس احساس محرومی سے شدید دلبرداشتہ تھیں کہ اسے ہوم ورک نہیں ملتا۔ کہنے لگیں بلائیے ذرا میرے بیٹے کو اور میرے سامنے لکھوائیے۔ گھر پہ تو آرام سے لکھتا ہے آپ کہتی ہیں اسے لکھنا تو الگ پینسل پکڑنا نہیں آتی۔ بچے کو بلایا گیا۔ اسکے ہاتھ میں پینسل کاغذ دیا گیا۔ ماں نے چمکارا بیٹا الف ب لکھ کر دکھاءو۔ اس نے پینسل پکڑی اور الف ب لکھنا شروع کر دیا۔
اب عزیزہ کا اعتماد بحال ہوا تو پرنسپل کے کمرے میں موجود ٹیچر کو شعلہ برساتی نظروں سے دیکھا کہ دیکھ لیں پینسل بھی پکڑی ہوئ ہے اور لکھ بھی رہا ہے۔ جواب ملا۔ یہ تو الٹے ہاتھ سے لکھ رہا ہے۔ آپ نے اپنے بچے کو یہ نہیں سکھایا کہ اسے سیدھے ہاتھ سے لکھنا چاہئیے۔ الٹا ہاتھ استعمال کرنا غیر اسلامی ہے۔
اب عزیزہ کا اعتماد بحال ہوا تو پرنسپل کے کمرے میں موجود ٹیچر کو شعلہ برساتی نظروں سے دیکھا کہ دیکھ لیں پینسل بھی پکڑی ہوئ ہے اور لکھ بھی رہا ہے۔ جواب ملا۔ یہ تو الٹے ہاتھ سے لکھ رہا ہے۔ آپ نے اپنے بچے کو یہ نہیں سکھایا کہ اسے سیدھے ہاتھ سے لکھنا چاہئیے۔ الٹا ہاتھ استعمال کرنا غیر اسلامی ہے۔
بس اسکے اگلے دن سے انہوں نے اسے وہاں نہیں بھیجا۔
باز آئے ایسی محبت سے
اٹھا لو پاندان اپنا
یہاں اس شعر میں پاندان کی جگہ کامران کر دیجئیے کہ یہی اس بچے کا نام ہے۔