اگست کا مہینہ شروع ہونے سے قبل میرا مصمم ارادہ تو یہ تھا کہ اس مہینے سرسید پہ جو کچھ لکھنا چاہ رہی ہوں اسے لکھ دوں۔ کہ دستور جو کچھ ہو لیکن موقع اچھا ہے۔ لیکن ایک تو میں سات سمندر پار بمعہ اپنے خاندان کے ہجرت نہیں کر گئ ہمیشہ کے لئے۔ اور یہ کہہ کر مٹی پاءوں کہ سانوں کی۔ دوسرے یہ کہ تباہ کن سیلاب جیسا کہ زرداری صاحب نے بھی فرمایا بغیر اطلاع کے آ گیا۔ تیسرے یہ کہ کراچی میرا جائے توطن اور متوقع جائے مدفن ہے۔ اس طرح میرا قلم شہر کراچی اور ملک کے درمیان ایک فری الیکٹرون کی طرح حرکت میں آگیا۔ ادھر جو لوگ شہر سے باہر تھے انکا شہر میں آ کر اٹک گیا۔ پھر یہ کہ جوتم پیزار مجھے پسند تونہیں کہ جمہوری طریقہ نہیں، لیکن پھر بھی جمہور اور جوتے کے درمیان چلی جنگ، یہاں بھی جگہ پا گئ کہ یہی رائج الوقت جمہوریت ہے۔
خیر، سر سید احمد خان پہ اردو وکیپیڈیا پہ ایک تفصیلی مضمون موجود ہے۔ تو پھر میرا دل کیوں چاہ رہا ہے کہ ان پہ لکھوں؟
بات یہ ہے کہ یہ مضمون دستاویزی قسم کا ہے۔ اس سے انکے کارنامے تو پتہ چلتے ہیں لیکن بحیثیت ایک زندہ انسان انکی شخصیت محسوس نہیں ہوتی۔
ادھر میں نے انکے حوالے سے کچھ کتابیں دیکھیں، جنکا تذکرہ آگے کسی تحریر میں آئے گا۔ لیکن ایک دن میں نارتھ ناظم آباد کراچی سے گذرتے ہوئے وہاں واقع ایک چھوٹی سی لائبریری میں داخل ہو گئ۔ اسکا نام تیموریہ لائبریری ہے۔ یہاں مجھے ایک چھوٹی سی کتاب ملی جسکا نام ہےسر سید احمد خان، شخصیت اور فن۔ اس کتاب کے مصنف ہیں جمیل یوسف اور اسے اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد نے شاٰئع کیا ہے۔ مجھے یہ کتاب اس حوالے سےخاصی پسند آئ۔
اس سلسلے کی پہلی تحریر انکی والدہ کے حوالے سے ہے۔
سر سید کے خاندان ددھیالی خاندان کے دہلی کے مغل خاندان سے روابط تھے۔انکے دادا کو بادشاہ کی طرف سے خطابات اور عہدہء احتساب و قضا دیا گیا۔ انکے والد کو بھی شاہ کی طرف سے یہی خطبات اور منصب پیش کیا گیا۔ مگر اپنی آزاد طبیعت اور درویشی کی وجہ سے انہوں سے اسے قبول کرنے سے معذرت کر لی۔
انکے نانا، خواجہ فرید الدین احمد خان بہادر، ۱۸۱۵ء میں اکبر شاہ عالم ثانی کے وزیر اعظم رہے۔ اور دبیرا لدولہ امین الملک مصلح جنگ کے خطابات پائے۔ گورنر جنرل ولزلی نے انہیں اپنا وزیر بنا کر ایران بھیجا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے منصب وزارت کی پیش کش کو اپنی سب سے بڑی بیٹی عزیزالنساء بیگم جو کہ سرسید کی والدہ تھیں، انکے مشورے پہ قبول نہ کیا۔
سر سید کی والدہ ماجدہ غیر معمولی سیرت و کردار کی مالک اور بڑی دانشمند خاتون تھیں۔ وہ نہ صرف بڑی راسخ العقیدہ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ صحیح العقیدہ مسلمان تھیں۔ سر سید ااپنی والدہ کے فہم دین کے متعلق لکھتے ہیں
اس زمانہ میں جبکہ میرے مذہبی خیالات اپنی ذاتی تحقیق پر مبنی ہیں اب بھی میں اپنی والدہ کے عقائد میں کوئ ایسا عقیدہ جس پر شرک یا بدعت کا اطلاق ہو سکے نہیں پاتا۔
سرسید کی عظیم شخصیت اور بے مثل سیرت و کردار کی تشکیل و تعمیر میں زیادہ تر انکی والدہ کی تربیت کا حصہ ہے۔ انکے والد میر متقی ایک آزاد منش اور درویش صفت انسان تھے اور زیادہ وقت اپنے مرشد حضرت شاہ غلام علی کی خانقاہ پہ گذارتے اور انکی صحبت میں رہتے تھے۔ گھر کا انتظام و انصرام سر سید کی والدہ کے سپرد تھا۔
اپنی والدہ کے بارے میں بتاتے ہیں
جب میں انکو سبق سناتا یا نئے سبق کا مطالعہ انکے پاس بیٹھ کر دیکھتا تو ایک لکڑی جس میں سوت کی گندھی ہوئ تین لڑیں باندھ رکھی تھیں۔ اپنے پاس رکھ لیتیں۔ وہ خفا تو اکثر ہوتی تھیں مگر ان سوت کی لڑوں سے کبھی مجھے مارا نہیں۔
دس گیارہ برس کی عمر میں ایک دفعہ ایک بوڑھے نوکر کو تھپڑ مار دیا، والدہ نے گھر سے نکال دیا۔ نوکرانی نے چپکے سے خالہ کے گھر پہنچا دیا۔ دو دن خالہ کے گھر چھپے رہے تیسرے دن خالہ لیکر والدہ کے پاس گئیں۔ تاکہ قصور معاف کرائیں، انہوں نے نوکر سے معافی مانگنے کی شرط پہلے رکھی۔ ڈیوڑھی میں جا کر نوکر کے آگے ہاتھ جوڑے تو قصور معاف ہوا۔
سر سید کے بڑے بھائ کا جواں عمری میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ مرض الموت میں وہ انکے پاس ہی بیٹھی رہتیں۔ ایک مہینہ اسی حالت میں رہ کر انتقال کر گئے۔ انکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ فجر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ وضو کر کے نماز پڑھی اور اشراق تک مصلے پہ بیٹھی رہیں۔ انہی دنوں ایک رشتے دار کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی۔ شادی میں صرف چار دن رہ گئے تھے کہ یہ حادثہ پیش آگیا۔ لوگوں نے حسب دستور شادی کو ملتوی کرنا چاہا انکی موت کے تین دن بعد وہ انکے گھر گئیں اور کہا میں شادی والے گھر میں آئ ہوں۔ ماتم تین دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ جو خدا کو منظور تھا ہو چکا۔ تم شادی کو ہرگز ملتوی نہ کرو۔
جاری ہے
جاری ہے