Showing posts with label ایٹمی دھماکہ. Show all posts
Showing posts with label ایٹمی دھماکہ. Show all posts

Friday, February 18, 2011

ساحل کے ساتھ-۲

کوسٹل ہائ وے پہ کچھ دور چلنے کے بعد پہلی رینجرز کی چوکی پڑی۔ یہاں گاڑی کا نمبر, اپنا نام اور منزل مقصود  درج کروانا پڑتا ہے۔  گاڑی رکی ہوئ تھی اور قریب کھڑے سپاہی سے مشعل نے تعلقات بنانے کی کوشش کی۔ وہ بھی نزدیک آگیا پھر مجھ سے کہنے لگا میری بھی اتنی بڑی ایک بیٹی ہے۔  پوچھا کہاں سے تعلق ہے جواب ملا راولپنڈی سے۔ 
یہاں مجھے نصیحت کر دی گئ تھی کہ کسی بھی ایسی سیکیوریٹی کی جگہ یا اس سے تعلق رکھنے والے شخص کی تصویر بالکل نہیں بنانا۔ سو میں مشعل اور سپاہی کی باتیں سنتی رہی۔ وہ شاید اپنی پنڈی میں رہنے والی بیٹی سے باتیں کر رہا تھا۔
ہمیں دن کے کھانے کے لئے ارماڑہ پہ رکنا تھا۔ امیدتھی کہ دوپہر ڈیڑھ دو بجے تک پہنچ جائیں گے۔ راستے میں کنڈ ملیر کے خوبصورت ساحل کو چھونے کے لئیے رکے۔

پھر یہ کہ راستے میں جو پٹھان کے ہوٹل ملتے ہیں ان میں یا تو بیت الخلاء نہیں ہوتا یا قابل استعمال نہیں ہوتا۔
اس سلسلے میں خواتین کے حیاتیاتی نظام کے متعلق وہی نظریات ہیں جو مریخ کے رہائیشیوں کے زہرہ کے رہنے والوں کے متعلق ہونگے۔
انگریزی شاعر، بائرن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نوالہ حلق میں ڈالنے، چبانے اور حلق سے اتارنے کو اس قدر غیر نفیس فعل سمجھتا تھا کہ کسی عورت کو کچھ بھی کھاتے دیکھ نہ سکتا تھا۔ جو کھاتے نہ دیکھ سکتا ہو وہ یہی سوچتا ہو گا کہ بیت الخلاء کی خواتین کو کیا ضرورت۔
لیکن چونکہ قدرت ان نظریات پہ یقین نہیں رکھتی تو ہم سب نے ان سے فراغت کے لئے بھی راستے کے ٹیلے چنے۔
ارماڑہ کے ساحل پہ پچھلے ایک سال میں ایک پٹھان کا ہوٹل بن گیا ہے جو عام طور پہ پاکستان میں ہائ ویز کے کنارے ہوتے ہیں۔ میں نے گاڑی سے کھانے کا سامان اور پانی لیا، مشعل ہاتھ پکڑا اور اندر کی طرف چلی۔ ایک بارہ تیرہ سالہ پٹھان بچہ دوڑتا ہوا آیا۔ اور ایک طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔ لیڈیز ادھر اے۔ میں نے اسے دیکھا، پھر  اپنے ہاتھ میں کھانے کے سامان کو اور پھر پیچھے گاڑی کو بند کرنے والے صاحب کو۔ نہیں ہم سب یہاں میز پہ کھائیں گے۔ میں نے ہوٹل کے مرکزی ہال کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں کرسیاں اور میزیں  بھی موجود تھیں اور فرشی دسترخوان بھی بچھا ہوا تھا۔
جتنی دیر میں صاحب ہاتھ دھو کر فارغ ہوتے میں نے ہوٹل کے اطراف کا جائزہ لیا۔ سامنے ایک چھوٹی سی کمرہ نما جگہ پہ لکھا تھا چپل منہ ہے۔ میں نے اسے ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی یہ کیسا محاورہ ہے۔ کس کا منہ چپل ہے۔ پھر اس میں جھانک کر دیکھا۔ یہ ایک وضو خانہ تھا اور لکھنے والے نے شاید چپل  پہن کر اندر جانا منع ہے لکھنے کی کوشش کی تھی۔


ارماڑہ، گوادر اور کراچی کے  تقریباً وسط میں ہے۔  یہاں سے پسنی تقریباً دو گھنٹے اور وہاں سے گوادر ڈیڑھ گھنٹے۔ یوں تین بجے جب ہم گاڑی میں سوار ہوئے تو تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کا سفر باقی تھا۔
گاڑی سو میل کی رفتار سے سیدھے ہموار روڈ پہ دوڑے جا رہی تھی۔ گاڑی چلانے والے صاحب جیسے ٹرانس کی حالت میں بیٹھے تھے یا مراقبہ کر رہے تھے۔ میں اگرمخاطب کرتی تو صاف لگتا کہ  کسی دور دراز کے خلائ سیارے سے جواب آ رہا ہے۔ ہونٹوں پہ وہی مسکراہٹ جو گوتم بدھ کو نروان کے بعد حاصل ہوئ اور انہیں شاید اپنی پیدائیش پہ۔  

دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈیا نے ۱۹۷۴ میں جو پہلا ایٹمی دھماکا کیا تھا وہ بھی اسمائیلنگ بدّھا کہلاتا ہے۔ معلوم نہیں بدھا اس دھماکے پہ عالم برزخ میں مسکرائے یا تلملائے۔  یا مغل اعظم کا یہ گانا دیکھتے رہے کہ تمہاری دنیا سے جا رہے ہیں اٹھو ہمارا سلام لے لو۔


لیکن اس ساری تپسیا میں کہیں سے اپسرا مانیکا آ گئیں۔ رشی کا دھیان توڑنے کے واسطے۔  اور آواز آئ۔ اوہ یار۔ کیا ہوا؟  گاڑی سائیڈ پہ کرنے دیں۔ شاید شافٹ ٹوٹ گئ ہے یا کلچ پلیٹ۔ گاڑی ایک سآئیڈ میں ہو گئ۔ گیئر فری ہو گیا ہے اور اب گاڑی نہیں چل سکتی۔ ہم کراچی سے تقریبا سوا چار سو کلو میٹر کے فاصلے پہ گوادر سے تقریباً سوا دو سو کلومیٹر دور تھے۔ قسمت کی خوبی دیکھئیے، ٹوٹی کہاں کمند۔
اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ میں خاصی رجائیت پسند ہوں۔ سر پہ ہاتھ مارنے کے بجائے مجھے خیال آیا کہ شکر ہے کنڈ ملیر کے علاقے میں یہ نہیں ہوا ورنہ پہاڑی پیچ و خم  اور ڈھلانوں میں پھنس جاتے اوربڑا برا ہوتا۔ ابھی تو گوادر تک میدانی علاقہ ہے۔
اب جو آپشنزتھے ان میں سے ایک یہ کہ گاڑی کو  ٹو کرنے والا مل جائے تو کراچی تک کھینچ کر لے جائ جائے ۔ یہ نا ممکن تھا پچھلا سارا رستہ پہاڑی چڑہائیوں اترائیوں کا تھا اور یہ فاصلہ نہ صرف زیادہ بلکہ رسکی بھی تھا ۔  سوا چار سو کلو میٹرکا فاصلہ کوئ کھینچنے پہ راضی نہیں ہو گا۔  گوادر تک بھی کوئ کیسے ٹو کر سکتا ہے۔ گاڑی اتنی بڑی ہے۔ اسے کوئ ٹرک ہی کھینچ سکتا ہے۔
 ویرانے میں گفتگو شروع ہوئ۔ اچھا ایک بات تو طے ہے۔ ہمیں کراچی واپس جانا ہے تاکہ آپ اور مشعل کم از کم آرام سے ہو جائیں۔ گاڑی کو یہی چھوڑنا پڑے گا۔ وہاں سے میکینک لے کر واپس آتے ہیں۔
کراچی واپس کیسے جائیں گے۔ گوادر سے چلنے والی بس رات  نو بجے سے پہلے نہیں نکلے گی اور یہاں  بارہ بجے تک پہنچے گی۔
اس وقت شام کے چار بج رہے ہیں۔ اس ویرانے میں کسی گاڑی سے لفٹ لینی پڑے گی۔ لیکن اس سے پہلے تمام قیمتی اور ضروری سامان دو بیگز میں کر لیا جائے۔ باقی سب گاڑی میں چھوڑنا پڑے گا۔
 ہم نئ صورت حال کے لئے تیار ہونے لگے۔ مشعل کو بڑا صدمہ ہوگا وہ اس وقت سو رہی تھی۔ میں نے سوچا۔ آجکل گوادر میں کاروباری سرگرمیاں ایک دم ماند پڑ گئ ہیں اس لئے روڈ پہ کافی دیر بعد کوئ گاڑی نظر آتی تھی۔ پتہ نہیں اب کیسے کوئ گاڑی کراچی کے لئے ملے گی۔
سامان کو دوبارہ ترتیب کر کے فارغ ہوئے تھے کہ قریب سے آٹے کی بوریوں سے لدا ایک مقامی طرز کا ٹرک گذرا۔ ڈرائیور نے ہاتھ ہلا کر خیریت دریافت کی۔ یہ تو خود اتنا لدا ہوا ہے یہ ہمیں کیا گودار تک کھینچ کر لے جائے گا۔ میں نے سوچا۔ اور مزید سوچا۔ اگر ہم گوادر پہنچ جائیں تو گاڑی ایک محفوط مقام پہ ہوگی اور ہم تناءو سے آزاد۔ مگر کیسے؟
 توقع کے بر خلاف ٹرک آگے جا کر رک گیا۔ تین افراد باہر آئے۔ صورت حال جان کر انہوں نے پسنی تک ٹو کرنے کی پیش کش کر دی۔ پسنی میں رینجرز کی چوکی ہے وہاں چھوڑیں گے تو گاڑی زیادہ محفوظ رہے گی۔ اور ہم وہاں سے کراچی کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔ ایک امید باندھ کر گاڑی  کو ٹرک کے ساتھ رشتہ ء ضرورت  کی ڈور سے باندھ دیا گیا۔ ہوا اتنی تیز تھی کے گاڑی کا بونٹ اڑا جا رہا تھا۔ بہر حال ٹرک کے پیچھے بہت سوں کی تصوراتی مثالی مسلمان خاتون کی طرح گاڑی چل پڑی۔

 اسٹیئرنگ سختی سے پکڑے، گاڑی اور ٹرک کے درمیان تنی رسی پہ آنکھیں جمائے صاحب سے میں نے ایک ماہر ٹی وی اینکر کی طرح پوچھا، کہاں آپ سو میل کی رفتار سے اڑے جا رہے تھے اور ا ب آپکو زیادہ سے زیادہ چالیس کی رفتار سے رینگنا پڑ رہا ہے۔ خرگوش سے کچھوے کی اس کایا کلپ پہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں ؟ اس ظالمانہ سوال پہ انہوں نے ایک نگاہ صحیح انداز ، یعنی مار سوٹئ ایہہ والے انداز سے دیکھا اور منہ پھیر لیا۔
یوسف اسکو کہوں، اور کچھ نہ کہے، خیر ہوئ
گر بگڑ بیٹھےتو میں لائق تعزیر بھی تھا

جاری ہے۔