بچوں کے سوالات کا سلسلہ جب شروع ہوتا ہے تو وہ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ وہ کیسے والدین کے پاس آئے۔ والدین کی اکثریت بچوں کے سادہ ذہن کو ایک سادہ سا جواب دیتی ہے کہ کسطرح کوئ فرشتہ یا پری انہیں ایک تحفے کی صورت پہنچا گیا۔ میری بیٹی نے ایک دن میری معلومات میں یوں اضافہ کیا ، آپ کو پتہ ہے ماما، کچھ بچوں کو نرس بھی لے کر آتی ہیں اور ایسی صورت میں ماما کو ہسپتال میں ہونا پڑتا ہے کیونکہ نرس ہسپتال میں ہی ہوتی ہے۔ جب میں نے اس معلومات کا ذریعہ دریافت کیا تو انہوں نے مجھے ٹی وی کا ایک اشتہار دکھایا۔ جس میں ایک نرس ایک چھوٹا سا بچہ لے کر آتی ہے۔ ٹی وی والدین کی بہت ساری مشکلوں کو اس طرح آسان بھی کرتا ہے۔
میں آپ سے کوئ ایسا مشکل سوال نہیں کرنے جارہی۔ یہ ایک بالکل آسان سا سوال ہے اور یہ میرے ذہن کی پیداوار بھی نہیں ہے۔ بلکہ اسے میں نے جس ویڈیو سے اٹھایا ہے وہ بھی ساتھ میں موجود ہے۔
سوال یہ تھا کہ درخت کہاں سے اپنا وجود حاصل کرتے ہیں۔
میں آپ سے کوئ ایسا مشکل سوال نہیں کرنے جارہی۔ یہ ایک بالکل آسان سا سوال ہے اور یہ میرے ذہن کی پیداوار بھی نہیں ہے۔ بلکہ اسے میں نے جس ویڈیو سے اٹھایا ہے وہ بھی ساتھ میں موجود ہے۔
سوال یہ تھا کہ درخت کہاں سے اپنا وجود حاصل کرتے ہیں۔
ابتداً لوگوں نے کہا زمین سے غذائیت لیتے ہیں، زمین کی مٹی استعمال کرتے ہیں اور اس طرح بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن سوال کرنے والے نے ایک سائینسداں کا حوالہ دیا جس نے ایک ایک بیج لگایا ، مٹی کو تول لیا اور پھر پانچ سال تک اس پودے کی دیکھ بھال کی اس طرح کہ مٹی بالکل بھی ضائع نہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ سال بعد مٹی کے وزن میں ساٹھ گرام کی کمی واقع ہوئ جبکہ پودے نے ستر کلو گرام وزن حاصل کیا۔ پس ثابت ہوا کہ مٹی سے پودا جسامت حاصل نہیں کرتا۔
پھر لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ پانی کی وجہ سے ہے۔ محض پانی سے مادہ نہیں بن سکتا۔ اس کے بعد یہ کہا گیا کہ سورج کی روشنی کی توانائ مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ آکسیجن کا اس سے کوئ تعلق ہے شاید، کچھ نے اس خدشے کا اظہار کیا۔
لیکن نہیں، پودوں کو بڑھنے کے لئے ایک چیز اور بھی چاہئیے ہوتی ہے اور وہ ہے کاربن ڈائ آکسائیڈ۔ پودے سورج کی روشنی کی موجودگی میں کاربن ڈائ آکسائیڈ سے اپنی غذا تیار کرتے ہیں، یہ عمل فوٹو سنتھیسزیعنی شعاعی ترکیب کہلاتا ہے۔ اس طرح وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور جسامت حاصل کرتے ہیں۔ ادھر دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہم، انسان سانس کے ذریعے کاربن ڈائ آکسائیڈ خارج کرتے ہیں یوں ہمارے اندر جو کمی واقع ہوتی ہے وہ پودے کی بڑھوتری کی صورت نمودار ہوتی ہے۔
۔
لیکن نہیں، پودوں کو بڑھنے کے لئے ایک چیز اور بھی چاہئیے ہوتی ہے اور وہ ہے کاربن ڈائ آکسائیڈ۔ پودے سورج کی روشنی کی موجودگی میں کاربن ڈائ آکسائیڈ سے اپنی غذا تیار کرتے ہیں، یہ عمل فوٹو سنتھیسزیعنی شعاعی ترکیب کہلاتا ہے۔ اس طرح وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور جسامت حاصل کرتے ہیں۔ ادھر دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہم، انسان سانس کے ذریعے کاربن ڈائ آکسائیڈ خارج کرتے ہیں یوں ہمارے اندر جو کمی واقع ہوتی ہے وہ پودے کی بڑھوتری کی صورت نمودار ہوتی ہے۔
۔
۔
۔
بس ایسے آہستہ آہستہ ہم درخت بن جاتے ہیں۔ ایک پرانا مشاہدہ، الفاظ کے چاک پہ نئ صورت ابھرتا ہے۔
اس خیال پہ مبنی یہ دلچسپ ویڈیو دیکھنا نہ بھولئیے گا۔