یہ میرا آنرز کا پہلا سال تھا۔ عمر یہی کوئ سترہ سال۔ میں نے اپنا پریکٹیکل ختم کیا اور سامان دھو کر رکھنے لگی۔ اس دن ہم نے رنگ بنانے کا بنیادی طریقہ سیکھا تھا۔ اسکی دلچسپ بات یہ تھی کہ تیزابی پانی میں یہ گلابی رنگ دیتا تو اساسی پانی میں یہ اورنج رنگ کے ساتھ سبز چمک دیتا۔ جو بڑی خوبصورت معلوم ہوتی۔ اسکی ٹیسٹ ٹیوب کو میں نے خوب رگڑا۔ لیکن اس مرکب کا ایک چھوٹا سا غیر محسوس ٹکڑا تہہ میں ایسا چپک گیا تھا کہ نکلنے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں نے اس ٹیسٹ ٹیوب کو سکھا کر اوپر سے کاغذ کے ایک گولے سے بند کر کے اپنے بیگ میں رکھ لیا۔
گھر پہنچتے ہی چھوٹی بہن نے خوشی کا نعرہ مارا۔ اسکی عمر یہی کوئ چار پانچ تھی۔ اور وہ ہر روز اپنی سائینس کی ٹیچر کے فرمودات سنایا کرتی تھیں اورروز کے حساب سے حاصل ہونے والی اپنی معلومات کو فوری طور پہ شیئر کرنا فرض عین سمجھتی تھیں کہ اس سے ہم سب کے منہ کھلے رہ جاتے۔ ہماری اس بے مثل ایکٹنگ سے وہ اپنے آپکو ایک علامہ سے کم نہیں سمجھتی تھیں۔ لیکن آجکا دن ان کی علمیت ہی کیا انکے مشاہدات پہ بھاری تھا۔ کیونکہ اس سازش میں قدرت ہی نہیں انکی ہر دلعزیز ہمشیرہ بھی شامل تھیں۔ ہر دلعزیز اس لئے کہ زیادہ اچھی اداکاری کرتی تھیں۔
میں نے کھانے وغیرہ سے جب فراغت پائ تو انہیں بتایا کہ آج میرے پاس ایک جادو ہے انکے لئے۔ بیگ سے ٹیسٹ ٹیوب نکالی۔ ایک پیالے میں صابن کا پانی یعنی اساسی محلول تیار کیا اور اس بظاہر خالی ٹیسٹ ٹیوب میں ڈال دیا۔ انکے تجسس بھرے چہرے پہ ایک گہری سنجیدگی ابھری اور وہ میرے جادو کے سامنے چت ہو گئیں۔ اس خالی ٹیسٹ ٹیوب میں اب اورنج رنگ کا محلول موجود تھا جس میں سبز دلکش چمک موجود تھی۔
تو جناب، مجھے بچپن سے ولی بننے کا بہت شوق تھا۔ لوگوں کے دلوں کے راز جان لوں، جائے نماز کے نیچے سے پیسے بر آمد کر لوں، جو خواب دیکھوں سچ ثابت ہو، جسے جو دعا دوں وہ پوری ہوجائے۔ کائینات کے ہر علم سے آگاہ ہوجاءوں۔ اس کوشش میں اولیاء اکرام کی سوانح حیات پڑھیں۔ تاکہ انکے تجربات سے مستفید ہوں۔
تھوڑے بڑے ہونے پہ پتہ چلا کہ صرف تقوی وغیرہ سے کام نہیں چلے گا۔ وظیفوں کا گھوٹا بھی لگانا پڑے گا۔ لیجئِے جناب اب ہر روز کئ ہزار دفعہ درود شریف تو خدا جانے کتنی دفعہ اور اسماء کا ورد بھی شامل ہو گیا۔ ادھر چکی کی مشقت بھی جاری تھی۔ یعنی دنیاوی حقیر علوم , سائینس وغیرہ سے بھی نجات ممکن نہ تھی کہ اس سلسلے میں تعلیمی اداروں کو روانہ ہوتے، فیس بھرتے، امتحان دیتے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ہماری سائینس کی کتابوں میں پہلا سبق ان مسلمان سائینسدانوں کا شامل ہوا جنہوں نے سائینس کی دنیا پہ وہ عظیم احسانات کئے جس سے اب کئ ہزار سالوں کے لئے ہماری آنے والی نسلوں پہ سے یہ فرض ہٹ گیا۔
ایک طرف اولیاء اکرام کی سحر ناک ہستیاں ، لیکن انکے وظائف کے ساتھ یہ مسئلہ کہ جسے بخشیں بس اسی کو سمجھ میں آوے اور کرے تو ٹھینگا پاوے بلکہ وظائف کا اثر الٹا ہونے کی صورت میں دماغ میں خلل بھی ہو جاوے اور موکل اور جن ایسا قابو پاوے کہ کسی کو کچھ سمجھ میں نہ آوے۔ دل تو اس خبر سے بھی پگھلا جاتا کہ خدا کے کلام کی برکت پانے کے لئے، ملک کا حکمراں تک ڈنڈا کھانے کو آوے۔
دوسری طرف سائینس کی کرشمہ سازیاں، تھوڑی بہت تربیت پاویں ، کوشش کرتے جاویں اور ایک دن ایسا آوے کہ خود بھی کوئ وظیفہ ، یعنی فارمولا، نظریہ یا ایجاد بنانے کے قابل ہو جاویں۔ لیکن حکمران ایسا سامان کر جاویں کہ اسے حاصل کرنے میں ہم خون کے آنسو بہاتے جاویں اور ہرگز نہ حاصل کر پاویں۔
اگرچہ لوگوں نے بڑا زور دیا کہ ہمارا مذہبی تصوف بڑے بڑے کمالات دکھا سکتا ہے۔ اسکے بعد دنیا کو کسی علم کو حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ مگر جناب ادھر تو لفظ 'سکنا' کے بجائے 'موجود' تھا۔ ادھر بے یقینی اور ادھر آنکھوں دیکھا یقین۔ ادھر جتنا سر مارو اسرار ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے ، ہر چھوٹے سے قدم کے بعد حلق سے نکلنے والے مشکل الفاظ کی بھر مار، ادھر جتنا آگے بڑھو اتنا ہی اسرار کی دنیا کھل کر سامنے چلی آرہی ہے۔ ادھر ہر نعرہ ء تعجب کے بعد سبحان اللہ نکلتا ہے ادھر سبحان اللہ کہنے کے بعد نعرہ ء مستجاب۔
یہی نہیں آنکھوں دیکھی یہ کہ ہمارا تصوف ہی کیا دنیا کے ہر مذہب میں ایسے اسرار موجود۔ دنیا کے ہر مذہب میں خدا سے اپنی مرضِی کے کام کروانے کے وظائف حاضر۔ جیت کس کی ہونی تھی؟ میں بھی اپنی ہمشیرہ کی طرح سائِنس کے سامنے چت ہو گئ۔ فرق یہ تھا کہ وہ لا علمی میں ہوئ اور میں علم کے ساتھ اور علم کے ساتھ ہونا افضل ہے۔
آج بھی اعمال وظائف کی کتاب سرہانے دھری ہے۔ سوچتی ہوں اسکا حشر حضرت سلمان کی لاٹھی والا نہ ہوجائے۔ آخری دفعہ آزمائیشی طور پہ محبوب کو قابو کرنا چاہا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنا بنا کر چھوڑتا۔ اس سراب سے یوں نکل آئے جیسے بارش کے بعد سورج نکلتا ہے۔ زیادہ واضح ، چمکدار اور گرم۔ ہم قصور انکا سمجھتے تھے اپنا نکل آیا۔ محبوب اپنے طور پہ سمجھتے ہونگے کہ وہ تاریک راہوں میں مارے گئے لیکن حقیقت میں یہ روشنی کی مار تھی۔
وظائف کی اس دنیا کے اسیر اتنے ہیں کہ ایک سے بات شروع کریں دو چار سو اور نکل آئیں گے۔
مجھے یاد ہے ان دنوں لانڈھی کے علاقے میں خاصے حالات کشیدہ تھے۔ مجھے اپنی ایک عزیزہ کے ساتھ زندگی میں پہلی دفعہ اس طرف ضروری کام سے جانا پڑا۔ باتوں کا سلسلہ روکنے کے لئے میں نے کہا بس اب چلتے ہیں حالات خراب ہیں، میں اس علاقے سے مناسب طور پہ واقف بھی نہیں اور ہم دو خواتین کو گاڑی خود لے کر جانی ہے۔ اندھیرا ہوجائے گا تو مشکل ہوگی۔ صاحب خانہ کہنے لگے کہ بھئ گھبرانے کی کیا بات ہے آیۃ الکرسی پڑھ کر دم کر لینا۔ میں تو روز صبح آیۃ الکرسی کا دم کر کے نکلتا ہوں آج تک کسی اچکے نے میرے اوپر ہاتھ نہیں ڈالا۔
معاملات نازک تھے ورنہ کہتی کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہوگی جو آیۃ الکرسی پڑھ کر گھر سے نہیں نکلتی اور آج تک کسی نے ان پہ ہاتھ نہیں ڈالا۔ اگر حفاظت محض آیۃ الکرسی کے پڑھنے سے ہوجاتی تو سزا اور قانون وجود نہ رکھتے اور قاضی صاحب کسی کھاتے میں ہوتے ۔ ایسے میں جو لٹتا تو صاف پتہ چل جاتا کہ یہ ہے وہ ناہنجار جو آیۃ الکرسی نہیں پڑھتا۔ اسی کو درے جڑے جاتے۔ یوں ٹارگٹ کلرز اور طالبان کو منہ چڑا کر بھاگ جاتے۔ ادھر فوجیوں کی سخت تربیت کی ضرورت نہ رہتی بلکہ فوج ہی کی ضرورت نہ رہتی۔ سرحد پہ لائین سے لوگ تسبیح لے کر بیٹھ جاتے اور آیۃ الکرسی پڑھا کرتے۔
ابھی دو سال پہلے مولانا صاحبان نے شہر میں ایک پمفلٹ بٹوایا کہ ملک میں بد امنی اور بے سکونی کی بنیادی وجہ آوارہ عورتیں ہیں۔ ایک تو انکا سد باب کیا جائے دوسرا یہ کہ سورہ والشمس اتنی ہزار دفعہ لوگ گروہ بنا کر پڑھیں۔ ان دنوں ہم جہاں جاتے پتہ چلتا کہ والشّمس کا ورد ہو رہا ہے۔ لیکن پھر بھی آوارہ عورتیں جیت گئیں یعنی ملک اسی طرح بد امنی کا شکار رہا۔
چونکہ آجکل وظائف کا فیشن ہے اس لئے ہر مسئلے کا حل ایک وظیفہ ہے جو ہر کسی کو معلوم ہے۔ جس طرح لوگ پہلے بیمار کو طبی مشورے مفت دیتے تھے اب لوگ مفت وظیفہ بتاتے ہیں۔ یہاں اسی سال کا بوڑھا انسان ہسپتال میں ہو یا خاتون بچے کی ڈلیوری کے سلسلے میں ہسپتال میں، گھر میں یا سلام کا ورد شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد بوڑھآ آدمی مر جاتا ہے۔ یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ انکی تو عمر ہی مرنے کی تھی۔ اور خاتون نارمل ڈلیوری کے بعد گھر میں موجود، جس روح کا آنا ہوتا ہے آکر رہتی ہے، ہم کہتے ہیں۔
مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے کا سوال بعد میں اٹھتا ہے مرنے کے بعد بھی وظائف کی ایک بھرمار رہتی ہے۔ کسی شخص کی موت کا اعلان ہوتے ہیں سات دفعہ سورہ بقرہ لازمی، اکتالیس دفعہ سورہ یسین، پھر خدا جانے کتنی بار سورہ ء ملک، پھر کئ لاکھ بار کلمہء طیب کا ورد، پھر پچیس ہزار بار قل شریف۔ کس واسطے کہ مرنے والے کی مغفرت ہو اور قبر میں آرام سے رہے۔ چاہے مرنے والا خدا پہ مناسب یقین بھی نہ رکھتا ہو۔ لیکن اس سامان کے بغیر اسکی رخصتی ممکن نہیں۔ یوں وہ لوگ جو دیار غیر میں رہتے ہیں اور وہیں دفن ہوتے ہیں یا وہ جن کا خاندان چھوٹا ہے انکے شدید خسارے میں رہنے کے امکان زیادہ ہیں۔
صفر کا مہینہ آتا ہے تو سورہ مزمل کا وظیفہ، سارے سال کی بیماریوں اور مصائب سے چھٹکارا۔ لیکن پھر بھی احتجاج کے دوائیں مہنگی ہو رہی ہیں، ڈاکٹر لا پرواہ۔ حکومت ناکارہ، مصائب کا کوئ شمار نہیں۔
رجب سے رمضان تک جو وظائف ہیں انکا فوکس گناہوں سے نجات پانا ہے اعمال سے نہیں بلکہ وظائف سے۔ اگرچہ رمضان کے گیارہویں، بارہویں روزے پہ لڑکیوں کے رشتے کرانے کا وظیفہ بھی آتا ہے۔ پھر بھی والدین کو رشتے کرانے والے اداروں کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔ لڑکیوں کو سنگھار کر کے چائے لے کر مہمانوں کے سامنے جانا پڑتا ہے اور میٹرک کس سن میں کیا تھا، بتانا پڑتا ہے۔
شب براءت میں گناہوں کی بخشش کا وظیفہ، لمبی حیات کا وظیفہ، آفات و بلیات کو دفع کرنے کا وظیفہ، قبر کے عذاب سے نجات کا وظیفہ۔ ان سارے وظائف کی وجہ سے گناہوں کے کرنے کا حوصلہ ہے کہ بڑھا جاتا ہے اور مرنے کا خوف دل سے جاتا رہتا ہے۔
یہی نہیں یا علیم پڑھیں علم حاصل کریں، کراچی گرامر اسکول، ماما پارسی، آئ بی اے یا فاسٹ پہ لعنت بھیجیں۔
یا اول پڑھیں اور اولاد نرینہ حاصل کریں، سورہ ء واقعہ پڑھیں رزق حاصل کریں، جنت حاصل کرنے کے وظائف بے شمار، خدا کو راضی کرنے کے بھی اتنے ہی وظائف۔ اس سے بھی دل کی تسلی نہیں ہوتی یا یہ کہ آپکا فطری رجحان ریاضی یا شماریات کی جانب ہے تو وہ وظائف اختیار کریں جن میں ثواب کی گنتی بتائ گئ ہے مثلاً تین دفعہ سورہ ء اخلاص پڑھیں سال بھر کے قرآن کی تلاوت کا ثواب۔ باقی کا قرآن کیوں نازل کیا گیا، یہ معمہ حل طلب۔ فلاں دن کا روزہ رکھ لیں سال بھر کے روزوں کا ثواب۔ فلاں مہینے کا عمرہ کر لیں، حج کا ثواب۔ لیجئِے اس مہینے لوگ جوق درجوق عمرے کے لئے جا رہے ہیں۔ سعودیوں کے مزے، زائد آمدنی عمرے کے بہانے ہو رہی ہے۔
میں تو اللہ پاک بے نیاز کا شکر ادا کرتی ہوں۔ بر وقت ولی بننے کا ارادہ موقوف کر دیا۔ ورنہ وظائف کی سیچوریشن کے اس زمانے میں مقابلہ کرنا بڑا مشکل ہوجاتا۔ ہم تو اسی میں خوش، سنگ مر مر پہ تیزابی پانی ڈالو تو کاربن ڈائ آکسائیڈ گیس پیدا ہوتی ہے۔ بچوں، جار کو الٹا کر کے اسے جمع کرو کیونکہ یہ ہوا سے بھاری ہوتی ہے۔
بچے یہ سیکھنے کے لئے کوچنگ سینٹرز کے باہر ہزاروں روپے دے کر ہزاروں کی تعداد میں کھڑے ہیں جبکہ ماں باپ کسی وظیفے کی تسبیح لئے کھڑے ہیں کہ انکا بچہ اے ون گریڈ میں کامیاب ہو اور میڈیکل یا انجینیئرنگ میں داخلہ ہوجائے۔ قارِئین اکرام، اندازہ کریں جیت کس کی ہوگی؟
۔