Showing posts with label جینیات. Show all posts
Showing posts with label جینیات. Show all posts

Thursday, April 22, 2010

کزن میرج، ایک اور تجزیہ

کافی عرصے سے کزن میرج پہ لکھنا چاہ رہی تھی۔ لیکن جب اسکے متعلق ایسی تحریریں پڑھیں جس میں لوگوں نے اپنے ذاتی تجربات کے ذریعے اسکے کسی بھی نقصان دہ پہلو کو خدا پہ ڈالدیا تو یہ خیال آیا کہ اس پہ ضرور لکھنا چاہئیے۔ ذاتی تجربات تو نہیں کہ میرے خاندان میں کزن میرج کا ایسا کوئ خاص رواج نہیں۔ لیکن مشاہدات سے کزن میرج ایک صحتمند ، توانا اور ذہنی طور پہ چست نسل کے لئے کوئ بہتر خیال نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ شادی کے نتیجے میں ہر دو فریقین کی ترجیح ایک صحتمند اولاد ہی ہوتی ہے اور ایسا کم ہی ہوتا ہے بالخصوص جنوبی ایشیائ گھرانوں میں کہ شادی کا مقصد صرف ایک وفاداراور پر جوش رفاقت ہو۔

اگر میں صرف اپنے ذاتی مشاہدات گنوانے بیٹھ جاءووں جو اندرون سندھ کے کسی دور افتادہ گاءوں سے، کراچی میں ایسے خاندان جہاں خاندان سے باہر شادی ہرگز نہیں ہوتی پہ مشتمل ہے۔ تو ان سب میں بچوں کی معذوری یا پیدائش کے فوراً کسی پیچیدگی کا شکار ہونا یا کسی ایسے عارضے میں مبتلا ہونا جیسا کہ دل کے والو کی خرابی  یہ ان جوڑوں میں زیادہ پائ جاتی ہے جو کہ کزن ہوتے ہیں۔

جو تحریریں میں نے اس ضمن میں پڑھیں اس میں ایک بات کو بری طرح نظر انداز کیا گیا اور وہ یہ کہ یہ صرف کزن میرج نہیں،  بلکہ پشت ہا پشت تک ایک ہی نسل میں شادی کا رجحان ہے۔  کبھی کسی کا اپنے کزن سے شادی کرنے کا دل بہت ہو، کچھ اور معاشرتی مسائل ہوں تو الگ بات ہے۔ لیکن صرف کزن سے شادی کرنا یہ ایک صحت مند طرز عمل نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئ سانحہ آپکے ساتھ نہیں ہوا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ اب اس عمل کو درست قرار دے دیا جائے۔ اگر میں آپکو دو طرح کے پریشر کوکر دکھاءووں اور کہوں کہ الف کے ساتھ ککر پھٹنے کے امکانات ساٹھ فی صد ہیں اور ب کے ساتھ ککر پھٹنے کے امکانات دس فیصد تو کوئ بھی عقلمند شخص دس فیصد والے کو خریدے گا۔ اگرچہ اسکی قیمت معمولی سی زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔

کزن میرج کے ساتھ بالعموم یہ مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ اسے دین اسلام پہ حملہ تصور کر لیا جاتا ہے۔ مذہب کزن میرج کی اجازت دیتا ہے اسے لازمی نہیں بناتا۔ یہ اجازت تو اپنے لے پالک بچے کے شوہر یا بیوی سے شادی کرنے کی بھی ہے لیکن اسکے لئے اب ہر مسلمان پہ لازمی نہیں کہ وہ کوئ بچہ لے کر پالے پھر اسکی شادی کر کے اسکے اپنے جوڑے سے الگ ہونے کا انتظار کرے۔

مغربی ممالک میں بھی تقریباً  سو سال پہلے تک کزن میرج ہوتی تھی۔ مشہور زمانہ ارتقاء کا نظریہ پیدا کرنے والے سائنسداں  چارلس ڈارون کی بیوی اسکی کزن تھی اور آئینسٹائن کی دوسری بیوی بھی اسکی کزن تھی۔ لیکن بعد میں مغرب نے اسکے برے اثرات کے پیش نظر اسے اتنا کم کر دیا کہ اب زیادہ تر حالات میں مغربی معاشرے میں کزن سے شادی سگے بہن بھائ کی شادی کی طرح ہی بری تصور کی جاتی ہے۔ اور اب وہاں کچھ حلقے یہ مہم چلاتے ہیں کہ کزن میرج کوئ مذہباً بری بات نہیں ہے۔
اب ہم اسکے سائینسی تجزئیے کی طرف آتے ہیں اور اسے مینڈل کے وراثتی قانون کے تحت دیکھتے ہیں۔

ایک نسل سے دوسری نسل تک خصوصیات جینز کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں۔یہ جینز کروموسومز پر موجود ہوتے ہیں۔ ہر انسان میں کروموسومز کے تیئیس جوڑے پائے جاتے ہیں۔ عورتوں میں یہ جوڑا دو ایکس پہ مشتمل ہوتا ہے اور مردوں میں ایک ایکس ہوتا ہے اور دوسرا وائ۔ بچے اپنے کروموسومز کے جوڑوں کا ایک حصہ باپ سے اور دوسرا ماں سے حاصل کرتے ہیں۔ لڑکوں میں ماں سے کروموسوز کا ایکس حصہ اور باپ کی طرف سے وائ حصہ آتا ہے۔ اور لڑکیوں میں ماں کی طرف سے ایکس اور باپ کی طرف سے بھی ایکس حصہ آتا ہے۔ اسی لئے بعض جینیاتی بیماریاں لڑکوں کی طرف سے، بعض لڑکیوں کی طرف سے اور بعض دونوں سے چلتی ہیں۔

کروموسومز دھاگے جینز سے بنے ہوتے ہیں اور یہ جینز پیغامات رکھتے ہیں کہ ہماری ممکنہ شکل و صورت، رنگ بال، ذہن مزاج حتی کہ بیماریاں کیا ہو سکتی ہیں۔والدین کے  جینز آپس میں ملتے ہیں تو ان میں والدین کی جینز کے سب خواص موجود ہوتے ہیں۔

جینز پہ لکھے ہوئے یہ پیغامات جو ہماری نسل کے آغاز سے اس پہ موجود ہیں۔ سب کے سب ہم میں ظاہر نہیں ہوتے۔ کچھ جو مضبوط ہوتے ہیں ظاہر ہو جاتے ہیں اور جو کمزور ہوتے ہیں وہ جینز میں موجود تو ہوتے ہیں مگر اس وقت خاموش ہوتے ہیں انہیں مغلوب جینز کہتے ہیں۔ جیسے والدین میں سے ایک آنکھیں نیلی ہیں اور دوسے کی براءون تو اگر بچے کی آنکھیں نیلی ہیں تو یہ جین غالب آگئ اور براءون جین کا پیغام چھپپا ہوا ہے۔ اگلی کسی نسل میں یہ براءون جین والا پیغام ممکن ہے کہ سامنے آجائے اور نیلی جین والا مغلوب ہو جائے۔


اب اگر آپ  اس دی گئ  شکل پہ تھوڑا سا غور کریں تو ہرے رنگ کی اشکال صحتمند والدین کی ہیں انکے بچے بھی صحتمند ہونگے۔دوسرے جوڑوں میں کسی ایک کا آدھا حصہ سفید دکھایا گیا ہے اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انکے بچوں میں بھی انکے اثرات موجود ہیں۔ جو بچے آدھے سفید اور آدھے ہرے ہیں ان میں بیماری کے جینز تو موجود ہیں لیکن وہ ان میں ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ان بچوں میں یہ صلاحیت ہے کہ آگے والی نسل میں اسے ٹرانسفر کر دیں۔ انہیں کیریئر کہتے ہیں۔ یعنی خود نہ متائثر ہو لیکن اگلے کو پہنچا سکتا ہو۔ اب اگر انکا ملاپ کسی ایسے شخص سے ہوتا ہے جو خود بھی کیریئر ہے تو اس بیماری کے ہونے کے امکانات کہیں زیادہ ہونگےجیسا کہ بعد کی تصویروں سے ظاہر ہے۔



کئ پشتوں تک ایک ہی نسل کے لوگ اپنے  کزنز سے شادی کرتے رہیں
تو کمزور جینز کے غالب ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اسکی مثال اس طرح ہے کہ اگرجینز میں دس نسل پہلے کسی ایک کو دل کی خرابی کا مرض لا حق تھا تو مسلسل دس نسلوں تک اآپس میں شادی کے نتیجے میں دل کی خرابی کے امکانات بڑھتے چلے جائیں گے۔ کیونکہ ہر جین کے اندر اسکا پیغام چھپا ہوگا۔ جسکی فریکوئینسی بڑھنے سے وہ زیادہ ہوتا چلا جائیگا۔

اچھا ۔جانوروں میں ایک چیز اور ہوتی جو ان بریڈنگ کہلاتی ہے۔ اس عمل میں اعلی ترین نسلی خواص رکھنے والے جانوروں کی اولادیں حاصل کی جاتی ہیں اور پھر ان اولادوں میں جنکے بہترین خواص ہوتے ہیں انکی میٹنگ کراتے ہیںیعنی کزن میرج۔ یہ عمل ہر بار اعلی خواص رکھنے والی اولادوں کیساتھ دوہرایا جاتا ہے۔ اس طرح کمزور خواص رکھنے والی جینز آہستہ آہستہ باہر ہوجاتی ہیں اور اعلی خواص رکھنے والی جینز قائم رہتی ہیں۔

یہ خاصہ ٹیکنیکل کام ہوتا ہے۔ اسکے نتیجے میں ایک اعلی خواص رکھنے والی نسل تو حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن ایک اور خامی پیدا ہو جاتی ہے جسے ان بریڈنگ ڈپریشن کہتے ہیں۔ اور اسکی وجہ سے اگر کوئ ایک کمزوری کسی ایک جین میں ہو تو وہ اس نسل کی تمام جینز کے اندر ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے میرے ایک کولیگ جن کے یہاں شادی خاندان سے باہر قطعاً نہیں ہوتی تھی۔ ان کی ایک بہن کے تین بچے تھے اور تینوں بچوں کو جلد کی ایک ایسی بیماری تھی جسکا کوئ علاج نہ تھا۔ میری سرائیکی ماسی کے خاندان میں پچھلے دو سال میں تین نوزائیدہ بچوں کا انتقال دل کے والو کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہو اور تین بچے دماغ کی کمزوری کا شکار ہیں۔

ایک ریسرچ کے ذریعے یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ جتنا  کزن میرج کو دہرایا جاتا ہے اتنا ہی بچوں میں جسمانی کمزوریاں اور دماغی صلاحیتیں کم ہونے کا اندیشہ بڑھتا رہتا ہے۔ اور اسکی مثال وہ اس طرح دیتے ہیں کہ یہ اثر اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جتنا کہ بیالیس سال کی عمر کے بعد کسی خاتون کے پیدا ہونے والے بچے میں کسی بھی قسم کی خرابی یا معذوری کا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اب اگر کوئ یہ کہے کہ اپنے سے بڑی عمر کی خاتون سے شادی کرنے میں کوئ مضائقہ نہیں اور اسلام اسکی اجازت دیتا ہے بلکہ رسول اللہ نے اپنی نوجوانی کا زمانہ اپنے سے پندرہ سال بڑی خاتون کے ساتھ گذارا اور وہ بھی ایک دو تین سال نہیں پورے پچیس سال تو  سب خاموش ہو جائیں گے اپنے سے بڑی خاتون تو آنٹی ہی ہو سکتی ہیں۔دل مزید نرم کر لیں تو باجی۔ مگر بیوی، لا حول ولا قوت۔ بس۔ مگر کزن میرج پہ سب دلیلیں دینے لگتے ہیں کہ خدا کا نام لیکر کر ڈالوجی کچھ نہیں ہوتا۔

اس ساری تحریر کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپکے خاندان میں کئ نسلوں سے کزن میرج کا سلسہ چل رہا ہے تو خاندان سے باہر نکل کر دیکھیں۔ دو مختلف جینز بہتر نسلی خصوصیات لاتی ہیں۔ معاشرے کے اندر توازن اور برداشت پیدا کرتی ہیں۔ ذہن کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرتی ہیں۔ اور ان سب چیزوں کی  ہمیں بے حد ضرورت ہے۔