یہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ میں یونیورسٹی سے واپس آرہی تھی۔ منی بس نیپا کے بس اسٹاپ پہ رکی تو ایک عورت چڑھی۔ لمبے قد اور اچھی جسامت کی چالیس سال سے اوپر کی یہ عورت ایک معقول گھرانے کی لگ رہی تھی۔ اچھی تراش کے کپڑے پہنے ہوئ اور اس پہ کشیدہ کی ہوئ چادر اوڑھے ہوئے تھی۔ اسکا چہرہ لگ رہا تھا کہ کسی پارلر کی توجہ لیتا رہتا ہے کہ بھنویں تھریڈنگ کے ذریعے بنی ہوئیں، بال مناسب انداز میں سدھارے ہوئے، ہاتھ اور پیروں کے ناخنوں پہ باسی ہوتی ہوئ نیل پالش ۔ پھر اس نے ایک عجیب حرکت کی کہ اچانک مانگنا شروع کر دیا۔ میرا شوہر خاصہ بیمار ہے، اسکے علاج کے لئے پیسے چاہئیں، اور پھر ایک ہمدردی حاصل کرنے والی تقریر۔ خواتین نے تو اسکو زیادہ لفٹ نہ دی اور وہ اس گیٹ کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئ جو مردانے کی طرف کھلتا ہے۔ وہاں سے اسے کچھ خیرات ملی۔
آئیندہ چار پانچ بس اسٹاپ تک وہ اس میں اسی طرح موجودرہی۔ پھر وہ اکثر اس وقت نظر آنے لگی اسی طرح مردوں کے حصے کی طرف منہ کئے اور انکے گیٹ سے لگی۔ میں نے سوچا یہ عورت یقیناً بھیک کے پردے میں جسم فروشی کا دھندہ کرتی ہے۔ ورنہ ایسے حلئیے میں کیوں بھیک مانگتی ہے۔ ایکدن ایک ماسی نے اسے ڈانٹ بھی دیا۔' مجھے دیکھو تم سے کمزور ہوں پر سارادن بنگلوں میں صفائ کا کام کر کے حلال کی روزی کماتی ہوں۔ تم اتنی اچھی ہٹی کٹی عورت ہو بھیک مانگتے شرم نہیں آتی'۔
اسے شرم نہیں آتی تھی کیونکہ اسکے بعد بھی میں نے اسے یہی کرتے دیکھا۔ پھر میرا راستہ تبدیل ہو گیا۔
رمضان میں، میں نے دیکھا، اچھی خاصی لڑکیاں جن کی عمریں سترہ اٹھارہ سال سے لیکر زیادہ سے زیادہ تیس سال تک ہونگیں، بازاروں میں نظر آتیں۔ سر سے پیر تک اسمارٹ، رائج الفیشن برقعوں میں ملبوس، چہرے پہ حجاب کیا ہوا۔ ساتھ میں ایک اور خاتون۔ بھیک مانگنا اور وہ بھی بالخصوص مردوں سے انکے کندھےپہ اپنا نازک سا ہاتھ مارکر۔ میں نےسوچا یہ بھی شاید گاہک پکڑنے کا ایک طریقہ ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے میں میکرو کے پارکنگ ایریا میں رابعہ اور مشعل کے ساتھ موجود تھی۔ ہم تینوں خریدے گئے سامان کی ٹرالی میں سے سامان نکال کر ڈگی میں رکھنے میں مصروف تھے۔ میں سامان رکھنے سے زیادہ ان دونوں میں تصفیہ کرارہی تھی کہ کون ، کون سا سامان رکھے گا۔ اور ادھر مشعل ہر تھوڑی دیر بعد شور مچاتی کہ اسکی خدمات سے صحیح سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ میکرو ایک ہول سیل کا سپر اسٹور ہے۔ یہاں آرام یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں آرام سے خریداری کر لیں۔ لیکن سامان رکھنے کے لئے پلاسٹک کے تھیلے خریدنے ہوتے ہیں۔ میں دنیا میں پلاسٹک کی آلودگی اپنے تئیں بڑھانے کی کوشش نہیں کرتی البتہ کچھ تھیلے ڈگی میں رکھتی ہوں تاکہ بار بار کام آتے رہیں۔ اس لئے نہیں خریدے۔
اب ڈگی میں یہ سب سامان صحیح سے رکھنا تھا۔ اچانک مجھے پیچھے سے آواز آئ۔ میڈم۔ دیکھا تو ایک چھبیس ستائیس سال کے صاحب کھڑے تھے۔ کریز لگی ہوئ ٹرائوژرز اور ڈریس شرٹ پہنے ہوئے۔ پالش سے چمکتے ہوئے جوتے اور سر کے بال جیل لگا کر جمائے ہوئے۔ میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ کہنے لگا 'ماں بیمار ہیں، میں نوکری کرتا ہوں مگر پورا نہیں پڑتا۔ ماں کے علاج کے لئے پیسے چاہئیں۔ میں بھیک نہیں مانگتا۔ یہ نوٹ بک بیچ رہا ہوں آپ خرید لیں' میں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ 'ٹیوشن کیوں نہیں پڑھاتے'۔ جی میں ایک نوکری کرتا ہوں۔ کچھ وقت ماں کو بھی دینا ہوتا ہے'۔ اچھا میں نے اسکے ہاتھ میں موجود نوٹ بک کی طرف دیکھا۔ کتنے کی ہے یہ۔ کہنے لگا سو روپے کی۔ پہلے حیرانی سے میرا منہ کھلا پھر الفاظ نکلے۔ یہ تو زیادہ سے زیادہ دس، پندرہ روپے کی ہوگی۔ اس پہ اس نے انتہائ رسان اورکچھ مسکراہٹ سے کہا میں نے آپکو بتایا تو ہے کہ مجھے ماں کے علاج کے لئے پیسے چاہئیں۔ اس لئے ان نوٹ بکس کی قیمت تھوڑی زیادہ ہے۔
دیکھیں جناب، میں نے ان سے کہا۔ آپ یہ فیصلہ کریں کہ آپ بھیک مانگ رہے ہیں یا محنت کے پیسے چاہتے ہیں۔ میں آپکو اسکے زیادہ سے زیادہ پچیس روپے دے سکتی ہوں اس سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے آپ کوئ ڈھنگ کا کام کریں۔ اتنی دیر میں مشعل بور ہو چکی تھی۔ اور اس نے شور مچا دیا کہ رابعہ اسے سامان نہیں رکھنے دے رہی جبکہ یہ اسکی باری ہے۔ میں پھر ٹرالی خالی کرنے لگی۔ اس نے پھر آواز دی میڈم، آپ یہ لے رہی ہیں۔ ارے میں نے بتا تو دیا کہ میں آپکو اسکی کیا قیمت دونگی۔ آپکو دینی ہے تو مزید بات کریں۔ وہ ان آٹھ دس نوٹ بکس کو بغل میں دبا کر، پھر وہیں ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا۔ گاڑی کی ڈگی بند ہوئ۔ میں نے گاڑی پارکنگ سے نکالی۔ وہ وہیں کھڑا ہوا تھا۔
اب سوچتی ہوں خواتین کو تو دھندے والی سوچ لیا تھا۔ اس ہٹے کٹے، بھلی شکل اور ہیئت کے شخص کو کس کھاتے میں ڈالوں۔