Showing posts with label سندھ. Show all posts
Showing posts with label سندھ. Show all posts

Friday, March 23, 2012

پاکستان؟

آج جب گھر سے نکلی تو ٹی وی پہ قومی ترانے چل رہے تھے۔ فیس بک پہ لوگ تیئیس مارچ جیسے قومی دن پہ اپنے  جذبات سے فضا کو پرجوش بنائے ہوئے تھے۔  گھر سے باہر نکل کر بس جمعہ بازار تک گئ ، سبزیاں لینے اور یہ طلسم ٹوٹ گیا۔
ہوا یوں کہ جب میں نے امرود والے کے اس دعوے کے رد میں کہ اس نے بقول اسکے بہترین امرود رکھے ہیں۔ ایک بھی داغ دار نہیں ہوگا۔ ایک کے بعد ایک چار داغدار امرود نکال کر واپس رکھے تو بازار ان نعروں کی آواز سے گونج اٹھا جو سڑک سے آرہی تھیں۔ دوکاندار کی داغدار زبان رک گئ اور اسکی توجہ روڈ پہ ہو گئ۔ میں نے بھی مڑ کر دیکھا  بلا کسی خوف کے کہ کوہ قاف میں تو موجود نہیں ہوں۔ ایک کے بعد کئ منی بسیں گذریں جن پہ لوگوں کا ہجوم جئے سندھ نیشنلسٹ پارٹی کے جھنڈے لئے بیٹھا وہ نعرے لگا رہا تھا جنکے مطلب  اور معنی سے وہ خود بھی آگاہ نہیں تھے۔ مجھے بھی سمجھ نہیں آرہے تھے۔ یہ گاڑیاں شہر کے اس حصے کی طرف سے آرہی تھِں جہاں سندھی بلوچ گوٹھ ہیں۔ یہ وہ عوام ہے جو پیچھے پلٹ کر دیکھ نہیں سکتی۔ اس لئے نہیں کہ پتھر کی بن جائے گی اس لئے کہ اسے پیچھے دیکھنا ہی نہیں آتا۔ دیکھنا تو اسے آگے بھی نہیں آتا۔ جو انکے جدی پشتی رہ نما دکھا دیں وہی دِکھنے لگتا ہے۔
گھر آکر شہر کے حالات جاننے کا تجسس ہوا کہ ایک دوست سے ملنے کا وعدہ تھا۔ معلوم ہوا کہ  سندھ کی آزادی کا مطالبہ رکھنے والی اس ریلی کے شرکاء کی وجہ سے شاہراہ فیصل پہ بد ترین ٹریفک جام ہے۔ اور اس رکے ہوئے ٹریفک میں مسلح افراد نے لوٹ مار شروع کی ہوئ ہے۔
یہ جئے سندھ کی اس سلسلے میں پہلی ریلی نہیں تھی۔ ابھی چار دن پہلے بھی میں انکی ایسی ہی ریلی میں پھنسی اور جہاں جانے کا ارادہ تھا اسے ترک کے واپس آگئ۔
میں نے اپنا گھر سے نکلنے کا خیال منسوخ کیا۔ اور سوچنے لگی کہ ایک طرف بلوچستان میں آزادی کی نام نہاد جنگ سردار لندن، فرانس اور امریکہ میں بیٹھ کر لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف خیبر پختون خواہ میں انتہا پسندوں نے تحریک چلائ ہوئ ہے کہ انکے علاقے کی علاقہ غیر والی حیثیت بحال کر کے اسے حکومت  پاکستان کے رائج قوانین سے نہ صرف نجات دی جائے بلکہ باقی کے ملک میں بھی انکی مرضی کا نظام حکومت لایا جائے۔ جسے وہ شرعی حکومت کا نام دیتے ہیں۔ ادھر خدا بہتر جانتا ہے کہ کس کی شہہ پہ اچانک جئے سندھ والوں کو سندھ کی آزادی کے نعرے پہ دوبارہ کھڑا کر کے کراچی میں اودھم مچانے کی اجازت دے دی گئ ہے۔ ابھی چند دن پہلے کراچی میں کسی خفیہ ہاتھ نے کراچی کی دیواروں پہ مہاجر صوبے کا مطالبہ بھی لکھنے کی کوشش کی۔  ادھر پنجاب  میں جنوبی پنجاب باقی پنجاب سے اپنا حق مانگ رہا ہے۔ ادھر باقی پنجاب نئے سرے سے مسلمان ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اب ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے۔ یہ ملک یہاں کی بنیادی اقوام کو چاہئیے یا نہیں؟
مجھ سے ایک بزرگ نے دریافت کیا کہ یوم پاکستان کیوں منایا جاتا ہے؟ میں نے مطالعہ پاکستان میں برسوں پڑھے ہوئے جواب کو طوطے کی طرح دوہرا دیا۔ اس دن دو قومی نظرئیے کی بنیاد پہ پاکستان بنانے کا مطالبہ ایک قرارداد کی صورت میں مسلمانوں کی طرف سے متفقہ طور پہ پیش کیا گیا تھا۔ پھر پاکستان کا پہلا آئین بھی اسی دن پیش ہوا۔
انہوں نے دریافت کیا لیکن جس دن بنگلہ دیش بنا۔ نہ صرف اس قرارداد سے تعلق رکھنے والا  پاکستان اس دن ختم ہو گیا تھا بلکہ واقعی اگر کوئ دو قومی نظریہ تھا تو وہ بھی اس دن غلط ثابت ہوا۔  رہا آئین تو اس  پہلے کے بعد کئ آئین آئے۔ یہ آئین جسکی بگڑی ہوئ شکل اب موجود ہے۔ جو بھٹو نے بنایا۔ اسے قوم کو دینے کے بعد چوبیس گھنٹوں میں اس میں پہلی ترمیم ہوئ، جو بھٹو ہی نے کی تھی مخالفین کو دبانے کے لئے۔ اس لئے ان دونوں وجوہات کی بناء پہ تو اب اس دن کو بالکل نہیں منانا چاہئیے۔ کیوں مناتے ہو تم لوگ یہ دن؟
کیوں مناتے ہیں ہم یہ دن، کیا اس لئے کہ قومی ترانوں کو گانے کی پریکٹس ہو سکے یا اس لئے کہ اپنی منافقت کی ہم مزید مشق کر سکیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اگلی نسلوں میں اپنی پوری آب و تاب سے منتقل نہ ہو سکے؟
ملک کی سیاسی حالات کی ابتری کا اندازہ لگانے کے لئے مزید اشارے دیکھیں۔ گیلانی صاحب عدالت کے زور دینے پہ بھی سوئس حکومت کو خط لکھنے کے لئے تیار نہیں۔ انکے بقول وہ صدر صاحب کی پیٹھ میں چھرا نہیں مار سکتے۔ یہ نہ کر کے وہ  پاکستان کے سینے میں چھرا مار رہے ہیں اسکا انہیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں بلکہ پرواہ بھی نہیں۔
 اعتزاز احسن جو ججوں کی بحالی تحریک میں آگے آگے ہو رہے تھے۔ جسکی وجہ اب یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ بس مشرف کے لکھے کو مٹانا چاہتے تھے۔ اس کیس میں انہوں نے بھی اپنے ضمیر کی شاید صحیح قیمت وصول کر لی ہے۔ کہتے ہیں عدالت کو گیلانی صاحب کے گدی نشیں ہونے کا تو خیال کرنا چاہئیے۔
یہی نہیں، ادھر برہمداغ بگتی کے اوپر سے سارے مقدمات واپس۔ کیوں جناب؟ اس لئے کہ بلوچستان کہیں پاکستان سے الگ نہ ہوجائے۔ پھر پاکستان کے  یہ چھوٹے چھوٹے لوگ کیوں سزائیں بھگتتے ہیں اس لئے کہ وہ کسی نواب خاندان سے نہیں۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ پولیس اور عدالت کا نظام ہی ختم کر کے اس عذاب سے جان چھڑائیں۔
طالبان سے مذاکرات کر کے انکے مطالبات پہ غور ہونا چاہئیے۔ وہ کس لئے؟ کیونکہ ملک میں امن اسی طرح قائم ہو سکتا ہے کہ جنونیوں سے بھی خوشگوار تعلقات رکھے جائیں۔
ادھر کل زرداری صاحب  کو تاحیات صدر منتخب کیا جائے گا۔ وہ کیوں بھئ؟ کیونکہ اگر وہ پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے تو جئے سندھ والے تو سندھ کو پاکستان سے الگ کر کے لے جائیں گے۔ 
یہ پاکستان کیا کاغذ پہ ایک نقشے کا نام ہے؟ 
پاکستان کیا کسی قرارداد کا نام ہے؟
پاکستان کیا کسی نظرئیے کا نام ہے؟
پاکستان کیا ایک کرکٹ ٹیم کا نام ہے؟
حقیقت کچھ یوں نظر آتی ہے کہ یہاں کے حکمرانوں کو، سرداروں کو، جاگیرداروں کو، نوابوں کو اگر اسکے چھوٹے چھوٹے حصے بنا کر  وہاں کا والی وارث بنادیا جائے تو نہ صرف یہ اسے اپنی خوش قسمتی جانیں گے بلکہ انکے زیر سایہ آنے والے عوام بھی اس نشے میں کئ نسلیں زمین پہ رینگ کر گذار لیں گے۔
آخر ہم یوم پاکستان کیوں مناتے ہیں؟ جبکہ ہم پاکستان پہ یقین نہیں رکھتے۔
جب ہم الگ ہو جائیں گے تو کس حصے کا نام پاکستان ہوگا اور کیا وہاں یوم پاکستان منایا جائے گا؟
اور  اب آخری سوال وہ کیا چیز ہے جو پاکستان کو جوڑ کر رکھ سکتی ہے؟ دائیں بازو والے شاید ایک دفعہ پھر اسکاجواب مذہب دیں لیکن میرے خیال میں شاید ایٹم بم۔ کیونکہ الگ ہوتے ہوئے  ان قوتوں کو یہ بھی تو سوچنا پڑے گا کہ آخر ایٹم بم کس کے حصے میں جائے گا۔ 

Monday, September 12, 2011

پاکستانی سینی میں چین کی چینی

کل صبح بارہ بجے تک میری چائینیز کی کلاس ہے جو بھی کام ہوگا اسکے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ میرے ایک دوست نے اطلاع دی۔ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔ کیا ہوا کسی چائینیز کو اپنا محبوب بنا لیا ہے۔ کیونکہ ہمارے خطے میں مادری زبان کے علاوہ اگر کسی زبان کو لوگ دل سے سیکھنا چاہتے ہیں تو وہ انگریزی ہے نہ کہ چائینیز۔  جواب ملا نہیں چین جا کر کچھ کاروبار کرنے کا ارادہ ہے۔
سو میں  نے ان سے کچھ ابتدائ معلومات لیں۔ کراچی میں چند ایک ادارے ہیں جہاں یہ سکھائ جاتی ہے۔ پانچ چھ استاد ہیں جنہوں نے یہ فریضہ اٹھایا ہوا ہے۔ اور وہ آجکل بڑے مصروف ہیں۔ ان کی زیادہ تعداد چین سے تعلق رکھتی ہے۔
پھر اس کے بعد کسی اور سے بات ہو رہی تھی۔ پتہ چلا کہ وہ اپنے بچے کو کالج کی تعلیم کے لئے ہانگ کانگ بھیج رہے ہیں۔ ایک دفعہ پھر حیرانی سے گذرنا پڑا۔ لوگ لندن، کینیڈا، امریکہ بھیجتے ہیں آپ ہانگ کانگ بھیج رہے ہیں۔ جواب ملا، وہ زمانہ گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے آجکل انہوں نے فاختائیں آزاد کر کے اس خطے میں ڈیرہ ڈال لیا ہے۔  چین ، ہانگ کانگ۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے میں اپنا سرمایہ لگایا، ذہن لگایا۔ لیکن کہنے والے اسے ستم گر کہتے رہے۔ مغربی ممالک نے دہشت سے نبٹنے کے لئے دہشت زدہ پالیسیز بنائیں۔  یوں آج اس واقعے کے دس سال بعد دنیا میں سرمائے  اور اعتماد کے سفر میں ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے۔ یہ مغرب سے مشرق کی طرف چل پڑا ہے۔ مغرب کا عالم یہ ہے کہ یہ اڑی اڑی سی رنگت، یہ کھلے کھلے سے گیسو، تری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ اور مشرق آخر مشرق ہے۔
ان مشرقی ممالک میں اسلامی ممالک شامل نہیں۔ اگر ہم بہت کوشش کریں تو ترکی، ملائیشیا یا انڈونیشیا کا نام لے سکتے ہیں۔ جنکی معیشت بہتر حالت میں ہے۔ ان میں سے ترکی نسبتاً  مضبوط ہے اور بہتر مستقبل کی طرف دیکھتا ہے۔
پاکستان کے دگرگوں سیاسی حالات اور حکمرانوں کی عدم دلچسپی نے سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم کیا ہے۔ ایک طرف بجلی کی کمی ہے دوسری طرف شفاف نظام کا رونا۔ بالخصوص کراچی میں کاروبار کو چلانے کے لئے جس اعتماد اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے وہ پچھلے تین سال میں ناپید ہو گیا ہے۔
 ہمارے سرمایہ کار اپنا سرمایہ تیزی سے ملک سے باہر منتقل کر رہے ہیں جیسے ملائیشیا ۔ سرمائے کی اس منتقلی سے ہمارے ملک میں روزگار کے مواقع کم ہونگے اور مہنگائ مزید بڑھے گی۔ جس سے ایک عام انسان جس کا جینا مرنا اسی زمین سے وابستہ ہے متائثر ہوگا بلکہ ہو رہا ہے۔ اس لئے جب کراچی میں کاروباری استحکام کی بات ہوتی ہے تو یہ دراصل ہر گروہ کی بقاء کی بات ہوتی ہے۔
عالمی کساد بازاری میں، امید کی ایک کرن چین میں سرمایہ کاری ہے۔ چین اس وقت معاشی طور پہ مستحکم ہے ایک ابھرتی ہوئ نئ معاشی طاقت۔  میں نگینہ گلی، صدر میں موجود تھی۔ وہاں ایک نگینہ فروش نے بتایا کہ وہ آجکل چین سے نگینے لے کر آ رہا ہے پہلے وہ بنکاک جاتا تھا۔  اس وقت جو چین سے کاروبار کرے وہ فائدے میں ہےاس نے ایک راز مجھ سے شیئر کیا۔ چین چھا رہا ہے۔ انکی تجارتی اور سرمایہ کاری کی پالیسیاں حوصلہ افزاء ہیں۔ ویزہ بھی آسانی سے مل جاتا ہے۔ آپکا پاسپورٹ مہینوں قطار میں نہیں پڑا رہتا۔ چند دن لگتے ہیں۔ آپ وہاں آفس لے سکتے ہیں۔ کمپنی کھول سکتے ہیں۔ بس صرف ایک خرابی ہے پاکستانیوں کو چینی زبان نہیں آتی اور چینی کوئ اور زبان نہیں بول سکتے۔ چینی نہ صرف کاروباری ذہانت رکھتے ہیں بلکہ وہ اس میں خاصے چالاک ہیں۔ اس چالاکی سے نبٹنے کے لئے زبان آنا ضروری ہے۔
آپکو بچپن میں سنی ہوئ وہ کہانیاں یاد ہیں جس کا مرکزی خیال اس نکتے کے گرد گھومتا  ہے کہ زمین کے نیچے دفن خزانے کسی ایک جگہ نہیں رہتے یہ چلتے رہتے ہیں اور آواز دیتے ہیں ہم یہاں ہیں۔ انکی آواز پہ  دھیان دینے والا اور انہیں سمجھنے والا انہیں حاصل کر لیتا ہے۔ یہی حال زمین کے اوپر موجود خزانوں کا ہے۔ سرمایہ وہاں جاتا ہے جہاں مزید سرمایہ ہوتا ہے اور جہاں یہ گردش کی حالت میں رہے۔ مایا کو مایا ملے کر کے لمبے ہاتھ، حرکت میں برکت ہے۔
اب اس سارے قصے سے کیا ہم یہ سمجھیں کہ پاکستان کے صوبے سندھ میں اسی مستقبل کا ویژن رکھتے ہوئے اسے تمام اسکولوں میں سال دو ہزار تیرہ سے چھٹی کلاس سے لازمی مضمون کے طور پہ پڑھایا جائے گا۔ یاد رہے اسی کی دہائ میں مرد مومن کے ویژن پہ اسکولوں میں عربی زبان بھی پڑھانے کی کوشش کی گئ تھی۔
  اس حکومتی فیصلے کے بارے میں لوگوں کی رائے مختلف ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ  کیا اسے بھی اسی طرح سکھایا جائے گا جس طرح صوبے میں اردو، انگریزی یا سندھی زبانیں سکھائ جاتی ہیں۔ جو اول تو سکھائ نہیں جاتیں بلکہ پڑھائ جاتی ہیں۔ دوئم جہاں جہاں پڑھائ جاتی ہیں وہاں مقصد امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے ساری زندگی اردو پڑھنے والوں کو اردو لکھنا پڑھنا نہیں آتی، انگریزی کے چند مضامین اور خطوط یاد ہوتے ہیں اور سندھی رسم الخط سے نقطوں کی وجہ سے آشنائ ہو جاتی ہے۔ یہ سندھی زبان، صوبے کے اسکولوں میں پانچ سال تک لازمی پڑھائ جاتی ہے۔
پھر یہ کہ چینی زبان سکھانے کے لئے اساتذہ کہاں سے آئیں گے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے لئے چین سے اساتذہ لئے جائیں گے۔ اور پاکستان میں بھی اساتذہ کو تربیت دی جائے گی۔ یقیناً ان چینی اساتذہ کوجان کا تحفظ دینے پہ بھی حکومت کو  وسائل خرچ کرنا پڑیں گے۔ ادھرسال بھر کے عرصے میں کیا تربیت کے بعد ایسے ماہر اساتذہ تیار کر لئے جائیں گے جو دوسروں کو زبان سکھانے کے قابل ہوں۔ یہاں کچھ لوگ ہو سکتا ہے کہ کچھ اس قسم کے ڈائیلاگ بولنا چاہیں کہ ہمت کرے انسان تو کیا کام ہے مشکل۔ جس سے میں اپنے ہم وطنوں کی حد تک اتفاق نہیں کرتی۔ جو محض ڈائلاگز بول کر ہر پیچیدہ صورت حال سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ یوں مسائل اپنی جگہ رہتے ہیں اور کاغذ کے پلندے وزن حاصل کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ڈائیلاگز نہیں ٹھوس عمل چاہئیے۔
مزید یہ کہ کیا تمام طالب علموں کے لئے چینی زبان سیکھنے کا کوئ فائدہ واقعی  ہے بھی یا نہیں۔ اسکا جواب میں آپ پہ چھوڑتی ہوں۔
میں اپنے پالیسی سازوں کے شر پسند ذہن سے سوچوں  تو یہ کہتا ہے کہ اس میں بھی سرمائے کی منتقلی کا چکر ہے۔ بس یہ کہ مشرق یا مغرب میں جانے کے بجائے یہ کچھ حکومتی اراکین کی جیب کا رخ کرے گا۔ اور وہ یہ کہہ کر فارغ ہونگے، ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے۔

Wednesday, June 1, 2011

سرکشی

ایک لفنگا ایک باغ میں گھس گیا۔ دیکھا کہ درخت پھلوں سے لدے ہیں۔ تو ان پہ چڑھ کر کبھی ایک پہ کبھی دوسرے پہ پھل توڑ کر کھاتا رہا۔ پھر بہت سے پھل جمع کر لئے کہ ساتھ لے جائے۔
اتفاق کی بات ہے اس وقت  باغ کا مالک وہاں آگیا۔  اس نے ایک اجنبی کو درخت پر چڑھتے دیکھا تو پوچھا۔ تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو۔ وہ بولا۔ باغ میں آیا تھا دیکھا درختوں پہ پھل لگے ہیں کچھ توڑ کر پیٹ بھرا اور کچھ ساتھ لئے جا رہا ہوں۔ دیدہ دلیری کی انتہا تھی۔ مالک نے کہا اول تو یہ بتاءو کہ تم باغ میں آئے کیسے  اور پھل تم نے کیسے چرائے؟
بولا، باغ تو باغ ہے۔ اس میں آنے کی اجازت کی کیا ضرورت۔ یہ درخت اللہ کا، یہ پھل اللہ نے پیدا کئے، میں بھی اللہ کا بندہ ہوں، مجھے اختیار ہے جو دل چاہے کروں۔ تم کون ہوتے ہو مجھے ٹوکنے والے۔ چوری اور سینہ زوری۔
بعض لوگ سچ بات کو مان کر نہیں دیتے۔ بات کو اس طرح گھما دیتے ہیں کہ جیسا وہ سوچتے ہیں ویسی دلیلیں ہو جائیں۔ انکے پاس اصول، انصاف، ایمانداری کسی بات کی کوئ اہمیت نہیں ہوتی۔ انکے نزدیک انہیں کھلی چھٹی ہے۔
ہاتھ پاءوں کے مضبوط ہونگے تو لڑنے بھڑنے پہ آمادہ یہ نہ ہو سکے تو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کریں گے۔ بس کسی طرح ہمارا مطلب نکل آئے۔
باغ کا مالک ہکا بکّا اس شخص کے سامنے کھڑا تھا۔ اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے جا رہا تھا۔ آخر باغ کے مالک نے کہا۔ میاں ہوش کے ناخن لو، چوری کا مال یہی چھوڑ کے اپنے گھر جاءو، یہ وہ بڑی رعایت ہے جو میں تمہارے ساتھ کر سکتا ہوں۔
چور میاں اکڑ گئے بولے۔ یہ اللہ کا مال ہے اور اسکا کوئ بندہ بھی کھا سکتا ہے۔ یہ سن کر باغ کے مالک سے رہا نہ گیا۔ اپنے آدمیوں کو آواز دی۔ ایک رسی منگوائ اور چور کو درخت سے باندھ دیا۔ جب وہ بندھ گیا تو ایک ڈنڈا منگوایا اور خوب ڈنڈے اسکے اوپر پڑے۔ اب جو مار پڑی تو چور صاحب نے شور مچانا شروع کیا۔ ارے ظالموں اللہ سے ڈرو۔ کیوں مجھے مارے ڈالتے ہو۔ باغ کے مالک نے کہا۔ چلاتے کیوں ہو۔ مار پڑتی ہے تو پڑنے دو۔ اللہ کا ایک بندہ اللہ کے دوسرے بندے کو اللہ کے بنائے ہوئے ڈنڈے سے پیٹے تو واویلا کس بات کا؟ میرے دوست جو تمہارا فلسفہ ہے اسی پہ عمل کر رہا ہوں۔ تمہیں کوئ اعتراض نہیں ہونا چاہئیے۔ آخر اس نے توبہ کی اور رہا ہو کر اپنے گھر گیا۔
آدمی بڑا خود غرض ہوتا ہےاسے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا لیکن دوسرے کی آنکھ کا تنکا وہ دیکھ لیتا ہے۔ غرض اسے اندھا بنا دیتی ہے۔ اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے وہ برے بھلے کی تمیز بھلا دیتا ہے۔ اسی کو ظلم کہتے ہیں۔ ظالم ظلم کرتا ہے تو کبھی نہیں سمجھتا کہ اس سے ظلم ہو رہا ہے۔ بلکہ طرح طرح سے اسکی تاویلیں کر کے اپنے آپکو راستی پر ٹہراتا ہے۔ یہی شیطان کا بہکاوا ہے۔ معاف کرنا اور صبر کرنا دو بڑی اچھی عادتیں ہیں۔ لیکن جب دیکھو کہ ظالم ظلم پہ دلیر ہو رہا ہے اور موذی تکلیف پہنچانے کے در پے ہے تو حکم ہے کہ پھر پوری قوت سے اسے روکو اور کیفر کردار تک پہنچاءو۔ ورنہ امن اور سکون درہم برہم ہو جائے گا اور زندگی میں توازن نہیں رہے گا۔ ظلم سہنے میں بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے۔

ماخذ۔ کتاب روشنی، مصنف شاہ بلیغ الدین، اردو اکیڈمی سندھ۔

Sunday, February 27, 2011

ساحل کے ساتھ-۴

 گذشتہ سے پیوستہ

رات کو تین بجے میکینک صاحب کے پہنچنے پہ یہ تناءو کم ہوا کہ گاڑی کا کیا ہوگا۔ اگلے دن ناشتے کے بعد وہ دونوں تو گاڑی کے ساتھ مصروف ہو گئے دوپہر تک یہ اعلان ہوا کہ گاڑی کی شافٹ ٹوٹ گئ ہے۔ اب یا تو ویلڈ ہو گی یا نئ لگے گی۔ نئ گوادر میں نہیں مل سکتی۔ ویلڈ ہونے کے امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اتنی سہولت وہاں حاصل نہیں کہ شافٹ کو صحیح پیمائش کے ساتھ جوڑا جا سکے۔  لیکن بہر حال وہ جا رہے ہیں کسی کی بائیک پہ مزید معلومات لینے کے لئے۔
میں نے اس دوران گھریلو امور انجام دئیے۔ ناشتے کی تیاری، کچن اور گھر کی صفائ، دوپہر کے کھانے کی تیاری، مشعل کی پڑھائ، پھر دوپہر کا کھانا، دوبارہ کچن کی صفائ۔ کمپیوٹر پہ تصاویر لوڈ کیں، کیمرے کی بیٹری چارج پہ لگائ۔ اسکے بعد جب مشعل کے اور خود کے صاف ہونے کی باری آئ تو سوچا کہ ساحل کا چکر لگا کر ذرا اور اچھی طرح گندے  ہو جائیں۔ سو ہم دونوں ماں بیٹی نے سر پہ دھوپ سے بچنے کے لئے ٹوپا لگایا، ساحل پہ پھرنے کے لئے مناسب چپل پہنیں کہ ہمارا ارادہ کچھ ہائیکنگ کرنے کا بھی تھا۔ میں نے ایک بیگ میں کیمرہ، پینے کے پانی کی بوتل، کچھ بسکٹ،بینڈ ایڈ اور وائپیس لیئے اسے کندھے پہ لٹکایا اور ہم دونوں باہر نکل گئے۔
گھر کے ساتھ ایک پہاڑ ہے ۔ جسکے قدموں میں ساحل کی موجیں آکر کھیلتی ہیں، سر پٹختی ہیں اور پتھروں سے ٹکرا کر اپنے موتی توڑتی ہیں پہاڑ سے چھوٹی بڑی چٹانیں ٹوٹ کر پانی میں ایستادہ ہیں  انکے پاس لا تعداد گول گول ہر شکل اور ساخت کے پتھر موجود ہیں۔ پہاڑ کے ساتھ  جیٹی بننے کی وجہ سے ان پتھروں کا  ایک بڑا ذخیرہ اسکے نیچے دب گیا۔ شور مچاتی لہروں کے ان پتھروں  سے ٹکراءو اور شرارت کے درمیان ترقی کی دیوار آ گئ۔   ایک خوبصورت منظر  تمام ہوا اور ایک نئ امید کھڑی ہو گئ۔ کیا یہ دی جانے والی قیمت اپنی صحیح قدر حاصل کر پائے گی؟
سو ہم بھی خاک سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ تونے وہ گنج ہائے گراں ما کیا کئے۔ لیکن اندازہ کہتا ہے کہ کیا کیئے ہونگے۔ خاک میں مل کر نئ خاک تشکیل دی ہوگی۔ اور کیا۔
 مجھے بتایا گیا کہ جہاں سے جیٹی کے روڈ کی حد ختم ہو رہی ہے وہاں یہ اب بھی موجود ہے۔ زیر تعمیر روڈ سطح ساحل سے  خاصہ اونچا ہے۔ بڑے بڑے پتھروں کو  ٹرالر سے لا کر پہاڑ کے ساتھ بچھایا گیا ہے اور اس پہ مٹی کی تہہ جمائ گئ۔ ابھی یہ اس مرحلے سے گذر رہا ہے۔ نچلے حصے کو لو ٹائڈ کے وقت مقامی لوگ  بیت الخلاء کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔ ہائ ٹائڈ میں غلاظت سمندر میں چلی جاتی ہے۔ سمندر کا مد و جذر چاند سے ربط کوہی نہیں تلاش کرتا بلکہ اپنے ساحل کواجلا رکھنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
ہم دونوں اس روڈ پہ چلتے چلے گئے۔ مشعل کو یہ روڈ اچھا لگا کہ اس پہ وافر مقدار میں اڑانے کے لئے مٹی موجود تھی۔ پہاڑ کی نا ہموار اور مشکل سطحوں پہ کہیں کہیں نظر آنے والی نباتاتی حیات کی کھوج میں انکو سر کرلینے والی ضدی اور ہٹیل بکریاں جگالی کر رہی تھیں۔ شاید اسی لئے بکری ایک آسمانی برج کا علامتی نشان ہے۔ 


راستے میں ایک نیا تعمیر شدہ مزار نظر آیا۔ یہ میں نے پہلے یہاں نہیں دیکھا تھا روڈ کی تعمیر کے ساتھ مستقبل پہ نظر رکھنے والوں نے اسکے پھلنے پھولنے کے امکان بھی دیکھے ہونگے ۔ ایسے مزار بیک وقت مستقبل کے خوف اور  بہتر امید کا  ایک نشان ہوتے ہیں۔ ہم سے آگے دو بلوچی خواتین جا رہی تھیں جو اس مزار کی عمارت میں داخل ہو گئیں۔ یہ کاروبار، کبھی ماندہ نہیں جاتا۔ جب بادشاہ انصاف سے آگاہ نہ ہو تو نہ معلوم فقیر کی تربت پہ عوام کا رش رہنا کوئ قابل حیرانی بات نہیں۔ تقریباً چار پانچ سو گز چلنے کے بعد روڈ سمندر کے اندر مڑ گیا اور ہم پہاڑ کی طرف اتر گئے۔



پتھروں کا زیادہ بڑا ذخیرہ تو زیر تعمیر روڈ میں دب چکا ہے۔ مگر اب بھی کچھ یہاں باقی ہے۔ ان پتھروں میں سے وہ پتھر زیادہ دلچسپ ہیں جن پہ رکاذ موجود ہیں۔ ایسے بہت سے رکاذی پتھر میں نے یہاں اس وقت جمع کئیے جب مشعل دنیا میں نہیں آئ تھی۔ یہ اب بھی میرے خزانے میں شامل ہیں۔
یہ رکاز زیادہ تر سیپیوں کے ہیں۔ یہاں پہاڑ زیادہ تر مٹی کے ہیں۔ اس پہاڑ کے اوپری حصے سے مٹی کے جو ٹکڑے گرتے ہیں وہ سمندر کے پانی سے پہلے نرم ہوجاتے ہیں۔ ان پہ اگر کوئ سمندری سیپی چپکی رہ جائے تو وقت کے ساتھ سیپی کے باقیات جھڑ جاتے ہیں اور اسکے نشان باقی رہ جاتے ہیں۔



دنیا کی تاریخ میں ان رکاذات کا بڑا حصہ ہے۔ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے نا پید ہو جانے والے جانور ڈائینا سور بھی اپنے رکاذات کی مدد سے دریافت کئے گئے ہیں۔ ان سے جہاں ہمیں یہ اندازہوتا ہے کہ دنیا میں حیات اندازاً کتنی پرانی ہے اور اس حیات میں سے کتنے ایسے ہیں جو اب نہیں یا کتنے ایسے ہیں جو اب بالکل بدل گئے ہیں ارتقاء کی وجہ سے۔ وہیں یہی رکاذ، کہیں زمین کی تہوں میں تیل کی دولت بھر دیتے ہیں، پتھروں میں ہیرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ لاکھوں سال پرانی خاک یا زمین کی تہوں میں سے اسے ڈھونڈھ نکالنا  ایک علم بھی ہے اور انسان کے شوق پیہم کا ثبوت بھی۔
مجھے معلوم تھا مشعل کو یہ جگہ پسند آئے گی۔ ایسا ہی ہوا۔ کم از کم مشعل کو یہ پتہ چل گیا کہ رکاذ یا فوسلز کیا ہوتے ہیں۔ ہم دونوں نے مل کر سیپیاں اور رکاذی پتھر جمع کئیے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو تحفے میں دینے کے لئے۔ ایک خوبصورت چھوٹا سا رکاذی پتھر مشعل کی اسکول ٹیچر کے لئے۔ اپنے سی شلیز کے ذخیرے میں سے مشعل نے کسی کو کچھ بھی دینے سے صاف انکار کر دیا۔  'اس وقت میں اچھی بچی نہیں ہوں، میں کچھ شیئر نہیں کر سکتی'۔
جس طرح ایک انسان ہمہ وقت ہر ایک کے لئے اچھا نہیں ہو سکتا اسی طرح ایک انسان ہر وقت  اچھا بھی نہیں ہو سکتا۔ البتہ اسے تیار رہنا چاہئیے کہ وہ یہ جملہ سنے گا کہ وہ اچھا نہیں ہے۔ مشعل نے اسکی تیاری کر لی۔ بچے ظالمانہ حد تک صاف گو کیوں ہوتے ہیں؟
یہیں سے مجھے ایک دلچسپ چیز، مرجان کا ایک ٹوٹا ہوا ٹکڑا ملا۔ پاکستان کے ساحلوں میں بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سمندر میں مرجان کی چٹانیں نہیں ہیں۔ لیکن پتھروں کے اس ڈھیر میں، میں نے اسے پا لیا۔ ہمم ، تو ایسا نہیں ہے کہ بالکل نہیں ہے۔ موجود ہیں لیکن یہ کہ مرجان، سمندر کے پانی کی حرارت اور آلودگی سے بہت متائثر ہوتے یں۔





یہ جگہ مراقبے کے لئے بھی بڑی اچھی ہے۔ سمندر کی آواز کو بعض اوقات مراقبے کی مشقوں میں استعمال کیا جاتا ہے  توجہ کے ارتکاز کے لئے۔ سمندر میں ایک وسعت اور اسرار ہوتا ہے اور اسکی آوازمیں ایک ردھم،  ولولہ اور امید۔ اسکی لہروں میں وہ طاقت ہوتی ہے کہ سخت چٹانوں کو ریزہ کر دیتی ہیں۔ لیکن اس میں وہ طلسم بھی ہوتا ہے جو اسی ریزے کو بیش قیمت موتی میں  تبدیل کر ڈالتا ہے۔



ہمارے علاوہ یہاں کوئ اور نہ تھا۔  ایک بھرپور وقت گذار کر ہم لوٹے۔ کچے روڈ پہ ٹرکس پتھر اور مٹی لے کررواں۔ اکّا دکّا لوگ نئے بننے والے بند کے کنارے پہ کھڑے منظر میں مگن۔ اجنبی ہونے کے ناطے  ایک اشتیاق بھرے تجسس سے دیکھتے ہیں اور بس۔ ہم پلٹے اور آبادی کے قریب پہنچ کر روڈ کے ڈھلان سے اترنے لگے۔ ایک پر سکون مچھیروں کی آبادی ہمارے سامنے پھیلی ہوئ تھی جس کے کنارے وہ گھر تھا جہاں اس وقت ہماری رہائیش تھی۔ میری نظریں اس تمام منظر سے گذرتی ہوئیں اس گھر کی پچھلی دیواروں پہ رک گئیں۔ اس پہ کوئلے سے بڑے بڑے حروف میں پنجابیوں کے متعلق گالی نما تضحیک آمیز جملہ لکھا ہوا تھا۔ یہ میں نے پہلے یہاں کبھی لکھا ہوا نہیں دیکھا تھا۔ کبھی گوادر کی کسی دیوار پہ نہیں۔ اس پہ کسی پنجابی قاری کو سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بلوچستان اور سندھ کے اندرونی علاقوں میں ہر غیر مقامی کو پنجابی سمجھا جاتا ہے۔ ورنہ اس مکان کے مکین اور نہ مالک کوئ بھی پنجابی نہیں۔
 اس دیوار پہ یہ لکھا دیکھ کر شاید تھوڑی سی دیر کو میرے اندر تشویش کی ایک لہر اٹھی۔ لیکن پچھلے دو دنوں کی یادداشت نے اسے فوراً دھودیا۔
میں اسے اپنے کمیرے میں محفوظ کرنا چاہتی تھی مگر معلوم ہوا کہ بیٹری بے جان ہے اسے چارجنگ کی ضرورت ے۔ بیٹری عمر رسیدگی کے مراحل طے کر رہی ہے۔ اوربہت کم مدت کے لئے چارج ہوتی ہے۔ اسے تو ، ایک دفعہ پھر چارج کر لونگی اس کا طریقہ مجھے آتا ہے۔ لیکن قوموں کو کس طرح چارج کیا جاتا ہے، یہ جاننا ابھی باقی ہے۔ اس دیواری نوشتہ پہ بی ایس او اور بی ایل اے بھی لکھا تھا۔
یہ بی ایس او اور بی ایل اے کیا ہیں؟

جاری ہے 

Wednesday, September 15, 2010

سر سید کا عہد-۲


اب ان تمام باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ 1870 میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ ملازمتوں میں وہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرکاری ملازمتوں کے ہاتھ میں کئ طرح کا اختیار ہوتا ہے اس لئے یہ کمی انہیں مہنگی پڑ رہی تھی۔ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں نے تجارت میں کبھی امتیاز حاصل نہیں کیا اور زمینیں قرضے کی وجہ سے انکے ہاتھ سے نکلی جا رہی تھیں۔
حالات اتنے خراب تھے کہ سر سید نے خود ہندوستان چھوڑ کر مصر کی سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے بعد میں اپنے ایک لیکچر میں کہا
میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور عزت پائے گی۔ اور جو حال اس وقت قوم کا  تھا، مجھ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔
لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنا یہ ارادہ ترک کیا اور فیصلہ کیا کہ
نہایت نا مردی اور بے مروتی کی بات ہے کہ اپنی قوم کو اس تباہی کی حالت میں چھوڑ کر خود کسی گوشہ ء عافیت میں جا بیٹھوں۔ نہیں، اس مصیبت میں شریک رہنا چاہئیے اور جو مصیبت پڑے اسکے دور کرنے کی ہمت باندھنی قومی فرض ہے۔

اس وقت مسلمانوں کے تمام تر مسائل اقتصادی نہ تھے بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے۔ یہ اقتصادی اور ذہنی پستی ایک ہی ذریعے دور ہو سکتی تھی اور وہ یہ کہ مسلمان تعلیم  حاصل کریں اور وہ تعلیم حاصل کریں جو انہیں حکمرانوں کی زبان اور مزاج سمجھنے میں آسانی دے۔ کیونکہ انگریز اپنی حکمرانی میں اپنا ذریعہ ء تعلیم نہیں تبدیل کرنے والے تھے۔  اس لئے مسلمانوں کے لئے یہ لازمی عنصر ہو چلا تھا کہ وہ انگریزی تعلیم میں دلچسپی لیں۔  
علی گڑھ کی تحریک نے یہ سب ذمہ داری اٹھائ۔ ایک ایسے دور بیں مصلح کی حیثیت سے سر سید احمد خان آگے بڑھے  جبکہ مسلمانوں کی اس حالت زار کے باوجود علماء  کی اکثریت انگریزی تعلیم کو حرام قرار دے رہی تھی انہوں نے مسلمانوں کو اس چیز کے لئے تیار کیا کہ اپنی بقاء کے لئے یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔
انہیں اس چیز کا ادراک اس قدر زیادہ تھا کہ تحریک پاکستان کے وجود میں آنے سے بھی کئ دہائیاں پہلے وہ، وہ پہلے شخص تھے جنہوں نےاس ہندوستان کا تصور کیا جو انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہو جانے کے بعد ہو جاتا۔
وہ لکھتے ہیں کہ
فرض کریں کہ تمام انگریز انڈیا چھوڑ جاتے ہیں تو کون انڈیا کی حکمرانی کرے گا۔ ان موجودہ حالات میں کیا یہ ممکن ہے کہ دو قومیں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ حکمرانی کر سکیں اور طاقت میں برابر کے شراکت دار ہوں۔ ایسا یقیناً نہیں ہوگا۔ یہ بالکل ضروری ہوگا کہ ان میں سے ایک دوسرے کو فتح کرے اور اسے ہٹا دے۔
یہ وہ نکتہ تھا جسے انکی وفات کے چالیس سال بعد قیام پاکستان کی تحریک کی بنیاد بنایا گیا۔ سر سید کی دور بیں بصارت نے اس منظر کو اس وقت دیکھا جب انگریزوں کے ملک سے جانے کے متعلق عام شخص سوچ بھی نہ سکتا تھا۔

اسی موضوع پہ پچھلی تحاریر یہاں دیکھئیے۔ 

سر سید کا عہد-۱

سر سید پہ مزید بات  کرنے سے پہلے ہمیں اس زمانے کے حالات پہ ضرور ایک نظر ڈالنی چاہئیے۔ جب سر سید احمد خان نے بر صغیر کے مسلمانوں کے جمود کو توڑنے کی کوشش کی۔ کیونکہ ہر بڑی شخصیت پہ اپنے عہد کا عکس ہوتا ہے اور وہ اپنے عہد کے مسائل کو اسی عہد میں میسر علمی اور ذہنی وسائل سے دیکھتا اور انکے حل تلاش کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اٹھارہویں صدی کے ایک شخص پہ ہم حیران ہوں کہ اس نے کمپیوٹر کیوں نہیں بنایا۔ انسانی عقل نے بتدریج ترقی کی اور اسے ہی ارتقاء کہتے ہیں۔
جب مغل سلطنت اپنے انحطاط کا شکار تھی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ بنگال میں  1757 میں پلاسی کی جنگ ہوئ اور میر جعفر کی  حکمرانی میں کمپنی کی  حکومت قائم ہوئ۔  ادھر پنجاب می، رنجیت سنگھ نے مسلمان حکمرانوں کو شکست دے کر انکا  تقریباً ہزار سال کا دور اقتدار ختم کیا اور ملتان سے لے کر پشاور تک اپنی حکومت قائم کی۔ اپنی حکومت کا صدر مقام اس نے لاہور کو منتخب کیا۔ 1839 میں اسکے انتقال کے بعد وہاں انگریزوں کو قدم جمانے کا موقع ملا۔ اٹھارہ سو پینتالیس میں یہ علاقہ بھی انگریزوں کے قبضے میں آ گیا۔سندھ 1843 میں اور اودھ 1856 میں کمپنی نے ملحق کئے۔ اسکے بعد بھی اگر کوئ علامتی اقتدار مسلمانوں کا باقی تھا تو اسے جنگ آزادی اٹھارہ سو ستاون کے ہنگامے نے مٹا دیا۔
اس سیاسی انقلاب کے ساتھ مسلمانوں کا اصل اقتصدای اور تمدنی انحطاط شروع ہوا۔
ڈاکٹر ویلیئم ہنٹر کی کتاب ' آور انڈین مسلمانز' میں اس وقت مسلمانوں کی حالت زار کی ایک تصویر موجود ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ
مسلمانوں کو حکومت سے بہت سی شکایات ہیں۔ ایک تو یہ کہ تمام اہم عہدوں کا دروازہ ان پہ بند کر دیا گیا ہے۔ طریقہ ء تعلیم ایسا ہے کہ ان میں انکی قوم کے لئے کوئ انتظام نہیں۔ قاضیوں کا نظام ختم کر کے جو انگریزی نظام عدلیہ آیا ہے اس سے ہزاروں خاندانوں کو جو فقہ اور اور اسلامی علوم کے پاسبان تھے بے کار اور محتاج کر دیا ہے۔ انکے اوقاف کی آمدنی، جو انکی تعلیم پہ خرچ ہونی چاہئیے تھی وہ غلط مصارف پہ خرچ ہو رہی ہے۔  وہ مسلمان جو پہلے جاگیروں کے مالک تھے وہ اب قرض کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کوئ ہندو قرض خواہ ان پہ نالش کرتا ہے اور اور وہ رہی سہی جمع پونجی سے بھی جاتے ہیں۔
وہ لکھتا ہے کہ
مسلمانوں کی بد قسمتی کا صحیح نقشہ ان محکموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جن میں ملازمتوں کی تقسیم پر لوگوں کی اتنی نظر نہیں ہوتی۔ 1869 میں ان محکموں کا یہ حال تھا کہ اسسٹنٹ انجینیئروں کے تین درجوں میں چودہ ہندو اور مسلمان صفر۔ امیدواروں میں چار ہندو، دو انگریز اور مسلمان صفر۔ سب انجینیئروں اور سپر وائزروں میں چوبیس ہندو اور ایک مسلمان۔ اوور سیئروں میں تریسٹھ ہندو اور دو مسلمان۔ اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ میں پچاس ہندو اور مسلمان معدوم۔
سرکاری ملازمتوں کے علاوہ ہائ کورٹ کی فہرست بڑی عبرت آموز تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ پیشہ بالکل مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ اسکے بعد 1851 تک بھِ مسلمانوں کی حالت اچھی رہی اور مسلمان وکلاء کی تعداد ہندءووں اور انگریزوں کے مقابلے میں کم نہ تھی۔ لیکن اسکے بعد تبدیلی شروع ہوئ۔ نئ طرز کے آدمی آنا شروع ہوئے اور امتحانات کا طریقہ بدل دیا گیا۔ 1852 سے ۱868 تک جن ہندوستانیوں کو وکالت کے لائسنس ملے۔ ان میں 239 ہندو تھے اور ایک مسلمان۔
ڈاکٹر ہنٹر مزید لکھتے ہیں کہ
اگلے دن ایک بڑے سرکاری محکمے میں دیکھا گیا کہ سارے ڈیپارٹمنٹ میں ایک بھی اہلکار ایسا نہ تھا جو مسلمانی زبان سے واقف ہو اور حقیقتاً اب کلکتے میں شاید ہی کوئ سرکاری دفتر ایسا ہوگا، جس میں کسی مسلمان کو دربانی، چپڑاس یا دواتیں بھرنے اور قلم درست کرنے کی نوکری سے زیادہ کچھ ملنے کی امید ہو سکتی ہو۔' چنانچہ انہوں نے کلکتہ کے ایک اخبار کی شکایت نقل کی ہے کہ  تمام ملازمتیں اعلی ہوں یا ادنی آہستہ آہستہ مسلمانوں سے چھینی جا رہی ہیں اور دوسری قوموں بالخصوص ہندءووں کا بخشی جاتی ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ رعیت کے تمام  طبقوں کو ایک نظر سے دیکھے۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ حکومت سرکاری گزٹ میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے علیحدہ رکھنے کا کھلم کھلا اعلان کرتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ملک جب ہمارے قبضے میں آیا تو مسلمان سب قوموں میں بہتر تھے۔ نہ صرف وہ دوسروں سے زیادہ بہادر اور جسمانی طور پہ زیادہ توانا اور مضبوط تھے بلکہ سیاسی اور انتظامی قابلیت کا ملکہ بھی ان میں زیادہ تھآ۔ لیکن یہی مسلمان آج سرکاری ملازمتوں اور غیر سرکاری اسامیوں سے یکسر محروم ہیں۔


جاری ہے

Monday, September 13, 2010

ایک فلم ، ایک تعارف

امر محبوب، ایک دستاویزی فلم میکر ہیں۔ عید کے موقع پہ انکے موبائل فون پہ آنے والے ایس ایم ایس کی پیپس پہ جب میں نے ان سے پوچھا کہ بڑے پیغامات آ رہے ہیں۔ تو جواب ملا ہاں، آ تو رہے ہیں۔ مگر مبارکباد بھیجنے والے زیادہ تر تھر کے ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔
اسکی ، میرے خیال میں کئ وجوہات ہیں۔ ایک تو تھر میں ہندو آبادی خاصی بڑی تعداد میں موجود ہے۔ تقریباً چالیس فی صد ہندو اور ساٹھ فی صد مسلمان اور دوسرے یہ کہ امر محبوب نے تھر کے اوپر ایک بہت اچھی دستاویزی فلم بنائ ہے ۔ فلم میں تھر کو ثقافتی، ماحولیاتی اور تاریخی ہر پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئ۔ یوں انہوں نے تھر کے لوگوں کے ساتھ ایک بھر پور وقت گذارا۔ اسی چکر میں مجھے بھی وہاں رہنے کا اتفاق حاصل ہوا۔  اس دوران میں پابندی سے ڈائری لکھتی رہی۔  وہ سامان ابھی ایک طرف رکھا ہے۔ لیکن مختصراً تھر ایک طلسماتی سحر رکھتا ہے۔ سندھ کے لوک شاعر، شاہ لطیف بھٹائ بھی اسکے حسن سے بے حد متائثر تھے انکی کہانیوں کا ایک کردار ماروی کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔ یہاں میں نے وہ کنواں بھی دیکھا جو ماروی سے وابستہ خیال کیا جاتا ہے۔
اب اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تھر میں ہندو اور مسلمان کس طرح مل جل کر رہتے ہیں۔ تو آپکو یہ فلم دیکھنا چاہئیے۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ جین اور بدھ مذاہب کے لوگ بنیادی طور پہ سبزی خور ہوتے ہیں مگر گوشت کھانا انکے لئے کس وقت جائز ہوتا ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ تھر کے ہندءووں کو مسلمان کرنے کی نیکی تبلیغی جماعتیں کماتی ہیں مگر بعد میں کیا ہوتا ہے، کیا اپ جانتے ہیں کہ تھر میں ایک ایسا قبیلہ بھی موجود ہے جس نے احتجاجاً اپنے آپکو دنیا کی ہر جدید چیز سے دور رکھا ہوا ہے اور انکی خواتین صرف کالے کپڑے پہنتی ہیں، کیا آپکو معلوم ہے کہ تھر کسی زمانے میں اپنے موروں اور ہرنوں کے لئے مشہور تھا۔ جو شکار کا شکار ہو گئے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ تھر میں اگر دس دن بارش ہو جائے تو یہ صحرا، سبزے کا وہ لبادہ اوڑھتا ہے کہ پاکستان کا سوئٹزر لینڈ بن جاتا ہے۔ 
یہ سب جاننا ہے تو تھر پہ بنی ہوئ یہ فلم دیکھنی پڑے گی جسکا نام ہے۔ ریت کے رنگ۔ یہ فلم اب یو ٹیوب پہ چار حصوں میں موجود ہے۔ میں یہاں اسکا لنکس دے رہی ہوں۔ فلم کا دورانیہ پچپن منٹ ہے۔  ایک دفعہ دیکھنا شروع کیجئیے مجھے یقین ہے یہ آپکو باندھ لے گی۔




Tuesday, August 17, 2010

جمود سے باہر

اٹھائیس جولائ کو سیلاب آنے کی پہلی اطلاع آئ۔ اور گذشتہ تین ہفتوں میں پاکستان کی اب تک کی تاریخ کے اس شدید سیلاب نےہمارے حکمرانوں کی بے حسی کے نئے باب رقم کر دئیے۔
ٹی وی پہ وزیر اعظم جیلانی ڈی آئ خان کے ایک اور جعلی کیمپ پر بذریعہ جہاز پہنچے۔ ایک بیان دیا اور پھر جہاز میں نڈھال ہو کر سیٹ پہ پڑے تھے کہ ٹی وی کے ایک اینکر پرسن نے انہیں جا لیا۔ وہ اس طرح سیٹ پہ نیم لیٹی حالت میں اسکے سوالوں کا نیم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے رہے۔ اس سوال پہ کہ سیلاب کے بعد لوگوں کی بحالی کا کیا پروگرام ذہن میں ہے انہوں نے اپنے اسی مجاورانہ اطمینان سے جواب دیا۔ پہلے اس مرحلے سے تو نکلیں۔ یہ ہیں ہمارے سیلاب زدہ ملک کے مطمئن راضی بہ تقدیر، وزیر اعظم۔
زلزلہ آنے کے بعد مجھے یاد ہے کہ مشرف نے قوم سے خطاب کیا تھا۔ وہ تقریر خاصی پر جوش تھی۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قوموں کی تاریخ میں ایسے حادثات ایک نئ تبدیلی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس میں انہوں نے حکومت کے اس وقت تک کئے گئے امدادیاقدامات بتائے اور آئیندہ کا لائحہ عمل واضح کیا  اور میسر پیسوں کے بارے میں بتایا۔ یہ الگ کہانی کے آگے کیا ہوا۔ لیکن اس چیز نے سراسمیہ قوم کے اندر ایک جذبہ تو پیدا کیا تھا۔ رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچی۔ لوگوں نے مسائل کے مختلف حل تجویز کئے، وغیرہ وغیرہ۔ معاشی حالات اس وقت کافی اچھے تھے لوگوں نے دل کھول کر امدادی کاموں میں حصہ لیا۔
لیکن آج دیکھیں۔ اس وقت جب عوام مہنگائ کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ہر نیا دن چیزوں کے نرخ میں اضافے کی ہوشربا خبر لاتا ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ زرداری صاحب کا فرانس میں محل ہے جو کسی زمانے میں انگلینڈ کے بادشاہ نے اپنی ملکہ کے لئے خریدا تھا۔ انکا کہنا ہے کہ یہ محل تو دراصل انکے والد صاحب نے اسّی کی دھائ میں خریدا تھا۔ البتہ یہ نہیں بتایا کہ اس وقت انکے والد گرامی کراچی کا بمبینو سینما کسی کے ساتھ شراکت میں چلا کر اتنی بڑی رقم کیسے اکٹھا کر پائے کہ اس سے قوم کے موجودہ نوجوانوں میں کم از کم پیسہ کمانے کی لگن تو پیدا ہوجاتی۔
ایک ایسی حکومت جسکے سربراہ اعلی سے لیکر ہر ہر نمائیندے کے بارے میں کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام ہوں۔ انہیں کوئ شخص اپنا پیٹ کاٹ کر امدادی رقوم کیوں دے گا۔ اس لئے کہ آج سے دو سال بعد ان کے دنیا کے کسی امیر ترین ملک میں محل کی خبر سنے۔
حکومتی مشینری اس قدر نا اہل ہے کہ ان تین ہفتوں میں ان لوگوں کو قوم کو جذبہ دینے کے لئے الفاظ بھی نہ مل سکے۔ سندھ میں سیلابی پانی سے بیراجوں کو بچانے کے لئے بند توڑنے کے مسئلے پہ پارٹی کے درمیان پھوٹ پڑ گئ۔ ہر ایک چاہ رہا تھا کہ اسکا علاقہ بچ جائے۔ نتیجۃً جب خورشید شاہ، ممبر سندھ اسمبلی اپنے علاقے میں پہنچے تو لوگوں نے انکی گاڑی پہ پتھراءو کر دیا۔ ادھر وزیر خاتون حنا ربانی کھر جب اپنے علاقے پہنچیں تو انکے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔
مولانا فضل الرحمن سیلاب کے ایک ہفتے بعد سعودی عرب عمرے کے لئے روانہ ہوگئے۔ انکے انتخابی حلقے میں اس وقت آٹھ لاکھ افراد متائثرین میں شامل ہیں۔ انکے گھر اور مدرسے کو بچانے کی خاطر کہا جاتا ہے کہ وہاں سے گذرنے والی سڑک نہیں توڑی گئ اور سیلاب نے دوسرے علاقوں کو شدید متائثر کیا۔  
یہ وہ جمہوریت ہے جسکے لئے ہم پچھلے دو سال سے سن رہے ہیں کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ ایک حکومت جسے لوگ ووٹ تو دیتے ہیں خدا جانے کیسے لیکن اسے اپنے نوٹ کی قدر کا صحیح حقدار نہیں سمجھتے۔
نوبت یہ ہے کہ اقوام متحدہ بھی ممبر ممالک کو  پاکستان کو قابل ذکر امداد دینے پہ راضی نہ کر سکی۔ ایک اندازہ، پاکستان کی کرپشن اور دہشت گردی کی وجہ سے مشہوری۔ 
اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کے قابل ہے ہمیں بین الاقوامی امداد نہیں چاہئیے۔ وزیر اعظم نے کہا ہمیں ہر امداد کی ضرورت ہے جو ہماری مدد کرے گا وہی ہمارا دوست ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن کے ترجمان وزیر مولانا عطا الرحمن کے مطابق مولانا فضل الرحمن عمرہ ادا کرنے کے ساتھ سعودی حکومت اور خیراتی داروں سے پیسے جمع کرنے بھی گئے ہیں۔
عوام کی بڑی تعداد اپنے جاننے والے سماجی خدمت انجام دینے والے لوگوں سے رابطہ کر رہی ہے تاکہ انکی مدد مناسب حقدار تک پہنچے۔ عام لوگ اپنے طور پہ امداد جمع کر کے پہنچانے کا بند و بست کر رہے ہیں۔، وہ حکومت پہ، سیاسی رہنماءووں پہ کوئ اعتماد نہیں رکھتے۔ لوگ اپنے جاننے والوں کو باہر سے فنڈ جمع کر کے بھیج رہے ہیں مگر حکومت کو نہیں دینا چاہتے۔
   لیکن جہاں متائثرین کی تعداد دو کروڑ ہو وہاں یہ انفرادی کوششیں اتنی زیادہ نتیجہ خیز کیسے ثابت ہو سکتی ہیں۔  بلدیاتی نظام اس وقت مدد کر سکتا تھا لیکن سیاسی طاقتوں نے اسےاپنے پیسہ بٹورنے کے راستے میں ایک رکاوٹ سمجھا اور اسے ختم کر دیا۔ کسی نے اس قدم کے خلاف آواز تک نہ اٹھائ۔ 
جب تک حکومت اس میں دلچسپی نہ لے یہ عوامی منتشر کوششیں کیسے اتنے سنگین حادثے کو قابو میں لا سکتی ہیں۔  حکومتی ذرائع ان انفردای کوششوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ انکے پاس پورا انفرا اسٹرکچر ہوتا ہے، وسائل اور افرادی قوت ہوتی ہے۔ 
 ایسے ہی کراچی سے سندھ کے سیلابی علاقوں کی مدد کے لئے جانے والے  ٹرکس متائثرین تک پہنچنے سے پہلے راستے میں لوٹ لئے گئے۔ ادھر چار سدہ سے آنے  والے ایک دوست نے بتایا کہ امداد کی تقسیم صحیح طور پہ نہ ہونے سے ایسی ہی لوٹ مار ہو رہی ہے۔ حالات کا فائدہ اٹھا کر ڈاکو بھی سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ یہاں سندھ میں بھی ایسے واقعات کی بازگشت سنائ دے رہی ہے۔ آج ہی متائثرین کے ایک کیمپ میں امدادی سامان کی تقسیم کے وقت وہ بھگد ڑ مچی کہ پولیس کو شدید لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ ٹی وی ہی کی ایک خبر کے مطابق ایک اور جگہ،  ہجوم میں مچ جانےوالی بھگدڑ کو قابو میں لانے کے لئے کی جانے والی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

یہ ہے ایک دھندلی سی تصویر حالات کی۔ ایک ایسی قوم کی جو ایک مضبوط مرکز نہیں رکھتی، ایک منتشر قوم جسے سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ اس مصیبت میں کس کی طرف منہ اٹھا کر دیکھے۔ اس سب افراتفری سے کیسے باہر نکلیں، کون حالات سنبھالے، بے گھر لوگوں کو دوبارہ آباد کرنے میں کون مدد کرے، زمینوں کو شاداب کرنے کے وسائل کیسے ملیں۔ کون لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور ایک لائحہ ء عمل بنائیں گے جس پہ تمام قوم کو یقین اور بھروسہ ہوگا۔ ایک لا وارث اور تنہا ہونے کا احساس،  جو حالات پہ طاری ہے۔
 ان حالات میں کوئ اس انتشار کے درمیان ذرا بھی اتحاد کی علامت بنا ہوا ہے تو وہ پاک افواج ہیں۔ لیکن افواج کی تربیت تحفظ کے لئے ہوتی ہے۔ ملک کی ترقی کی منصوبہ سازی کرنا، عوام کو ایک بہتر زندگی گذارنے کی سہولیات دینا ان میں ایک کامیاب قوم ہونے کا جذبہ پیدا کرنا یہ انکا کام نہیں۔ 
کتنی عجیب بات ہے کہ ہر دفعہ جمہوریت اپنی آزمائیش کے وقت ناکام ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ یہ جمہوریت، جمہور کے لئے نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ معاشرے کے اعلی طبقات کو احساس طاقت دیتی ہے اور بس۔ اس تمام پس منظر میں لگتا  ہے کہ ہمیں متحد رہنے کے لئے ایک نئے سیاسی اور سماجی نظام کی ضرورت ہے۔ شاید وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے کئ دہائیوں کے جمود سے باہر نکلیں۔ اور عوام اور خواص کی تعریف کو بدل ڈالیں، بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی گذارنے والوں کو اپنے انسان ہونے کا احساس بیدار کرنا ہوگا۔ یہ سیلاب شاید ایک نئ مضبوط تبدیلی سے قوم کو روشناس کرانے کا موقع ہے، ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔

Saturday, March 20, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۸

تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل از مسیح میں، آریاءووں کی آمد،ہندوستان کی تہذیب میں نمایاں تبدیلیوں کا باعث بنی۔ اس سے پہلے یہاں دراوڑی تہذیب کا اثر تھا جس نے وادی سندھ میں جنم لیا اور جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شامل ہے۔ آریا وسطی ایشیا سے آئے تھے۔ انکی زبان پہ یورپی زبانوں کا اثر تھا، آریہ بنیادی طور پہ جنگجو تھے، انکے مزاج میں آوارہ خرامی اور اضطراب تھا۔وہ سفید فام تھے اور دراوڑی گہرے رنگ کے۔ آریا اپنے آپکو اور اپنی تہذیب کو  دراوڑوں سے بہتر جانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دراوڑوں کو حقارت سے داس کہا جسکا مطلب ہے غلام۔ دی گئ دو تصویروں میں آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ کون آریائ نسل سے ہے اور کون دراوڑی نسل سے۔



 اسکے ساتھ ہی ایک طبقاتی تقسیم نے جنم لیا۔ طبقاتی تقسیم اگرچہ آریاءووں کی آمد سے پہلے موجود تھی۔ لیکن نئ پیدا ہونے والی تقسیم خالص نسلی اثرات کے تحفظ کا نتیجہ تھی۔ کیونکہ ساتھ رہنے سے سفید فام آریاءووں کو  سیاہ فام مقامی باشندوں سے اختلاط کا اندیشہ تھا۔۔ چنانچہ مذہبی فرائض کی انجام دہی برہمنوں کو ملی، ملک کی حفاظت کشتریوں کے ہاتھ آئ، عوام ویش کہلائے اور کاروباری امور انکے حوالے ہوئے۔ سب سے نیچ ذات شودر تھے۔ جنکا کام برتر طبقات کی خدمت سر انجام دینا تھا۔ آریاءووں نے اس ساری تقسیم کو اس طرح منظم کیا کہ خود برہمن کا منصب سنبھال لیا اور اس طرح سےمذہبی امور کے ذریعے معاشرے کی رہ نمائ جیسا مضبوط ادارہ انکے پاس آگیا۔۔یہ تقسیم اتنے مضبوط اثرات رکھتی تھی کہ بر صغیر پاک و ہند میں وطن، نسل، ذات، مذہب،  اورپیشے کے لحاظ سے چھوٹی چھوٹی اکائیاں آج بھی موجود ہیں۔
آریاءووں نے اپنی داخلی جذبات کا اطہار اپنشدوں میں کیا۔ رگ وید انکی تصنیف کردہ مذہبی کتاب ہے۔  انہوں نے  فنا و بقا کے تصورات کو اہمیت دی۔ اس میں حقیقت اولی کی وحدت کی بات کی گئ۔ چنانچہ روح کو اہمیت دی گئ اور فرد کو جسم سے بلند ہونے کا سبق دیا گیا۔ یوں صورت حال یہ بنی کہ اعلی سطح پہ آریائ اثرات اور زیریں سطح پہ دراوڑی اثرات سرگرم ہونے لگے۔ اور دو مزاج سامنے آئے۔ آریائ اور دراوڑی مزاج۔
اس عہد کی دو کتابیں جو کہ ہندو دیو مالا میں شامل ہیں رامائن اور مہا بھارت ہیں۔ رامائن میں رام ، سیتا اور راون کے کرداروں سے کہانی بنی گئ۔ اور اس میں ہندو فلسفے کے بنیادی عناصر مثلاً نظریہ ء وحدت اور تیاگ وغیرہ بھی سما گئے۔ رام ایک اعلی ذات سے تعلق رکھنے والافرد ہے اور شمالی ہندوستان میں اسکی حکومت قائم ہے۔ وہ مزاجاً آریہ ہے۔ اسکے بر عکس راون راکشس ہے، برا ہے، اور جنوب سے تعلق رکھتا ہے۔ یوں شمالی ہندوستان آریہ کے مزاج میں آگیا
جبکہ جنوبی ہندوستان میں دراوڑی تہذیب کے آثار آگئے۔ چنانچہ راون کا سیتا کو اغوا کرنا دراصل دراوڑوں کا آریہ سماج کے خلاف ایک رد عمل بھی ہے۔


آریا اپنے ساتھ جو زبان لائے تھے اس نے سنسکرت کو جنم دیا۔ جبکہ دراوڑی زبان کے اثرات جنوب کی زبان میں نظر آتے ہیں جیسے تامل، تیلگو، کناڈا، بروہی، ملیالم زبانیں۔ اس تہذیب سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ پاکستان ، بنگلہ دیش، افغانستان،  ایران  سری لنکا، اور انڈیا میں پائے جاتے ہیں۔
دراوڑی اور آریائ تضاد کا کا نتیجہ برصغیر کے مذہبی تصورات میں بھی تبدیلی لایا۔ دراوڑ کثرت کی طرف مائل تھے اور آریاءووں نے وحدت کی طرف توجہ دلائ۔ دراوڑ اپنی زمین سے جڑے رہنا پسند کرتے تھے جبکہ آریہ آزاد ہونے کے آرزومند تھے۔ چنانچہ برصغیر میں چلنے والی تحریکوں کے پیچھے اس نفسیات نے بھی کام کیا۔
دراوڑی تہذیب نے خود کو اونچی پرواز پر مائل کرنے کے بجائے اپنے اندر سمٹ جانے کی تلقین کی اور سماجی رسوم قیود کا پختہ نظام قائم کیا۔ برصغیر میں برہمنیت کو فروغ انکے اس رد عمل کی وجہ سےبھی  ملا۔

جاری ہے

حوالہ جات؛

اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید، انجمن ترقی اردو پاکستان۔

Thursday, June 11, 2009

میں نہ مانوں

میں پاکستان سے باہر چند پاکستانی خواتین کے ساتھ بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھی کہ کسی نے ٹکڑا لگایا۔' یار پاکستانی لڑکیاں بہت میک اپ کرتی ہیں۔ معلوم ہے ان کے کمروں میں جا کر دیکھو تو ڈریسنگ ٹیبل پہ طرح طرح کا سامان بھرا پڑا ہوتا ہے اسکے باوجود پاکستانی اپنے آپ کو غریب کہتے ہیں۔' وہاں موجود ہر ذی روح نے اس کی تائید کی، سوائے میرے۔ کتنی پاکستانی لڑکیوں کے پاس اپنے ذاتی کمرے اور ان میں ڈریسنگ ٹیبل موجود ہوتا ہے چہ جائیکہ بھانت بھانت کا میک اپ کا سامان۔ ہم اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ایک کمرے میں پانچ چھے لوگ سوتے ہیں۔لوگوں کے پورے گھر ایک کمرے پہ مشتمل ہوتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کی حد تک میں نے یہ دیکھا کہ نوے فی صد لڑکے اور لڑکیاں شام کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ جواب ملا لیکن یونیورسٹی کی نوے فیصد لڑکیاں لپ اسٹک لگاتی ہیں۔ اتنی ٹیوشن پڑھا کہ چھ مہینے میں سو روپے کی ایک لپ اسٹک لگا لینا نہ کوئ عیاشی ہےاور نہ وہ اس جملے کی حقدار ٹھیرتی ہیں۔یہ تو بس ایک شوق ہے۔ کوئ اور زندگی میں تبدیلی نہیں لا سکتے چلو لپ اسٹک لگا لی۔ یہاں میں یہ وضاحت کردوں کہ اپنی اسٹوڈنٹ لائف میں اور اب بھی، میں کبھی لپ اسٹک کی شوقین نہیں رہی لیکن کسی کےایسے بے ضرر شوق کو برا بھی نہیں کہتی۔ خیر تمام تر غربت کے ڈیٹا اور کاسمیٹکس کے استعمال کی شرح کی معاشیات کے ان سب نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں۔ اس لئیے کہ وہ سب پاکستانی معاشرے کے اعلی طبقات سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی محدود دنیا کے علاوہ پاکستان کے بیشتر حصے کو نہ دیکھا تھا نہ محسوس کیا تھا۔

اب یہ ایک اور منظر ہے میں اپنے دوستوں کو اندرون سندھ اپنے قیام کے بارے میں بتا رہی تھی۔ 'یار سانگھڑ کے اطراف میں بڑی خوبصورت جھیلیں ہیں۔ اور بعض جو کنول کے پھولوں سے ڈھکی ہوئ ہیں بہت زبردست لگتی ہیں۔' میرے ایک دوست جن کا تعلق سندھ سے نہیں تھا ایکدم بول اٹھے۔ 'دیکھا پھر بھی سندھ والے شور مچاتے ہیں کہ ہمارے لئیے پانی نہیں ہے'۔ میں نے ان کی طرف حیرانی سے دیکھا ۔ ' مگر آپ نے دریائے سندھ کا ڈیلٹا شاید نہیں دیکھا ۔ ایکدم خشک ہے اور اسے صحرائے سندھ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اس میں تو خشک ریت کے ٹیلے جا بجا نظر آتےہیں۔' 'ارے نہیں ابھی مشرف نے اپنی تقریر میں کہا کہ سالانہ کتنا پانی ڈیلٹا سے گر کے ضائع ہوتا ہے۔' مشرف کا مخالف ہونے کے باوجود انہوں نے اس کا حوالہ دیا۔'ہاں میں نے بھی انکی یہ تقریر سنی اور مجھے حیرانی ہے کہ کون انہیں یہ ڈیٹا پیش کرتا ہے اگر وہ ہیلی کاپٹر سے ایک دفعہ ڈیلٹا کا چکر لگا لیں سب لگ پتہ جائے۔ اور جو ان جھیلوں کی میں آپ سے بات کر رہی ہوں ان میں سے بیشتر پانی کی کمی کی وجہ سے نمکین ہو گئ ہیں۔ میرے پاس ان نمکین جھیلوں کی کافی تصویریں موجود ہیں اور آپ کو ضرور دکھاءونگی'۔ مگر انہوں نے میری بات تسلیم نہیں کی وہ ہمیشہ کراچی جہاز سے آتے جاتے رہے اور انہوں نے کبھی دریا کے ڈیلٹا پہ سے گذر کر نہیں دیکھا تھا۔ بس ان کا خیال تھا کہ جو بات انہوں نے اپنے جیسے لوگوں سے سنی ہے وہی صحیح ہے۔

یہاں ایک اور خاتون کا تذکرہ جن سے میری ایک تقریب میں اتفاقاً ملاقات ہو گئ ۔ انہیں معروف انگریزی صحافی ارد شیر کاءوس جی بہت پسند ہیں۔ مجھے بھی ان کی بے باک تحریر پسند ہے۔ تو میں نے ان سے کہا۔'آپ کو معلوم ہے کاءوس جی نے ایک دلچسپ بات کہی اور یہ بات وہی کہہ سکتے تھے ۔ ٹی وی پہ ان کا انٹرویو آرہا تھا اور میزبان بضد تھے کہ وہ بتائیں اگر انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے تو وہ کیا کریں گے۔ انہوں نے جواب دیا۔ میں کیوں بنوں چودہ کروڑ جٹوں کا وزیر اعظم۔' ان خاتون نے اس بیان کو ماننے سے انکار کردیا۔ کیونکہ وہ ان چودہ کروڑ لوگوں میں شامل تھیں اور سمجھتی تھیں کہ وہ کاءوس جی کو پسند کرتی ہے اور وہ اس پسندیدگی کے بدلے میں انکے بارے میں ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ حالانکہ میں بھی ان چودہ کروڑ لوگوں میں شامل تھی مگر مجھے مزہ آیا۔ میں صرف یہ کہہ سکتی تھی کہ آپ کو اس پروگرام کی ریکارڈنگ کہیں سے مل جائے یا آپ خود انہیں میل کرسکتی ہوں تو ضرور ان سے پوچھ لیں۔ میں نے یہ پروگرام اپنے گھر والوں کے ساتھ دیکھا تھا۔ کہیں تو ان سب کی گواہی دلوادوں۔ مگر ادھر وہی بات۔ میں نہ مانوں۔

یہ تو چند چیدہ چیدہ واقعات تھے جو میری یاد داشت میں رہ گئے۔

لیکن ان جیسے واقعات کی یاد تب تازہ ہوئ جب میں نے کچھ حقیقی واقعات کے حوالے اپنی تحریروں میں دئیے اور لوگوں نے کچھ ایسے ہی تبصرے دئیَے ۔ مثلاً پٹھانوںکا خواتین کو ہراس کرنا۔ کہا گیا کیایہ حسن اتفاق ہے کہ آپ کو پٹھان ملتے ہیں۔ اے کاش آپ کو خدا عورت کی حیثیت سے کراچی میں پیدا کرے اور آپ کا گھر یا آفس یا تعلیمی ادارہ ان کی کسی بستی کے آس پاس ہو۔تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ خواتین ان سے اتنا کیوں بدکتی ہیں۔ ورنہ آپ کے لئیے مشکل ہےسمجھنا۔ گھبرائیے نہیں، خدا اپنی سنت کے حساب سے ایسا کریگا نہیں۔ اس لئیے میں بس ہنس دیتی ہوں۔

یہ ایک اور حیران صاحب ہیں انہیں حیرت ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ خاندان میں اتنے لوگ بھی نہ ہو کہ خاندان کے مردوں میں سے دو گواہ نہ نکل سکیں۔ اب میں کیا کروں۔ قسم تو کھا نہیں سکتی کہ جو کچھ کہتی ہوں سچ کہتی ہوں۔اگر آپ سے بھی ڈرنے لگی تو پھر یہ بھی کوئ زندگی ہے۔۔اگر وہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں تو مجھ سے رابطہ کریں۔ میں انہیں اس تجاہل عارفانہ سے نکالنا چاہوں گی اور کراچی میں واقع ایسے لا تعداد گھروں میں لیجا ءونگی جہاں گھروں میں آسٹیوپوریسس کی ماری خواتین یا ضعیف جوڑے اکیلے رہتے ہیں۔ اور سارا دن اپنے کمپیوٹر پہ بیٹھے اپنے ہزاروں میل پر موجودبچوں اور پوتا پوتیوں سے چیٹنگ کرتے رہتے ہیں۔ مگر وہ تبصرہ نگار ، خود بھی چونکہ دن رات کمپیوٹر پہ مصروف رہتے ہیں اس لئیے انہیں معلوم نہیں کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔کمپیوٹر اتنی ہی بری چیز ہے۔ اور یہ انٹر نیٹ ایج کا المیہ ہے۔ اس کا بھی کوئ حل نکالنا ہوگا۔

کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم اپنی لا علمی کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔ ہر انسان ہر چیز تو نہیں جان سکتا۔ ہہر شخص بہترین مشاہداتی قوت نہیں رکھتا اور جو رکھتے ہیں وہ صحیح نتیجہ نہیں نکال پاتے۔ مگر محض یہ سوچنا کہ نہیں جناب، اگر ہم نے آپ کی بات تسلیم کر لی تو ہم آپ کے مقابلے میں کم علامہ ثابت ہو جائیں گے۔ ہم اپنے نظرئیے سے الگ ہوجائِں گے ہمارے وہ ساتھی جن کے ساتھ ہم نے نظریاتی طور پہ ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائیں ہیں ہم ان سے بیوفائ کریں گے۔ یقین جانیں ایسا کچھ نہیں ہوگا کم از کم میرے ساتھ اب تک ایسا نہیں ہوا۔بلکہ آپ حقائق سے زیادہ قریب ہونگے۔اور بہت سارے ایسے لوگوں سے قریب ہونگے جن سے آپ کا نظریاتی اختلاف ہوگا اور پھر اختلاف کی نئ راہیں نکلیں گی۔ زندگی میں کچھ تو نیا ہونا چاہئیے۔

اب میں ایک ایسی پوسٹ لکھنے والی ہوں جس میں ، میں یہ بتاءونگی کہ مجھے کتنی سادہ سادہ باتیں پہلے نہیں معلوم تھی جومیرے ساتھیوں کی وجہ سے میرے علم میں آئیں۔ ان سب کا پیشگی شکریہ۔