آج جب گھر سے نکلی تو ٹی وی پہ قومی ترانے چل رہے تھے۔ فیس بک پہ لوگ تیئیس مارچ جیسے قومی دن پہ اپنے جذبات سے فضا کو پرجوش بنائے ہوئے تھے۔ گھر سے باہر نکل کر بس جمعہ بازار تک گئ ، سبزیاں لینے اور یہ طلسم ٹوٹ گیا۔
ہوا یوں کہ جب میں نے امرود والے کے اس دعوے کے رد میں کہ اس نے بقول اسکے بہترین امرود رکھے ہیں۔ ایک بھی داغ دار نہیں ہوگا۔ ایک کے بعد ایک چار داغدار امرود نکال کر واپس رکھے تو بازار ان نعروں کی آواز سے گونج اٹھا جو سڑک سے آرہی تھیں۔ دوکاندار کی داغدار زبان رک گئ اور اسکی توجہ روڈ پہ ہو گئ۔ میں نے بھی مڑ کر دیکھا بلا کسی خوف کے کہ کوہ قاف میں تو موجود نہیں ہوں۔ ایک کے بعد کئ منی بسیں گذریں جن پہ لوگوں کا ہجوم جئے سندھ نیشنلسٹ پارٹی کے جھنڈے لئے بیٹھا وہ نعرے لگا رہا تھا جنکے مطلب اور معنی سے وہ خود بھی آگاہ نہیں تھے۔ مجھے بھی سمجھ نہیں آرہے تھے۔ یہ گاڑیاں شہر کے اس حصے کی طرف سے آرہی تھِں جہاں سندھی بلوچ گوٹھ ہیں۔ یہ وہ عوام ہے جو پیچھے پلٹ کر دیکھ نہیں سکتی۔ اس لئے نہیں کہ پتھر کی بن جائے گی اس لئے کہ اسے پیچھے دیکھنا ہی نہیں آتا۔ دیکھنا تو اسے آگے بھی نہیں آتا۔ جو انکے جدی پشتی رہ نما دکھا دیں وہی دِکھنے لگتا ہے۔
گھر آکر شہر کے حالات جاننے کا تجسس ہوا کہ ایک دوست سے ملنے کا وعدہ تھا۔ معلوم ہوا کہ سندھ کی آزادی کا مطالبہ رکھنے والی اس ریلی کے شرکاء کی وجہ سے شاہراہ فیصل پہ بد ترین ٹریفک جام ہے۔ اور اس رکے ہوئے ٹریفک میں مسلح افراد نے لوٹ مار شروع کی ہوئ ہے۔
یہ جئے سندھ کی اس سلسلے میں پہلی ریلی نہیں تھی۔ ابھی چار دن پہلے بھی میں انکی ایسی ہی ریلی میں پھنسی اور جہاں جانے کا ارادہ تھا اسے ترک کے واپس آگئ۔
میں نے اپنا گھر سے نکلنے کا خیال منسوخ کیا۔ اور سوچنے لگی کہ ایک طرف بلوچستان میں آزادی کی نام نہاد جنگ سردار لندن، فرانس اور امریکہ میں بیٹھ کر لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف خیبر پختون خواہ میں انتہا پسندوں نے تحریک چلائ ہوئ ہے کہ انکے علاقے کی علاقہ غیر والی حیثیت بحال کر کے اسے حکومت پاکستان کے رائج قوانین سے نہ صرف نجات دی جائے بلکہ باقی کے ملک میں بھی انکی مرضی کا نظام حکومت لایا جائے۔ جسے وہ شرعی حکومت کا نام دیتے ہیں۔ ادھر خدا بہتر جانتا ہے کہ کس کی شہہ پہ اچانک جئے سندھ والوں کو سندھ کی آزادی کے نعرے پہ دوبارہ کھڑا کر کے کراچی میں اودھم مچانے کی اجازت دے دی گئ ہے۔ ابھی چند دن پہلے کراچی میں کسی خفیہ ہاتھ نے کراچی کی دیواروں پہ مہاجر صوبے کا مطالبہ بھی لکھنے کی کوشش کی۔ ادھر پنجاب میں جنوبی پنجاب باقی پنجاب سے اپنا حق مانگ رہا ہے۔ ادھر باقی پنجاب نئے سرے سے مسلمان ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اب ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے۔ یہ ملک یہاں کی بنیادی اقوام کو چاہئیے یا نہیں؟
مجھ سے ایک بزرگ نے دریافت کیا کہ یوم پاکستان کیوں منایا جاتا ہے؟ میں نے مطالعہ پاکستان میں برسوں پڑھے ہوئے جواب کو طوطے کی طرح دوہرا دیا۔ اس دن دو قومی نظرئیے کی بنیاد پہ پاکستان بنانے کا مطالبہ ایک قرارداد کی صورت میں مسلمانوں کی طرف سے متفقہ طور پہ پیش کیا گیا تھا۔ پھر پاکستان کا پہلا آئین بھی اسی دن پیش ہوا۔
انہوں نے دریافت کیا لیکن جس دن بنگلہ دیش بنا۔ نہ صرف اس قرارداد سے تعلق رکھنے والا پاکستان اس دن ختم ہو گیا تھا بلکہ واقعی اگر کوئ دو قومی نظریہ تھا تو وہ بھی اس دن غلط ثابت ہوا۔ رہا آئین تو اس پہلے کے بعد کئ آئین آئے۔ یہ آئین جسکی بگڑی ہوئ شکل اب موجود ہے۔ جو بھٹو نے بنایا۔ اسے قوم کو دینے کے بعد چوبیس گھنٹوں میں اس میں پہلی ترمیم ہوئ، جو بھٹو ہی نے کی تھی مخالفین کو دبانے کے لئے۔ اس لئے ان دونوں وجوہات کی بناء پہ تو اب اس دن کو بالکل نہیں منانا چاہئیے۔ کیوں مناتے ہو تم لوگ یہ دن؟
انہوں نے دریافت کیا لیکن جس دن بنگلہ دیش بنا۔ نہ صرف اس قرارداد سے تعلق رکھنے والا پاکستان اس دن ختم ہو گیا تھا بلکہ واقعی اگر کوئ دو قومی نظریہ تھا تو وہ بھی اس دن غلط ثابت ہوا۔ رہا آئین تو اس پہلے کے بعد کئ آئین آئے۔ یہ آئین جسکی بگڑی ہوئ شکل اب موجود ہے۔ جو بھٹو نے بنایا۔ اسے قوم کو دینے کے بعد چوبیس گھنٹوں میں اس میں پہلی ترمیم ہوئ، جو بھٹو ہی نے کی تھی مخالفین کو دبانے کے لئے۔ اس لئے ان دونوں وجوہات کی بناء پہ تو اب اس دن کو بالکل نہیں منانا چاہئیے۔ کیوں مناتے ہو تم لوگ یہ دن؟
کیوں مناتے ہیں ہم یہ دن، کیا اس لئے کہ قومی ترانوں کو گانے کی پریکٹس ہو سکے یا اس لئے کہ اپنی منافقت کی ہم مزید مشق کر سکیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اگلی نسلوں میں اپنی پوری آب و تاب سے منتقل نہ ہو سکے؟
ملک کی سیاسی حالات کی ابتری کا اندازہ لگانے کے لئے مزید اشارے دیکھیں۔ گیلانی صاحب عدالت کے زور دینے پہ بھی سوئس حکومت کو خط لکھنے کے لئے تیار نہیں۔ انکے بقول وہ صدر صاحب کی پیٹھ میں چھرا نہیں مار سکتے۔ یہ نہ کر کے وہ پاکستان کے سینے میں چھرا مار رہے ہیں اسکا انہیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں بلکہ پرواہ بھی نہیں۔
ملک کی سیاسی حالات کی ابتری کا اندازہ لگانے کے لئے مزید اشارے دیکھیں۔ گیلانی صاحب عدالت کے زور دینے پہ بھی سوئس حکومت کو خط لکھنے کے لئے تیار نہیں۔ انکے بقول وہ صدر صاحب کی پیٹھ میں چھرا نہیں مار سکتے۔ یہ نہ کر کے وہ پاکستان کے سینے میں چھرا مار رہے ہیں اسکا انہیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں بلکہ پرواہ بھی نہیں۔
اعتزاز احسن جو ججوں کی بحالی تحریک میں آگے آگے ہو رہے تھے۔ جسکی وجہ اب یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ بس مشرف کے لکھے کو مٹانا چاہتے تھے۔ اس کیس میں انہوں نے بھی اپنے ضمیر کی شاید صحیح قیمت وصول کر لی ہے۔ کہتے ہیں عدالت کو گیلانی صاحب کے گدی نشیں ہونے کا تو خیال کرنا چاہئیے۔
یہی نہیں، ادھر برہمداغ بگتی کے اوپر سے سارے مقدمات واپس۔ کیوں جناب؟ اس لئے کہ بلوچستان کہیں پاکستان سے الگ نہ ہوجائے۔ پھر پاکستان کے یہ چھوٹے چھوٹے لوگ کیوں سزائیں بھگتتے ہیں اس لئے کہ وہ کسی نواب خاندان سے نہیں۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ پولیس اور عدالت کا نظام ہی ختم کر کے اس عذاب سے جان چھڑائیں۔
طالبان سے مذاکرات کر کے انکے مطالبات پہ غور ہونا چاہئیے۔ وہ کس لئے؟ کیونکہ ملک میں امن اسی طرح قائم ہو سکتا ہے کہ جنونیوں سے بھی خوشگوار تعلقات رکھے جائیں۔
ادھر کل زرداری صاحب کو تاحیات صدر منتخب کیا جائے گا۔ وہ کیوں بھئ؟ کیونکہ اگر وہ پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے تو جئے سندھ والے تو سندھ کو پاکستان سے الگ کر کے لے جائیں گے۔
طالبان سے مذاکرات کر کے انکے مطالبات پہ غور ہونا چاہئیے۔ وہ کس لئے؟ کیونکہ ملک میں امن اسی طرح قائم ہو سکتا ہے کہ جنونیوں سے بھی خوشگوار تعلقات رکھے جائیں۔
ادھر کل زرداری صاحب کو تاحیات صدر منتخب کیا جائے گا۔ وہ کیوں بھئ؟ کیونکہ اگر وہ پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے تو جئے سندھ والے تو سندھ کو پاکستان سے الگ کر کے لے جائیں گے۔
یہ پاکستان کیا کاغذ پہ ایک نقشے کا نام ہے؟
پاکستان کیا کسی قرارداد کا نام ہے؟
پاکستان کیا کسی نظرئیے کا نام ہے؟
پاکستان کیا کسی نظرئیے کا نام ہے؟
پاکستان کیا ایک کرکٹ ٹیم کا نام ہے؟
حقیقت کچھ یوں نظر آتی ہے کہ یہاں کے حکمرانوں کو، سرداروں کو، جاگیرداروں کو، نوابوں کو اگر اسکے چھوٹے چھوٹے حصے بنا کر وہاں کا والی وارث بنادیا جائے تو نہ صرف یہ اسے اپنی خوش قسمتی جانیں گے بلکہ انکے زیر سایہ آنے والے عوام بھی اس نشے میں کئ نسلیں زمین پہ رینگ کر گذار لیں گے۔
آخر ہم یوم پاکستان کیوں مناتے ہیں؟ جبکہ ہم پاکستان پہ یقین نہیں رکھتے۔
جب ہم الگ ہو جائیں گے تو کس حصے کا نام پاکستان ہوگا اور کیا وہاں یوم پاکستان منایا جائے گا؟
اور اب آخری سوال وہ کیا چیز ہے جو پاکستان کو جوڑ کر رکھ سکتی ہے؟ دائیں بازو والے شاید ایک دفعہ پھر اسکاجواب مذہب دیں لیکن میرے خیال میں شاید ایٹم بم۔ کیونکہ الگ ہوتے ہوئے ان قوتوں کو یہ بھی تو سوچنا پڑے گا کہ آخر ایٹم بم کس کے حصے میں جائے گا۔
اور اب آخری سوال وہ کیا چیز ہے جو پاکستان کو جوڑ کر رکھ سکتی ہے؟ دائیں بازو والے شاید ایک دفعہ پھر اسکاجواب مذہب دیں لیکن میرے خیال میں شاید ایٹم بم۔ کیونکہ الگ ہوتے ہوئے ان قوتوں کو یہ بھی تو سوچنا پڑے گا کہ آخر ایٹم بم کس کے حصے میں جائے گا۔